مرغان چمن۔۔شکور پٹھان

زندگی، بلکہ یوں کہیے کہ انسان عجیب رنگ بدلتا رہتا ہے۔
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔
ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اگر کوشش کروں تو میں کچھ لکھ سکتا ہوں۔ چنانچہ کوشش کی اور تھوڑی بہت یہ کوشش رنگ لائی اور میں ایک نہیں ، دو نہیں ، تین کتابوں کا مصنف بن گیا۔ یہ کسی اور سے زیادہ میرے اپنے لئے حیران کن بات تھی۔

لکھنا میرا مشغلہ بن گیا۔ یوں لگتا تھا کہ اگر چار چھ دن کچھ نہیں لکھا تو میرا وجود بے کار ہوجائے گا۔ ہر وقت یہی فکر لگی رہتی تھی کہ کیا لکھوں اور کیسے لکھوں۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی بھی کسی شعوری کوشش سے نہ کوئی موضوع سوجھا نہ کچھ لکھا گیا۔ بس یونہی اچانک کوئی خیال ذہن میں آتا اور دل اس پر ٹھک جاتا۔ اور پھر یہ خیال اپنے الفاظ و معنی خود ہی ساتھ لے کر آتا اور کوئی نہ کوئی ، بری بھلی تحریر وجود میں آجاتی۔ یہ سلسلہ چھ سات سال چلتا رہا۔ لگتا تھا کہ لکھنے کے علاوہ مجھے اور کوئی شوق نہیں۔
لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ لکھنے سے دل اچاٹ ہوگیا۔ نہ کسی موضوع کی تلاش کی فکر رہی نہ ہی یہ خیال رہا کہ کیا اور کیسے لکھا جائے۔ اب اچانک ایک اور ہی مشغلہ دل کو بھانے لگا اور یہ عجیب وغریب ہی قسم کا شوق تھا۔ لیکن جب اسے اپنایا تو اندازہ ہوا کہ
“اک تم ہی نہیں تنہا، الفت میں مری رسوا “۔
بہت سے ہیں جن کا یہ محبوب شغل ہے اور کیا خوب ہے۔

جی ہاں یہ نیا مشغلہ تھا ، صبح سویرے پرندوں کی آوازیں سننا۔

میں ایک عرصے سے صبح سیر کے لئے جاتا ہوں لیکن کبھی ان آوازوں پر غور نہیں کیا۔ البتہ دوران سیر آس پاس اگے ہوئے پھولوں اور درختوں کو ضرور دیکھتا اور کبھی کبھار چنبیلی یا موتیا کے پھول توڑ کر گھر والی کے لئے لے آتا۔ پرندوں کی آواز کا تجربہ اب سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہوا اور یقین کیجئیے قدرت کی اس دل خوش کن نعمت کا اندازہ پہلے کبھی نہیں تھا۔

ویسے تو انسان بڑا ناشکرا ہے۔ قدرت نے اپنی تمام تر فیاضی انسان کے لئے تمام کردی ہے ۔ یہ زمین و آسمان، دن رات، سورج، چاند ستارے، ابر وہوا، پہاڑ، جنگل، صحرا، میدان، دریا ، سمندر، نباتات، جمادات، زمین پر چلنے والے حیوانات جن سے ہم غذا حاصل کرتے ہیں اور جن پر سواری کرتے ہیں، لباس بناتے ہیں ، ہوا میں اڑنے والے پرندے، ماہی زیر آب اور بے شمار مخلوقات۔۔۔تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔

شکر کا جذبہ بھی کسی نہ کسی حس کی تسکین سے جڑا ہے۔ ٹھنڈا پانی حلق سے اترتا ہے تو چاہے زبان سے کلمئہ شکر نہ نکلے، جسم و جاں ضرور سرتاپا متشکر ہوتے ہیں۔ کام و دہن کی تسکین ہو تو دل میں شکر کے جذبات کہیں نہ کہیں جنم لیتے ہیں۔ اچھی صورت دیکھیں، رنگ برنگے پھول دیکھیں خوبصورت مناظر دیکھیں ، دل خود بخود سبحان اللہ کہہ اٹھتا ہے۔ اچھی خوشبو مشام جاں کومعطر کردیتی ہے اور زبان بے اختیار ،واہ، کہہ اٹھتی ہے۔ کسی نرم ، ریشمیں چیز کو ہاتھ مس کر جائیں تو دل میں ایک خوش گوار احساس جنم لیتا ہے۔ گویا ہر انسانی حس کی تسکین کا کوئی نہ کوئی سامان ہے۔
ایسی ہی ایک حس سننے کی ہے۔ یہی حس ہے جو اچھی آواز، اچھی موسیقی سن کر جھومنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور پرندوں کی یہ آوازیں قدرت کی موسیقیت کا شاہکار ہیں ۔
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے

اور یقین جانیے صبح کے خنک اور نیم تاریک ماحول میں سرسبز درختوں سے آتی یہ چہچہاتی،   گنگناتی،  کوکتی، کہیں سے چوں چوں کرتی، تو کہیں سے حق ہو کرتی آواز، تو کہیں لرزتی، تو کہیں سیٹی بجاتی، جھنگارتی،ہوکتی، کڑکڑاتی اور ان سب کے بیچ کائیں کائیں کی آوازیں تو کہیں سارس اور بگلوں کی عجیب چنگھاڑتی آوازیں ، یہ سب مل کر ایسی موسیقی پیدا کرتی ہیں کہ روح سرشار ہوجاتی ہے۔
ان آوازوں کی اپنی زبان، اپنے معنی ہوتے ہیں۔ ہر پرندہ اپنے انداز میں بولتا ہے، ہر آواز منفرد اور متنوع ہوتی ہے۔ یہ اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں تو کبھی اپنے ہم جنسوں کو پکار رہی ہوتی ہیں تو کوئی اپنی احتیاج کا ، اپنی بھوک پیاس کا اظہار کررہی ہوتی ہے تو کوئی خوشی سے جھوم رہی ہوتی ہے تو کوئی رب کا شکر ادا کرتی سنائی دیتی ہے۔ کوئی تشکر تو کوئی فریاد لئے ہوتی ہے۔ کوئی خطرے کا احساس دلاتی ہوئی تو کوئی آواز خود ڈری اور سہمی ہوئی۔

جہاں انسانوں نے اپنے رویوں اور باتوں سے خود سے دور کیا، وہاں یہ پرندے مجھے اپنی جانب بلاتے ہیں۔ فطرت کے قریب گذارے جانے  والا یہ وقت نہ صرف مالک حقیقی کی معرفت عطا کرتا ہے بلکہ جسم و جاں پر انتہائی خوشگوار اثر ڈالتا ہے۔ خوش قسمتی سے جہاں میری رہائش ہے وہاں مختلف نوع کے پرندے دیکھنے بلکہ سننے مل جاتے ہیں کہ میں منہ اندھیرے چہل قدمی کے لئے نکلتا ہوں اور اس وقت یہ پرند نظر بہت کم آتے ہیں البتہ ان کی چہکار کی موسیقی سارے عالم میں گونج رہی ہوتی ہے۔

یہاں سمندر کی کھاڑی کے ساتھ ہی ایک Bird Sanctuary ہے جہاں وہ موسمی پرندے بھی نظر آتے ہیں جو موسمی تبدیلی کے باعث وقتی طور پر ہجرت کرکے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ ان میں سارس، بگلے ( فلیمنگو وغیرہ) مرغابیاں، فاختائیں،بلبلیں، مینا، کوئل، تیتر، بٹیر، کبوتر، کوے، طرح طرح کی چڑیا ئیں اور طوطے دیکھنے ملتے ہیں۔ میں چلتے چلتے رک جاتا ہوں۔ کبھی کوئی آواز اپنی جانب بلاتی ہے تو کبھی کوئی پرندہ سامنے زمین پر دانے چگتا، پھدکتا نظر آتا ہے۔ میں بے اختیار اپنے موبائل فون میں ان کی آوازیں ریکارڈ کرلیتا ہوں۔ دن کی روشنی میں بعض اوقات کوئی مرغابی یا بگلہ غوطہ مار کر کسی مچھلی کو اپنی چونچ میں دبا کر اڑ جاتا ہے لیکن اس کی تصویر کشی بہت مشکل ہے کہ میرا کیمرا ان کی اڑان سے مات کھا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرغان چمن ، کے استعارے سے دراصل میں مختلف لوگوں کے انداز گفتگو اور رویوں کے بارے میں لکھنا چاہتا تھا لیکن تمہید اس قدر طویل ہوگئی اور قدرت کی اس صناعی کا ذکر اس قدر خوش کن ہے کہ کوئی تلخ بات لکھ کر منہ کا مزہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔
دوستوں کو بھی دعوت ہے کہ ذرا دنیا کے  جھنجھٹوں  سے نکلیں۔ سیاسی، مسلکی، ادبی، معاشی بحثوں کو چولہے میں ڈالیں اور قدرت کی فیاضی کا ، اس کی صناعی کا مشاہدہ کریں۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئی سورج کو ذرا دیکھ

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply