الف اللہ سے ’ک کتاب‘تک ڈاکٹر صغیر کا نیا جنم/قمر رحیم خان

الف اللہ چنبے دی بوٹی ……“ کو سکول کے زمانے میں پڑھ کر چنبے کی بیل کا تصور ذہن میں ابھرتا تھا۔ اب اس کی خوشبو کا احساس بھی ہو نے لگتا ہے۔ سکول کے زمانے سے اب تک سمجھ دانی میں اتنا فرق پڑا ہے۔مجھے درسی کتاب سے جتنا خوف آتا تھا اتنا بلّی کو کتے سے نہ چوہے کو بلّی سے آتا تھا۔اب دنیا بدل گئی ہے۔اس تمام مخلوق کی دشمنیاں دوستیوں میں بدل گئی ہیں۔میری ایک بہن نے بلّی پال رکھی ہے جسے وہ گوروں والی خوراک کھلاتی ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے بلّی کے قد کا ایک چوہا گھر میں اودھم مچائے ہوئے ہے۔بیٹی نے ماں کو کہا جب فطرت کے کاموں میں مداخلت کرو گی تو ایسا ہی ہو گا۔ بلّی بھوکی ہوتی تو چوہے سے محبت نہ کرتی۔ڈاکٹر صغیر اور ان کے ہم سفر اگر علم کے پیاسے اور علم پرور نہ ہوتے تو ”ک کتاب“ آج میرے ہاتھ میں نہ ہوتی۔الگ بات ہے کہ میرے ہاتھ میں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والاکہ فرق تو پڑھنے سے پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمت و حوصلے کو داد دینا پڑتی ہے۔ اس وقت تک ان کی چودہ کتابیں چھپ چکی ہیں، جبکہ چار زیر طبع ہیں۔ وہ استاد ہیں، ایک نئے اور مشکلات کا شکار ادارے کے ذمہ دار ہیں۔ اور سماجی طور پر بھی ان کی مصروفیات کسی بڑے امیدوار اسمبلی سے کم ہر گز نہیں ہیں۔ اس قدر گوناگوں مصروفیات کے باوجوداپنی ضرورت یا پسند کے مطالعے کے لیے وقت نکالنا بھی خاصا مشکل ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ کتب برائے تبصرہ کے لیے وقت نکالنا۔ ایسی کتابیں درسی کتابوں سے کسی طور کم نہیں ہوتیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر صاحب نے جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا اسے بام عروج تک پہنچایا۔ پڑھائی کے معاملے میں اپنے وقت کے بڑے اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ تحقیق میں ”تحریک آزادی کشمیر اور اردو ادب“ جیسے منفرد اور مشکل موضوع کا انتخاب کیااور اس سے انصاف بھی کیا۔ لکھنا شرع کیا تو ان کا لکھا معیار ٹھہرا۔پہاڑی زبان پر ان کا کام ہم پر ایک احسان سے کم نہیں۔آزاد کشمیر میں پہاڑی کے پہلے افسانہ نگار، پہلے ناول نگار، پہلے سفرنامہ نگارہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح پہاڑی شاعری میں نظم اور غزل پر بھی ان کے دو دو مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اردو کالم نگاری میں ان کا اپنا اسلوب، اپنی شناخت اور پہچان ہے۔آزاد کشمیر میں اردو نثرنگاری میں ان کا اکثر کام ایک منفرد اور جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔پونچھ کی تہذیب و ثقافت، تحقیقی مقالات پر مشتمل کتاب ’پرکھ‘، خاکوں ْؑ ا ضمین آزاد کشمیر اور پاکستان کی کئی ایک ادبی تنظیموں اورحکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ ز سے نوازاہے۔ ان کے کام پر اس وقت تک مختلف یونیورسٹیوں میں چار مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سرو قدانسان پھلدار ٹہنی کی طرح جھکا ہوا ہے۔ ورنہ اکڑ نے میں کیا لگتا ہے، فاتحہ درود کا ثواب مفت میں مل جاتا ہے۔
ومضامین پر مشتمل تخلیقات’چیدہ چیدہ‘ اور ’نقش بر زمین‘ جیسی تصانیف آزاد کشمیر کی حد تک یگانہ و یکتا ہیں۔
ڈاکٹر صاحب اپنی زود نویسی کی وجہ سے خاصے بدنام بھی ہو چکے ہیں لیکن قلم قرطاس سے اپنی محبت سے باز نہیں آتے۔ ایک ایسا ادیب اور شاعر جو اپنی مٹی، اپنے لوگوں اور کلچر سے محبت کو پہاڑی ادب کی تخلیق سے جوڑ کر اپنی مثال آپ ہو چکا ہو،اس کے بارے میں وہ شخص کیا لکھ سکتا ہے جس کے ہاں بمشکل مختصر سی اولاد ہوئی ہوجسے اس نے چوم چوم کر مار ڈالا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آدمی ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا اعتراف کیسے نہ کرے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیونکر کرے؟
ڈاکٹر صاحب کی حالیہ تصنیف ’ک کتاب‘ میں شامل اکثر مضامین(جو اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں) پر انہوں نے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ یہ کہا کہ یہ مضامین کتابوں پر تبصرے نہیں بلکہ تذکروں کے زمرے میں آتے ہیں۔اگر ان کی بات مان بھی لی جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ادب میں تنقید کا اولین ماخذ تذکرہ کو ہی مانا جا تا ہے۔ ہمارے ہاں تنقید کے رائج الوقت معانی تنقید کے مفہوم اور روح سے ہٹ کر ہیں۔ تنقید (میرے نزدیک) ادب کی مشکل ترین صنف ہے۔ جس میں کسی تخلیق کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ اس کی خامیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تنقید انسانی کلام کی وہ صنف ہے جو نہ صرف ادب بلکہ زندگی کو آگے بڑھانے کا کام کرتی ہے۔ پھول کی رنگت اور خوشبو کی تعریف اور اس کی خزاں رسیدگی کے حال کا بیان مکمل تنقید ہے۔ مشاعرے میں اچھے اشعا ر پر دادو تحسین اور عمومی اشعار پر خاموشی ایک ایسا لاشعوری رد عمل ہے جو تحریرمیں تنقید کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔جیسے کوئی بھی تخلیق اپنے ماحول، کلچر، حالات، سیاست،معیشت یا تاریخ سے ماورا نہیں ہو سکتی، بلکہ وہ ان تمام اسباب یا عناصر کے بطن سے پیدا ہوتی ہے، ایسے ہی تنقید بھی ان عناصر کے تابع ہوتی ہے۔ ان اسباب یاعناصر کے علاوہ تخلیق یا تنقید میں سب سے اہم چیز تخلیق کار یا نقاد کا مزاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنقید کا کوئی ایک معیار قائم نہیں کیا جا سکتا۔ ہر نقاد کسی تخلیق کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے، اپنی معلومات یا علم کی بنیادپر پرکھتا ہے اور اپنے مزاج کے زیر اثر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔
تنقید انسانی فطرت کا لازمی جزو ہے۔ وہ جس چیز کو دیکھتا ہے اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن فقط رائے کے اظہار سے وہ نقاد نہیں بن جاتا۔بلکہ اپنی رائے کو علم کی بنیاد پر طریقے، سلیقے اور قرینے سے بیان کرنے کا نام تنقید ہے۔ ’ک کتاب‘ میں شامل 39 تنقیدی مضامین ادب کی زیادہ ترا صناف پر لکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خود ان تمام اصناف پر اردو یا پہاڑی میں کام کر چکے ہیں، جو تنقید کے لیے کوئی شرط ہر گز نہیں ہے۔لیکن چونکہ ہر فنکار اپنے کام کا پہلا نقاد ضرور ہوتا ہے۔وہ اپنی تخلیق کو ہر زاویے سے دیکھنے، جانچنے اور پرکھنے کے بعد منظر عام پر لاتا ہے۔اس لیے اپنے متنوع کام کے باعث ان کی رائے توازن اور معیار کے حوالے سے اپنے اندر ایک اعتماد اور اعتبار لیے ہوئے ہے۔کتاب میں شامل اکثرمضامین میں تاثراتی اور جمالیاتی تنقید کا پلہ بھاری ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے کمال مہارت کے ساتھ اپنے جمالیاتی ذوق اور تاثرات کو اعتدال کی حدود میں رکھا ہے۔انہوں نے جہاں ایک طرف تخلیق کی خوبیوں کو فراخ دلانہ انداز میں بیان کیا ہے وہاں خامیوں یا کمیوں کو یوں تحریر میں لایا ہے کہ مجھ جیسے قاری کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہاں پر کتاب کی خوبی کا تذکرہ ہو رہا ہے یا خامی کا؟بعض اوقات چیزوں، مثلاً گاڑیوں، مشینوں وغیرہ میں ایسا مینوفیکچرنگ فالٹ رہ جاتا ہے جو کبھی دور نہیں ہو سکتا۔یہ ہاتھ انسانوں کے ساتھ بھی ہوجا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کچھ باتیں مجھے تیسرے دن سمجھ آتی ہیں،کچھ تیسرے مہینے اورکچھ تیسرے سال بھی سمجھ نہیں آتیں۔اور اچھا ہے سمجھ نہیں آتیں۔ ورنہ میں کب کا لکھنا چھوڑ چکا ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تخلیق کی خامیوں کو بیان کرنے میں انہوں نے ایک مخصوص اسلوب اختیار کیا ہے۔ورنہ آج ہمارے ہاں جتنا لکھا جا رہا ہے، شاید اتنا نہ لکھا جا رہا ہوتا۔جیسے ’بستی بستے بستے بستی ہے‘، ایسے ہی آدمی لکھتے لکھتے لکھتا ہے۔ادب کے میدان میں ایک نووارد خطے کے لیے یہ ڈاکٹر صاحب کی ایسی خدمت ہے جسے نظرانداز یا فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
تاثراتی تنقید کی مضبوط روایت کے عہد میں سائنٹفک تنقید کی طرف جاناایک مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر صغیر ’ک کتاب‘ میں اس مشکل کے ساتھ نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ اکثر مضامین میں ان کی جمالیاتی حس غالب نظر آتی ہے،نہ فقط تاثرات کا اظہار ہے اور نہ ہی فقط ان اسباب یعنی ماحول، معاشیات،حالات وغیرہ کا خشک تجزیہ ہے جن میں ان کتابوں کی تخلیق ہوئی ہے۔ بلکہ جس ماحول یا جن اسباب نے ان تخلیقات کو وجود بخشا ہے، انہیں بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اختررضا سلیمی کے ناول ’جندر‘پر لکھا گیا مضمون اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اسی طرح ’اردو قاعدہ جدید‘ پر لکھے گئے مضمون کو تاثراتی، جمالیاتی اور اسلوبیاتی تنقید کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب کی ’محفل دیرینہ‘ کے پس منظر کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ محفل دیرینہ تک رسائی کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ ’بزم اسرار‘ میں ڈاکٹر صاحب نے شاعر کے کلام کی خوبیوں کوجتنا جامع انداز میں اجاگر کیا ہے شاید ہی کسی اور نے اتنی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہو۔ ’کشمیر نما‘ اور صاحب ’کشمیر نما‘ کے تعارف و تعریف میں لکھا پڑھنے لائق اورجس انداز میں اپنے کام اور اپنے آپ کو پیش کیا ہے وہ سیکھنے لائق ہے۔
’ک کتاب‘ میں ڈاکٹر صاحب خود پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔عاجزی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ اور ان کا یہ مزاج ان کی تحریر میں بھی اتر آیا ہے۔بھلا تنقید جیسے مشکل کا م میں ایک اور مشکل کو شامل کر دینا کہاں کی شرافت ہے؟ کہیں یہ بھی ان کے مزاج کا حصہ تو نہیں کہ وہ آسان کام کو مشکل بنا کر کرتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو پھر خود ہی کرتے رہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کسی ایک کتاب پر لکھتے ہوئے بعض اوقات سر چکرا جاتا ہے۔ دیر تک سمجھ نہیں آتی وہ کون سے ڈاکٹر صغیر پر لکھ رہا ہے؟ محقق، کالم نگار، افسانہ نگار،ناول نگار، سفرنامہ نگاریاشاعرپر؟
جی نہیں، صاحب آپ ایک صاحب طرز نقاد پر لکھ رہے ہیں۔ جب مجھے اس بات کا احساس ہواتو میں پھر سے کتاب لے کر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اکثر مضامین میں پڑھ چکا تھا۔ پوری کتاب ’پھرول‘ ڈالی۔ لیکن نومبر کی خوشگوار دھوپ میں سوائے پسینے کے میرے سر سے کچھ نہ نکلا۔تب دیر تلک میں ناک سے چوہے نکالتا رہااور یہ سوچتا رہا ڈاکٹر صغیرفن تنقید میں جوسیڑھیاں چڑھ چکے ہیں،کیا انہیں شمار کرنامیرے بس میں ہے؟تخلیق سے تنقید تک اد ب کے جس مقام پر بھی انہوں نے پڑاؤ کیا اسے نشان راہ بنا کر آگے چلے۔مگر یہ پڑاؤ اتنی مشکل جگہوں پر ہیں کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے ہمارے ہاں اتنی آکسیجن ہی دستیاب نہیں ہے۔’ک کتاب‘ بھی ان کا ایسا ہی ایک پڑاؤ ہے۔ خوبصورت اسلوب، علم و ہنر اور مزاح و تمثیل کی خوشبو میں لپٹے ان تنقیدی مضامین کی تکنیک، ان کے حسن و جمال اور رنگوں کو دیکھنے کے لیے جو روشنی چاہیے، نہ تو وہ اپنے دیدہ خشک تر میں ہے نہ اسے بیان کرنے کے لیے اپنی زبان ہی علم کے ساغر میں دھلی ہوئی ہے۔
البتہ،آج کی اہل علم و ادب کی اس جگمگاتی محفل میں ایک سیاہ نقطے کی مانند اپنے آپ پہ نادم، اتنا کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ زیر تذکرہ کتاب کوآزاد کشمیر میں تنقیدی مضامین و تبصروں پر مشتمل پہلی کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر صغیر ایک نقاد کے روپ میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔ان کا یہ روپ ہمارے لیے جتنا نیا ہے اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اپنے کئی جنموں کی طرح یہ بھی ڈاکٹرصغیر کاادب کی دنیا میں ایک نیا جنم ہے تو بے جا نہ ہوگا۔اپنے ہاں اس نئے جنم پر میں آپ سب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ کہ یہ وہ شخص ہے جس کی ہر تحریر پڑھ کر چنبے کی اس بیل کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے جو لہو سے تر میری مٹی کی ساری خوشبوئیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔میں ان خوشبوؤں سے محظوظ و مضروب تو ہو رہا ہوں لیکن ان کی لذّت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply