دسمبر کی آخری شام اور ایک کتاب/نذر حافی

دسمبر کے آخری دن کا سورج ڈھل گیا ہے۔ اس ڈھلتے سورج کی سُرخ اور زرد شعاعوں میں مجھے ایک بادشاہ کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ ایک پریشان حال اور افسردہ بادشاہ کا چہرہ۔ اُس نے متعدد ماہرین اور دانشوروں سے مشورہ کیا، حکیموں کے کشتہ جات سے لے کر تعویز گنڈے سمیت سب کچھ آزمایا, لیکن کسی طرح سے بھی اسے افاقہ نہ ہوا۔ بہرحال ایک دانشور نے بادشاہ سے ایک ہفتے کی مہلت چاہی۔ بادشاہ کے ساتھ یہ طے پایا کہ اگلے ہفتے میں یہ دانشور کسی بھی وقت بادشاہ سلامت سے پیشگی اجازت کے بغیر مل سکے گا۔ کچھ دن گزرے تو رات کے پچھلے پہر دانشور بادشاہ کے محل میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ داخل ہوا۔ اُس کا دوست سیدھا محل کی چھت پر چڑھ کر چھپ گیا۔ چھت پر تانبے کے بڑے اور چھوٹے کئی برتن پہلے سے جمع کر دیئے گئے تھے۔ نصف رات بیت چکی تھی، مگر اس کے باوجود بادشاہ حسبِ وعدہ دانشور سے ملنے مہمان سرا میں آیا۔

سارا محل نیند میں مدہوش تھا اور یہ دونوں گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد بادشاہ کے محل کی چھت پر چھپے ہوئے شخص (دانشور کے دوست) نے محل کی چھت سے تانبے کے برتن اور دیگیں نیچے پھینکنا شروع کر دیں۔ برتنوں کے گرنے کا شور محل کے در و دیوار سے ٹکرانے لگا۔ اچانک محل سرا کے مقیم بھی ڈر کر چیخ اُٹھے۔ چیخوں سے قیامت خیز شور و غل بلند ہوا۔ سب پہرے دار، ملازم اور دیگر محل نشین یا تو بھاگ گئے اور یا پھر بوکھلا کر کہیں نہ کہیں چھپ گئے۔ خوف کے مارے بادشاہ کا دل بھی اُچھل کر حلق میں آگیا۔ تقریباً نصف گھنٹے کے کہرام اور واویلے کے بعد بادشاہ نے دیکھا کہ دانشور اپنی کُرسی پر آرام سے بیٹھا خورد و نوش میں مصروف ہے۔ بادشاہ نے قریب آکر دانشور سے پوچھا کہ آپ کیوں نہیں گھبرائے!؟ دانشور نے انتہائی سادگی سے جواب دیا کہ میں اس لئے نہیں گھبرایا، چونکہ مجھے پہلے ہی اس شور و غل کے برپا ہونے کا علم تھا۔

اس حکایت سے پتہ یہ چلتا ہے کہ اگر انسان کسی بحران یا حادثے کے بارے میں قبل از وقت جان لے تو وہ بحران کے وقت خواہ مخواہ کے دباو اور بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ صاف ظاہر ہے کہ جو آدمی بحران کے وقت خوفزدہ نہ ہو، وہی بحران کی مدیریت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی زندگی یعنی نشیب و فراز۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کو ساری زندگی مسلسل نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ہر نومولود کے مستقبل میں “بُڑھاپا نامی بحران” اُس کا منتظر ہے۔ یہ بڑھاپا کسی بھی قسم کی ذات پات، رنگ، نسل اور دین کی رعایت نہیں کرتا۔ آپ اپنے اردگرد کے بوڑھے افراد کی زندگیوں کا جائزہ لیجئے اور اُن کے دکھوں اور مسائل کی فہرست بنائیے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ سوائے کچھ خوش قسمت لوگوں کے اکثر بوڑھے افراد انتہائی بیماری، لاچاری، فقر، کمزوری، تنہائی، افسردگی اور بے کسی کا شکار ہوتے ہیں۔

قرآن مجید نے انسانی زندگی کے ان بحرانی لمحات کی کچھ یوں منظر کشی کی ہے: “اور جسے ہم لمبی زندگی دیتے ہیں، اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟”[1] مندرجہ بالا آیت کی رو سے ہمیں کم از کم اس نکتے پر اپنی توجہ ضرور مذکور کرنی چاہیئے کہ جو خدا بچپن میں انسان کی ضعیفی کو جوانی کی طاقت میں بدلتا ہے اور پھر اُسی جوانی کو دوبارہ ضعیفی کی طرف پلٹاتا ہے، اُسی خدا نے بڑھاپے کے بحران کی مدیریت اور ضعیفی پر قابو پانے اور قبل از وقت منصوبہ بندی کرنے کیلئے انسان کو عقل بھی عطا کر دی ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنّت کو معاشرے کے ساتھ ترکیب کرنے کی خاطر اپنی عقل سے درست استفادہ نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں ہم قرآن و حدیث کو رٹتے تو ہیں، لیکن ہماری زندگیاں قرآن و احادیث سے مرکب نہیں ہوتیں۔ ہمارے پاس رٹ رٹا کر آیات و احادیث کا اچھا خاصا ذخیرہ تو جمع ہو جاتا ہے اور ہماری گفتگو میں بھی آیات و روایات بہت زیادہ استعمال ہونے لگتی ہیں، لیکن ہماری عملی زندگی آیات و روایات سے کوسوں دور ہوتی ہے۔

اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگیوں میں گناہوں سے بچنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رکھی۔ اسی طرح ہم سب عمر ِ دراز کی آرزو تو رکھتے ہیں، لیکن بڑھاپے کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم بڑھاپے کے بحران پر قابو پانے کیلئے دینی تعلیمات سے ایک جامع منصوبہ تیار کر لیں تو ہم دیکھیں گے کہ وہی بڑھاپا، جس کا تصوّر ہی ہمیں ناگوار گزرتا ہے، دراصل وہ ہمارے لئے اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ قرآن مجید کی رو سے “وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ”، “ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے، مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔”[2] اس وقت میرے سامنے ایک منفرد کتاب کھلی پڑی ہے۔ یہ کتاب زندگی اور بڑھاپے کے بارے میں ہماری عامیانہ اور بیمار سوچ کو بدلنے کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کی اہم خوبی اس کا مختصر اور جامع ہونا ہے۔ موضوع اور جامعیت کے اعتبار سے یہ ایک مکمل کتاب ہے، لیکن حجم اور ضخامت کے اعتبار سے آپ اسے ایک کتابچہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

جس طرح حجم کے اعتبار سے یہ کتاب اُٹھانے میں سبک ہے، اُسی طرح سلیس اور رواں متن کے باعث سمجھنے میں بھی بوجھل اور پیچیدہ نہیں۔ کتاب کا نام ہے “بڑھاپا اورر یٹائرڈ زندگی ایک نعمت۔” کتاب کے مولف سید رمیز الحسن موسوی صاحب (سربراہ ادارہ نمت) ہیں، جو ارباب دانش کے ہاں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کتاب کو نورالہدیٰ مرکزِ تحقیقات اسلام آباد نے نشر کیا ہے۔ فاضل مولف نے پہلی فصل میں صرف بتیس صفحات کے اندر قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ بڑھاپا مصیبت ہے یا نعمت؟ دوسری فصل بڑھاپے کی دینِ اسلام میں اہمیت کو روشن کیا گیا ہے۔ آپ نے اس سے پہلے اسلام میں جوانوں کی اہمیت کے بارے میں تو بہت کچھ سنا اور پڑھا ہوگا، اس کتاب میں آپ کو بڑھاپے کی اہمیت کے بارے میں وہ کچھ ملے گا، جو کہیں اور دستیاب نہیں۔ تیسری فصل میں انتہائی معقول اور منطقی پیرائے میں بڑھاپے کی مثبت اور منفی خصوصیات سے پردہ ہٹایا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چوتھی فصل میں بڑھاپے کو مثبت بنانے کے حوالے سے مفاہیم درج کئے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ بغیر شریکِ حیات کے اگر بڑھاپا آجائے تو اُس حوالے سے بھی رہنمائی موجود ہے۔ پانچویں فصل میں بڑھاپے کے دوران حقوق اللہ اور حقوق النّاس کی ادائیگی کے حوالے سے انتہائی دلکش حکمت عملی مرتب کی گئی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ بچوں اور جوانوں کیلئے اس لئے ضروری ہے، چونکہ انہوں نے آگے چل کر بوڑھا ہونا ہے اور بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے اور بوڑھا ہو جانے والے بزرگان کیلئے اس لئے ضروری ہے کہ انہوں نے بڑھاپے کو گزارنا ہے۔ یہ کتاب آپ کو بڑھاپے سے پہلے بڑھاپے کے بارے میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کا ہُنر سکھاتی ہے۔ دانا کہتے ہیں کہ وقت آنے سے پہلے سوچنے کا عمل وقت آنے پر ہاتھ ملنے سے بچا لیتا ہے۔ دسمبر کے آخری دن کا سورج ڈھل گیا ہے۔ آئیے اپنی زندگی کی شام یعنی بڑھاپے کے بحران سے نمٹنے کیلئے ابھی سے اس کتاب کا مطالعہ کر لیتے ہیں۔ کتاب آپ کو مسجد نورِ زہراء اسلام آباد G-15/4 سے مل سکتی ہے۔ صاحبان علم و دانش کیلئے میں رابطہ نمبر بھی درج کئے دیتا ہوں۔
0092-310-0407923
0092-334-5465750
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡہُ نُنَکِّسۡہُ فِی الۡخَلۡقِ ؕ اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ یس ۶۸
[2] بقرہ ۲۱۶

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply