• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)4،آخری قسط

گوئٹے اور فاؤسٹ کا ایک تنقیدی جائزہ: بشیشور منور لکھنوی(مرتب: عاصم رضا)4،آخری قسط

پہلی بات تو یہ ہے جرمن زبان میں انگریزی زبان کے بمقابلہ سادگی اور بے تکلفی زیادہ ہوتی ہے اور دوسری بات  یہ ہے کہ گوئٹے کو زبان کے اس قدیم اسلوب میں جو حال ہی میں کچھ دنوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے ، محاکمانہ طور پر غیرمعمولی استعداد حاصل ہے ۔ یہ نظم کا وہ اسلوب ہے جس میں بلا کی سہل پسندی ہے اور جو شستگی سے عاری ہوتا ہے ۔ اس قسم کے اشعار میں انگریزی زبان کے ہوڈی براس کی طرح چار مقامات پر زور دینا پڑتا  ہے ۔ اگر کوئی پڑھنے والا حیرت زدگی میں یہ دریافت کر بیٹھے کہ گوئٹے ایسے فنکار نے بھی تک بندی سے کام لیا ہے تو اس سوال کا جواب اثبات ہی میں دیا جا سکے گا اور وہ جواب یہ ہو گا کہ گوئٹے صرف تک بندی ہی نہیں کرتے تھے ، وہ تو اس کے رسیا  (شوقین) بھی تھے ۔ جرمنی میں یہ طرزِ انشا پردازی  ینہٹیلور(؟) کے نام سے مشہور ہے ۔ گوئٹے نے قدیم سادہ گو شاعروں اور خاص طور پر ہینز سیکس (Hans Sachs) کے اندازِ سخن کو دوبارہ تازہ کیا ہے لیکن یہ بھی ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ ان کی شفیق ماں جن کے وہ تہہ دل سے پرستا ر تھے ، ان روایات سے واقف تھیں اوروہ اپنے خطوط میں برابر ینہٹیلور(؟) کے طرزِ تحریر کو استعمال میں لاتی تھیں ۔ ان کے فرزند کی ذکاوت اور طباعی کے سبب سے ان کی زبان کو بذلہ سنجی کا جدید اور نہایت لچک دار آلہ کار بنا دیا ۔

گوئٹے کو پہلے ہی سے واضح طور پر یہ معلوم تھا ۔ ایک ایسی عظیم مرتبت شاعری صفحہ وجود پر زینت افروز ہے جس کے لیے یہ لازمی ہے کہ بیت کے ساتھ سرمستی کا ادغام ہو ، جس میں روانی اور تناسب کےساتھ ان کا جواز موجود ہو اور جو من کے ساتھ بھی ممزوج ( ہم مزاج ) اور منسلک ہو ۔ لیکن اس کے علاوہ ایک قسم کی شاعری اور بھی ہے جس میں جذبہ و احساس کے بجائے عقل و فہم کا عنصر زیادہ غالب ہو ، جس میں تناسب اور روانی ضروری ہو اور اس کا ہونا برحق بھی ہو تاکہ ایسا کرنے سے جو شیفتگی پیدا ہو ، اسی سے تاثر میں ابھار پیدا ہو ۔ اسی لیے جن جن مقامات پر شاعری اس انداز سے لب کشا ہوتی ہے ، محاوروں کا استعمال لازمی طور پر حسن سے محروم ہو جاتا ہے ۔ ایک مقام پر کہا گیا ہے :

’’میرے محترم بزرگ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ دوسروں کی طرح معاملات پر نظر ڈالتے تو ہیں لیکن ہم لوگ جو اپنے تفکرات میں زیادہ مکاری سے کام لیتے ہیں ، ان کو اپنی مسرتوں کا لطف ان کے مرجھا جانے کے پیشتر ہی حاصل ہو جانا چاہیے ‘‘۔ (نثریِ ترجمہ )

ملٹن کے الفاظ میں شاعری کو سادہ ، سلیس ، محسوساتی اور جذباتی ہونا چاہیے ۔ مناسب ہے کہ ساری نظم تیج پات (Bay      Leaf)کے عرق کی طرح رقیق ہو یعنی یہ کہ مندرجہ بالا جزو صفات کی کسوٹی پر پورا اترے ۔ گوئٹے نے خوش قسمتی سے ہمارے انسانی مفاد کے حق میں ہر وقت جذبات کی بلندیوں پر قیام کرنے کا عذرلنگ (بہانہ) کبھی پیش نہیں کیا ۔ اور اسی قسم کے اشعار جہاں ایک طرف صحت آور ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان سے انقباض کی صورت بھی پیدا  ہو جاتی ہے اور میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے اشعار کا نزول شیطان کی ذات سے ہوتا ہے ۔

بات بات میں ناک چڑھانا  ہی صرف گنا ہ ہے ۔ یہ الفاظ کہنے میں تو بہت سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے معنی میں بڑی گہرائی ہے ۔ یہ بھی تو غور کرنا چاہیے کہ گوئٹے نے جس شیطان کا ذکر کیا ہے ، اصل میں وہ ہے کیا چیز ۔ دنیا نے سب سے زیادہ دل میں بیٹھ جانے والی شیطان کی جو تشبیہ کھینچی ہے ، شیطان بالکل ویسا ہی ہے اور اس کی ذہانت کی کلید یادداشت ہے ،  بات بات میں ناک چڑھانا ، زجروملامت کرنا اور منفی نظریہ اختیار کرنا ۔ ہمارے نوجوان شاعر گوئٹے  نے ہماری زندگی کی بنیادی حماقت کا جو مدلل اور مضبوط جائزہ لیا ہے اس کی بنا پر مفسٹوفیلس کو بارآوری اور سرسبزی و شادابی میسر آتی ہے ۔ ایرک  اشمٹ اور گیورگ دٹکاوسکی نے بتایا ہے کہ گوئٹے جب بھی کوئی عامیانہ یا غیرملکی لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان  کا یہ اندازِ بیان اس بنیادی طریقہ کار کا جزو ہوتا ہے جس کے ذریعے تذلیل اور تحقیر کی روش اختیار کی جاتی ہے ۔ وہ کل کے بمقابلہ زمانہ حال کے آج زیادہ قائل ہیں ۔ اگر آج کل ٹائپ کی مشینوں پر کام کرنے والی لڑکیوں کو پتہ چل جتا ہے تو اپنی پوشیدہ برہمی  کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہیں کہ دفتر میں اگر کوئی توہین آمیز لفظ استعمال ہوتا ہے تو گھما پھرا کر اس کو فوراً فحش  گوئی کے معانی پہنا دیے جاتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے ایک قدیم خطاب کے تحت موجودہ سرگرمیاں اختیار کر رکھی ہیں کیونکہ تاریخی زمانے کے قبل دنیا میں شیطانی حرکات کی جڑ بنیاد بالکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی منجنیق ہوتی ہے اور بھدے طور پر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کسی پر کیچڑ اچھالنا یا خاک ڈالنا ۔ اب اگر دفتر والے اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں تو ان کو یہ بات سمجھنے کے لیے کچھ توقف سے کام لینا چاہیے کہ مفسٹوفلیس خود ہی اس امر پر روشنی ڈالتا ہے کہ انسان خود کو ہمزاد کی حیثیت سے ختم کر کے کسی صورت سے بھی بہتر حالت میں نہیں آتا ۔ مفسٹوفلیس نے دوبار جنبش کا براہ راست  تضحیک آمیز خاکہ اڑایا ہے ۔ اس نے ایک مرتبہ تو جنس کی روحانی تمنا کی شدت اختیار کرنے پر طنز کی ہے اور دوسری مرتبہ اس جذبے کی تحریص اور ترغیب کا مذاق اڑایا ہے جسے نفس پرستی کہتے ہیں ۔ اگرچہ کسی بڑے آدمی میں ظرافت کا عظیم احساس ہونا کوئی خاص تعجب کی بات نہیں ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وایمر کی سنت کو محض اہل قلم  ہونے کے باعث اتنا بلند مرتبہ حاصل ہو جائے ۔ وہ اپنا مذاق خود اڑا سکتے ہیں ، وہ اپنے شاہکار کو مخلوط کہتے ہیں ، انہوں نے اپنے تخلیق کے دیو پر نگاہ  کی جو آتش داں کے پیچھے پھول کر کھڑا ہو جاتا ہے ۔ اسی لیے انہوں نے شعر کو لکھاتھا کہ جس شیطان کو تصور میں لاتا ہوں ، وہ بڑی ہیبت ناک شکل اختیار کر لیتا ہے لیکن وہ تو اس سے بھی زیادہ  خرابی کا موجب تھا اور بشرطیکہ پرنگولا کے چوتڑوں  پر اس بوالعجبی کے علاوہ ایک سنجیدہ حاشیہ آرائی کی اجازت دے دی جاتی تو یہ ثابت بھی کیا جا سکتا تھا ۔ اس میں سوال پیدا ہو جاتا ہے ۔ تنقیدی قدر و قیمت کے اندازے اور اس طرح کم از کم اس حاشیہ آرائی سے نجات مل جاتی ہے جو کتاب کی پشت پر درج ہے ۔ سر ریونک امپ کے بارے میں جو اشعار درج  ہیں ان کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ نکولائی ایسے نقاد نے جس کی نظر میں خود اس کی بڑی اہمیت تھی اور جس کے دل میں مافوق الفطرت وجودوں کے نام سے نفرت کا شدید جذبہ تھا ۔ جیسا کہ آف کلارنگ کے نابالغ پیغمبر کے معاملے میں مناسب تھا ۔ گوئٹے پر بڑا سخت حملہ کیا تھا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نکولائی خود اسی مرض میں مبتلا ہو گئے جس میں انہیں خیالی بھوت پریت دکھائی دینے لگے ۔ اس پر نکولائی نے اپنا علاج خود تجویز کیا اور بڑی دیانت داری کے ساتھ اس کی اشاعت بھی کر دی یعنی یہ کہ ان کی پیٹھ پر جونکیں لگائی جائیں ۔ یہ تنقید گوئٹے کے حق میں حد  سے زیاددہ درست ثابت ہوئی لیکن ایک سنجیدہ طبیعت رکھنے والا قاری یہ دریافت کر سکتا ہے کہ آخر گوئٹے نے ایسی باتوں کو اپنے کارناموں میں  شامل کیسے کر لیا ۔ اصل یہ ہے کہ بردکن یا کوہ برز پر جہاں گوئٹے نے اپنی جادوگرنیوں کی والپرگس والی بدمستیوں کا نظارہ پیش کیا تھا ، وہمی بھوتوں پریتوں کے خیال نے گوئٹے کو شیطانی مکالموں کے دوران ایک بڑے پیمانے پر کام کرنے کے لیے آمادہ کر دیا تھا ۔ جس میں ایک شیطانی دربار کا انعقاد بھی شامل تھا ۔ اس عالم میں چنگاریاں اڑانے والے اشعار اوپیرا کے دونوں حصوں کے درمیان عجیب و غریب نغموں کی دھن میں منسلک تھے ۔ ابتداء میں ان کا ایک اور اسی کتاب میں شائع کرنے کا ارادہ تھا ۔ خیال تھا کہ اس کتاب میں اس طمطراق سی طنازی اور عشوہ بازی کا مضحکہ اڑانا مقصود تھا جو اس زمانے کے  ادب اور تمدن کا جزو تھے ۔ بردکن کے مناظر کا تقاضا یہ تھا کہ مصیبت آمیز انسانی حقیقت کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے فاؤسٹ کی طرف سے کچھ شوریدہ سرانہ عنصر داخل کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بعد میں ناراضگی کے ساتھ کہا تھا کہ لوگوں کو ان باتوں کا مزہ لینے کا موقع بھی دیا جائے ۔

ادا پیراؤں کے مابین اویرن اور ٹیٹنیا نے جو نغمہ سرائیاں کیں ان کو سن سن کر لوگ جھوم اٹھتے تھے ، اسی طرح پروفیسروں پر بھی حال طاری ہو جاتا تھا ۔ کچھ لوگوں کو  یہ باتیں پسند نہ تھیں ، وہ ان کو برا بھلا کہنے لگے اور انہوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ کہا جاتا ہے کہ فاؤسٹ کی جس ناراضگی کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ، اس کے اور حادثے کے مابین بمشکل ایک ایسا رشتہ یا صراط   ِ واپسیں قائم ہوتا ہے جو کافی مضبوط ہو لیکن گوئٹے نے اس مقام پر ایک خلا ارادتاً پیدا کیا ہے ورنہ انہوں نے اس کے بعد والے سین کو نثر میں کیوں ادا کیا ۔ ہم اس شیطانی حرکت کو قبول کر سکتے ہیں خواہ بحث سے اس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو ۔ اور ہمیں اس مقصدِ عظیم کی توانائی کے لیے سپاس گزار بھی ہونا چاہیے کیونکہ ایک سوال اس میں یہ اٹھتا ہے  جس کا ہم سے تعلق ہے کہ ہمارے راستے میں ہماری خودارادیت ہمیشہ سے کیا کرتی چلی آئی ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی خواہشوں اور ناامیدیوں کا جو عکس ایک حقیر لڑکی کے ساتھ ایک سیدھے سادھے عشق و محبت کے سلسلے میں پڑا ہے اس کے لیے اتنا عظیم اور شورانگیز مناقشہ برپا کرنے کی نوبت کیوں آئی ؟ کیا ان اجزاء میں تضاد نہیں پایا جاتا ہے ۔

یگانگت یا یکسانیت تو خود گوئٹے کی شخصیت میں پائی  جاتی ہے اور ایسے مقامات پر موجود ہے جہاں جنس خود اپنا ہی ثالث رہا ہے ۔ اگر خود غرضی تباہ کن ہوتی ہے تو اس کا عمل ایسی حالت میں اور بھی مہلک ثابت ہوتا ہے اور پھر جب اس کا تعلق ایک ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کی زندگی ہی ایک مخالف نوعیت کی ہو۔ یہاں مراد ہے عشق و محبت سے ۔ گوئٹے کا عقیدہ ہے کہ محبت کا درست عمل یہی ہے کہ وہ اپنی مرضی میں خود ہی فنا ہو جائے ۔ اس سے زندگی محفوظ ہو جاتی ہے ۔ اس کے تسلسل میں پہلے سے  بھی زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ دل کی گہرائی نیز تسخیر کن اداؤں کے لحاظ سے گوئٹے کے یاس و محبت کے بارے میں بہت زیادہ جاننے کا سبب موجود ہے اور جیسا کہ انہوں نے چارلوئی فان اسٹین کو لکھا تھا ، اس کے امکانات کا اندازہ بھی کیا جائے ، اسے ایک ستارے کی مضبوط سی گرفت سمجھی جائے یا ہولناک آگ کا ایک فتیلہ ۔ اور ان کا یہ گہرا عقیدہ تھا کہ اولیں سپردگی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ ان کی عمر بھی ہماری ہی طرح مشکوک تھی ۔ چالاک لوگوں کو جنھیں طبیعیات اور نفسیات میں کچھ دخل ہوتا ہے اور جو دوشیزگی کو محض عدم سہولت یا باعث تکلیف قرار دے بیٹھتے ہیں ، شاید وہ اس کی شکایت تسلیم کر لیں لیکن فلسفیانہ نقطہ خیال سے کمزور حیثیت میں اس کی دلیل تسلیم نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ فطرت کی نگاہ میں دوشیزگی کا انسداد کوئی ضروری چیز نہیں اور عقل کی رو سے یہ خیال ہوتا ہے کہ اکثر ایسے اشارات سے جس کی مکمل طور پر وضاحت  ہی نہیں ، ہماری زندگی کا معاملہ نہیں ہو سکتا  ۔ اس آسودگی کی سرمستی جس میں کسی دوسری روح کو مدعو کرنے کی طاقت ہوتی ہے ، ہمارے لیے رازِ خصوصی بنی رہتی ہے اور انسانوں نیز مفسٹوفلیس کی مکاریوں کے باوجود اور کسی  چیز کی بھی اہمیت اس سوال کے بمقابلہ انسانی مقدر کے ساتھ زیادہ قربت نہیں رکھتی ہے کہ کیا صحیح آسودگی کا میل خود پرستی یا ان کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ جب گوئٹے نے فاؤسٹ کے پرانے قصے میں بنیادی طور پر تبدیلی پیدا کر دی ، اس وقت گوئٹے کے دماغ میں بھی یہی سوال تھا ۔

فاؤسٹ کے حصہ دوم میں جس ہیلن کا ذکر آتا ہے اس کا کوئی انسانی وجود نہیں ہے ۔ فاؤسٹ کے ساتھ اس کی مواصلت ایک عقدہ ہے جو کلاسیکی اور رومانی آرٹ کے درمیان عمل میں آیا ہے ۔ اس میں استعارات کو دوسری شکل سے کام میں لایا گیا ہے لیکن حصہ اول میں تو معاملہ بالکل دوسری قسم کا ہے ۔ یاد رہے کہ گریچن کا سارا قصہ گوئٹے کی ابتداء کی تصنیف سے لیا گیا ہے اور عملی طور پر اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ زندگی کے اس موسم بہار میں شاعر کا دماغ ہیلن کے لیے کوشاں تھا بالکل اسی طرح جیسےو ہ نوعمر روح انسانی صعوبت کو ، اس کی تقدیر اور اس کی تمنا کو جزولاینفک بنا رہی تھی ۔ اس کے بعد اس کی عمر کا فروغی حصہ آیا ۔ اس زمانے میں بالغ اور ولولہ انگیز غوروخوص کا اضافہ ہوا گویا اس طرح ایک چھوٹے سے ادھار اور سود پر کام کرنے والے کی لڑکی شیطانی نکتہ چینی کے باوجود اب ساری دنیا کی  نگاہوں میں ہر طرف سے دادوتوصیف کا مرکز بن جاتی ہے ۔

حصہ دوم میں جہاں طول بیانی کا خاتمہ ہوا ہے ، فاؤسٹ کو بچا لیا جاتا ہے اور گریچن کی روح ان کی دعوے دار ہو جاتی ہے ۔ جو لوگ منطقی خاتمہ اور قدیم شاعر کی مذہبی فراست کو تلاش کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ گوئٹے کی اس فطری خواہش پر اس خیال سے صاد کریں گے کہ ان کے عمر بھر کے کام کو ان کے زمانہ شباب کے کارناموں سے بالکل علیحدہ نہ کیا جائے لیکن آنے والی نسل نے کچھ اور ہی فیصلہ کیا یعنی جی ایچ لیوس کے دل میں اتنی ہمت ہوئی جنہوں نے اپنی زندگی کو کسی اور انگریز کے بمقابلہ گوئٹے پر ان معنوں میں زیادہ قربان کر دیا کہ آج سے ایک سو سال پہلے ہی اس کے اسباب پر روشنی ڈال دی تھی ۔ انہوں نے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ حصہ دوئم میں اتنی انسانی دل کشی نہیں ہے جس کی طرف ہماری توجہ مبذول ہو جائے ۔ حالانکہ حصہ اول میں پہلی ہی بار پڑھنے اور دلچسپی کا بہت کچھ سامان مہیا ہو جاتا ہے ۔ اس میں ہر قسم کا عنصر پایا جاتا ہے یعنی بذلہ سنجی ، ہمدردی ، دل سوزی ، عقلمندی ، طنزو تضحیک ، خوش گلو موسیقیت ، ادب و تعظیم ، شک و شبہ ، سحروافسوں اور ہجو و طعنہ سنجی ۔ نوس نے جو فہرست تیار کی ہے اس میں بڑی ہوشیاری سے کام لیا ہے لیکن سچ پوچھیے تو گوئٹے کے فاؤسٹ کے کبھی نہ ختم ہونے والے تاثرات ہر قسم کے پڑھنے والوں کے ذہنوں پر پڑے ہیں اور اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ دونوں شامل ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭

مذکورہ بالا اقتباسات فاؤسٹ کے اس ایڈیشن سے لیے گئے ہیں جو پینگوین سیریز میں فلپ ویں کے انگریزی ترجمہ میں مشمولہ دیباچے کا اہم حصہ ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان اقتباسات میں جو اعلیٰ پائے کی تنقید پائی جاتی ہے اس کے مخاطب بیشتر انگریز ہیں لیکن اس تنقید سے ہم ہندوستانیوں کو  بھی بہت مدد گوئٹے کی ادبی نگارشات کا جائزہ لینے اور خاص طور پر ان کے لافانی ڈرامے فاؤسٹ کے محاسن جمیلہ کا اندازہ لگانے میں مل سکتی ہے ۔ فاؤسٹ کی تصنیف کو ڈیڑھ صدی سے اوپر کا زمانہ گزر گیا ہے اور یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں تاریخ اور ادب دونوں کو ایک ساتھ رکھ کر ہمیں اس کی عظمت و اہمیت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ ڈرامہ فاؤسٹ کی ابتداء اور اس کے بعد کی ارتقا کا ایک مختصر سا خاکہ ان اقتباسات میں مل جائے گا ۔ اگرچہ فاؤسٹ کے اور جتنے ترجمے انگریزی زبان میں ہوئے ہیں ان سب میں سے بڑی تفصیل کے ساتھ ان حقائق کو منظر عام پر لایا گیا ہے ۔ اردو میں جناب ڈاکٹر عابد حسین جامعی کا جو ترجمہ انجمن ترقی اردو سے تیس بتیس سال  پیشتر شائع ہوا تھا ، اس میں بھی فاؤسٹ کے خدوخال بڑی تحقیق اور تفتیش کے ساتھ جاگر کیے گیے ہیں ۔

اگرچہ اس تحقیق اور تفتیش کا دارومدار جرمن یا انگریزی ادب پر ہے ، ہندی زبان میں بھی فاؤسٹ کا ایک ترجمہ منظر عام پر آ چکا ہے لیکن دوسرے تمام ہندی ترجموں کی  طرح فاؤسٹ کا ہندی ترجمہ بھی انگریزی ترجموں کے بمقابلہ زیادہ سنگلاخ نظر آتا ہے اور اس ہندی ترجمے کے شروع میں جو تفصیلات فاؤسٹ کی تخلیق اور اس کے ارتقا پر درج کی گئی ہیں وہ بھی اردو کے بمقابلہ زیادہ آسانی سے سمجھ   میں نہیں آتیں ۔ اصل یہ ہے کہ اردو ہو یا ہندی، فاؤسٹ کے متعلق ہر قسم کی تفصیل صاف ستھری غیر  مغلق اور روزمرہ کی زبان میں ہونا چاہیے تاکہ اردو اور ہندی میں بھی فاؤسٹ کو پڑھے والے اس کے مطالب اور مفاہیم کو زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں ۔ فاؤسٹ کا میں نے کئی سال تک بڑی عرق ریزی اور جانسوزی کے ساتھ یہ جو شعری ترجمہ پیش کیا ہے وہ جیسا کہ ظاہر ہے انگریزی زبان سے کیا ہے اور میں نے سب سے زیادہ مدد اور مشورہ لیتھم کے ترجمے سے لیا ہے ۔ میری بڑی خوش قسمتی ہے کہ میرے ترجمے کو جرمنی والوں نے خاص پر امید سے زیادہ پسند کیا ہے ۔ یہ صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ تمام ہندوستانی ادب اور سارے ملک کے لیے یکساں فخروانبساط کا باعث ہے ۔

ہندوستان میں مغربی جرمنی کے قابل تعظیم سفارت کدے سے میرے اس ترجمے کے متعلق مجھے جو پہلی تحریر ملی ، اس میں میری اس کاوش کو حیرت انگیز طور پر قابل قدر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے بعد جرمن سفارت خانے کے سفیر اعظم جناب ہز ایکسیلنسی  جناب میربخ نے بطور تقریظ اس اشاعت میں جو الفاظ درج فرمائے ہیں ، ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گوئٹے کے ادبی ارتقا کو کتنا زیادہ ہندوستان کا مرہون منت   سمجھتے ہیں ۔ اور ان کی خواہش ہے کہ ہندوستان کی تمام دوسری زبانوں میں بھی جرمنی کے زندۂ جاوید اور شہرہ آفاق فلاسفر شاعر اور تمثیل نگار گوئٹے کے عدیم المثال کارناموں کو منتقل کیا جائے تاکہ ہندوستان اور مغربی جرمنی کے ثقافتی تعلقات کا آفتاب روز بروز روشن سے روشن تر ہوتا چلا جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں مغربی جرمنی کے ارباب بست و کشاد کا ذاتی طور پر بھی بے حد ممنون ہوں  جن کے حسن اخلاق سے گوئٹے اور ان کی فاؤسٹ کے طفیل ہم دونوں کے درمیان صرف رابطہ ، اتحاد ہی نہیں قائم ہوا بلکہ جرمنی والوں نے میری خدمات دوسری صورتوں سے بھی حاصل کی ہیں اور امید ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی تادیر قائم رہے گا ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply