• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خطے کا قدیم ترین زندہ شہر”پشاور” (3،آخری حصّہ)- ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

خطے کا قدیم ترین زندہ شہر”پشاور” (3،آخری حصّہ)- ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بُخاری

عجائب گھر پشاور  

خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا عجائب گھر پشاور میوزیم، گندھارا کی شان و شوکت اور قدیم تہذیب کا امین ہے۔ پشاور میوزیم 1907 میں ملکہ برطانیہ کی یاد میں ”وکٹوریہ میموریل ہال” میں بنایا گیا تھا جس پر ساٹھ ہزار روپے لاگت آئی تھی۔ اِسے بعد میں ایک خوبصورت دو منزلہ عمارت کی شکل دے دی گئی جو مُغلیہ، بُدھ، ہندو اور برطانوی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج قرار پائی۔

شروع میں اسکا ایک مرکزی ہال تھا۔ 1970 اور 2006 میں اسکے رقبے کو وسیع کر کے مختلف بلاکس کا اضافہ کیا گیا۔ پوری دنیا میں مہاتما بدھ کی زندگی کے بارے میں تاریخی نوادارت کا سب سے بڑا ذخیرہ پشاور میوزیم میں ہے فی الوقت پشاور کے عجائب گھر میں اندازاً پندرہ ہزار نوادرات ہیں جن کو چار مرکزی گیلریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

گندھارا آرٹ گیلری 

اس گیلری کو اگر پشاور میوزیم کی جان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ پوری دنیا میں گندھارا آرٹ کا سب سے بڑا اور اہم ذخیرہ اسی میوزیم میں ہے۔ یہاں موجود نوادرات میں گوتم بُدھ کے مجسمے، مختلف اشکال، مراقبے کی حالت، دربار کے مناظر، سٹوپے، متبرک صدوقچے، زیورات، سنگھار دان، لکڑی کے بکس اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔

نیچے کی مرکزی گیلری میں بُدھا کی پیدائش سے پہلے اور بعد کی کہانیاں، ان کے معجزات، مراقبے کی حالتیں، عبادت کے طریقے موجود ہیں جو مختلف پتھروں پر کُندہ ہیں ۔ یہاں گوتم بُدھا کا ایک مجسمہ موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا دریافت شُدہ مجسمہ ہے۔ اسے جنوبی کوریا و سوئٹزرلینڈ کی مختلف نمائشوں میں بھی رکھا جا چکا ہے۔

یہ نوادرات خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں کی کھدائیوں سے یہاں لائے گئے ہیں جن میں سیری بہلول، تخت بھائی ، جمال گڑھی، شاہ جی کی ڈھیرئی، آکون، غاز ڈھیرئی، بالا حصار، اتمان زئی ، چارسدہ اور ہری پور شامل ہیں۔

اسلامی گیلری  

پشاور میوزیم کی اسلامک گیلری بھی لوازمات کے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے۔ یہاں قدیم عربی و فارسی مخطوطات، لکڑی کے دروازے، ملتانی ٹائلیں اور برتن، سکھوں کے خلاف بالاکوٹ میں شہید ہونے والے سید احمد شہید کے کپڑے اور برتن، دھاتوں پر کندہ کی گئی آیتیں، خطاطی اور مغلیہ دور کی تصاویر شامل ہیں۔

ان میں سب سے اہم ،1244 کا خطِ غبرمیں لکھا ہوا قرآن پاک ہے جو تین تین پاروں میں محفوظ ہے۔ قرآن کریم کے نایاب قلمی نسخوں کو محفوظ رکھنے کے لیئے 2001 میں ایک نئی گیلری بنائی گئی جہاں 29 ہاتھ سے لکھے گئے قرآن کریم کے نسخے اور 56 مخطوطات رکھے گئے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز گیارہویں صدی کا شاہنامہ فردوسی ہے جس میں کئی اہم مخطوطے محفوظ ہیں۔

سکہ جات کی گیلری  

یہاں آپ کو ہند یونانی، کُشان، ہُن اور ہندو شاہی دور کے قدیم سِکے ملیں گے جو بیشتر کھدائیوں سے دریافت شُدہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہی غزنوی ، غوری، تُغلق، لودھی، مغلیہ، سِکھ اور برطانوی دور کے سِکے بھی نمائش کے لیئے رکھے گئے ہیں ۔ یہ گول، چوکور اور بیضوی سِکے سونے ،چاندی ، تانبے اور کانسی سے بنائے گئے ہیں۔ یہاں کُل 8625 سکے موجود ہیں۔

ثقافتی و علاقائی گیلری  

یہاں آپ کو پورے خیبر پختونخواہ اور کالاش قبائل کے کلچر کا باریک بینی سے معائنہ کرنے کا موقع ملے گا۔ کالاش یا کیلاش چترال میں افغانستان کی سرحد کے قریب موجود ایک قبیلہ ہے جن کی ثقافت و رسم و رواج ہی ان کا مذہب ہیں۔ یہاں اس قبیلے کا خوبصورت لباس، تابوت، زیورات، برتن اور دیگر استعمال کی اشیاء رکھی گئی ہیں۔ انہیں دیکھنے دور دور سے سیاح یہاں آتے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر پختون قبائل کے رسم ورواج کا احاطہ کرتی اشیاء مثلاً کپڑے، ہتھیار، زرہ، چمڑے اور کانسی کی اشیاء اور لکڑی کے سٹول شامل ہیں۔ غرض یہاں آپ پختونخواہ کی مجموعی ثقافت کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔

‘پشاور میوزیم کے ساتھ ہی عمارت میں آثارِ قدیمہ کا دفتر، ایک کنٹین اور یادگار اشیاء کی دوکان بھی ہے جہاں سے آپ پختونخواہ کی یادگاری اشیاء خرید سکتے ہیں۔

کالی باری مندر و درگاہ رتن ناتھ جی  
یہ مندر پشاور عجائب گھر کے پاس صدر روڈ پہ واقع ہے جو ہندو دیوی کالی کے لیئے مخصوص ہے۔ پشاور شہر میں اب گنے چنے مندر باقی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے جو سارا دن کھلا رہتا ہے ۔ درگا پوجا یہاں منایا جانے والا مرکزی تہوار ہے جو کالی دیوی کے اعزاز میں منایا جاتا ہے۔
درگاہ رتن ناتھ جی نامی یہ مندر جھنڈہ بازار میں واقع ہے جو ہندو بھگوان شیو کے لیئے مخصوص ہے۔ مہا شیوراتری یہاں کا بڑا تہوار ہے۔

آل سینٹ چرچ  

پشاور شہر کے پرانے حصے، کوہاٹی گیٹ میں واقع آل سینٹ چرچ ”پروٹسٹنٹ” فرقے کی عبادت گاہ ہے جو تقریباً 140 سال قدیم ہے۔ 1883 میں تعمیر کیئے جانے والا یہ چرچ مسجد سے مشابہہ ہے جس کے گنبد و مینار بھی ہیں۔ اس چرچ کو ”سینٹ جان ڈے” کے موقع پر پشاور کے مقامی مسیحیوں کے لیئے دسمبر 1883 میں کھولا گیا تھا جسے یہاں کے مشہور پادری جناب ”تھامس ہگیز” نے ڈیزائن کیا تھا۔
چرچ کے مرکزی دروازے پر ایک محراب اور پتھر کا بنا جھروکہ موجود ہے جبکہ دیگر دروازوں پر صلیب بنائی گئی ہے۔ لکڑی کی بڑی کھڑکیوں پر لکڑی کے ہی گول روشن دان موجود ہیں جن پرچھوٹے جھروکے بنائے گئے ہیں۔ کچھ دروازوں کے اوپری کناروں پر داؤدی ستارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ چرچ کے اندر لکڑی کا خوبصورت کام کیا گیا ہے جبکہ دیواروں پر بائبل کے مختلف فرمودات درج ہیں۔
عبادت کے لیئے بہت سی بینچیں رکھی گئی ہیں جبکہ ایک گولائی میں بنی دیوار پر کافی سارے سنگ مرمر کے کتبے لگے ہیں۔ غرض اسلامی طرزِ تعمیر سے متاثر یہ چرچ دیکھنے لائق ہے۔
ستمبر 2013 میں یہ چرچ اس وقت پھر خبروں کی زینت بنا جب اتوار کو عبادت کے بعد یہاں بم دھماکے میں 127 لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد چرچ کی سکیورٹی بڑھا دی گئی۔

اِسلامیہ کالج یونیورسٹی  

بچپن میں کئی بار جب سو روپے کا لال نوٹ دیکھتا تو یہ سوچتا تھا کہ اس پر بنی ہوئی یہ خوبصورت عمارت آخر کہاں واقع ہے۔؟
اس کو کِس نے تعمیر کیا ؟
بہت بعد میں یہ راز کھلا کہ یہ وسیع و عریض عمارت پشاور کا اسلامیہ کالج ہے جو اب ایک یونیورسٹی بن چکا ہے۔
شہر کے مغرب میں جی ٹی روڈ پر واقع یہ شاندار تعلیمی درسگاہ آج سے ایک سو دس سال پہلے 1913 میں، صوابی کے مشہور سیاستدان ”نوابزادہ عبدالقیوم خان” مرحوم اور ”لیفٹیننٹ کرنل جارج کیپل” کی کاوشوں سے بنائی گئی تھی۔ یہ اپنے وقت کی وہ عظیم جامعہ تھی جس کی جڑیں شمالی ہندوستان کی علی گڑھ یونیورسٹی سے جا ملتی تھیں۔ جو کام وہاں علی گڑھ کے طلبہ نے کیا تھا وہی خدمات تحریکِ آزادی کے لیئے اس جامعہ نے دی تھیں یہی وجہ ہے کہ حضرت قائداعظمؒ اپنی پوری زندگی میں تین مرتبہ صوبہ سرحد تشریف لائے۔ آپ نے یہ دورے بالترتیب 1936، 1945 اور 1948ء میں کیئے اور ہر مرتبہ آپ نے اسلامیہ کالج پشاورکے طلبہ سے خطاب کیا۔
121 ایکڑ اراضی پر مشتمل یہ کالج جنگِ عظیم اول سے ایک سال قبل 1913ء میں قائم کیا گیا۔ یہ کالج جس جگہ قائم کیا گیا، ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اُس مقام پر آج سے تقریباً 1800 سال قبل بدھ مت کی تعلیمات کے لیے ایک بہت بڑی خانقاہ موجود تھی۔ اس وقت کشان خاندان کا راجا کنشکا یہاں پر بر سر اقتدار تھا۔
اسلامیہ کالج پشاور صوبہ پختونخوا کا وہ شمع فروزاں ہے جس نے صوبے اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقے اور افغانستان کو علم کی روشنی سے منور کیا۔

اسلامیہ کالج پشاور نے ابتدا سے لے کر آج تک تعلیم کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج پشاور کے بہت سے مشہور تعلیمی ادارے جیسے پشاور یونیورسٹی، یو ای ٹی پشاور، زرعی یونیورسٹی، خیبر میڈیکل کالج و دیگر کچھ ادارے اسلامیہ کالج پشاور ہی کی پیداوار ہیں۔
ایکڑوں پر پھیلی اس جامعہ کی عمارت فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ کوئی عجائب گھر لگتا ہے جس کے محرابی دروازے، گول گنبد، چھوٹے چھوٹے مینارے اور مرکزی عمارت کا گھڑیال دیکھنے والے کو رک کر اس کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ نئے کرنسی نوٹوں میں اسے 100 کی بجائے ایک ہزار روپے کے نوٹ پر جگہ دی گئی جو اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مزار حضرت اصحاب بابا رض  
یہ مرقد جو پشاور کے نواح میں ”چغر مٹی” کے مقام پر موجود ہے صحابی رسولؐ حضرت سنان بن سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے جنہیں مقامی طور پہ ”اصحاب بابا” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کتاب ”ثقافت سرحد” میں مصنف لکھتے ہیں کہ ؛
حضرت سنان بن سلمہ بن محبق رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی رسولؐ اور اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے جو خُراسان کے گورنر کی طرف سے قلات کی مہم پر بھیجے گئے تھے۔ قلات کو فتح کرنے کے بعد آپ رض نے وہاں اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے کوہاٹ پہنچے اور کوہاٹ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے بعد پشاور کی وادی میں داخل ہوئے۔ پشاور فتح کرنے کے بعد حضرت سنان بن سلمہ کا اسلامی لشکر داؤدزئی میں وارد ہوا یہاں پر چغرمٹی کے مقام پر کفار سے خون ریز جنگ کے دوران شہید ہوئے۔ دیگر کئی اصحاب رسولؐ اور مجاہدین اسلام بھی آپ رض کے ساتھ چغرمٹی کے اس مقام پر مدفون ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مزار میں بنی ہوئی ایک لمبی قبر درحقیقت کئی صحابہ کرام رض اور مجاہدینِ اسلام کا مشترکہ مدفن ہے۔ اس لحاظ سے اس مقبرہ اور مزار پر عوام کا کافی رش نظر آتا ہے۔

کیتھیڈرل چرچ آف سینٹ جون  
پشاور کینٹ میں واقع یہ شہر کا سب سے پرانا چرچ ہے جس کا سنگ بنیاد 1851 میں رکھا گیا تھا۔ پروٹسٹنٹ فرقے کا یہ چرچ پہلے سینٹ جون چرچ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کیتھیڈرل چرچ آف سینٹ جون ایک زمانے میں شمال مغربی سرحدی صوبے میں تعینات برطانوی سپاہیوں اور ان کے خاندان کے لیئے مخصوص تھا ۔ چرچ کے احاطے میں کچھ برطانوی فوجیوں کی قبریں بھی ہیں جو اُس دور میں مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ چرچ میں ایک سکول اور ایک یادگار بھی ہے جو جنگِ عظیم دوئم کے مشہور جنرل، فیلڈ مارشل کلاڈ آکِنلک سے منسوب ہے۔ جنرل کلاڈ آکِنلک تقسیم کے وقت ہندوستان و پاکستان کی افواج کے سپریم کمانڈر تھے۔ وہ 1948 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

بابِ خیبر و قلعہ جمرود ؛
پشاور سے نکل کہ کچھ باہر مغرب کو جائیں تو پختونخواہ کی پہچان، بابِ خیبر آپ کو شان سے کھڑا نظر آتا ہے۔ جمرود کے مقام پر اس روایتی دروازے کو تعمیر کرنے کا مقصد درہ خیبر کی تاریخی اہمیت کا اجاگر کرنا تھا جو وسط ایشیا اور برصغیر کے درمیان تجارت کا واحد راستہ تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے 11 جون 1963 کو کیا۔ پتھر سے بنے اس دروازے پر مختلف تختیاں بھی  نصب ہیں۔ دس روپے کے سبز پاکستانی کرنسی نوٹ پر خیبر کا یہی دروازہ بنایا گیا ہے۔
باب خیبر کے پاس ہی جمرود کا قلعہ واقع ہے۔

1836 میں جمرود فتح کرنے کے بعد سکھوں کے جنرل ”سردارہری سنگھ نالوا” نے 54 دنوں کے اندر یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔
اس کا نقشہ قلعہ بالاحصار سے مماثلت رکھتا ہے کیونکہ اس کی مرکزی عمارت کے اطراف بھی حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ قلعہ کی دیواروں کی چوڑائی 10 فٹ جبکہ اونچائی 30 فٹ کے قریب ہے اور ان کی تعمیر میں مٹی اور پتھر کا استعمال کیا گیا۔ اردگرد کے علاقے پر نظر رکھنے کے لیے کئی فٹ بلند برج تعمیر کیے گئے۔ ان پر توپیں رکھی گئیں اور ان میں ایسے راستے بنائے گئے جن پر سامان سے لدے ہوئے خچر بآسانی برج تک پہنچ سکیں۔ دو منزلہ جمرود قلعے کی تعمیر اونچے مقام پر کی گئی تاکہ وہاں سے مشرق کی جانب درہ خیبر، شمال میں مہمند اور جنوب میں باڑہ تک کے علاقے نظر آتے رہیں۔
آج کل یہ قلعہ فوج کی زیرِ نگرانی ہے۔

دریائے باڑہ کا مُغل پُل  
پشاور کے جنوب میں باڑہ دریا کے اوپر ایک قدیم پُل موجود ہے جسے ”مُغل پل” کہا جاتا ہے۔ خوبصورت ستونوں سے مُزین اس پل کے ایک ستون پہ روٹری کلب پشاور کے مرزا تنویر حسین کی جانب سے ایک تختی لگائی گئی ہے جس پہ اس کا نام ”سیٹھیان پُل” لکھا گیا ہے۔
اس تختی کے مطابق یہ پُل سب سے پہلے شیر شاہ سوری کے دور میں پشاور کو کلکتہ سے ملانے کے لیئے تعمیر کیا گیا تھا جس کا نام مغلیہ دور میں مغل پل ہو گیا۔ اس کی تعممیر میں وزیری اینٹ، چونا، گیج اور پٹ سن استعمال کی گئی تھی۔ اس کی تعمیرِ نو کا سہرا پشاور کی معتبر شخصیت ”حاجی کریم بخش سیٹھی” نے کروائی جس کے بعد اسے سیٹھیاں پُل بھی کہا جاتا ہے۔
اس پُل میں دریائے باڑہ کے گزرنے کے لیئے بارہ محرابی راستے بنائے گئے تھے اور تمام راستوں پر آٹھ فٹ بلند تیرہ ستون تعمیر کیئے گئے جن کے گنبد پھول نما تھے۔ پُل کی دونوں طرف پانچ فٹ حفاظتی دیوار بھی بنائی گئی تھی جو سڑک کی بار بار تعمیر سے اب 1 فٹ رہ گئی ہے۔
اس پُؒل سے گزرتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ قدیم دور کی کسی شاہی گزرگاہ سے گزر رہے ہوں۔

قصہ خوانی بازار  
یہ بازار پشاور شہر کا دل اور اس کی ثقافت کا امین ہے۔ پشاور کی پختون روایات و ثقافت کو سمجھنے کے لیئے اس بازار کی تاریخی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
درہ خیبر کے راستے وسط ایشیا اور افغانستان سے جو تاجر ہندوستان کا رُخ کرتے وہ سب سے پہلے پشاور میں قیام کرتے۔ اپنے اپنے علاقوں کی کہانیاں، سوغاتیں، مال و اسباب، خوشبو اور میوے لیئے جب وہ یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے تو وقت گزارنے کے لیئے ایک دوسرے کو اپنے دیس کے واقعات، سیاسی و ادبی حالات اور لوک داستانیں سناتے۔ یوں ان کی قصہ گوئی سے مقامی لوگ بھی لطف اندوز ہوتے۔ آہستہ آہستہ یہ قصہ گوئی ایک فن کی شکل اختیار کر گیا اور اس بازار کے قصہ گو پورے علاقے میں مشہور ہو گئے۔ یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیان کرتے تھے۔
یوں پشاور کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت اور اس کی برکات سے پہنچنے والے قصوں نے اسے قصہ خوانی بازار بنا دیا۔
ایک وقت میں اس بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ پشاور کے برطانوی کمشنر ”ہربرٹ ایڈورڈز” نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو ”وسط ایشیا کا پکاڈلی” قرار دیا ہے۔ بالی وڈ کے چوٹی کے اداکار دلیپ کمار و شاہ رخ خان، دونوں کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔
یہاں پر بانس، مٹھائیوں، فالودہ اور کانسی کے برتنوں کا بڑے پیمانے پر کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اردو، پشتو اور فارسی کتب کی چھپائی کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

نمک منڈی  
کھانوں کے بغیر کون سا سیاح زندہ رہ سکتا ہے۔۔؟
اب بندہ پشاور جائے اور وہاں کے روایتی پکوان نہ کھائے تو کیا اسے سیاح کہا جا سکتا ہے۔۔؟
الحمد لِلہ ہم سے یہ گناہ سرزد نہیں ہوا اور ہم نے اپنے دورہ پشاور کے آخری روز نمک منڈی کا رخ کیا۔ والڈ سٹی میں واقع پشاور کی یہ فوڈ سٹریٹ، تقسیم سے بہت پہلے نمک کی تجارت کے لیئے مشہور تھی جہاں تاجر حضرات اپنا نمک ٹرکوں پہ لادتے اور اتارتے دیکھے جاتے تھے۔ اگرچہ اب وہ مناظر مفقود ہو چکے ہیں لیکن اس علاقے کا نام اب بھی نمک منڈی ہے۔
نمک منڈی میں پختونخواہ کے کھانوں کی زبردست ورائٹی موجود ہے اور کچھ مشہور ترین ناموں کے علاوہ بھی کئی چھوٹے اور غیر معروف ٹھیلے و ہوٹلوں پر ذائقے دار کھانا بنایا جاتا ہے۔ اگرچہ نثار چرسی تکہ یہاں سب سے زیادہ مشہور ہے لیکن اکثر ہوٹلوں پر آپ کو زبردست چپلی کباب، مٹن، روش، توا پیس، ٹماٹر کڑاہی، دنبہ کڑاہی، قہوے، باربی کیو اور دیگر کھانے مل جائیں گے۔ یہ پورا علاقہ رات کو کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے مہک رہا ہوتا ہے۔ مقامیوں سمیت کئی سیاح یہاں گاؤ تکیوں پہ سر ٹکائے خوش گپیوں میں مصروف دیکھے جا سکتے ہیں۔
خشک میوہ جات کی دوکانیں اور گلی میں پھرتے قہوہ فروش یہاں کے روایتی ماحول کو دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

سو اب اگر آپ پشاور جائیں تو مندرجہ بالا جگہوں کو دیکھنا اور نمک منڈی کے کھانے کھانا مت بھولیئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(یہ مضمون راقم نے 2019 میں لکھا تھا جسے کچھ تبدیلیوں کے بعد شائع کیا جا رہا ہے)۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply