• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرٹن یونیورسٹی آسٹریلیا میں احتجاجی خیمہ بستی کا منظر/عاطف ملک

کرٹن یونیورسٹی آسٹریلیا میں احتجاجی خیمہ بستی کا منظر/عاطف ملک

مسافر آسٹریلیا کی کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کے قائم شدہ احتجاجی خیمہ بستی کو روانہ ہے۔

مسافر یونیورسٹی میں داخل ہوا تو خاموشی ہے۔ اتوار کو یونیورسٹی بند ہوتی ہے۔ پارکنگ لاٹس خالی ہیں۔ مسافر کا سفر جاری ہے۔ پہلی پارکنگ کو چھوڑ دیا، اگلے کی جانب گاڑی ڈال دی۔  گاڑی کی درمیانی سکرین کے نقشے پر ایک نقطہ سفر میں ہے۔ مسافر بھی ایک ذرہ ہے جو یونیورسٹی کی راہوں پر سفر میں ہے۔ یونیورسٹی خاموش ہے۔ مسافر اِن راہوں کو نہیں جانتا مگر وہ ان سے باخبر ہے۔ مسافر ملک ملک یونیورسٹیوں میں ایسی راہوں پر چلا ہے، راہ بھولا ہے، عمارتوں کے نمبر لگے، دروازے مقفل، کئی راہ برف سے اٹے تھے، کئی راہ بل کھاتے جاتے تھے، راہ چڑھتے تھے، پھر اترتے تھے، سیڑھیاں اوپر نیچے جاتی اور نمبر لگی عمارتوں میں بکھرے بالوں کے مصداق بل کھاتی راہیں جا پہنچتی تھیں۔ یہ یونیورسٹی کی راہیں وہ راہیں ہیں جو طالب علموں کی زندگی کے سفر میں شاہراوں کا کردار ادا کریں گی۔ یہ طالب علم کل مختلف شعبوں میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

یونیورسٹی خاموش ہے، کچھ کمروں میں روشنی ہے،  شاید کوئی یونیورسٹی پروفیسر ہےجو کسی ڈیڈ لائن پر کام کررہا ہے،  شاید کوئی پی ایچ ڈی طالب علم  ہے جو اپنی ریسرچ کے کسی تجربے کو جاری رکھے اپنی لیب میں پایا جاتا ہے۔ ورنہ سب خاموش ہے۔

دوسری پارکنگ بھی خالی ہے، مگر ایک کونے میں ایک گاڑی کھڑی ہے،  اکیلی۔ مسافر نے اپنی گاڑی اس گاڑی کے ساتھ لا کر کھڑی کردی۔ اپنی گاڑی کی اگلی سیٹ پر پڑے چوکور خانے دار فلسطینی رومال کو گلے پر لپیٹتے مسافر نے دوسری گاڑی پر نگاہ ڈالی۔ اُس گاڑی کا پچھلا دروازہ کسی حادثے کا شکار ہو کر ڈینٹ زدہ ہے ۔ گاڑی کے قریب سے  گذرا تو دیکھا کہ پچھلے شیشے پر آزادیِ فلسطین کا سٹکر لگا تھا۔ گاڑی پر سٹکر کے ساتھ کسی لمبے سفر کی نشانی جمی مٹی کی صورت تھی۔ مسافر نے ہاتھ بڑھایا اور مٹی کو انگلیوں سے اپنی ہتھیلی پر اتار لیا۔ ہتھیلی پر دھری مٹی کو غور سے دیکھا؛ مٹی، کچھ ذرات، ریزے، نقطے، بے ترتیب، پریشاں،چپ سادھے، کچھ نہ بتاتے۔

مسافر نے دیکھا، ہتھیلی پر زندگی کی لکیر مٹی سے ڈھک گئی تھی۔

غور سے دیکھا تو مٹی کہانی سناتی تھی، زمین پر قبضے کی خونی داستانیں، غاصب اور مغصوب کی کہانی، لٹیروں اور لٹ جانے والوں کی کہانی، خون سے لتھڑی داستانیں، ہاتھ پر دنیا کی کہانی تھی، طول و عرض کی کہانی۔ اس لمحے ہاتھ کی ہتھیلی میں جہان تھا۔  براعظموں پر پھیلی کہانی تھی، کہانی لمبی تھی، صدیوں کا احاطہ کرتی، زمانوں پر مشتمل، قرن ہا قرن پر پھیلی استعمار کی کہانی۔ ماضی قریب میں  ہسپانویوں اور پرتگالیوں کا امریکہ میں مقامی آبادی کی نسل کشی، فرانسیسیوں کا افریقہ میں قتلِ عام، ڈچ آبادکاروں کے انڈونیشیا میں مظالم، برطانوی راج کی امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ اور ہند میں بربریت، ساوتھ افریقہ کی نسل پرست حکومت  کے اقدام اور پچھتر سال سے اسرائیل کی فلسطین میں نسل کشی، سب ہتھیلی پر پڑا تھا۔

چپ سادھے مٹی چیخ چیخ کر بولتی تھی۔

مسافر گاڑی کھڑی کرکے طالب علموں کے قائم شدہ احتجاجی خیمہ بستی کو چل پڑا۔ یہ بستی کرٹن یونیورسٹی کے ایک کونے میں ایک اونچے لان میں قائم کی گئی ہے۔  ان طالب علموں کا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی اسرائیل سے متعلقہ اپنی سرمایہ کاری کا بتائے اور یہ تعلق ختم کرے بلکہ ان تمام کمپنیوں سے بھی اپنا تعلق ختم کرے جو اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں، ان میں  خصوصاً ہتھیار بنانے والی کمپنیاں شامل ہیں۔

انیس سو اڑسٹھ میں کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کے طلباء نے ویت نام کی جنگ کے خلاف یونیورسٹی بند کروادی تھی۔ انیس سو پچاسی میں اسی کولمبیا یونیورسٹی کے طلباء نے ساوتھ افریقہ کی نسل پرست حکومت سے تعلق یا کاروبار کرنے والی کمپنیوں میں اپنی یونیورسٹی کی سرمایہ کاری کو ایسے ہی احتجاج سے ختم کروایا تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور فلسطینی نسل کشی کے خلاف اسی کولمبیا یونیورسٹی کے طلباء دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج کے ہراول دستے کے طور پر ابھرے ہیں۔ حراستیں، ریاستی جبر، ظلم ستم ان طلباء کو ہراساں کرنے میں ناکام رہی تھی، کئی دہائیوں قبل بھی ناکام ہوئی اور اب بھی شکست کھائے گی۔ مسافر اس سفر کو محسوس کرنا چاہتا تھا، آگ سے پائی حرارت عارضی ہوتی ہے، جذبے سے پائی گئی حرارت زندہ رہتی ہے۔ مسافر دیوانوں سے ملاقات کا متلاشی تھا۔

مسافر سیڑھیاں چڑھ کر احاطے میں داخل ہوا۔ مسافر کے عقب میں یونیورسٹی کا کھیل کا میدان ہے، جس  کی ایک جانب چار جھنڈے لگے ہیں۔ ان میں سے ایک جھنڈا مقامی ایب اوریجنل آبادی کا ترجمان ہے۔ جھنڈے میں دو مستطیل ہیں اور درمیان میں ایک زرد دائرہ ہے۔ یہ دائرہ سورج کو ظاہر کرتا ہے جو زندگی کا نشان ہے۔ اوپری سیاہ مستطیل ایب اوریجنل قوم کا عکاس ہے جبکہ نچلا سرخ مستطیل دو معنی رکھتا ہے، سرخ صحرائی زمین کا رنگ اور مقامی لوگوں کے بہے لہو کا نشان۔ زمین کو غصب کرنے کے عمل میں بہتا لہو اب علم کا نشان ٹھہرا ہے۔

 

کھیل کے میدان میں ایک جانب یہ جھنڈا ہوا میں لہرا رہا ہے، اور میدان کے ساتھ گذرتی سڑک کے دوسری جانب مختلف سائز کے تیس سے چالیس خیمے پھڑپھڑاتی ہوا میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کوشاں ہیں۔ ایک جانب سرخ تکون سے جڑے سبز، سفید اور سیاہ مستطیلوں والے فلسطینی جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ مسافر سفر میں ہے۔ آسمان پر پرندوں کا ایک جھنڈ شور ڈالے گذر رہا ہے۔ اپنی آزادی کا اعلان کرتا، جبکہ خیمہ بستی کے کونے پر کپڑے کے ایک بینر پر ایک نعرہ ہے، ایک نعرہ آزادی، ایک نعرہِ دیوانگی جو انیس سو ساٹھ  سے اپنی آواز بلند کیے ہے، ” دریا سے سمندر تک، فلسطین کی آزادی تک”۔ یہ مشرق میں دریائے اردن سے بحیرہ روم تک آزاد فلسطین کی خواہش ہے، آج اسے اختیاری دنیا دیوانگی کا خواب جانتی ہے مگر دنیا میں دیوانے اس نعرے کو لگاتے رہتے ہیں، لگا رہے ہیں، لگاتے رہیں گے۔ مسافر دیوانوں کی بستی میں ہے۔

فضا میں کچھ بے اختیار ہے، کوئی سحر، کوئی خواب، کوئی انا الحق کا نعرہ، کوئی دیوار سے سر پھوڑنے کا پاگل پن، سب مایا ہے کا اعلان،  پرندوں کا ایک اور جھنڈ خیمہ بستی کے اوپر سے شور کرتا گذر رہا ہے۔ مسافر ایک تاریخی لمحے کا حصہ ہے۔  وہ ایک ذرہ ہے، بے حیثیت، کچھ بھی نہیں، مگر وہ جانتا ہے کہ یہاں اس کے اردگرد پھیلے وہ ذرات ہیں کہ “لہُو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چِیریں”، مسافر ان سے ضیاء پاتا ہے۔

لوگ کھانے لے کر آرہے ہیں۔ مسافر یونیورسٹی یونین کے لگائے گئے خیمے کے سامنے لگے میز پر گھر سے پکائے کھانے کو پیش کرتا ہے۔ فلسطینی کوفیہ رومال گلے میں لپیٹے گوری لڑکی کہتی ہے، تیرا آنا ہی بہت ہے، تجھے کھانا لانے کی ضرورت نہ تھی کہ ہمارے پاس لوگ بھانت بھانت کا کھانا لے کر آرہے ہیں۔ اتنے میں ایک حجاب پہنے انڈونیشین خاتون بھی کھانا اٹھائے آن پہنچی۔ مسافر کیا کہتا، بے نواوں کے پاس عقیدت کے اظہار کے اور طریقے نہ تھے۔

یونیورسٹی کی طلباء یونین اس احتجاج کے ساتھ ہے۔ یونین کا اپنا بڑا خیمہ نصب ہے اور یونین ہی اس بستی کی منتظم ہے۔ طلباء اور ان کی یونین وقتِ موجود میں سچ کا تعین کر پائی ہے، وقت جب حکومتیں چپ سادھے نسل کشی کو جنگ کا نام دیے ہیں، وقت جب غرض نے اختیار رکھنے والوں کو بے اختیار کیا ہے، وقت جب ہاں نہیں بلکہ نہ سچ کا علمبردار ہے۔  ایسے میں اس خیمہ بستی میں یہ ذرات بکھرے ہیں، کچھ بھی نہیں اور سب کچھ ۔  کیا خبر کب جبر کا دستہ آن پہنچے، تعلیمی سفر متاثر ہو، پولیس اور ریاستی جبر بستی توڑ ڈالے۔ مجبور کے ساتھ کھڑے ہونے والے سب خدشات رکھے ہیں، مگر وقتِ موجود میں آگاہی خدشات پر بھاری ہے۔

یہ وقت تربیت کا ہے، کل کے رہنما انہیں خیمہ بستیوں سے نکلیں گے۔ وہ جن کی آگاہی غرض پر بھاری ہوگی۔ مسافر تاریخ کے دھارے پر سوار ہے۔ وہ دیوانوں کی بستی میں ہے۔

طالب علم خیموں کے درمیان فولڈنگ کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ یہ مختلف قومیتوں، نسلوں، تہذیبوں کے رنگ ہیں۔ کان چھدوائے گورے، حجاب اوڑھے لڑکیاں، نیکروں اور چپل میں ملبوس سفید فام، عربی جُبے پہنے نوجوان، شلوار قمیص پہنے پاکستانی، سیاہ رنگ افریقی اور ایب اوریجنل نسل کے نمائندے۔ میرے دائیں  عینک پہنے ایک گوری لڑکی ہے جس کے بال سیاہ ہیں، جین کی پتلون اور سفید ٹی شرٹ پہنے اُس کے چہرے پر افسوس کا تاثر ہے، اس کے ساتھ چھوٹے قد کی خاتون ہے جس نے سر پر کفایہ باندھ رکھا ہے، اس کی سیاہ ٹی شرٹ پر تربوز کی قاش بنی ہے۔ جب انیس سو ستاسٹھ میں  اسرائیل کی جانب سے فلسطینی جھنڈے پر پابندی لگی تو فلسطین میں اگتے تربوزوں کی قاش اپنے سرخ، سبز رنگ اور سیاہ بیجوں سے جھنڈے کا بدل ٹھہری۔ زمین سے اگتا زمیں کا استعارہ ٹھہرا۔ آج فلسطینی کفایہ رومال کے ساتھ تربوز کی قاش فلسطینی جدوجہد کا اشارہ ہے۔  ان دونوں کے ساتھ سیاہ لباس میں ایک افریقی طالبہ ہے۔  اس کے کاندھے پر سرخ کفایہ اور سیاہ حجاب پر دھوپ کا چشمہ دھرا ہے۔ میرے بائیں جانب پینٹ شرٹ پہنے ہلکے سیاہ رنگ کا گٹھے جسم کا جوان ہے۔ وہ سری لنکن تامل ہندو ہے، کہنے لگا، میں  طالب علم نہیں مگر میں یہاں اپنی حمایت دکھانے آتا ہوں۔ میرا اپنے ملک میں تامل قوم کی نسل کشی کا ذاتی تجربہ ہے، میں اپنا دکھ یہاں ساتھ لے کر آتا ہوں۔ اس نے ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا جہاں فلسطینی کفایے کا ایک پلو لٹک رہا ہے، کہنے لگا فلسطین کا دکھ میرے دل میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ادھیڑ عمر گورا ہے۔ اس کا چہرہ جھریوں سے سجا ہے، گلے پر سفید سیاہ کفایہ لپٹا ہے۔ کاندھے پر ایک بیگ لٹک رہا ہے اور اس نے فلسطینی جھنڈے کے سرخ، سبز اور سیاہ رنگ کی ٹوپی سر پر پہنی ہے۔ وہ یقیناً طالب علم نہیں۔ وہ مسافر سے مخاطب ہے، “برادر، کیا میں یہاں آج کی رات گذار سکتا ہوں، میں ان بچوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں”۔ مسافر اُسے یونین کے خیمے کی جانب روانہ کر دیتا ہوں۔ ایک بوڑھی آسٹریلین خاتون اپنے کتے کے ہمراہ آئی ہوئی ہے۔ وہ بڑے جذبے سے بات کرتی ہے۔

مسافر ایک فلسطینی طالب علم سے بات کرتا ہے۔ اس کا تعلق مغربی کنارے  (ویسٹ بینک) سے ہے۔ اس کی آنکھیں بے رونق اور چہرہ سپاٹ ہے، کسی بھی قسم کے جذبات کے اظہار سے عاری، اس کے گرد دکھ کا گہرا ہالا ہے۔ اس نے مسافر سے بات  کی کہ صیہونیوں کے پاس ہمارے لوگوں کی معلومات ہیں، ان کا ڈیٹا ہے، وہ ہمارے ڈاکٹر، استاد، شاعر، محقق، صحافی غرض فلسطینی اشرافیہ اور ان کے خاندان چُن چُن کر مار رہے ہیں۔ یہ بات کرتے بھی اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں۔ مسافر نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور سوچنے لگا کہ اُن لوگوں کی کیا ذہنی حالت ہوگی جو آسمان سے برستے بموں، بے درد قتلِ عام، اقوام عالم کی بے حسی، بھوک کے عذاب کو جھیل رہے ہیں، مسلسل جھیل رہے ہیں۔ دہائیاں گذر گئی ہیں مگر دُہائی کسی پر اثر نہیں لائی۔

اقوام متحدہ بے بس  ہے مگر اس خیمہ بستی میں مختلف اقوام کے یہ نمائندہ طالب علم  اپنے بس کے مطابق کھڑے ہیں۔ کرٹن یونیورسٹی کی اُس خیمہ بستی میں یہ انسانی ذرے بکھرے ہیں اور موجود ہیں۔

سورج غروب ہورہا ہے، افق خون رنگ ہے، مگر جلد ہی سویرا  ہوگا۔

خیمہ بستی کے دوسری جانب سرخ اینٹوں کے چار پانچ فٹ کے تین پلیٹ فارم بنے ہیں جن کے ساتھ سیڑھیاں اوپر جارہی ہیں۔  کچھ طلباء اور رضاکار وہاں سپیکر اور موسیقی کے آلات لگا رہے ہیں۔ وہ دو قطار میں بیٹھ گئے ہیں۔ پچھلی قطار میں ایک سات آٹھ سال کی بچی دف لیے بیٹھی ہے، اس کے ساتھ حجاب اوڑھے لڑکی کی گود میں افریقی ڈرم ہے جو وہ ہاتھ کی ضرب سے بجائے گی۔ اس کے ساتھ فلسطینی کفایہ گلے میں لپیٹے ایک ملائشین عالم ہے، جس کے پیچھے مسافر نے کئی جمعوں کی نمازیں پڑھی ہیں۔ عالم کے ہاتھ میں دف ہے اور اس کے بائیں ایک طالب علم منہہ سے بجانے والا ساز سیکسو فون لیے ہے اور اس کے ساتھ ایک طالب علم کندھے پر وائلن ٹکائے، تاروں پر چھڑی پھیرنے کو تیار ہے۔  اگلی قطار میں گٹار لیے ایک طالب علم ہے، جس کے ساتھ ایک گلوگار ہاتھ میں مائیک لیے ہے، اور  ساتھ کفایہ لپیٹے ایک اور گلوگار ہے۔

ساز بجنے لگے ہیں، دھن زندگی سے معمور ہے۔ طالب علم اپنی نشستیں اور خیمے چھوڑ کر سازندوں کے سامنے آگئے ہیں۔ گروپ اب فلسطینی مزاحمت کا گیت گا رہا ہے، ” انا دمی فلسطینی”، میرا خون فلسطینی ہے۔  سامنے کھڑے طلباء نے دھن کے ساتھ اپنی تالیوں کو ہم آہنگ کردیا ہے، گیت پرجوش ہے۔

میرا خون فلسطینی ہے، فلسطینی، فلسطینی

تم مجھے میری زمین پر پاو گے
میں اپنے لوگوں کے لیے ہوں

میں اپنی جان اپنے لوگوں کے لیے قربان کردوں گا

میرا خون فلسطینی ہے، فلسطینی، فلسطینی

ایک عرب طالب علم آگے آگیا ہے۔ وہ سب کو فلسطین اور ملحقہ علاقوں کے رقص دبکہ کے لیے بلاتا ہے۔ یہ دائرے کا رقص ہے، جس میں ہاتھ پکڑے لوگ گھومتے ہیں۔ مختلف اقوام کے چار پانچ طالب علم آگے بڑھتے ہیں، مسافر بھی قدم بڑھا کراس گروپ میں شامل ہے۔ کچھ طالب علم جانتے ہیں کہ مسافر شہر کی دوسری یونیورسٹی میں پروفیسر ہے۔ مسافر اپنے آپ کو امریکہ کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے اتباع میں پاتا ہے جو احتجاجی طلباء کے گرد حفاظتی زنجیر بنا کر کھڑے ہوئے ہیں۔ مسافر اتنا بہادر نہیں مگر وہ اپنا حصہ ڈالے گا، ان ناچتے نوجوانوں کے سنگ وہ بھی ” میرا خون فلسطینی ہے” کی لے پر ناچے گا۔

ہمیں یہ رقص نہیں آتا۔ عرب طالب علم ہمیں سمجھاتا ہے، ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لو، دو قدم بائیں جانب کو لو، پھر قدم کو اپنے آگے رکھو، پھر پیچھے کو رکھو اور پھر سامنے کو پیر مارنا ہے۔

موسیقی جاری ہے، ہم دھن پر دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

میرا خون فلسطینی ہے، فلسطینی، فلسطینی

تم مجھے میری زمین پر پاو گے
میں اپنے لوگوں کے لیے ہوں

میں اپنی جان اپنے لوگوں کے لیے قربان کردوں گا

میرا خون فلسطینی ہے، فلسطینی، فلسطینی

ہم نوآموز ہم قدم نہیں، مگر یہاں اس خیمہ بستی میں موجود بھانت بھانت کے لوگوں کا دل فلسطین کے ساتھ ہم آواز ہے۔ یہ مختلف ہیئت کے ذرات ہیں۔

ذرات جو اکٹھے ہورہے ہیں۔ دنیا کے مختلف کونوں، براعظموں، تعلیمی اداروں، شہروں، قریوں، چوکوں، شاہراوں پر اکٹھے ہورہے ہیں۔ ذرات جو ایک وقت  مل کر بگولا بنیں گے اور رقص کریں گے۔ رقص، رقصِ بے خودی، اور پھر سب کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے جاتا ہے کہ بگولا رقص میں رہتا ہے۔

مسافر ایک ذرہ ہے اور دوسرے ذرات کے ہمراہ رقص میں ہے ، اور بگولا رقص میں رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فضا میں ایک لے ہے،  میرا خون فلسطینی ہے، فلسطینی، فلسطینی۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ کچھ تحاریر درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply