نسبت ہے دور کی/شہزاد ملک

اس کرۂ ارض کے کسی خطے پر پیدا ہونے والا کوئی انسان اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اسے اپنی زندگی میں اپنی جائے پیدائش سے کہیں دور بھی جانا پڑے گا یا پھر اسی جگہ پر رہتے رہتے اس کی زندگی تمام ہو جائے گی
ملک صاحب پاکستان کے محکمہ زراعت کے اپنے وقت کے سب سے کم عمر افسر تھے اپنی محنت جانفشانی اور دیانت کی وجہ سے وہ بہت جلد ایک خاص مقام تک پہنچ گئے مگر قدرت نے ان کے حصے کا باقی رزق صومالیہ جیسے قحط زدہ اور پسماندہ ملک میں رکھا ہؤا تھا ورلڈ بینک کے ایک زرعی منصوبے میں بطور زرعی ماہر ملک صاحب کا انتخاب ہؤا اور وہ صومالیہ سدھارے اور چند مہینوں بعد مجھے اور بچوں کو بھی ادھر بلا لیا 1980 کی پوری دھائی اور اگلے کچھ برس ہم نے وہیں گزارے ہماری رھائش صومالیہ کے دوسرے بڑے شہر ہرگیسہ میں تھی نیم پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے موسم بہت خوشگوار تھا نہ زیادہ گرمی نہ سردی تقریباً ایک جیسا درجۂ حرارت پورا سال رہتا نہ اے سی اور پنکھے کی ضرورت نہ ہیٹر اور رضائیوں کمبلوں کا جھنجٹ بس نہایت خوشگوار ہوا ہر وقت چلتی رہتی ہم سب اس موسم سے بہت خوش تھے
صومالیہ کے ہمسایہ میں ایتھوپیا کا ملک واقع ہے ان دو ہمسایہ ملکوں کے آپس کے تعلقات ایسے ہی ہیں جیسے پاکستان اور بھارت کے ہیں ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دشمنی جس کی وجہ سے ان میں خون ریز جنگیں بھی ہوتی رہتی ہیں ان دنوں بھی یہ دونوں ملک ایک سخت لڑائی سے گذرے تھے جس کی وجہ سے سرحدوں کےآر پار بسنےوالے قبائل پناہ کی تلاش میں اندرون ملک نقل مکانی کر رہے تھے امن و امان اور دیگر سماجی مسائل سے بچنے کے لئے حکومت نے نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے لئے شہروں کے مضافات میں کیمپ قائم کر دئے تھے اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین اور دوسری بین الاقوامی تنظیمیں ان کیمپوں میں رہنے والوں کی ضروریات کا ذمہ اٹھائے ہوئے تھیں ایک بین الاقوامی اسلامی فلاحی تنظیم رابطۂ عالم اسلامی کے تحت بنگلہ دیشی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ان کیمپوں میں طبی سہولیات بہم پہنچانے کے لئے تعینات تھی
اس علاقے میں پاکستانی صرف ہم ہی تھے اقوام متحدہ کے تحت آنے والے غیر ملکیوں میں بھانت بھانت کی قومیتوں کے لوگ تھے ہندوؤں سمیت ہر قومیت کے لوگوں سے ہمارے اچھے تعلقات تھے مگر
قدرتی طور پر ہماراگہرا میل ملاپ صرف بنگلہ دیشیوں سے ہی تھا شائد اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ہماری مثال ان دو بھائیوں جیسی تھی جو الگ الگ گھر بنانے سے پہلے ایک ہی ماں باپ کے گھر میں رہتے ہوں اور لاکھ اختلافات کے باوجود اب بھی ایک دوسرے کا دکھ درد سمجھتے ہوں سارے ڈاکٹر اور ان کی بیویاں ہماری بہت عزت کرتے اور بچے آپس میں پیار محبت سے کھیلتے ایسے لگتا تھا ہم سب ایک ہی گھرانے کے لوگ ہیں ان ہی دنوں ایک نئے ڈاکٹر ہرگیسہ میں آئے
ڈاکٹر مسعود اور ان کی بیگم سے ہماری ملاقات ڈاکٹر مرشد کے ہاں ایک دعوت میں ہوئی جو ان ہی کے اعزاز میں دی گئی تھی جیسے ہی ڈاکٹر مرشد نے ہمارا تعارف پاکستانی میاں بیوی کے طور پر کرایا ان دونوں میاں بیوی کے چہروں پر ایک غیر محسوس سی ناگواری کے تاثرات ابھر آئے جنہیں ہم نے واضح طور پر محسوس کیا گھر آکر بھی ہم آپس میں اس بارے میں بات کرتے رہے اس کے بعد جب بھی ہم سب کسی جگہ اکٹھے ہوتے دوسرے بنگلہ دیشیوں کے بر عکس ڈاکٹر مسعود اور ان کی بیگم ہم سے الگ تھلگ بیٹھنے کو ترجیح دیتے اور جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے دوسرے ہم وطنوں کی دعوتیں ہمارے بغیر مکمل نہیں ہوتیں اور ہم ان کا لازمی حصہ ہیں تو وہ ان کو بھی نظر انداز کرنا شروع ہو گئے اکثر وہ آتے ہی نہیں ہماری دعوت پر ہمارے گھر آنے کا تو سوال ہی نہیں تھا ان کے اس رویئے سے ہمیں بڑی تکلیف اور باقی بنگلہ دیشیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی میرے استفسار پر ایک دن ڈاکٹر مرشد کی بیوی نے بتایا کہ یہ دونوں میاں بیوی بنگلہ دیش کی سیاسی پارٹی عوامی لیگ کے رکن ہیں مسز مسعود کے والد تو پارٹی کے اعلی عہدے دار ہیں یہ لوگ پاکستان سے سخت نفرت کرتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ کوئی بھی بنگلہ دیشی ہم سے میل جول رکھے چونکہ باقی لوگ ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتے اس لئے یہ سب سے کھنچے کھنچے رہنے لگے حج کے دن آئے تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مسعود اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حج کے لئے سعودی عرب سدھارے ہیں واپسی پر وہ کسی سے ملے بھی نہیں
ایک دن معلوم ہؤا مسز مسعود بہت بیمار ہیں بنگلہ دیشی کافی پریشان تھے ہر روز کسی ایک کے گھر سے کھانا بن کر ڈاکٹر مسعود کے گھر جا رہا تھا مگر مسلہُ صرف کھانے کا نہیں تھا ان کے دو چھوٹے بچوں اور بیمار بیوی کی ہر وقت کی دیکھ بھال کا بھی تھا جو کہ ملازمت پر جانے والے ڈاکٹر مسعود کے لئے ممکن نہیں تھا ہمارے ساتھ ان کا رویہ اگرچہ بہت نا مناسب تھا مگر ہماری انسانی ہمدردی کی جبلت نے گوارہ نہ کیا کہ ہم ان کی بیمار پرسی کو نہ جائیں کچھ کھانے پینے کا سامان لے کر ملک صاحب اور میں اس شام ان کے گھر چلے گئے انہوں نے اسی بے رخی اور سرد مہری کا مظاہرہ کیا جو وہ ہمیشہ ہمارے لئے روا رکھتے تھے ہم نے بہر حال اس کی پرواہ نہ کی خاتون خانہ کی اتنے دنوں کی بیماری کے اثرات ہر چیز پر دکھائی دے رہے تھے گھر کی ابتر حالت بچوں کے میلے کپڑے الجھے بال اور مرجھائے چہرے ڈاکٹر صاحب کی تھکی ہوئی شکل اور خود مسز مسعود کی زرد رنگت اور نقاہت سے نکلتی آواز سے بے یارو مددگار اور غریب الوطن ہونے کا احساس پوری طرح اجاگر تھا بے بسی اور مجبوری کا ایک بے نام سا تاثر ان کو گھیرے ہوئے تھا پردیس میں لاکھ اپنے ہم وطن موجود ہوں مگر ہر کوئی اپنے اپنے معمولات کا اسیر ہوتا ہے کوئی بھی اتنا فارغ نہیں ہوتا کہ کسی کا گھر سنبھال سکے زیادہ سے زیادہ کوئی کھانا پکا کر بھیج سکتا ہے جو کہ ہو ہی رہا تھا مگر ان کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ کی متقاضی تھی جو کسی کے بس کا روگ نہیں تھا ان کی حالت زار دیکھ کر اور کچھ وقت ان کے ساتھ گذار کر ہم گھر واپس آگئے اگلا سارا دن میرا دھیان ڈاکٹر مسود کے گھر میں ہی اٹکا رہا ان کے بچوں کے معصوم چہرے نظروں میں گھومتے رہے
ہمارا گھر پانچ بیڈ رومز کا بڑا گھر تھا کام کاج کے لئے ایک بڑی اچھی اور محنتی ملازمہ تھی جس کو میں نے اپنے طریقے کے مطابق سارا کام سکھا دیا تھا اپنے بچوں کو پڑھانے کے علاوہ مجھے اور کوئی بہت ذیادہ مصروفیت تو نہیں تھی مگر گھر سے باہر جانا ممکن نہیں تھا سوچتے سوچتے اچانک ذہن میں روشنی کےجھماکے کی طرح ایک خیال آیا کیوں نہ ہم ڈاکٹر مسعود کے گھر والوں کو اپنے ہاں لے آئیں ذرا اور غور کیا تو یہ ان لوگوں کی مشکل
کا بہترین حل نظر آیا جگہ کی ہمارے ہاں کمی نہیں تھی ان کا رہنا کھانا پینا اور دیکھ بھال بہترین طریقے سے ہو سکتی تھی اپنے دل میں پکا ارادہ کر کے میں نے ملک صاحب سے بات کی تو وہ بھی قائل ہو گئے کہ پردیس میں ایک مسلمان بھائی کی مدد کرنے کا ایک یہی بہتر طریقہ ہے اپنے طور پر فیصلہ تو کر لیا اب ان لوگوں کو راضی کرنے کا مرحلہ تھا جانے وہ ہم پاکستانیوں کا احسان لینے پر راضی ہوں نہ ہوں ان کے سابقہ رویئے کے پیش نظر ہمیں زیادہ خوش فہمی تو نہ تھی مگر ہم نے پھر بھی کوشش کرنے کی ٹھان لی اپنے بچوں کو آنے والوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنے کی تلقین کی ملازمہ کو کام کی زیادتی کی صورت میں اپنی ایک مددگار لانے کی ہدائت کردی اپنے گھر میں تمام بندوبست کرنے کے بعد شام کو ہم ان کے گھر جا پہنچے ڈاکٹر مسعود ڈیوٹی سے ابھی ابھی واپس آئے تھے رسمی مزاج پرسی کے بعد جب ملک صاحب نے ان کے سامنے اپنی تجویز رکھی اور میں نے اس پر اصرار کیا تو دونوں میاں بیوی ہکا بکا رہ گئےان کی حالت ایسی ہو گئی گویا کاٹو تو لہو نہیں بدن میں منہ سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی ہمارے ساتھ اپنے روئیے کی وجہ سے ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم ان کے اتنے بڑے مسلے کا ایسا حل نکالیں گے ان کے درجن بھر ہم وطنوں میں سے کسی نے بھی کھانا بھجوانے سے آگے کچھ نہیں سوچا تھا جب اس اچانک جھٹکے سے کچھ سنبھلے تو ڈاکٹر صاحب کے منہ سے بس اتنا نکلا کہ ملک بھائی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے
؟ کیوں بھئی کیوں نہیں ہو سکتا ؟ آپ بس تیاری کریں اور ہمارے ساتھ چلیں مسز مسعود کا رویہ ہمارے ساتھ زیادہ برا رہا تھا اس لئے وہ اس تجویز کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھیں میں نے ان سے کہا کہ عورت ہونے کے ناطے مجھے ان کی بیماری کی نوعیت کا بڑی اچھی طرح اندازہ ہے یوں گھر میں اکیلے پڑے رہنا ان کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے بچے الگ سہمے ہوئے اور ڈاکٹر صاحب پریشان ہیں ہم سب یہاں پردیسی ہیں ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو مشکلات کم کیسے ہوں گی ہمارے گھر چل کر رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ بھی سب سمجھتے تھے مگر ہم سے شرمندگی کی وجہ سے حامی بھرنے سے ہچکچا رہے تھے کافی سمجھانے اور اصرار کرنے کے بعد وہ بالآخر قائل ہو ہی گئے ہم نے جلدی جلدی ان کی ضرورت کی چیزیں سمیٹیں اور اپنی گاڑی میں ان کو اپنے گھر لے آئے مسز مسعود کو بستر پر لٹایا ایک کمرے میں ان کے دونوں بچوں کا انتظام کر دیا رات کے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر وہ لوگ سو گئے اگلی صبح ڈاکٹر صاحب بے فکر ہو کر اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے تو میں نے ان کی بیوی بچوں کو ناشتہ کرایا دوائیں کھلائیں ملازمہ نے بچوں کو نہلایا دھلایا کپڑے بدلے مسز مسعود نے بھی غسل کے بعد لباس تبدیل کیا تو کافی اچھا محسوس کیا ان کی بیماری کی وجہ سے ان میں خون کی بہت کمی ہو گئی تھی جس نے انہیں نڈھال کر دیا تھا میں ان کے لئے کھانے میں ایسی چیزیں بناتی جو خون پیدا کرتی ہیں صبح دونوں مردوں کے گھر سے جانے کے بعد میں اپنے اور ان کے بچوں کو پڑھاتی فارغ وقت میں ان کے پاس بیٹھ کر دنیا جہان کی باتیں ہوتیں مگر کبھی بھول کر بھی پاکستان سے الگ کر کے بنگلہ دیش بنانے کی عوامی لیگ کی سازش کے بارے میں کوئی لفظ زبان پر نہیں آنے دیا مجھے بنگلہ زبان کے کافی الفاظ سمجھ میں آ جاتے کچھ انگلش اردو ملا جلا کر ہم ایک دوسرے سے بات کر لیا کرتے تھے ڈاکٹر مسعود اور ملک صاحب جب اپنے اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر آتے تو کھانے کی میز پر کافی گپ شپ کرتے سوائے کسی دل آزاری والے موضوع کے باقی ہر موضوع زیر بحث رہتا بنگلہ دیشی لوگ حیران تھے کہ وہ میاں بیوی جن کے ماتھوں پر پاکستانیوں کا نام سن کر سو تیوریاں پڑ جاتی تھیں وہ ہمارے گھر کیسے آنے پر راضی ہوئے اور اب کیسے اتنے گھل مل کر رہ رہے ہیں ایک دن باتوں باتوں میں مسز مسعود نے سوال کیا کہ کیا سارے پاکستانی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے ہم میاں بیوی ہیں ہمدرد اور کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اس کی مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار ! میں نے ان کے تجسس کی تہہ تک پہنچتے ہوئے جواب دیا کہ اچھے برے لوگ ہر علاقے میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں اکثریت بھلے لوگوں کی ہی ہے دراصل ان کے مطلب پرست سیاسی لیڈروں نے انہیں پاکستان کا بڑا بھیانک روپ دکھا رکھا تھا جس سے بنگلہ دیشی لوگ بہت متاثر ہیں جب وہ ہم سے ملے تو انہیں ہمارے اندر اس وحشت و بربریت کا کوئی شائبہ بھی نظر نہیں آیا جس کا ڈھنڈورہ پیٹ کر 1971 میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا گیا
ڈاکٹر مسعود اور ان کے بیوی بچے تقریباً ایک مہینہ ہمارے گھر رہے ان کی بیوی مکمل صحت یاب ہو گئیں اس دوران ہمارے آپس کے تعلقات بہت اچھے ہو گئے بچے بھی آپس میں گھل مل گئے اور سب سے بڑی بات کہ ان کے دلوں میں بسی پاکستانیوں کے خلاف نفرت اور کدورت دھل گئی ہمارے لئے سب سے بڑی اعزاز کی یہی بات تھی
جس دن وہ لوگ اپنے گھر واپس جا رہے تھے وہ یوں آنسو بہا رہے تھے جیسے اپنے سگے بھائی بہن سے جدا ہو رہے ہوں یہ وہی لوگ تھے جو ایک مہینہ پہلے ہمیں دشمن سمجھ کر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے آج محبت اور احسان مندی سے ان کے سر جھکے ہوئے تھے اور بطور پاکستانی ہمارا سر اس احساس سے بلند تھا کہ ہم نے اپنے پیارے وطن سے نفرت کرنیوالے کم از کچھ لوگوں کی تو کایا پلٹ دی
گو واں نہیں پے واں سے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply