• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • زیاں (روح و دل کو پاش پاش کرتی ایک داستان) پہلا حصّہ۔۔محمد وقاص رشید

زیاں (روح و دل کو پاش پاش کرتی ایک داستان) پہلا حصّہ۔۔محمد وقاص رشید

میں جب سرگودھا پڑھتا تھا تو ہمارے محلے میں ایک بچہ رہتا تھا اس کا نام حاشر اور عمر دس سال تھی، پانچویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ یوں سمجھیے کہ خدا نے اپنی پیدا کردہ تمام انسانی عظمت کے خصائل کو اس کی تخلیق کے سمعے یوں فیاضی سے “کُن” کہا کہ وہ سب اس بچے کی فطرت میں “فیکون” ہو گئے۔ ذہانت سے مالا مال ، محنتی ،انتہائی مؤدب اور چاک و چوبند بچہ تھا وہ۔ ۔ماشاللہ!

میری اس سے پہلی ملاقات کرکٹ کے گراؤنڈ میں ہوئی تھی۔ یہ گراؤنڈ تو خیر کیا تھا ریلوے کوارٹرز اور کمرشل بلڈنگز کے درمیان تھوڑی سی جگہ تھی۔ لیکن کرکٹ کے جنونی دل کو کرکٹ کی گویا مہک اپنی جانب کھینچ لیتی تھی۔ “جہاں چاہ وہاں راہ ” کے مصداق جہاں بھی رہا جیسی تیسی مگر کرکٹ کھیلی ضرور۔ کچھ ہی دنوں میں وہ مجھ سے اور میں اس سے مانوس ہو گئے ۔ کرکٹ کا بچپن سے جنون ہونے کی وجہ سے میں صرف کرکٹ کھیلتا ہی نہیں تھا بلکہ کرکٹ کو technically جانتا تھا۔ انگریزی کی کمنٹری کرنے کا بھی شوق تھا۔اس دن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جس دن حاشر نے اپنے گھر سے ایک شاپر میں پانی بھرا اور اس میں سوراخ کرکے بالکل ہمارے بچپن کی طرح وکٹ پر ترکاؤ کیا اور اسکے بعد انگریزی میں پچ رپورٹ دیتے ہوئے کہا۔
Now the ball will swing because wicket has moisture۔( اب گیند سوئنگ ہوگاکیونکہ وکٹ میں نمی ہے) ۔مجھے بے حد خوشی ہوئی،وہ واقعی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بال کو تھوڑا بہت گھمالیتا تھا لیکن سپن بولنگ کرتے ہوئے اسکی آف بریک اور لیگ بریک کمال تھی۔ بیٹنگ میں بھی بڑے سٹائل بنانے کی کوشش کرتا تھا۔حاشر کی ایک اور خوبی اسکا خوش گلو ہونا تھا وہ گاتا بہت اچھا تھا ۔ اور افسوس کی بات ہے لکھنا تو نہیں چاہتا لیکن اسکی یہ صفت اسکی زندگی میں بد بختی کا ایک ایسا موڑ لے کر آئی جہاں سے آگے خوش بختی کا یو ٹرن کبھی آیا ہی نہیں ۔

حاشر کے والد جن کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔  وہ حاشر کو ایک اپنے بقول دینی محفل میں لے گئے جہاں حاشر نے تلاوت کی اور نعت پڑھی۔ محفل کے اختتام پرپیر صاحب نے حاشر کے والد کو پاس بلایا اور حاشر کا کاتبِ تقدیر بن کر ایک مژدہ سنا دیا کہ کیونکہ حاشر کی قرات اچھی ہے اس لیے اسے انکے ایک شاگرد کے مدرسے میں حفظ پر لگا دیا جائے اور ساتھ عالم فاضل کا کورس کروایا جائے۔

حاشر کے والد نے اس حکم کو خدا کا حکم تصور کرتے ہوئے وہیں کھڑے کھڑے بلکہ جھکے جھکے آمین کہا۔حاشر کا باپ سب سے بہترین مرید ثابت ہوا۔ لوگ نئے کرنسی نوٹوں سے نام نہاد روحانیت خرید رہے تھے حاشر کے باپ نے اپنے بیٹے کی خداداد صلاحیتوں کو اس روحانیت کے خراج میں تج دینے کا گھناؤنا فیصلہ کر لیا۔ نہ جانے کتنے بچوں کے بخت کے روشن ستارے اس مذہب کی خود ساختہ تشریح کی نذر ہو کر گل ہو جاتے ہیں۔۔۔ قومی افق پر یہ تیرگی کے سائے یونہی تو نہیں ۔

حاشر جسے اگلے ہی دن سکول سے اٹھا لیا گیا اور مدرسے بھیج دیا گیا۔جب وہ کرکٹ گراؤنڈ میں نہیں آیا تو میں نے دوسرے بچوں سے پوچھا اور مجھے اسکے بارے پتا چلا تو دل تڑپ اٹھا ،روح کانپ گئی۔ میں اسکے والد کی دوکان پر گیااور ان سے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا کہ میں حاشر کے بارے بات کرنا چاہتا ہوں ۔انہوں نے کہا جی بولیں۔ میں نے ان سے کہا کہ خدارا۔۔۔آپ کا بچہ خدا سے جو تابندہ  پیشانی لے کر آیا ہے اسے اپنے ماتھے کے مہراب کے پیچھے مت گہنائے جانے دیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کر کے بھی خدا کا تعارف کروا سکتا ہے دنیا کو ۔ یقین مانیے وہ خود کو پاکر بھی خدا کو پا سکتا ہے اسکے لیے اسکے اندر کے انسان کی خود کشی ضرور نہیں ۔ یہ تمام کائنات خدا کی ہے اسکی ہر جہت میں ، ہر علم میں ،ہر فن میں ،ہر ریاضت میں ، ہر سائینس اور ہر ٹیکنالوجی میں وہی خدا موجزن ہے ۔ آپ نے اسکی ڈرائنگ دیکھی۔۔۔۔ وہ اس خاکہ کشی کے شہنشاہ خدا کا نائب ہے جس نے اس تمام کائنات کا نقشہ کھینچا ۔ آپ نے اسکی انگلش کمنٹری سنی؟ یہ اس کے جد امجد آدم کو واسع علیم خدا کی طرف سے سیکھنے کا فیض ہے۔ آپ نے اسکو بولنگ اور بیٹنگ کرتے دیکھا؟ اسکی تکنیک اسکے جسم کی پھرتی اسکا شوق اسکی لگن یہ بتاتی ہے کہ خدا نے اسے بناتے وقت اسکے بارے کیا سوچا ہو گا ۔ اسکی آنکھوں میں خدا کی تجلی کی کرنیں ہیں پلیز اسے اپنی روشن آنکھوں سے اپنی فطرت اور خمیر میں چھپے خدا کو ڈھونڈنے دیں۔۔اس کی روح کے سمندر کو اپنی روحانیت کے کوزے میں بند مت کیجیے، یہ بچہ خدا کی تخلیق کا ایک شاہکار ہے ایک دن آپکا محلہ ، آپکی گلی ، آپکا شہر ،آپ کا ملک حتی کہ آپ اور آپ کا خاندان اس کے نام سے جانے جائیں گے۔۔۔۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ۔یہ کہہ کر میں نے انکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے۔

اسکے والد نے میری باتیں سن کر جو ردعمل دیا اس سے مجھے لگا کہ یہ کوئی روبوٹ ہے جس نے شاید میری کوئی بات سنی ہی نہیں۔۔۔اس نے کہا ان سب پر بھاری ہے ایک حافظ جو اپنے ساتھ اپنے ماں باپ کو بھی جنت میں لے کر جائے ۔ساتھ ساتھ دین کا علم حاصل کر کے اپنی اور ہماری آخرت سنوارے گا۔  آپ کو شاید ایک حافظ اور عالم کا مقام نہیں پتا۔  ؟

میں نے کہا ۔۔ جنابِ والا مجھے بالکل معلوم ہے سر آنکھوں پر انکا مقام و عزت ۔۔۔ لیکن خدا کی اعلیٰ  ظرفی کی قسم نا خدا اتنا تنگ نظر ہے نہ اسکی جنت  کہ جس میں صرف حفاظ و علما ہی ہونگے۔  ایک ڈاکٹر جو انسانیت کا مسیحا بن جائے ۔ایک انجینئر جو خدا کے خوف سے کسی پل سڑک کو ناقص نہ بنائے کہ کل مخلوق خدا تنگ ہو گی۔  ایک سائنس دان جسکی ایجادات سے انسانیت کا بھلا ہو۔ ۔ ایک بینکر،کھلاڑی،  تاجر،  کمپیوٹر دان یا کوئی بھی پیشہ ور جس کے دل میں خدا بستا ہو جو اسکی محبت و خشیت میں مالِ حرام سے منہ موڑ لے ۔ جس کا مال و متاع دنیا میں بھوک بڑھانے نہیں کم کرنے کے کام آئے ۔ہر وہ کا  سب جسے حبیب اللہ بننے کی دھن سوار ہو جائے ۔ وہ بھی خدا کی رحمت کا حق دار ہو گا ۔وہ تو جنت کسی فاحشہ کے کتے کو پانی پلانے پر دے دے۔۔۔۔۔اسے کون پوچھ سکتا ہے ۔ وہ ایک رحیم و رحمان شہنشاہ عالم ہے جناب۔

“بہرحال” ایسے الفاظ ہیں جو ہر دلیل سے عاری شخص کی آخری پناہ گاہ اور راہِ فرار ہوا کرتے ہیں۔۔ حاشر کے والد نے بھی ان الفاظ کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ بہرحال  جو کچھ بھی ہے پیر صاحب کی حکم عدولی ممکن نہیں اور میں حاشر کا باپ ہوں جو بہتر سمجھوں گا اسکے حق میں وہی فیصلہ کروں گا۔۔۔آپ بھی اپنی آخرت کی فکر کریں ۔

میں  نے بے بسی سے آہ بھری اور دکان سے باہر نکل آیا۔ آسمان کی جانب نگاہ اٹھائی تو اتنا ہی سکوت تھا جتنا میرے دل میں۔ لیکن نیلی چادر والے کا ضبط اپنے اس سیاہ کار نائب سے کہیں زیادہ تھا جسکی آنکھوں میں افسوس کے آنسو منظر کو دھندلا رہے تھے ۔ میری وسعت نگاہ اتنی ہی تھی مگر وہ مستقبل میں حاشر جیسے اپنے با صلاحیت ترین خلیفہ کا ضیاع دیکھ کر بھی خاموش تھا۔ وہ عظیم ذات اسی لئے بے نیاز خدا ہے میں اسی لیے نیاز مند بندہ۔ ۔کیونکہ اس نے جس باپ کو بیٹے کا خدا بنایا تھا اس نے پیر صاحب کی بندگی اختیار کر لی تھی  ۔

اسکے بعد میرا گراؤنڈ جانے سے دل بھر گیا ۔میں نے کرکٹ کھیلنی چھوڑ دی تھی ۔اپنی پڑھائی میں لگ گیا اور تیسرے سال کے پیپرز دے کر میں نے واپس خواب نگر ملکوال کا راستہ لیا ۔

دس سال بیت گئے۔۔۔بچھڑنے والے بچھڑ گئے ملنے والے آن ملے۔۔ ایک دن میں ازل کا مسافر ریلوے اسٹیشن سرگودھا  ریل گاڑی سے اترا اور اڈے پر جانے کے لیے باہر آیا کہ کوئی رکشہ دیکھ سکوں تو ایک رکشہ میرے سامنے آ کر رکا۔ میں زمین سے گویا اچھل ہی پڑا۔  حیرت کے گیارہ ہزار وولٹیج میرے رگ و پے سے گزر گئے۔ گمان کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا مگر حقیقت سے منہ موڑنا محال تھا۔

اسکا صبح روشن جیسا چہرہ اب ہجر کی رات کا منظر پیش کر رہا تھا ۔اسکی آنکھوں میں خدا کی تجلی کی کرنیں اب انکار کی راکھ ہو چکی تھیں۔ اسکی وہ بشاشت مردنی و یاسیت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ میں اسے کیسے بھول سکتا تھا۔ ۔ میں نے کہا حاشر بچے تو  ۔ وہ پھٹ پڑا وقاص بھائی آپ۔ ۔ بڑا ڈھونڈا آپ کو میں نے۔۔۔  میں تو اسے گلے لگا کر رو ہی دیا۔ ۔ کہنے لگا کہاں جائیں گے ۔۔ میں نے کہا وہیں دس سال پہلے والے گراؤنڈ میں بچے ۔ تڑپ اٹھا، لرز گیا،موٹے موٹے آنسوؤں کو اپنے بختوں جیسی سیاہ چادر میں چھپا کر خود کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ بھائی جان۔  My match is over۔۔۔واک اوور مل گیا تھا ناں۔ چھوڑیں ناں  ، بیٹھیں۔  اڈے پر چلوں یا۔۔۔

میں بیٹھ گیا اور اسے اڈے پر چلنے کا کہا۔۔۔الفاظ میرے حلق میں غریب کی زندگی کی طرح اٹک گئے تھے۔۔میں اس سے بس اتنا ہی پوچھ پایا کہ بچے ایسے کیسے ؟اس پر جو کہانی اس نے سنائی اسکا حرف حرف کانوں میں تاسف کا سیسہ پگھلا کر قطرہ قطرہ روح پر چھید کرتا رہا۔ اسکے ایک دہائی سے رکے ہوئے استبداد کی اندھی قبر میں دبے ہوئے جذبات کا ماتم کرتے الفاظ اور میرے آنسوؤں کا سمندر یوں بہا کہ اللہ اللہ۔

میں جب اپنی طبیعات اور روحانیت کے درمیان معلق مدرسے پہنچا تو دلِ ناداں میں شدید خواہش تھی کہ میری تابعداری بھی درِ خدا پر قبول ہو اور میری جگہ بھی کوئی بھیڑ آسمان سے اتار دی جائے۔ اور میرے لیے بھی خدا چھری کو کند ہو جانے کا حکم دے لیکن مجھے پہلے ہی دن کے سبق میں پتا چلا کہ معجزات صرف انبیا ءکرام کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔اور اب انبیاء کے خود ساختہ وارثوں کے لئے میں اور میرے جیسے یہ بچے درحقیقت آسمان سے اتری ہوئی بھیڑ بکریاں ہیں جن کے معصوم جذبات و احساسات پر یہ مذہبی استبداد کی تیز دھار چھریاں چلتی رہیں گی اور عقیدت کے مذبح  خانوں میں ہمارے بچپن کا خون بہتا رہے گا۔

میرے لئے سب سے مشکل امر اس علم کا طالب بننا تھا جس کی طلب میری سائنسی و تحقیقی فطرت میں نہیں تھی جسے مجھے پیغامِ اجل کی طرح بس تھما دیا گیا تھا ایک ایسی دعا کی طرح جسکا مجھے مطلب نہیں پتا لیکن میں نے سر دھنتے ہوئے بس آمین کہنا تھا اور۔۔۔اس پر مستزاد یہ کہ اس ماحول میں جس سے میرا خمیر مانوس نہیں تھا۔

میں ایک فطری طور پر آزاد منش بچہ تھا ،بلکہ میں ہی نہیں تمام بچے  ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جنہیں آزادی پسند ماں باپ اور استاد میسر آ جائیں وہ رفعتوں میں اڑتے شاہین بن کر کسی اقبال کا استعارہ ہو جاتے ہیں ۔خدا اور اسکی جنت سے بچھڑے ہوئے اسکی طرف لپکتے ہیں محوِ پرواز رہتے ہیں خدا کی منزل تک خودی کے راستے پہنچتے ہیں جو خدا کا اصل منشا ہے ۔تبھی انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن اگر ماں کی گود یعنی پہلی درسگاہ ہی آزاد منش اور خود اعتماد نہ ہو اور باپ بھی ذہنی طور پر غلام ہو کوئی آزادی سے محبت کرنے اور پروان چڑھانے والا استاد بھی میسر نہ آئے تو ایسے میں بچے کے پَر زندگی بھر کبھی نہ اُگنے کے لئے کٹ جاتے ہیں انسان پھر زمین پہ رینگنے والا کوئی احقر المخلوقات بن جاتا ہے جو زندگی بھر زمین کے خداؤں کے  پیروں میں بیٹھا رہتا ہے ،نہ خود شناس نہ خدا شناس،
علم و علمیت ایک شعوری عمل ہے۔۔شعور جستجو اور غور و فکر کی ریاضت سے کشید کیا جاتا ہے۔  جستجو اور حاصل زندگی کے دریا کے دو کنارے ہیں انکے درمیان پُل کو طلب کہتے ہیں۔ طلب افادے کے فطری قانون کی پیروکار ہوتی ہے ۔ میرا سب سے بڑا اور کڑا امتحان اپنی فطری طلب پر جبری طلب کی ملمع کاری کر کے اس علم کا طالب بننا تھا جسے میں شعوری طور پر جبر سمجھتا تھا ۔ اپنی زندگی دوزخ بنا کر کسی کے لیے جنت کمانا میری سمجھ سے باہر تھا ۔

روحانیت جس کا مجھے نہ  مطلب پتا تھا ،نہ مقصد، لیکن اس مسافت میں میری روح پر پہلا زخم آپ سے تُو کہلوانے سے لگا۔ ۔اپنے کم عمر جسم پر اپنے باپ کی جنت کی مہریں ثبت کروانے سے پہلے یہ زخم بڑا دردناک تھا۔ میں نے پہلے دن رحیم و کریم خدا کے رحمت للعالمین پر اترے دین کی تعلیم و ترویج کرتے بے رحم معلم کو اپنے باپ کے لیے جنت کا تاوان بنتے حفاظ کو جس طرح مارتے دیکھا تو شدید حیرت ہوئی۔ ۔ مار تو سکولوں میں میڈم بھی دیتی تھیں۔  لیکن یہاں تو۔۔ ۔کوئی چھٹے ہوئے گھناؤنے مجرموں کو تھانوں میں کیا تشدد ہوتا ہو گا کہ جو اس دینِ رحمت کی تدریس کے دوران ہوتا ہے۔ پہلے ہی دن جو میں نے تشدد کے یہ مناظر دیکھے تو دل سینے کی دیواروں سے ٹکرانے لگا ،دھڑکنیں یوں ماتم کناں ہوئیں کہ میں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔  مجھے روتا دیکھ کر استاد نے پاس بلایا اور کہا تُو کیوں بھیں بھیں کر رہا ہے ابھی تیری باری آنے میں تو کچھ دن ہیں۔۔ ویسے تو پیر صاحب کا خاص بچہ ہے تیرے پہ ہاتھ ہلکا ہی رکھیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(اس روئے زمین پر جگہ جگہ ماتم کناں روح و دل کو ریزہ ریزہ کرتی داستان کا دوسرا اور آخری حصہ  پڑھنا نہ بھولیے گا)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply