چار دن کی مہلت/محمد اسد شاہ

اسرائیلی بم باری میں 4 روزہ وقفے کے آغاز پر 13 اسرائیلیوں اور 12 تھائی باشندوں کو رہائی ملی ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے بھی اپنی جیلوں میں بند بے شمار بے گناہ فلسطینیوں میں سے 24 خواتین اور 15 بچوں کو رہا کر دیا ہے۔ تھائی لینڈ کے وزیر اعظم سریتھا تھاویسین نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ 12 تھائی یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس کی انھیں توقع نہیں تھی۔ بم باری میں 4 روزہ وقفے کی خبر غزہ کے 23 لاکھ محصور ، معصوم اور مجبور شہریوں کے لیے صرف وقتی راحت کا باعث ہے ۔ بم باری رکنے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد امدادی ٹرک مصر سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ دوسری جانب غزہ میں طبی سہولیات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی بم باری میں ابتدائی طور پر چار یا پانچ دن تک کے لیے جس وقفے کا اعلان کیا گیا ہے اس سے ایک موہوم سی امید پیدا ہوئی ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، اسرائیلی حملے میں 14,000 سے زائد نہتے شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں تقریباً نصف تعداد ننھے منے معصوم بچوں کی ہے۔ شہداء کی اس تعداد میں ابھی وہ خواتین و حضرات اور بچے شامل نہیں ہیں جو عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔ بم باری میں چار دن کے اس وقفے سے قبل اسرائیل نے دو کام بہت مستعدی کے ساتھ کیے۔ پہلے تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے اسرائیل کے عوام کو صبح سوا سات بجے ایک “الرٹ” جاری کرتے ہوئے بتایا گیا کہ جنوبی اسرائیل کے ایک گاؤں میں کوئی راکٹ گرا ہے جو ممکنہ طور پر غزہ کی جنوبی طرف سے آیا۔ اور پھر اس الرٹ کے فوری بعد اسرائیلی توپ خانے سے غزہ کے نہتے عوام پر شدید گولہ باری شروع کر دی جو وقفے کے مقررہ وقت کے آغاز تک پوری شدت کے ساتھ جاری رہی۔ معاہدے کے تحت حماس کو تقریباً 240 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے کم از کم 50 کو رہا کرنا ہے۔ جب کہ اسرائیل کم از کم 150 بے گناہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا اور غزہ میں انسانی امداد کے 300 ٹرکوں تک کو جانے کی اجازت دے گا۔

یرغمالیوں کو ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی انفرادی طور پر یا گروہوں میں وصول کرے گی اور سرحد پار لے جا کر اسرائیلی فوجیوں کے حوالے کرے گی جو ہر یرغمالی سے الگ الگ ملیں گے اور جسمانی طور پر ان کی شناخت کریں گے۔ پھر اسرائیلی ڈاکٹرز ہر یرغمالی کا “مکمل” جسمانی معائنہ کریں گے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد وہ یرغمالی اسرائیل کے “پیشہ ور ماہرین” کی نگرانی میں اپنے اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ ویڈیو کال پر بات کر سکیں گے۔ رہائی پانے والے یرغمالیوں کو پھر اسرائیل کے مقررہ “ہسپتالوں” میں لے جایا جائے گا۔ ان کے خاندانوں کو بھی سخت ہدایات پہنچائی گئی ہیں کہ وہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے انھی مقررہ ہسپتالوں میں بر وقت پہنچیں۔ اسرائیلی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ “اسرائیل معاہدے پر عمل کرے گا”۔

حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے جمعے کے روز جاری کردہ ایک وڈیو بیان میں کہا کہ حماس یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر تب تک عمل کرے گی جب تک کہ اسرائیل بھی اس کی پابندی جاری رکھے۔

اسرائیل نے جن 24 فلسطینی لڑکیوں کو رہا کیا ہے، ان پر اسرائیلی قابض فوجیوں پر حملے کی “کوشش” یا “نیت” کا الزام تھا۔ اور اس الزامی کوشش یا نیت پر انھیں اسرائیلی عدالتوں سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ اور جن 15 فلسطینی بچوں کو رہا کیا گیا ہے ان پر اسرائیلی حکومت نے یہ الزام لگایا تھا کہ وہ گولہ باری کرنے والے فوجیوں کی طرف کنکر یا روڑے پھینکتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اہل خانہ قیدیوں کی رہائی کی خبر کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر یرغمالیوں اور اسرائیل میں محبوس فلسطینی خواتین اور بچوں کا تبادلہ جمعرات کو ہونا تھا، لیکن اسرائیل نے بعض سفارتی اور دیگر تیاریوں کے بہانے یہ کام جمعہ کے دن تک ملتوی کیا۔ اسرائیل نے امن کوششیں کرنے والے سفارت کاروں کے سامنے “عملی مسائل کی وضاحت” کے نام پر درخواستوں کا ایک سلسلہ پیش کیا اور یرغمالیوں کی مکمل شناخت کا مطالبہ کیا۔ معاہدے سے متعلق معلومات اسرائیل، قطر اور حماس قیادت سے ہوتے ہوئے آخر میں اہل غزہ تک پہنچائی گئیں۔ اس معاہدے میں جنوبی غزہ پر اسرائیلی فوجی پروازوں کو روکنا بھی شامل ہے۔ جب کہ شمالی غزہ پر اسرائیلی پروازیں روزانہ چھ گھنٹے تک ہوں گی۔ معاہدے کے تحت اسرائیل نے جنگ بندی کی مدت تک غزہ میں کسی کو “گرفتار” نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دراصل اسرائیل عالمی دباؤ بڑھنے سے قبل زیادہ سے زیادہ حملے اور “گرفتاریاں” کرنا چاہتا ہے۔ جب کہ حماس قیادت یرغمالیوں کی رہائی کے دوران ڈرون نگرانی کے امکان سے پریشان ہے۔ کیوں کہ ایسے لمحات میں اسرائیلی ڈرون کیمروں کے ذریعے خفیہ جاسوسی ایک ایسا عمل ہے جو حماس کے بنیادی ڈھانچے یا بعض اہم رہنماؤں کے ٹھکانے کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ امکان ہے کہ اگر یرغمالیوں کی رہائی کا پہلا تبادلہ اچھے انداز میں ہو، تو اطراف سے مزید رہائیاں جاری رہیں گی اور اسرائیلی بم باری میں وقفہ 4 دن سے بڑھ کر 10 دن تک ہو سکتا ہے۔

قطر، امریکہ اور مصر کی نگرانی میں طویل اور پیچیدہ بات چیت کے بعد طے پانے والا یہ معاہدہ اسرائیلی فضائی حملے شروع ہونے کے چھ ہفتے سے زائد عرصے بعد ہوا ہے۔ شمالی غزہ کی رہائشی بستیاں اور دیہات تباہ ہو چکے ہیں۔ عمارتوں کے ملبہ پر چلتے پھرتے اکا دکا مرد اور خوف زدہ نگاہوں والے بچے، بچیاں نظر آتے ہیں۔ جب کہ ماحول میں ہر طرف ان انسانی لاشوں کی بو پھیلی ہوئی ہے جو اس ملبے کے نیچے دبی ہیں۔ اسرائیل نے عالمی میڈیا کے سامنے، کوئی ثبوت یا دلیل پیش کیے بغیر حماس کے ہزاروں مجاہدین کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ امن کا عارضی وقفہ شروع ہونے سے قبل جمعرات کو اسرائیلی بم باری بہت زیادہ شدت سے جاری رہی۔ اس دن بھی اسرائیلی جیٹ طیاروں نے 300 سے زیادہ حملے کیے اور غزہ شہر کے شمال میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ کو بھی نشانہ بنایا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) نے اعلانات کے ذریعے غزہ کے رہائشیوں کو بتایا کہ “جنگ” ختم نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے سوشل میڈیا پر غزہ کے عوام کے لیے جو پیغام جاری کیا، اس کا اردو ترجمہ یہ ہے؛ “انسانی ہمدردی کا یہ وقفہ عارضی ہے۔ شمالی غزہ کی پٹی ایک خطرناک جنگی علاقہ ہے اور عوام کا شمال کی طرف جانا منع ہے۔ اپنی حفاظت کے لیے، آپ کو صرف جنوب میں انسانی ہمدردی کے علاقے میں محدود رہنا چاہیے۔” اسی طرح کا پیغام جنوبی غزہ پر گرائے گئے کتابچوں میں بھی دہرایا گیا، اور غزہ کے تقریباً تمام باشندوں کو شمالی علاقہ چھوڑ دینے کے لیے کہا گیا۔

اسرائیل نے شمالی غزہ کو گھیرے میں لے کر حملہ کیا ہے اور وہاں کے تمام رہائشیوں پر گھر بار چھوڑ کر نکل جانے کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے اقوام متحدہ کے کے ماہرین جبری منتقلی اور انسانیت کے خلاف جرم کہتے ہیں۔ لیکن یہ کام گزشتہ 80 سالوں سے، اور خاص طور پر 1967 کے بعد سے مسلسل کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جوابی کارروائی کے بعد تو اسرائیل نے یہ کام انتہائی شدت اور سرعت کے ساتھ جاری رکھا ہوا ہے۔ جبری بے دخلی کے اسی طریقے سے اسرائیل نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مسلسل اضافہ کیا، اور فلسطینی عوام کے گھر بار مسمار کر کے زیادہ سے زیادہ علاقوں میں دنیا بھر سے لائے گئے “اپنے لوگوں” کو آباد کیا ہے۔

مسلسل انتباہات کے باوجود، بہت سے خوش لیکن محتاط فلسطینی بم باری میں حالیہ وقفہ کے آغاز پر عارضی پناہ گاہوں سے اپنے گھروں کو واپسی کا طویل سفر شروع کرنے کے لیے نکلے۔ خان یونس کے جنوبی قصبے میں، جہاں لاکھوں خانماں برباد فلسطینیوں نے پناہ لی، سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ان میں سے سینکڑوں شمال کی طرف جانا چاہ رہے ہیں۔ اجڑے ہوئے یہ بے یار و مددگار لوگ آسمان کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے اسرائیلی جنگی طیاروں کی آمد و رفت کا اندازہ لگا رہے ہوں۔

اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے جمعرات کو بحریہ کے اڈے کے دورے کے دوران کہا: “یہ ایک مختصر مہلت ہو گی، جس کے اختتام پر بم باری شدت سے جاری رہے گی، اور ہم مزید یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ کم از کم مزید دو ماہ کی بم باری متوقع ہے۔

آئی ڈی ایف کی جنوبی کمان کے ایک افسر نے، جو غزہ پر بم باری اور جارحیت کا انچارج ہے، ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا: “ہم اس وقفے کا زیادہ تر وقت “تیاری اور منصوبہ بندی” کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم وقفے کے خاتمے کے فوراً بعد اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ جاری رکھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors

آج مجھے پاکستان کی اندرونی سیاست، پیپلز پارٹی کے لیول پلیئنگ فیلڈ والے پروپیگنڈا اور زرداری باپ بیٹے کے مابین بیان بازی پر لکھنا تھا۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں جاری انسانی المیے سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔ 56 مسلمان ممالک کی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی “مجبوریوں” کا تو ہم سب کو اندازہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے عوام اہل غزہ پر نافذ کرب و بلا سے بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اس حوالے سے تازہ پیش رفت کو جاننا چاہتے ہیں۔ چناں چہ یہ کالم اسی تقاضے کے تحت لکھا ہے۔ دعا کیجیے کہ اہل غزہ کو جلد از جلد مستقل امن اور پائے دار خوشیاں نصیب ہوں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply