سالِ نو اورگُٹھلی مبارک/کبیر خان

چَیتے بِسرے پڑے ہیں ، ماہ و سال یاد نہیں   لیکن ہم عراق کے ریگ مہا ساگرعکاشات کی اُبلتی ریت سے اپنے کُنبہ قبیلہ کے لئے آٹا دانہ پھرول رہے تھے۔ صاحبو! منہ طرف خانہ کعبہ شریف کے ہو یا فرات کی اور۔ ۔۔ ریت کے اس سمندرکے بیچ گرمی کی نہریں طغیانی پرہی رہتی ہیں ۔ ہم انہی لہروں بحروں میں تھے کہ چھِنگ پتلا اور سوکھے ہوئے بیگن جیسا صباحت علی ، ہمارا ہندوستانی ساتھی گرم تر ہواؤں سے لڑتا بھِڑتا ڈریگ لائن تک پہنچ ہی گیا۔

’’بھیّے! ماں خصم ، اپن نے غلاب ضامن منگوائے تھے، سالا بلجیکی شوفر واپسی کی ڈاک سے بغدادی برفی لئی آئیو۔ بولے جو تم مانگے ہو، او گلا سڑا لاگے تھا،ہِیّو لے لِیّو۔ خم سے خم گوری تو ہووے۔ ہآآآ میرا بچّہ اپن کے گنہگار ہھتّوں سے ہیپی ٹوٹوکھائی لیو، ثواب ہوتا‘‘۔

شام کو صباحت نے ہمیں اپنے کمرے میں مدعوکیا ۔ ہم گئے اور دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ’’اس ماں حریان ہونے کی کون سی باتاں ہیں، بندہ سِری سے کُھپڑیا کا کام لیوے تو گتّے کی پیٹی کو اُلٹ کرمیزبھی کر سکے ہے۔ اس پر پرنا بچھائی لیو توسمجھ لیو میج پوش سے عیباں ڈھک لِیو ۔‘‘وہ بولا۔

میز پرٹمٹماتی موم بتّی کے پہلو میں میس کی چائے کے ساتھ گھروالوں کی طرف سے بذریعہ بحری ڈاک مُرسلہ ہیپی ٹوٹو بھی سُلگ رہا تھا ۔ جس سے سوئیوں والی ’’عید مبارک ‘‘کی بھینی بھینی خوشبو لِیک ہو کر پورے ماحول کو خانقاہی بنا رہی تھی ۔ اُس کے توجہ دلاؤ نوٹس پر غور سے دیکھا تو پتہ پڑا کہ سابقہ عید کارڈ پر گوند سے فیملی فوٹو چپکایا گیا تھا۔ فوٹو میں اُس کی منگیتر بھی تھی لیکن ہم اتنے بھی پڑھے لکھے نہیں کہ چُنری کی درز سے چمکتی آنکھوں کو دیکھ کر ’’جلیخاں‘‘کو ’’ملخائے حسن‘‘ قرار دے پاتے۔ پھر بھی ہم نے زلیخا کو باپردہ پری کہا تو صباحت کے سوکھی لوئیں بھخ سی گئیں۔

’’ بھیّے ! یہ تو بتلاوٗ، تم لوگاں ہیپی ٹوٹوپربھی کوئی کیک،پیشٹری کاٹو ہو کہ نِرے کٹّے ہی ہو۔۔۔۔، کیا بولتے ہیں ، نعرہ تخریب ،اللہ اکبر۔۔۔۔؟اور کیا نام ہے سے، بس۔۔۔؟‘‘

کیوں نہیں ، ہم تو باقاعدہ ختم شریف کا اہتمام کرتے ہیں ۔ مولوی صاحب اگرکسی نکاح کی ایمرجنسی تقریب میں نہ گئے ہوں تو بقدم خود تشریف لاتے اور ذاتی نگرانی میں گِن کر کلمہ طیّبہ کا ورد کرواتے ہیں ۔ اس کے بعد زردہ، پلاؤ، سرے ، سوئیاں،بوٹیاں شوٹیاں پڑھنے والوں کی نذر کرواتے ہیں ۔ آخر میں خوشی سے گھر کا کوئی فرد لفافہ تھما دے تو واہ بھلا،ننگے نوٹ اپنے دستِ گناہ آلود سے اُن کی جیب میں زبردستی ٹھونس دے تو بھلا۔۔۔۔، رضائے الہی کی خاطر قبول کر لیں گے۔ (کمی بیشی کا معاملہ فریقین بعد میں بھی نمٹا لیتےہیں)۔

’’چلو قدرے پاس۔۔۔۔‘‘۔ ہمارا بیان سُن کرصباحت نے اطمینان کا سانس لیا، ’’ امّاں بعد اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم مخبوجہ کشمیر کے لوگاں جیادہ وہابی نہیں ہو۔۔۔۔؟ہے کہ نہیں۔۔۔ِ؟‘‘۔

ہم نے جوا باً نفی میں ٹیٹنی بجائی تو وہ مطمئن ہوگیا۔اور اسی خوشی میں کہیں سے بصرہ کی کھجور نکال ، ہتھیلی پر رکھ ، بدست خود ہماری مُٹھّی میں بند کر کے آنکھ ماری ۔۔۔۔ ’’وہ کیا کہتے ہیں ،جیتے جیو رہے تو نویں سال کی ونّ فائن مارننگ یا جمعتہ البِدیہ کے دن دیہاڑے کھائیو، دوہرا ثواب ہووے ہے۔ ۔‘‘  اس کے ساتھ ہی ربّ جانے اُسے کیا یاد آیا،ہمیں لچکدار ڈالے سمان اپنی سطح تک جھکا کر کان میں سرگوشی کی۔ ۔۔’’گٹھلی کو بے فجول جائع متی کریو۔۔۔۔، رگڑ کے کنواری اونٹنی کے دودھ میں ملا کرچاندنی رات کوآدھا گلاس جوزہ محترماں کو سونے سے پہلےپلاؤ،آدھا خود سونے کے بعد بسم اللہ پھونک کے چڑھا جائیو۔ سورج اُگنے سے پہلے پہلے جوزہ محترماں کو آپ کے ولی عہد کی اُبکائیاں حال سے بے حال نہ کردیویں تو اس ناچیج کو قولنج کی پِیڑ ہوئے ۔ ‘‘

ہم نے بصرہ کی جادو اثر کھجور کی گُٹھلی کا پاؤڈر بنا کر ’’انڈر لاک اینڈ کی‘‘ رکھ لیا۔ اور جب عراق ایران جنگ کے نتیجہ میں ہمیں واپس وطنِ مالوف جانا پڑا تو پاؤڈر کا کماحقہ استعمال کیا۔ بیگم کو تو کچھ نہ ہوا،ہمیں چند منٹوں میں اندھا دھند اُبکائیوں نے ڈھیر کرکے رکھ دیا۔ سویرے جا ٹیلیفون ایکسچینج ٹپکے۔ کافی سے کہیں زیادہ سوال و جواب کے بعد ایکسچینج نے انڈیا میں صباحت کا نمبر ملا دیا۔ معلوم ہوا نمبر پڑوسی کا ہے اور نوکر صباحت کو بلانے گیا ہوا ہے۔ خدا خدا کرکے رابطہ ہوا،ماجرا سُن کر تِڑخا۔۔۔۔ ’’بھیّے! غور فکر کر دیکھو، تمہاری/ تمہارےاوقات میں بے وقتی اور بے وقعتی ہے۔ تم کیا کہتے رہتے تھے؟۔ ۔ ، ہور چوپو۔ اپن بولا تھا،کھجور کا پوڈرکنواری اونٹنی کے دودھ میں ملا کر آدھا گلاس اتوار کی رات کو سونے سے پہلے گھر والی کو پلانا،آدھا خود سونے کے بعد چڑھانا ہے۔ مگر بھیّے ! تم رہے نِرے اک پرتے جمعراتی:
کیا لونڈی باندی دائی دوا، کیا بند چیلا نیک چلن

صاحبو! پچھلی کئی عیدوں سے ہمارے ملکی و ملّی اطواراور اتوار میں بے وقتی سی بے وقتی ہے سو ہے ، بصرہ کی کھجور میں بھی وہ دوا و دم نہیں رہا ۔ سب کچھ تائیوانی لگتا ہے۔ جسے سونگھ کر ہی اُکائیاں آتی ہیں ۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اُمیدیں بھر آئی ہیں ۔ پھر بھی سالِ نو کی مبارک باد پیش ہے۔

گر قبول اُفتد زہے عز و شرف

Advertisements
julia rana solicitors london

اور سالِ نو کے اس مبارک موقع پر ، ربّ جانے کیوں دل کرتا ہے کہ اک دعا یہ بھی مانگیں کہ قادرِ مطلق کھجوروں کا ایسا دھوڑا بھی عطا کر جسے پھانکتے ہی ہمارے جملہ راہنمائے ’’راہِ عامہ‘‘اصلی والی ’’کتّے کھنگ‘‘میں مبتلا ہوں اور ہمارا ملک اُن کے فرمودات سے محفوظ و مانون رہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply