شبلی کے آخری جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے نورالحسن صاحب لکھتے ہیں: ’مولانا شبلی نے یہ تاثردیا ہے کہ طلبہ میں تبدیلی اور دین کی طرف توجہ ان کی تربیت کا ثمرہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس میں شبلی کی تربیت اور محنت کا بھی کچھ حصہ رہا ہو لیکن مولانا شبلی کا شعبہ دینیات سے بہت زیادہ رابطہ نہیں تھا۔ وہ صرف قرآن شریف کا درس دیتے تھے جس میں طلبہ ذوق شوق سے شریک ہوتے تھے لیکن نماز میں طلبہ کی بڑی تعداد میں آنے والے اور دین و مذہب سے ان کی گہری وابستگی میں مولانا عبداللہ انصاری کی محنت کارفرما تھی۔‘
مولانا انصاری کا ایک خصوصی امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ علیگڑھ کالج میں مقرر ہونے والے سب سے پہلے ڈین تھے جن کا تقرر کالج کے عام ضابطہ سے ہٹ کر سرسید کے ذاتی فیصلے اورخصوصی اختیارات سے ہواتھا جس میں کالج کے ممبروں اور انتظامیہ کو مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔
اس کتاب میں نورالحسن راشد صاحب نے سرسید کی جو نایاب تحاریروتقاریرحوالوں کے طور پر نقل کی ہیں کاش موجودہ انتظامیہ، علیگڑھ کے اساتذہ اورطلبا انہیں پڑھ کراپنے رویے پر غور کرلیں۔ لکھتے ہیں: ’مگر سرسید کے سامنے ہی اس تحریک نے ایسی کروٹ بدلی کہ اس کے اور مقاصد پر سے توجہ کم ہوتی چلی گئی اور بالآخر وہ مقاصد نگاہوں ہی سے یوں اوجھل ہوگئے کہ اب ان کی نشاندہی تو بڑی بات ہے ایک جھلک بھی دکھادی جائے تو علیگڑھ سے وابستہ با خبر اصحاب کو بھی حیرت ہوتی کہ اچھا یہ بھی تھا۔‘
معلوم نہیں اپنے اپنے مقصد کے لئے سرسید کی کون کون سی تحریروں کو توڑمروڑ کر پیش کیاجاتا ہے۔ کتنے لوگوں کو اس محسن قوم کے طلباء کے لئے اس پیغام کو پڑھا ہوگا:
’اسلام جس پر تم کو جینا ہے اور جس پر تم کو مرنا ہے اس کو قائم رکھنے سے ہماری قوم کے عزیز بچے اور کوئی آسمان کا تارا ہوجائے مگر مسلمان نہ رہے تو ہم کو کیا، وہ تو ہماری قوم ہی نہ رہا۔ پس اسلام قائم رکھ کر ترقی کرنا قومی بہبودی ہے۔ امید ہے کہ تم ہمیشہ اس کو قائم رکھو گے اور اس کے ساتھ تمام باتوں میں ترقی کرتے جاؤ گے کہ قومی ترقی ہوگی جو تم کو بھی فائدہ دے گی اور قوم کو بھی عزت ہوگی اور آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اٹھاویں گی۔‘
سرسید سے علمائے دیوبند کو جو بھی اختلافات رہے ہوں مگرشروع کے چند سالوں کے علاوہ دونوں کے درمیان گہرے روابط رہے۔ سرسید کا تو خود یہ حال تھا کہ مولانا عبداللہ کی موجودگی کو کالج میں باعث برکت سمجھتے تھے اورمولانا قاسم نانوتوی کے لئے تو جو ان کے جذبات تھے وہ ان کی موت پر لکھے گئے ان کے تعزیتی مضمون میں دیکھنے کو ملتا ہے (یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اپنے بھانجے اورداماد کے علیگڑھ جانے پر مولانا قاسم کی ناراضگی کا شاید کوئی ثبوت نہیں ملتا یا کم از کم اس کتاب میں موجود نہیں ہے) جسے راحت ابرارصاحب نے اپنے مضمون میں من و عن نقل کیا ہے، یہ پورا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں اس کے چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں:
’زمانہ بہتوں کو رویا ہے اور آئندہ بھی بہتوں کو روئے گا لیکن ایسے شخص کے لئے رونا جس کے بعد کوئی اس کا جانشین نظر نہ آوے نہایت رنج و غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔۔۔ مولوی قاسم صاحب مرحوم نے اپنی کمال نیکی اور دینداری اور تقویٰ اور ورع میں معرف ومشہور تھے ویسے ہی نیک مشاج اور سادہ و صفی مسکینی میں بے مثل تھے لوگوں کا خیال ہے کہ بعد جناب مولوی محمد اسحاق صاحب کے کوئی شخص ان کی مثل تمام صفات میں پیدا ہونے والا نہیں ہے۔ مگر مولوی محمد قاسم صاحب نے ۔۔۔ ثابت کردیا کہ اس دلی کی تعلیم و تربیت کی بدولت مولوی اسحاق صاحب کی مثل اور شخص بھی خدا نے پیا کیا ہے بلکہ چند باتوں میں ان سے زیادہ ہے۔‘
دارالعلوم دیوبند کی پہلی رپورٹ موصول ہونے پرسرسید نے اپنے تاثرات کا اظہاریوں کیا تھا: ’دیوبند ایک چھوٹی سی بستی ہے کوئی بہت بڑا نامی گرامی شہر نہیں مگر اس کے باشندوں کی عالی ہمتی اور نیک نیتی کو دیکھ کر بڑے بڑے مشہور شہروں پر اس کو فوق دینا واجب ہے۔۔۔ آفرین کہ ان کی توجہ سے اس تھوڑے سے عرصہ میں بہت کچھ ترقی، تعداد اور استعداد ظہور میں آئی۔‘
مولانا عبداللہ انصاریؒ کا شجرہ نصب صحابی رسول حضرت ابوایوب انصاریؓ سے ملتا ہے۔ اس موضوع پرطارق غازی صاحب کا تفصیلی اور تحقیقی مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے۔
کالج کے شروع کے دنوں کے ماحول اور مولانا عبداللہ انصاری کی محنت کے ثمرات کے ضمن میں شاہ افغانستان امیر حبیب اللہ خان کے ایک دورے کے دوران ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جب شاہ افغانستان کو شعبہ دینیات کا دورہ کرایا گیا توانہوں نے طلباکا امتحان لئے بغیر کوئی رائے دینے سے انکار کردیا۔ امتحان کے لئے مولانا عبداللہ 50 طلبا کو لے کر حاضر ہوئے۔ شاہ اٖفغانستان نے ان میں سے چند طلبہ منتخب کئے اور ان کو اپنے قریب بلا کر سوالات کئے۔ ایک طالب علم سے کہا کہ جو کچھ تمہیں قرآن میں سے یاد ہے سناؤ۔ اس نے سورۃ آل عمران کا ایک رکوع بہت خوش الہانی سے مصرہ لہجے میں پڑھنا شروع کیا۔ جس سے: ’تمام حاضرین پر کیف اور وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ امیر حبیب اللہ۔۔۔ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے جو داڑھی کر تر کرتے ہوئے نیچے گررہے تھے۔۔۔ بچے نے تلاوت ختم کی توامیر حبیب اللہ اپنی کرسی سے کھڑے ہوئے اور نہایت جوش میں کبھی فارسی میں کبھی اردو میں اور کبھی انگریزی میں باربارکہتے اور دہراتے تھی کہ: اس مرسہ کی جو بدگوئی مجھ سے کی گئی ، سب غلط اور جھوٹ ہے۔‘
بعد میں امیر نے خود تسلیم کیا انہوں نے جان بوجھ کر مشکل فقہی سوالات کئے تھے اور تبصرہ کیا کہ: ’ہم نے طلبہ کا امتحان لے کر اپنی تشفی کرلی اب ہمارا جواب ہے کہ سب بہت اچھا اور ہم بہت خوش۔‘
یہ کتاب ان تمام لوگوں کو لازماً پڑھنی چاہئے جو سنی سنائی بے بنیاد باتوں پر یقین کر کے اکابرین اورمحسنین ملت سے بلاوجہ متنفر ہیں اور جس میں دینی رحجان والے اورغیر دینی مزاج والے سب شامل ہیں۔ کاش ایسی کتاب انگریزی میں ہوتی۔ بدقسمتی سے اردو میں ہونے کی وجہ سے نئی نسل کی بڑی تعداد اس میں فراہم کردہ معلومات سے محروم رہے گی۔
تبصرہ نگارکا مصنف کو ذاتی شکریہ
خاکسار کا آبائی وطن دیوبند ہونا اورچمن سرسید سے فیض حاصل کرنا ہی نورالحسن راشدی صاحب کا احسان مند ہونے کے لئے کافی تھا۔ مگر اس احسان مندی میں ایک بہت ذاتی پہلو بھی شامل ہوگیا۔
بچپن میں اپنے دادا مرحوم حافظ عبدالجلیل خان صاحب اورخاندان کے دوسرے بزرگوں کی زبانی سنا تھا کہ میرے دادا کے دادا مولانا عبد العزیز خان صاحبؒ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے والے پہلے بیج میں تھےجس کے بعد وہ اس تاریخی ادارے میں محدث بھی رہے۔ یہ بات محلہ قلعہ دیوبند کے پٹھانوں میں (دیوبند میں پٹھانوں کی چھوٹی سی آبادی ہے۔ محلہ قلعہ پر یوسف زئیوں اور محلہ پٹھان پورہ میں کاکڑوں کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں ہیں۔ یہ بات ایک حقیقت بیان کرنے کی غرض سے لکھی جارہی ہے نہ کہ ذات پات کی تفریق اس کا محرک ہے) عام طور پر مشہور ہے کہ مولانا عبدالعزیز خان صاحب ایک جید عالم تھے۔ دادا جان مرحوم کے مطابق مولانا عبدالعزیز خان صاحب صوفی صفت عالم تھے جن کا اکثر وقت مطالعے اور عبادات میں گزرتا تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق مولانا عبد العزیز خان صاحب نے کچھ کتابیں بھی تصنیف کی تھیں اور ان کی بہت بڑی ذاتی لائبریری بھی تھی ۔ ان کے انتقال کے بعد یہ تمام کتب دارالعلوم دیوبند کوڈونیٹ کر دی گئی تھیں، کیونکہ ان کے بعد اس علمی اثاثے کو سنبھالنے والا خاندان میں کوئی نہیں رہا تھا۔ مولانا عبدالعزیز خان صاحب کے فرزند اور میرے پردادا عبدالحفیظ خان صاحب کی تمام تر دلچسپی زمین داری اور مقامی سیاست میں تھی (وہ اس وقت میونسپلٹی کے ممبربھی تھے)۔
یہ باتیں بچپن سے سنتے چلے آرہے تھے مگر دارالعلوم کی صد سالہ تقریبات پر ادارے کی جانب سے جو فہرست شائع کی گئی تھی اس میں مولانا عبدالعزیز خان صاحب کا نام نہ تو طلبا کی فہرست میں تھا اور نہ اساتذہ کی۔ اس کے بعد مجھ سمیت خاندان کے دیگر لوگوں کو مولانا عبدالعزیزخان صاحب سے متعلق خاندانی روایات کی صداقت پر شبہ ہونے لگا تھا، کیونکہ جوروایات خاندان میں بیان کی جاتی رہی تھیں وہ صرف زبانی تھیں اوران کا کوئی تحریری ثبوت نہیں تھا۔ نورالحسن راشد کاندھلوی صاحب کا مجھ پراورہمارے خاندان پریہ ذاتی احسان ہے کہ انہوں نے کتاب ہٰذا میں مولانا عبدالعزیز خان کے دارالعلوم کے پہلے بیچ میں ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔
میرے والد کی ایک پھوپھی نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ اور خاندان کی کچھ خواتین مولانا حسین احمد مدنیؒ سے ملنے گئیں تو انھوں نے کھڑے ہوکر اور یہ کہہ کراستقبال کیا تھا کہ ’ان کا تعلق میرے استاد کے خانوادے سے ہے۔‘
’مرج البحرین‘ میں مولانا عبدالعزیز خان کا نام دیکھ کرایک دوست نے حال ہی میں شائع ہوئی ’دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ‘ پر بھی ایک نظرڈالنے اور مولانا عبدالعزیز صاحب کا نام اس میں نہ ہونے پر متعلقین سے شکایت کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مشورے پر عمل کیا تو صفحہ 760 پر(اس صفحےکی فہرست مضمون کے ذیل میں دیکھیے) بارہویں نمبر پر اساتذہ کی فہرست میں مولانا عبدالعزیزخان کا نام دیکھ کراور یہ سوچ کر کہ ہم اپنے بڑوں کی نیت پر شبہ کر رہے تھے اور ان کی باتوں کو پدرم سلطان بود کے زمرے میں رکھ رہے تھے خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے خلاف اس بدگمانی کے لئے معاف فرمائے۔
مرج البحرین سے چند اقتباسات:
’عام طور پر یہ لکھا اور کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کے فارغین کی سب سے پہلے جماعت وہ تھی جس میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی شامل تھے مگر یہ اطلاع شہرت اور کثرت نقل کے باوجود صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دارالعلوم کے فارغین کی سب سے پہلی جماعت وہ ہے جس میں مولانا عبداللہ انصاری وغیرہ شامل تھے ان ہی کو دارالعلوم سے سب سے پہلے فارغ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ مولانا انصاری کے رفقاء میں جن لوگوں کے نام روداد میں درج ہیں وہ یہ ہیں:
’مولوی محمد مراد صاحب پاک پٹنی، مولوی عبداللہ خان صاحب گوالیاری، مولوی عبداللہ صاحی انبیٹوی اور مولانا عبد العزیز خان دیوبندی جن کے بارے میں دعویٰ ہے کہ دار العلوم کے سب سے پہلے طالب علم وہی تھے۔
مولانا عبدالعزیز خان کی ایک کتاب کا عکس
’ کچھ عجیب بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند جیسے تاریخ ساز ادارہ کے سلسلہ میں طرح طرح کے تنازعات ہوا میں اچھالے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے مفکر و موسس مولانا محمد قاسم نانوتوی نہیں بلکہ حاجی سید عہابد حسین دیوبندی تھے ۔۔۔
’دوسرا غیر ضروری تنازعہ یہ دعویٰ ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن عثمانی دیوبندی دارالعلوم کے پہلے متعلم نہیں تھے۔ یہ بات پتا نہیں کیوں مولانا محمد قاسم نانوتوی کی مخطوط سوانح میں منشی فضل حق دیوبندی نے لکھی جو بعد میں مدرسہ کے مہتمم بھی ہوئے۔ اس بنیاد کا حوالہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے مطبوعہ سوانح قاسمی (262:2) میں دیا ہے کہ مدرسہ دیوبند کے پہلے متعلم محمودالحسن نہیں عبدالعزیز دیوبندی تھے۔ ۔۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا گیلانی نے آگے (سوانح قاسمی (263:2) میں حضرت مولانا حافظ محمد احمد ابن مولانا محمد قاسم نانوتوی کے ایک تحریری بیان کی دلیل سے ثابت کیا ہے کہ ’مولانا محمود الحسن صاحب پہلے طالب علم تھے جنہوں نے کتاب کھولی۔
’یہ نکات اس لئے پیش آئے کہ محرم الحرام 1283 ھ (مئی (1866 میں تاسیس مدرسہ کے بعد جب 1289 ھ 1872) ء (میں فارغین کی جس جماعت کو سندیں عطا ء کی گئیں تو ان میں مولوی محمد مراد صاحب پاک پٹنی، مولوی عبداللہ خان صاحب گوالیاری، مولوی عبدالعزیز خان صاحب دیوبندی اور مولوی عبد اللہ انصاری انبیٹوی کا نام موجود تھا۔ ان لوگوں کو مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) نے اپنا پہلا فاضل قرار دیا تھا اور ان کو سندیں بھی عطا کی گئیں تھیں مگر اس وقت تک دستار بندی کا معمول شروع نہیں ہوا تھا ۔۔۔
’’اس فہرست میں شیخ الہند محمود الحسن کا نام نہیں ہے اور اس لئے نہیں ہے وہ سال آئندہ 1289 ھ میں فارغ ہوئے تھے اور انہیں سند 1290 ھ میں عطا ء کی گئی تھی۔۔۔
’مدرسہ نے ابتداء سے ایک اچھا معمول یہ بنا لیا تھا کہ اس کے سالانہ امتحانات میں شامل اعلیٰ کتابوں میں جس کتاب کا جواب سب سے عمدہ ہوتا تھا اس کو مدرسہ کی سالانہ روداد میں شامل کیا جاتا تھا۔ اس معمول کے مطابق مدرسے کے سب سے پہلے طلبہ کے اعلیٰ کتابوں کے امتحانات کے سوالات و جوات بھی شائع کئے گئے تھے جس میں مولانا محمد مراد پاک پٹنی کا مسلم الثبوت کا، مولانا عبداللہ خان صاحب کا امور عامہ کا، مولانا عبدالحق بریلوی کا شرح چغمینی کا، نیز ایک اور سوال کا مولانا عبد العزیز خان صاحب دیوبندی کا جواب بھی شامل ہے جس کے عنوان میں غلطی سے مسلم الثبوت لکھا گیا ہے۔ یہ سوال کلام یا عقائد کی کسی کتاب کا ہے۔ بہر حال ایک جواب مولانا عبدالعزیز خاں کا اور آخری سوال و جواب تفسیر کا مولانا عبداللہ انصاری انبیٹوی کا لکھا ہوا ہے ۔یہ تمام جوابات طلبہ کی اعلیٰ استعداد معلقہ فنون پر ان کی گہری نظر اور عمدہ گرفت کے مظہر ہیں۔۔۔‘
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں