• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(انتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(انتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کراچی میں کرفیو تو ختم ہو گیا لیکن حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی۔ دہشت کا ماحول گرم تھا۔
بہت سے لوگ خوفزدہ ہو کر اپنے خاندانوں سمیت کراچی سے چلے گئے تھے۔ اُس زمانے میں بوسنیا بھی جنگ و بربریت کا شکار تھا۔ اپّی ہمیں اخبارات کی شہ سرخیوں کی روشنی میں بتایا کرتی کہ
“وہاں بوسنیا میں بہت ظلم ہو رہا ہے، مسلمانوں کو چُن چُن کر قتل کیا جا رہا ہے اب ایسی ہی صورتحال کراچی میں بھی جنم لے چکی ہے لیکن یہاں پر مسلمان ہی مسلمان کو مار رہا ہے، جبکہ بوسنیا میں غیرمسلم قومیں، مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہی ہیں”۔

ہمارے محلے سے تھوڑا دور ایک بنگلہ نما گھر تھا جس کی دیواروں پر کالا رنگ تھا۔ وہ گھر مستقل بند رہتا، اس کی دیواروں پر گولیوں کے نشانات بھی تھے۔ محلے میں یہ خبر مشہور تھی کہ اس گھر کے مکینوں کو شہر کے ایک سرگرم سیاسی گروپ نے تعصب کی بنا پر قتل کیا تھا کیونکہ وہ لوگ دوسرے سیاسی گروپ کے حمایتی تھے۔ ہم اکثر اوقات اس گھر کو دیکھنے کے لیے جاتے اور اس بات پر افسوس کرتے تھے کہ اتنا بڑا گھر ہے لیکن اس کے سب لوگ قتل ہو گئے۔۔۔

ایک دن جنگ اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد اپّی نے ہمیں بڑے فخر سے بتایا کہ کابل میں اسلامی حکومت آگئی ہے، یہ ریڈیو، ٹی وی شیطانوں کی ایجادات ہیں اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے بعد اب افغانستان کا شہر کابل ایک خالص اسلامی شہر بن جائے گا۔ طالبان کی حکومت میں لوگ اب سکون سے اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزاریں گے۔
یہ تو ہمیں اُس وقت معلوم ہی نہیں تھا کہ طالبان کی حکومت کس طرح بنی یا پہلے افغانستان میں کس کی حکومت تھی کیونکہ ان سب باتوں پر دیانتداری سے غوروفکر کرنا تو ایک آزاد اور تعصب سے پاک شخص کا ہی کام تھا اور ہم ٹھرے لکیر کے فقیر، جس نے اخبار سے جو پڑھ کر سنا دیا اس کو سچ مان کر عقیدت پرستی شروع کر دی۔ اس لیے ہم سب کابل کی اسلامی حکومت کی محبت میں گرفتار ہو گئے، روزبروز طالبان کی حکومت کے لیے ہمارے دل میں بےپناہ گنجائش بنتی چلی گئی۔ کچھ ہی عرصے بعد ہمارے ملک کے وزیراعظم نواز شریف نے بھی اعلان کر دیا کہ پاکستان میں ہم شریعت نافذ کریں گے۔

ٹی وی کی خبروں پر ان کے بیانات سن کر ہم خوشی سے نہال ہونے لگتے کہ اب سچّی حکومت آنے والی ہے جس کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ان ہی دنوں ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے والے مختلف فنکار شریعت کے حق میں وزیراعظم کی تائید میں اخبارات میں اپنے انٹرویو بھی دینے لگے۔ اس بات کا تو مجھے علم نہیں کہ کون سے فنکار شریعت کے حق میں بیانات دے رہے تھے اور کون سے فنکار شریعت کے خلاف بیان دے رہے تھے، ہم بس اپّی سے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کو سن کر اپنی ذہن سازی کر رہے تھے۔ ایک شام اپّی نے ہمیں بتایا کہ:
“آج ندا ممتاز کا اخبار میں بیان شائع ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ اگر شریعت نافذ ہو گئی تو وہ برقعہ پہن کر ٹی وی ڈراموں میں کام کرے گی”
ہمیں ندا ممتاز کا یہ بیان بہت اچھا لگا اور ہم دل ہی دل میں اس کے لیے دعائیں کرنے لگے کہ کتنی نیک اداکارہ ہے برقع  کی حمایت میں بول رہی ہے۔ کچھ ہفتوں تک اس قسم کی چیزیں چلتی رہیں اور پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ شاید اس بارے میں اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہوں لیکن ہم ذاتی طور پر ان سے ناواقف تھے کیونکہ ہمیں خود سے اخبار پڑھنا نہیں آتا تھا۔

ہندوستان نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے تو یہاں پر بھی شور ہونے لگا کہ ایٹمی دھماکے کر کے حساب برابر کیا جائے، ہم  سکول جاتے تو ٹیچرز بھی یہی باتیں کر رہی ہوتیں کہ اب بہت مشکل وقت آن پہنچا ہے، ہندوستان ہم پر حملہ کر دے گا۔۔۔ اگر پاکستان نے جوابی کارروائی نہ کی تو ہمارا وجود ختم ہو جائے گا۔ اُن دنوں معمول سے کچھ زیادہ ہی گرمی پڑی تھی جس پر ہمارے  سکول کے ٹیچرز ہمیں آگاہ کرتے کہ “یہ جو ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے ہیں اس سے ماحولیات میں ابھی مزید تبدیلیاں رونما ہوں گی، گرمی کی تیز لہر پھیلنے کا خدشہ ہے اس لیے آپ لوگ اپنے آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے کٹی ہوئی پیاز کے ٹکڑے رکھیں اس کو کھانے سے لُو نہیں لگے گی اور آپ بھی محفوظ رہیں گے”

وہ بالکل جنگ جیسی فضا تھی، پاکستان ایٹمی دھماکے کر سکے گا یا نہیں۔۔۔۔ کیا ہندوستان ہمارے ملک پر ایٹم بم گرا کر ہمیں اپنا حصہ بنا لے گا؟۔ کیا 1965 کی طرح جنگ ہو گی۔۔۔۔؟ اس طرح کی خوفزدہ کرنے والی باتوں میں ہم ہر وقت الجھے رہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ پاکستان جلدی سے ایٹم بم کا دھماکہ کر دے۔۔۔
آخر ایک روز پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کر لیے اس دن ہم سب بہت خوش تھے، عید جیسا ماحول تھا، مٹھائی کی دکانوں پر بھی خوب رش تھا، اخبارات کے  سٹالز پر لوگ بڑھ چڑھ کر خصوصی ایڈیشنز لے رہے تھے، اس شام ابّو جب گھر آئے تو ان کے ہاتھ میں مختلف اخبارات کا ایک موٹا پلندہ تھا ہم نے جلدی جلدی ان سے وہ اخبارات لیے اور ایٹمی دھماکوں کی تصویریں دیکھ دیکھ کر خوش ہونے لگے۔
ایٹمی دھماکوں کے چند دن بعد اپّی نے ہمیں ایک اخبار سے خبر پڑھ کر سنائی کہ
“جاپان پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے تجربات سے خوش نہیں ہے، اس نے ایک خط بھی لکھا ہے کہ پاکستانی لوگوں کو ایٹم بم کی خوشی میں جشن مناتے ہوئے چاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی کو یاد کر لینا چاہیے”
ہم نے اپّی سے پوچھا کہ یہ ناگاساکی کیا ہے اور جاپان کیوں ایسا کہہ رہا ہے۔۔۔ تو انہوں نے ہمیں بتایا
“یہ جاپان کے شہر ہیں جہاں پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا تھا اور اس سے بہت لوگ مر گئے تھے”۔
اس وقت ملک کی محبت میں ہم سمجھتے تھے کہ یہ غیرمسلم قومیں تو کبھی خوش نہیں ہوں گی کہ پاکستان ترقی کرے اور ایٹمی قوت بنے۔ ٹی وی، اخبارات، خاندان اور   سکول کی ٹیچرز کے پروپیگنڈے کا شکار ہم لوگ جاپان کے درد کو نہیں سمجھ سکتے تھے اور نہ ہی ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے ہمیں کوئی سروکار تھا۔ ہم تو بس اس چیز میں خوش تھے کہ پاکستان اب ایک ایٹمی قوت ہے اور کوئی اس کو نہیں مٹا سکتا۔
آج میں جب اُس وقت کو سوچتا ہوں تو مجھے وحشت سی ہونے لگتی ہے، سکول کے زمانے میں ہم کتنے جنگ پرست تھے ایٹمی دھماکوں کو سیلیبریٹ کر کے سمجھ رہے تھے کہ ہم نے اہم کارنامہ سرانجام دے دیا۔۔۔ یہ تو بہت بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ایٹم بم سے کتنی تباہی پھیلتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply