حقوق کی جنگ اور پنجاب کا مقدمہ /طاہر سواتی

اس ملک میں دو ہی طبقے بستے ہیں ، حاکم و محکوم، غالب ومغلوب، آقا اور غلام ، طاقتور اور کمزور، خوشحال یا بدحال ۔ٹھاکر اور ان کا قبیلہ اس ملک کے اصل حاکم ہیں ۔اور اس کے بعد جو جو اُن کے من پسند ہیں وہ حسب توفیق اپنا حصہ وصول کر رہے ہیں ۔
جس میں جج ، جاگیردار، صنعتکار ، پراپرٹی ٹائیکون اور بیوروکریسی وغیرہ شامل ہیں ۔اسی طرح کچھ ان کے لَے پالک سیاست دان جو ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں وہ اربوں میں سیٹیں خریدتے ہیں پھر کھربوں کی دیہاڑی لگاتے ہیں ۔ ان میں سب سے زیادہ تناسب کشمیریوں اور بلوچوں کا ہے۔باقی چوبیس کروڑ کے کیڑے مکوڑے جسے ہم عوام کے نام سے پکارتے ہیں جس میں آپ اور میں بھی شامل ہیں ۔

یہ حاکم و محکوم والی  طبقاتی کشمکش کبھی پوری دنیا میں موجود تھی ، جب کرّہ ارض پر صرف بادشاہتیں قائم تھیں ۔ یورپ میں صنعتی انقلاب آنے کے بعد اس میں تیزی آئی، جب صنعت کاروں کا نیا طبقہ اس میں شامل ہوگیا جو مزدوروں کا استحصال کرتا تھا۔
اس کے خلاف دو تحریکیں چلیں ۔
ایک اشتراکیت جو ایک وقتی اور جذباتی ردِعمل تھا۔
اس نے جاگیرداروں ، صنعت کاروں اور بادشاہوں سے اختیار چھیننے کا نعرہ تو لگایا لیکن عوام کو حقیقی آزادی دینے کی بجائے ایک نئے ڈکٹیٹر شپ یعنی کیمونسٹ پارٹی کی  غلامی میں دے دیا ۔

دوسری جانب جمہوری تحریکوں سے عوامی حکومتیں قائم ہوئیں اور اختیارات اور وسائل کی  منصفانہ تقسیم سے خوشحال معاشرےمعرض ِ وجود میں آئے ۔
یہ جمہوریت ہی کا کمال ہے کہ آج برطانیہ کا وزیر اعظم بھارتی نژاد ہندو ہے لیکن ناس پر کسی مسلمان ، عیسائی یا سکھ کو کوئی مسئلہ نہیں   ہے ۔
اور نہ وہاں  کسی کشمیری ، پنجابی ، گجراتی یا پختون کے حقوق غصب ہورہے ہیں ۔

جمہوریت اور سیکولرازم کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ ہے۔
مملکت خداداد کے اصل حاکم جمہوریت کو اپنے اقتدار کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ اس لئے شروع دن سے جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا۔
اب عوام کو ٹرک کے پیچھے بھی لگانا تو تھا تاکہ وہ کبھی   اپنے بنیادی حق یعنی جمہوریت کا مطالبہ نہ کردے ۔

پنجاب وہ ٹرک کی بتی ہے جس کے پیچھے استحصال کے مارے پختونوں ، بلوچوں ، سندھیوں اور کشمیریوں سمیت ہر چھوٹی قوم کو لگادیا گیا ہے۔ یوں پنجاب کو گالی دینا اور اسے سارے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک فیشن بن گیا ۔

پنجاب کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ ملک کی  نصف آبادی پر مشتمل ہے۔
لہٰذا استحصالی طبقے میں نصف یعنی پچاس فیصد پنجاب سے ہوں گے، لیکن بلوچ ، پختون ، سندھی سمیت ہر قوم کی اشرافیہ حسب توفیق اپنا حصہ وصول کررہی ہے ۔

دوسری جانب اگر غربت کا تناسب نکالا جائے تو پورے ملک کے سو غریبوں میں بھی پچاس صرف پنجاب سے تعلق رکھتے ہوں گے۔
کوئلہ کی کان کنی دنیا کی سب سے سخت اور خطرناک مشقت ہے۔ بلوچستان کے کوئلے کی  کانوں میں سوات کے شانگلہ پار یا پنجاب کے غریب لوگ مزدوری کرتے ہیں ،ہمیں تو بتایا جاتا ہے کہ سب کچھ پنجاب کھاگیا تو پھر پنجاب کا مزدور جان ہتھیلی پر رکھ کر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کیوں جاتا ہے۔؟

میں نے آج سے تیس سال قبل جنوبی پنجاب کے دنیا پور ، رکن پور اور قطب پور جیسے قصبوں میں جو غربت دیکھی ہے اس کا تصور خیبر پختونخوا میں نہیں کیا جاسکتا ۔
آج سے چالیس سال قبل میرے گھر کے سامنے سڑک بن رہی تھی، جون جولائی کی سخت گرمی میں تارکول کا کام چکوال کے گاؤں ٹمن سے تعلق رکھنے والے پنجابی مزدور کررہے تھے۔
بلوچ کی ایک لاش پر تو حامد میر سے لیکر وسعت اللہ تک ہر کوئی  کیمرہ مائیک لیکر پہنچ جاتا ہے کیونکہ انقلابی بننے کے لئے اس فیشن کا اپنانا ضروری ہے،لیکن کتنے انصاف پسند صحافی ہیں جو بلوچستان میں مرنے والے پنجابی مزدوروں کے گھروں میں گئے ہوں؟۔  ان کی غربت اور پسماندگان کا حال ہمیں سنایا ہو۔؟

الٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں جنہیں مزدور بتایا جاتا ہے۔
کسی کو مذہب، قوم یا نسل کی بنیاد پر قتل کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ کیا کسی بلوچ کو اس پنجابی مزدور نے لاپتہ کیا جس کا شناختی کارڈ دیکھ کر آپ قتل کررہے ہیں ۔جبکہ اصل ذمہ داروں کے قدموں میں آپ کے بڑے بڑے بلوچ سردار سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔
کشمیر تو خیر لاڈلا بچہ ہے جسے ہم نے ماں سے چرایا،اس لئے شروع دن سے اس کی ہر خواہش کی تکمیل کو ہم نے ملی فریضہ سمجھا تاکہ یہ روکر ماں کے پاس جانے کی ضد نہ شروع  کردے ۔

منگلا ڈیم بنا جو صرف ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے تو ہر گھر سے ایک کمانے والا برطانیہ ورک پرمٹ پر بھیج دیا گیا ۔ آج کشمیری برطانیہ میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔
دوسری جانب پانچ ہزار میگا واٹ پیدا کرنے والے تربیلہ ڈیم کے متاثرین آج بھی رُل رہے ہیں ۔ یاد رہے ۸۴ گاؤں اس ڈیم کی  نذر  ہو گئے تھے۔لیکن یہ سب کچھ ایک پختون ڈکٹیٹر ایوب خان کے دور میں ہوا جس کا اپنا آبائی گاؤں ریحانہ تربیلا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

آج پنجاب کے غریب کو اپنی  پیدا گردہ گندم ایک کشمیری سے ڈبل قیمت پر مل رہی  ہے لیکن کشمیری پھر بھی ناخوش کہ سب کچھ پنجاب کھا گیا ۔
آزاد کشمیر میں سردار عبدالقیوم ، سردار عتیق اور سردار سکندر حیات جیسے کرپشن کے بے تاج بادشاہوں کا تعلق کیا پنجاب سے تھا؟
تحریر طوالت اختیار کرگئی ۔اس تحریر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات نہیں کرنی چاہیے ۔
اپنے حق کا مطالبہ کریں ان غاصبوں سے جو سارے وسائل پر قابض ہیں ،لیکن حقوق کی جنگ پُرامن اور جمہوری انداز میں لازمی ہے۔
آپ جتنا حق پر ہوں لیکن بی ایل اے کی طرح بندوق اٹھائیں گے یا پی ٹی آئی کی طرح جلاؤ گھیراؤ  کریں گے یا پھر کشمیر کی حالیہ تحریک کی طرح تشدد پر اُتر آئیں گے تو آپ اپنا مقدمہ ہار گئے ۔
یہی مہذب دینا کا اصول ہے ۔
یہی مرشد باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد ہے کہ سات سولاشیں اٹھانے کے باوجود بھی قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کیا ۔

بشکریہ فیسبک وال

Advertisements
julia rana solicitors

 نوٹ:تحریر میں بیان کردہ  خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ  ویب کا ان سے اتفاق  ضروری نہیں  اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply