اردو ادب کی عمارت جنسیت کی نفی پر کھڑی ہے: ژولیاں/انٹرویو

ہند و پاک کے خطے کے ساتھ اہل یورپ کے تعارف اور میل جول کی کہانی جتنی پرانی ہے، یہاں کی زبانوں میں یورپی نژاد اہل قلم کی فہرست کا محیط بھی اتنا ہی قدیم اور تاریخ گیر ہے۔ فرانس کے خطے نے گزشتہ تین صدیوں میں اردو سے وابستہ متعدد قادر الکلام اور صاحب دیوان شعراء اور ماہر فن محقق اور نقاد پیدا کیے ہیں۔
ژولیاں اردو کے پہلے فرانسیسی نژاد افسانہ نگار ہیں، جو اردو کے ساتھ ساتھ ہندی، سنسکرت، پنجابی اور سرائیکی بھی جانتے ہیں، اور وہ بجا طور پر ان زبانوں کے توسط سے یہاں کے سماج، طرز زندگی اور طرز فکر کو سمجھنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ اب تک ان کی کہانیوں کے دو مجموعے “تین ناولٹ” (ساغر، میرا جی کے لیے، اور منیر جعفری شہید)، اور “زاہد اور دو کہانیاں” شائع ہو چکے ہیں، اور تخلیق کا یہ سفر ابھی تک جاری ہے۔   ژولیاں کے ساتھ کی  گئی  بات چیت   اردو کے سنجیدہ قارئین کی نذر ہے۔
سوال: اپنے بچپن اور خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیے، بچپن میں کن چیزوں سے متاثر رہے؟
ژولیاں: بچپن میں مجھے اکیلا پن بہت اچھا لگتا تھا، درختوں پر چڑھنا، ان میں چھپ کر گھنٹوں بیٹھے رہنا، پرندوں کو دیکھنا، یہ سب مجھے بہت پسند تھا۔ میں بہت سوشل بچہ نہیں تھا، اب بھی میں بہت مجلسی بندہ نہیں ہوں، ابتدا سے ہی مجھے سمجھ آ گیا کہ زندگی تنہا گزارنا ہے۔ میں کلاس روم میں بہت کم بولتا تھا، الگ تھلگ رہتا تھا، اٹھارہ سال کی عمر تک شاید ایک یا دو دوست بنے۔ کتاب پڑھ لینا، لکھ لینا۔ البتہ یہ چیز ہے کہ میں نے لکھنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا، بچپن میں مجھے مصوری سے شغف تھا، میں پینٹنگ کرتا تھا اور مصور بننا چاہتا تھا۔
ہم فرانسیسی کو لانگ کہتے ہیں، علاقائی زبانوں کو ہم پتھوا کہتے ہیں۔ پتھوا کو حقیر اور ناپختہ زبان سمجھا جاتا ہے جس میں خیالات کا اظہار نہیں ہوتا۔ پنجابی، اور پنجابی کے اندر جو پنجابیاں ہیں، انہیں دیکھ کر میری پنجابی سے ہمدردی ہو گئی، مجھے لگا کہ یہ میری کھوئی ہوئی زبان ہے۔
والدین کا پس منظر عام سا تھا، ماں گھریلو عورت اور باپ کسی کمپنی کے نمائندہ تھے۔ وہ سن 80ء کا زمانہ تھا، جو کہ فرانس میں بحران کا زمانہ بھی تھا۔ والد کو بار بار نوکری سے نکالا جاتا تھا، لیکن محنتی آدمی تھے، اسی لیے انہیں نئی نوکری جلد مل جاتی تھی۔ تو ہم فرانس میں جگہ بدلتے رہے۔ ہمارا آبائی شہر مارسائی تھا، میں وہاں زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ بزرگوں کا اثر بہت زیادہ رہا، نانا، نانی، دادا اور دادی، سب داستان گو تھے۔ میرے خیال سے سبھی بزرگ داستان گو ہوتے ہیں۔ بزرگ یا تو خاموش طبع ہوتے ہیں، یا داستان گو ہوتے ہیں۔ میں ان کی داستانیں سنتا تھا۔ دادا دادی نے دو جنگیں دیکھی تھیں، انہوں نے 30 کی دہائی کے حالات دیکھے تھے۔ ان کا تجربہ بہت وسیع تھا۔ جرمنوں کا آنا، چھاپے مارنا، اور اس وقت آپ کو فیصلے کرنا ہوتے تھے، یا تو آپ کمیونسٹوں کے ساتھ ہوتے تھے، یا نہیں ہوتے تھے۔ آج کل تو لوگ فیصلہ ہی نہیں کرتے، وہ لوگ بہت سیاسی شعور رکھتے تھے۔ دوسری طرف وہ بہت زیادہ مذہبی اور روحانیت پرست تھے۔ دادا جان ہر سال زیارات پر جاتے تھے، پیسے ان کے پاس بہت تھے، ایک محل نما گھر میں رہتے تھے، وہ ہر سال ایک چغہ پہنتے تھے اور ننگے پاؤں کسی زیارت کی طرف نکل جاتے تھے۔ اور پیسے کیا چغے میں جیب تک نہیں ہوتی تھی۔ وہ ننگے پاؤں جاتے تھے اور تین چار مہینے بعد واپس آتے تھے۔ وہ کیتھولک عیسائی تھے۔ دادی رات کو باہر نکلا کرتی تھیں، انہیں کچھ پراسرار چیزیں نظر آتی تھیں، ان کی بینائی کم تھی، اور وہ موٹے شیشوں کا چشمہ لگاتی تھیں۔ وہ رات کو بغیر چشمے کے باہر نکل جاتی تھیں، لیکن کبھی گری نہیں، کبھی گم نہیں ہوئیں۔ وہ سیر کر کے واپس آ جاتی تھیں۔ شاید وہ کچھ ہیولوں سے باتیں بھی کرتی تھیں۔ یہ ان کے خاندان میں چل رہا تھا، ان کی ایک بہن نے بھی اسی کی وجہ سے خودکشی کی، انہیں شیزوفرینیا تھا اور وہ کھڑکی سے کود کے مر گئیں۔ وہ ماحول ایک طرح سے کہانیوں سے مملو تھا۔ ہمیں داستان سنائی جاتی تھی، لیکن بہت سی چیزیں ہم سے چھپائی بھی جاتی تھیں۔
میں نے سوچا کہ یونانی اور لاطینی جاننے والے بہت ہیں، لیکن سنسکرت جاننے والے بہت کم ہیں، سو میری سنسکرت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ہندوستان پہنچ کر مجھے لگا کہ یہاں آیا ہوں تو کوئی ورنیکولر زبان بھی سیکھنا ہو گی، تو میں نے ہندی سیکھنا شروع کی، یعنی اردو کے قریب آ گیا، اردو تک پہنچنے کا سلسلہ سال در سال پر محیط رہا۔
سوال: ایک اجنبی خطے کی ثقافت اور زبان میں دلچسپی پیدا ہونے میں آپ کے بچپن کے پرتجسس تجربات کا بھی کوئی ہاتھ ہے؟
ژولیاں: میں نے ایک خواب دیکھا تھا، جس کی تعبیر بعد میں میں نے خود کی۔ جب میں چھوٹا سا تھا تو مجھے بہت سی باتیں نہیں بتائی گئیں، مجھے اپنے دادا کے بارے میں بہت زیادہ نہیں پتہ تھا۔ وہ ویسے تو خاموش طبع تھے، لیکن جب وہ داستان سناتے تھے تو سارا ہال گھر والوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ لیکن ان کی داستانوں سے میں مجھے ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلا۔ پھر جب میں تیس سال کا تھا تو کافی دیر ہندوستان میں رہا۔ مجھے اپنی پھوپی کے پاس جانے کا اتفاق ہوا، وہاں دادا کی سبھی کتابیں رکھی تھیں۔ تو میں نے وہاں اپنیشد، رگ وید اور ایسی دوسری بہت سی کتابیں دیکھیں۔ ان کی ہندوستان میں بہت دوستیاں تھیں۔ ہمارے علاقے میں ایک انگریز تھا، جو دادا جان کا بڑا دوست تھا، اس نے دادا کی عطیہ کی رقم سے فرانس میں پہلا آشرم قائم کیا تھا، گاندھی جی سے اس کی بڑی دوستی تھی، گاندھی نے اس آشرم کا نام شانتی داس رکھا۔ وہ انگریز 20ء کی دہائی میں ہندوستان گیا، اور انگریز کی طرح پالکی میں سفر کرتا تھا، مقامی لوگ پالکی کو اٹھاتے تھے۔ ایک بار وہ ایک ندی کے پاس سے گزر رہا تھا، تو اس نے ندی میں نہانا چاہا۔ وہ کافی دیر ندی میں تیرتا رہا، جب واپس کنارے پر آیا تو دیکھا کہ کپڑے اور پالکی غائب تھے۔ وہ الف ننگا تھا۔ اس نے باوا آدم کی طرح پتوں کے ساتھ اپنا ستر چھپایا اور پاس کے ایک گاؤں تک آیا، وہاں کے لوگوں نے اسے سادھو سمجھ لیا۔ انہوں نے اسے کپڑے دئیے، کھلایا پلایا۔ تو وہ سادھو بن کے کئی سال تک وہاں رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ دولت کے ہونے سے سبھی حرص کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن پہننے کو کپڑے تک نہ ہوں تو سبھی کو اندر کا انسان بھی نظر آ جاتا ہے۔ اس کا اصل نام لونزا دلواستو تھا۔ دادا تو بڑی خواہش کے باوجود کبھی ہندوستان نہیں جا سکے، اور پھر یہ میرا بھی خواب رہا۔

2

سوال: آپ کی مادری زبان کون سی ہے؟ اور آپ کو یہاں کی زبانوں میں ان کے ساتھ کوئی مشترک قدر نظر آتی ہے؟
ژولیاں: فرانسیسی بھی میری زبان ہے، اور اس کی تہہ میں ایک اور علاقائی زبان پرووانسال ہے، اور اوکسیتان بھی کہلاتی ہے۔ وہ کسی زمانے میں بہت وسیع زبان ہوا کرتی تھی۔ تقریبا ایک صدی پہلے ختم ہو گئی ہے۔ میرے بزرگ وہ زبان اور وہ محاورہ بولا کرتے تھے۔ زبانوں کے معدوم ہو جانے کے بعد ان کی جگہ اگلی زبان لے لیتی ہے، لیکن پہلی زبان کا اثر اس کی تہہ میں رہتا ہے۔ فرانس میں بہت عرصے تک تمام علاقائی زبانوں پر پابندیاں لگی رہیں۔ سن 81ء یا 82ء میں جب میتراں اقتدار میں آئے تو انہوں نے وہ سب پابندیاں ہٹا دیں۔ اب پرووانسال اسکول میں پڑھائی جا رہی ہے۔ جب میں بچہ تھا تو میں نے کچھ پرووانسال سیکھی۔ پھر جب میں ہندوستان آیا میں نے شاعری کی، تو پتہ نہیں کیسے لیکن شاعری پرووانسال میں ہی نکلی، جو زبان میں نے دس پندرہ سال سے نہیں سنی تھی۔ یہ ایک معجزہ تھا۔ میرے نانا آخری شخص تھے جو پرووانسال کو پوری طرح سے بول لیتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد میں نے لکھنا بند کر دیا۔
فکشن میں پہلا قدم یہ ہے کہ آپ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے ضمیر غائب استعمال کرتے ہیں۔ اور جب آپ کو کہانی کی شکل نظر آنا شروع ہو جاتی ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی تحریروں میں وقت داخل ہو گیا۔ جبکہ شاعری کا دائرہ وقت سے باہر ہے۔
فرانس میں اس وقت زبان کو لے کر احساس کمتری بہت زیادہ تھا۔ حتی کہ لوگوں نے اپنے بچوں سے علاقائی زبانیں بولنا بند کر دیا۔ اسکول میں ہمیں یہ تربیت دی گئی کہ جو علاقائی زبان بولتا ہے، وہ پینڈو ہے، گنوار ہے۔ صبح جب استاد اسکول آتا تھا تو وہ ایک بچے کو ایک سکہ دیتا تھا۔ اس کو سگنال کہتے ہیں، ہماری زبان میں سینیال، یعنی علامت۔ وہ جہالت کی علامت تھی۔ تو جس بچے کے پاس سینیال ہوتا، اگر وہ کسی دوسرے بچے کو علاقائی زبان بولتے سنتا تو وہ اسے سینیال تھما دیتا، اس طرح وہ سکہ گردش کرتا رہتا۔ شام کو جب کلاس ختم ہوتی تو ٹیچر آ کر پوچھتا کہ سینیال کس کے پاس ہے۔ اس بچے کو کھڑا کر کے دس منٹ تک اس کی تضحیک کی جاتی، انگلی دکھائی جاتی۔ کہ اس نے ہمت کیسے کی علاقائی زبان بولنے کی۔ ہم فرانسیسی کو لانگ کہتے ہیں، علاقائی زبانوں کو ہم پتھوا کہتے ہیں۔ پتھوا کو حقیر اور ناپختہ زبان سمجھا جاتا ہے جس میں خیالات کا اظہار نہیں ہوتا۔ پنجابی، اور پنجابی کے اندر جو پنجابیاں ہیں، انہیں دیکھ کر میری پنجابی سے ہمدردی ہو گئی، مجھے لگا کہ یہ میری کھوئی ہوئی زبان ہے۔ یہ بھی اتنی ہی مظلوم زبانیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ بھی زیادہ تر دیہاتی معاشرہ تھا، آپ ہمارے پرانے رزمیے پڑھیں، اس میں چوہدری بھی ہیں، چوہدری کی بیٹیاں بھی ہیں۔ اس میں عاشق کے عورت کو اغوا کرنے کے قصے ہیں، چھپنے چھپانے کے قصے۔ عورت کے بھائی اس کو مار ڈالنے کے لیے اس کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اشتہاریوں کی باتیں، کھیتی باڑی۔ آپ افریقہ چلے جائیں، فرانس چلے جائیں، قدیم معاشرہ سبھی جگہ ایک جیسا ہے۔

3

سوال: لکھنے لکھانے کی طرف کیسے مائل ہوئے؟
ژولیاں: میں مصور بننا چاہ رہا تھا، لیکن میرے ماں باپ نے مجھے سمجھایا کہ تم ایک شریف خاندان کے لڑکے ہو، ہم تمہیں مصور نہیں بننے دیں گے۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ بہتر ہو گا کہ میں استاد بن جاؤں۔ سو میں نے لاطینی یا یونانی کا استاد بننا چاہا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ بروتوں اور فلپسوپو جیسے لوگوں کو پڑھا، پھر فرانس کی ادبی تاریخ میں پہلی کتاب ہے جس میں سریئلسٹ شاعری ملتی ہے؛ لے شامانتیک (Les Champs Magnétiques)، نام کا ترجمہ تو شاید میں نہیں کر سکتا، میں نے اسے پڑھا تو مجھے شوق پیدا ہوا اور میں نے آٹومیٹک رائٹنگ کے تحت لکھنا شروع کر دیا۔ ایسے ہی میں ایک کتاب میلے پر گیا، وہاں ایک شاعر اور افسانہ نگار اپنی کتاب کے ڈھیر کے ساتھ بیٹھے اپنے دستخط کر کے دے رہے تھے، Daniel Boulanger نام تھا، ٹکلو آدمی تھے، بہت خوبصورت اور مہم جو انسان۔۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا؛ کیا آپ لکھتے ہیں، میں نے بتایا کہ میں لکھتا ہوں۔ اصل میں ہر وہ جوان جو تھوڑا بجھا بجھا اور کھویا کھویا ہوا نظر آتا تھا، وہ اس سے اسی طرح مخاطب ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک نظم اٹھائی، اور مجھے اس کی تکنیک کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ اس بندے کی باتوں نے مجھ پر بالکل جادو چلایا تھا۔ میرا بلاک اسی وقت دور ہو گیا۔ تیرہ سال تک میں شاعری کرتا رہا، تیس سال کی عمر میں میں نے شعر کہنا بند کر دیا۔ میں سنسکرت سیکھنا چاہ رہا تھا، یونیورسٹی میں ابتدائی سال ادھر ادھر مضمونوں کی طرف بھٹکتا رہا۔ یونانی اور لاطینی پڑھائے جانے کے دوران ان زبانوں کی ساخت کو اکثر سنسکرت کی ساخت سے ملایا جاتا تھا۔ تو میں نے سوچا کہ یونانی اور لاطینی جاننے والے بہت ہیں، لیکن سنسکرت جاننے والے بہت کم ہیں، سو میری سنسکرت میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ہندوستان پہنچ کر مجھے لگا کہ یہاں آیا ہوں تو کوئی ورنیکولر زبان بھی سیکھنا ہو گی، تو میں نے ہندی سیکھنا شروع کی، یعنی اردو کے قریب آ گیا، اردو تک پہنچنے کا سلسلہ سال در سال پر محیط رہا۔
شروعات میں تو میں باغی تھا، اب میں مانتا ہوں۔ موضوع خود تعین کرتا ہے ہیئت کا۔ ایک چیز مجھے بہت تنگ کرتی ہے، اور اس میں مجھے ماننا ہو گا کہ اس کی بہت گہری بنیاد ہے، اس کا ایک جواز ہے۔ اور وہ ہے غزل۔
سوال: آپ دریدا کے شاگرد رہے، ان کی شخصیت نے کس حد تک آپ کو متاثر کیا؟
ژولیاں: ہاں میں ایک لمبے عرصے تک ان کے سحر میں رہا۔ بالکل جیسے ایک سانچہ ہو، اور کوئی اس میں ڈھل جاتا ہے۔ دریدا کی طرح سوچنا، دریدا کی طرح بولنا۔ ہم اسی دباؤ کے تحت سوچتے رہتے تھے کہ اگر ہم دریدا نہیں بنے تو ہم تو کام سے گئے۔ ہم بیس بیس سالوں کے فقرے تھے، چائے خانوں پر لڑکیوں کے بارے کم اور دریدا کے بارے میں زیادہ باتیں کرتے تھے۔ پھر عرصے بعد جب ان کے کاموں کو پڑھا تو اندازہ ہوا کہ یہ نری لفاظی ہے۔ کبھی یوں لگتا کہ جس چیز کا تجزیہ کیا ہے، وہ گھوم پھر کے ایسے نتیجے پر پہنچا ہے جو کہ نتیجہ بھی نہیں ہے، اور اس نتیجے کے اندر اس نتیجے کا رد بھی موجود ہے۔ ڈی کنسٹرکٹ نہیں کیا، بیان بہت متضاد ہیں۔ البتہ جب دریدا صاحب بولتے تھے، تب آپ کو ایسا کوئی تاثر نہیں جاتا تھا۔ جب وہ ہمیں ہائیدگر کے بارے میں بتاتے تھے تو ہائیدگر کے فرانسیسی اور انگریزی تراجم اور جرمن متن ان کے سامنے رکھے ہوتے تھے، آگے دقیق نکات والے نوٹس بنا کر رکھے ہوتے تھے۔ وہ پڑھانے میں سنجیدہ اور پرجوش تھے، ان کا انداز جدلیاتی تھا، جو انہوں نے ایکول نومیل سپیرئیر میں التھوسر جیسے لوگوں سے سیکھا تھا۔ لیکن اس میں سے ایک تعمیری سوچ ابھرتی نظر آتی تھی، ڈی کونسٹرکشن تو وہ تھی ہی نہیں۔ لیکن لکھتے ہوئے وہ بہک جاتے تھے۔ لکھتے ہوئے متن کے اندر سے ہمیں ایک ماتحت المتن نکالنا ہوتا ہے، جو کہ اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ ایک مہابیانیہ (ڈاکٹر علی صدیقی کے بقول) ہمیں اس میں سے نکالنا ہوتا ہے۔ ان کے اندر ادب کا کیڑا تھا، ان کے بڑے استاد سبھی فلسفی تھے، لیکن جن لوگوں سے ان کی گہری دوستی تھی، وہ سبھی ادیب تھے۔ انہوں نے شروعات شاعری سے کی تھی لیکن بعد میں وہ فلسفی بن گئے۔ لیکن ان کے اندر فکشن لکھنے والے کا مزاج نہیں تھا، انہیں کہانی سنانا نہیں آتا تھا۔
سوال: آپ شاعر بھی ہیں، آپ نے کس کس زبان میں شاعری کی اور کس طرح سے کی؟
ژولیاں: شاعری میں نے فرانسیسی میں کی، ایک خاص دور میں اپنی علاقائی زبان پرووانسال میں کی۔ وہ سریئلسٹ شاعری تھی۔ لیکن پھر مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں ایک کہانی سنا رہا ہوں۔ میری شاعری میں بیانیے کے کئی عناصر ہیں، یعنی میں آہستہ آہستہ تجریدیت سے افسانے کی طرف آ رہا تھا، اور شاعری سے نثر کی طرف آ رہا تھا۔ میں ایک بندے کی کہانی لکھتا تھا، وہ بندہ ظاہر ہے، میں خود تھا۔ لیکن میں ضمیر غائب میں لکھتا تھا۔ فکشن میں پہلا قدم یہ ہے کہ آپ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے ضمیر غائب استعمال کرتے ہیں۔ اور جب آپ کو کہانی کی شکل نظر آنا شروع ہو جاتی ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی تحریروں میں وقت داخل ہو گیا۔ جبکہ شاعری کا دائرہ وقت سے باہر ہے۔
سب لوگوں نے میرا جی کی شخصیت پر زیادہ بات کی ہے۔ اور یہ ان کی خواہش بھی تھی کہ ان کی شخصیت پر زیادہ بات ہو۔ وہ ڈرامے باز تھے۔ یہ بات مجھ پر ناولٹ لکھ چکنے کے بعد کھلی تھی۔
سوال: آپ نے کہا کہ آپ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے ضمیر غائب کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ آپ کے سوانحی ناولوں میں، جو کہ بظاہر کسی اور شخص کا احوال ہیں، اس میں آپ زیادہ تر متکلم کا ضمیر استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس فرق کی کیا وجہ ہے؟
ژولیاں: جی یہ شعوری ہے۔ جب بھی میں کوئی چیز لکھتا ہوں تو میں پہلے آزما لیتا ہوں کہ اس میں کون سے ضمائر بہتر ہیں۔ غائب میں لکھوں گا، حاضر میں یا متکلم میں۔ اور میں دیکھوں گا کہ کون سا ضمیر زیادہ جچتا ہے، یا کون سے ضمیر میں لکھتے ہوئے مجھے سہولت رہتی ہے۔ کس ضمیر میں لکھتے ہوئے میں محسوس کر سکتا ہوں کہ میں اپنے کردار کے ساتھ ہوں اور ہم ایک ہو گئے ہیں۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ متکلم کا صیغہ استعمال کریں۔ کیونکہ متکلم بڑا مبہم صیغہ ہے، یہ آپ کو بہت زیادہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ پہلے غائب میں لکھا، بعد میں سارے کا سارا دوبارہ متکلم میں لکھا۔ میرا جی کے بارے میں جو میں نے لکھا، وہ میں نے ضمیر غائب میں لکھا تھا، وہ سب سے پہلے میں نے متکلم میں لکھا تھا۔ تو جب میں نے متکلم میں لکھا تو مجھے لگا کہ یہ تو سارا چربہ ہے ساغر کا۔ اب ساغر اور میرا جی میں کیا فرق رہ گیا۔ اور جب میں نے اس کو پڑھا تو مجھے لگا کہ یار دونوں کا انداز اور اسلوب ایک جیسا ہے ۔ میں کیا بیچ رہا ہوں ۔ تو پھر جب میں نے اس کو دوبارہ حاضر کے صیغے میں لکھا تو اسلوب خود بخود بدل گیا۔ تب ایک الگ آدمی بول رہا تھا، اور ایک الگ آدمی لکھ رہا تھا۔ آپ لکھتے ہیں، کہ آپ لکھ سکیں ایک بندے کی آواز میں۔ لیکن وہ آواز آپ پر اتنی زیادہ حاوی ہو جاتی ہے، آپ کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہاں یہ مجہول اور مفعول کون ہیں، کیا چل رہا ہے۔ غائب میں لکھتے ہوئے پھر مجھے اندازہ ہوا کہ بس اب ٹھیک ہو گیا۔ لیکن ابھی بھی مجھے غائب کے صیغے سے کافی چڑ ہے۔ میں جعلی ضمیر غائب میں لکھتا ہوں، کہ آپ متکلم میں لکھیں، اور بدل دیں غائب میں۔ تو آپ کے جذبات ہوں گے متکلم والے، اور آپ غائب کے صیغے میں اس کو پڑھیں گے تو آپ کو بہت غیر آرام دہ سا، عجیب سا لگے گا، جو کہ میں چاہتا بھی ہوں۔ کہ غائب کا صیغہ آپ پر توازن اور غیر جانبداری مسلط کر دیتا ہے، متکلم کا صیغہ آپ پر جذباتیت مسلط کر دیتا ہے۔ آپ اس جذباتیت کو اس اعتدال میں بدل دیں تو عجیب سا لگتا ہے۔
سوال: اردو میں بھی شعر کہتے ہیں؟ اگر ہاں تو کچھ سنائیے گا؟
ژولیاں: جی اردو میں شاعری کرتا ہوں۔ (کتاب زاہد کھولتے ہوئے) کہیں سے بھی کھولیں؛
سورج طلوع ہوا،
اجالا دھڑکنے لگا،
جنگل میں نور کا سیلاب تھا
شجر اس سیل رواں میں غلطاں تھے
رات کے پرندے ان کی ذیلی شاخوں پر استراحت فرما رہے تھے۔۔ الخ
یہ شاعری نہیں ہے تو کیا ہے۔۔
آتشک اصل میں جنسیت ہی ہے، اور جنسیت سے ڈر رہے ہیں اردو والے، بہت سالوں سے۔ فیض کو پڑھو، راشد کو پڑھو، عورت کدھر ہے؟ عورت تو ہے لیکن اس کو سنگ مرمر میں ڈھانپا ہوا ہے۔ آپ کو جنسیت نہیں نظر آتی۔ ایک ہی شاعر نے جنسیت کے بارے میں لکھا۔ اور وہ تھا میرا جی۔
سوال: اردو شاعری میں جو رائج ہیئتیں ہیں، انہیں آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ژولیاں: توڑنا چاہیے سب۔۔ کس احمق نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ نثر لکھتے ہیں یا شاعری لکھتے ہیں، ہمارے ہاں مولئیر کا ایک پلے ہے، اس میں کوئی حریص قسم کا آدمی ہے۔ اس کے پاس ایک استاد آتا ہے اور وہ اسے شاعری اور نثر کا فرق بتاتا ہے۔ کہتا ہے کہ جب آپ بول رہے ہوتے ہیں تو نثر ہوتی ہے، جب آپ بحر استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو شاعری ہو گئی۔ اور وہ بندہ پریشان ہو جاتا ہے کہ میں تو نثر میں بول رہا تھا اتنے سال سے، اور مجھے پتہ نہیں تھا۔ شروعات میں تو میں باغی تھا، اب میں مانتا ہوں۔ موضوع خود تعین کرتا ہے ہیئت کا۔ ایک چیز مجھے بہت تنگ کرتی ہے، اور اس میں مجھے ماننا ہو گا کہ اس کی بہت گہری بنیاد ہے، اس کا ایک جواز ہے۔ اور وہ ہے غزل۔ یہاں میں تنگ آ جاتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ساری ہیئتوں کو توڑنا ہے، اصناف سخن کو توڑنا ہے، ٹھیک ہے، لیکن غزل کو توڑا نہیں جا سکتا۔ پتہ نہیں کیوں۔ یہاں آپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی چیز ہے کہ بالکل منظوم ہے، اس کی اپنی رسوم ہیں، بحر ہے۔ لیکن وہ آپ کو قید نہیں کرتی، آپ کو آزاد کر دیتی ہے۔ آپ کے سر پر لوہے کی ٹوپی رکھ دی جاتی ہے، غزل لکھتے ہوئے آپ بے وزن ہو سکتے ہیں، بڑے لوگ بے وزن ہوئے۔  لیکن آپ آزاد ہو گئے اس میں۔
مجید امجد نظم لکھتے ہیں، کمال کی لکھتے ہیں۔ آج کل میں ان کو دوبارہ پڑھنے لگا ہوں۔ نظمیں بھی، اور غزلیں بھی میں پڑھ لیتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ غزل میں وہ پہنچے ہیں، ہر نظم میں نہیں پہنچے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ ان کی کوئی نظم کمزور ہے، یہ ممکن ہی نہیں ہے، ہر نظم کمال کی ہے، لیکن کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ایک محور ہے جس کے گرد وہ یوں گھوم رہے ہیں۔ ان کی غزل میں اس کے درمیان میں ایک آگ سی محسوس ہوتی ہے، اور آپ اس کے بہت قریب آ گئے ہیں اور اس کی تپش محسوس کر رہے ہیں۔ الفاظ تپاں ہیں، لیکن خود آگ نہیں ہیں۔ یہاں غزل کے کنونشن اور ہیئت نے اس کو آزاد کر دیا ہے۔ کوئی بندش نہیں رہی، نہ تخیل پر نہ لفاظی پر۔ اس کی سوچ محدود نہیں رہی۔ جبکہ آزادی ان کی سوچ کو محدود کر دیتی ہے، گمراہ کر دیتی ہے، آپ بھٹکتے ہیں۔ جبکہ غزل آپ کو بھٹکنے نہیں دیتی۔
سوال: میرا جی پر آپ نے ناولٹ لکھا، ان کی شاعری پر اب تک بات بہت کم کی گئی ہے۔ زیادہ تر بات ان کی شخصیت پر کی گئی۔ آپ نے ان کی شاعری کو قریب سے دیکھا ہو گا، ان کی نظموں، غزلوں، گیتوں پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ژولیاں: ان کی شاعری کو پہلے میں بہت زیادہ مانتا تھا، اب میں اتنا نہیں مانتا۔ ان کی کلیات میں بہت اچھی نظمیں ہیں، بہت خوبصورت نظمیں ہیں۔ لیکن ان کی اہمیت میرے لیے بہت کم ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اختر الایمان جو ان کا ہم عصر ہے، ان کی شاعری بہت زیادہ بہتر ہے۔ سب لوگوں نے میرا جی کی شخصیت پر زیادہ بات کی ہے۔ اور یہ ان کی خواہش بھی تھی کہ ان کی شخصیت پر زیادہ بات ہو۔ وہ ڈرامے باز تھے۔ یہ بات مجھ پر ناولٹ لکھ چکنے کے بعد کھلی تھی۔
مستشرق کو رومانویت کے عہد نے پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا۔ یہ ماضی کا رومان ہے، مستشرق کو زبان میں مستقبل نظر نہیں آتا، ماضی ہی نظر آتا ہے۔
سوال: اب تک آپ کے کاموں کے بارے میں دو اہم تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ایک فہمیدہ ریاض بیگم کا اور دوسرا انتظار حسین صاحب کا۔ انتظار حسین صاحب نے مظفر علی سیّد کے اس قول کو ایضاً کیا جس میں انہوں نے میرا جی اور بودلیئر میں مشترک قدر “فرانسیسی بیماری” کا ذکر کیا تھا، لیکن آپ کے بارے میں مفصل بات کرنے سے انہوں نے گریز کیا ہے، انتظار حسین نے مظفر علی سیّد کے جس قول کو “ایضا” کیا ہے، آپ کے خیال میں وہ کیا چیز ہے جسے ہمارے بزرگ “بیماری” کہہ رہے ہیں؟
ژولیاں: فہمیدہ بیگم کا جو سب سے بڑا اعتراض تھا، وہ ذاتی نوعیت کا تھا۔ ان کی شکایت تھی کہ میں فرانسیسی ہوں۔ میں معافی چاہتا ہوں، یہ شکایت تو میں دور نہیں کر سکتا۔ انتظار حسین صاحب نے کہا کہ آپ نے ان کی شاعری کی طرف توجہ نہیں دی۔ اب سال گزر گیا تو میں نے سکون سے بیٹھ کر ان سے کہا کہ انتظار صاحب، ‘میرا جی کے لیے’ میں میں نے ان کی تین نظموں کو ری کری ایٹ کیا، میں نے کوشش کی کہ وہ بھی کسی طرح اس میں آ جائیں۔ ‘لب جوئبارے’ بھی اس میں، پھر ‘سمندر کا بلاوا’ بھی ہے۔ ایک تیسری نظم کا نام مجھے بھول رہا ہے، جس میں وہ کوٹھے پر جاتا ہے، اور وہ خنجر استعمال کرتا ہے، اور لہو لہان ہونا۔۔ یہ سب میرا جی کا لکھا ہوا ہے۔ دوسرا میرا جی کی زبان کا تبدیل ہونا اس کے لباس کے ساتھ ساتھ۔۔ اردو کو ایک طرح سے ترک کرنا، اور ہندی سنسکرت کو اپنا لینا۔ اور ادھر ادھر اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے تو پڑھا نہیں ہے میرا جی کو، ورنہ انتظار حسین صاحب کو اشارے تو نظر آ جاتے۔
فرانسیسی بیماری کسے کہیں گے، آتشک وہ بیماری ہے جس سے سب ڈرتے ہیں، اسی سے بودلیئر اور میرا جی مرے تھے۔ آتشک اصل میں جنسیت ہی ہے، اور جنسیت سے ڈر رہے ہیں اردو والے، بہت سالوں سے۔ فیض کو پڑھو، راشد کو پڑھو، عورت کدھر ہے؟ عورت تو ہے لیکن اس کو سنگ مرمر میں ڈھانپا ہوا ہے۔ آپ کو جنسیت نہیں نظر آتی۔ ایک ہی شاعر نے جنسیت کے بارے میں لکھا۔ اور وہ تھا میرا جی۔ اور اس نے اعلان بھی کیا کہ میں جنسیت کے بارے میں ہی لکھتا ہوں۔ تو وہ ڈر گئے ہیں سارے۔ اور انہوں نے اسے بھی اسی کھاتے میں شامل کر لیا کہ یہ تو ذہنی مریض ہے، بلکہ جنسی مریض ہے۔ صحیح انگلی کرنے والے دو لوگ ہیں جو اس زمانے میں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے، اور ناپسند بھی کرتے تھے، منٹو اور میرا جی۔ منٹو نثر میں اور میرا جی شاعری میں۔ بعد میں جو بھی ہوا اردو میں، وہ تو ماضی کی طرف ایک مراجعت تھی۔۔ آپ دیومالائی قسم کی کہانیاں لکھیں گے، یا آپ میر جیسی غزلیں لکھیں گے۔۔ وہ تو مراجعت ہوئی، کس چیز سے آپ ڈر گئے ہیں؟ تقسیم سے نہیں ڈرے، بلکہ اس طوفان سے ڈرے جو کھڑا کیا
منٹو اور میرا جی نے۔
پہلے مشرق آپ کو مسحور کر لیتا ہے۔ پھر آخر میں وہ آپ کو اتنا بیزار کر دیتا ہے کہ آپ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ اور اس دشمنی میں آپ اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ کامیو کے کردار کی طرح آپ ایک عرب کو مار دیتے ہیں۔
ادب اور ادبیات کو بہت خلط ملط کیا گیا ہے۔ ادبیات ایک ادارہ ہے، ادب تو ایک سیّال چیز ہے۔۔۔ ادب کی بنیاد جو اس وقت مجھے نظر آ رہی ہے، وہ ایک ہی ہے، مراجعت ہے بلکہ تابو (taboo) ہے۔ تو کنی کترانے، اس پردے اور اس منافقت پر اس وقت ادب کی ساری عمارت کھڑی ہے کہ ہم اس کے بارے میں بات نہ کریں۔ اور اگر ہم بات کریں گے تو استعاروں تشبیہوں میں۔ جنسیات کی نفی پہ ادب کی ساری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہاں آپ تضاد کو استعمال نہیں کر سکتے، دیکھیں جب لوگوں نے کہا کہ کمیونزم تو ختم ہو گیا، لیکن تب کمیونزم اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ کمیونزم کا بھوت، جو اب منڈلاتا رہے گا۔ اس کا نہ ہونا، اب ہمارے لیے اس کے ہونے سے زیادہ اہم ہو گا۔ ایک نظریاتی خلا جو پیدا ہوا ہے، سیاسی خلا ایک طرح کا۔ بالکل ایسے ہی، جنسیت کو آپ نے نکال دیا۔ لیکن جنسیت کا نہ ہونا آپ کو بہت تنگ کرتا ہے، اور آپ احساس کرتے رہتے ہیں کہ جنسیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے آپ حظ انگیزی (Titillation) کی طرف آ جاتے ہیں، وہ بھی جنسیت کی ہی نفی ہے۔
سوال: ہم دیکھتے ہیں کہ جنسیت میرا جی کی شخصیت کا ایک بہت اہم پہلو ہے، جبکہ ساغر کی شخصیت وجودی سوالات کے گرد گھومتی ہے، جبکہ فرانسیسی ادبی روایت میں ہمیں یہی دو مرکزی خیال بہت بنیادی اہمیت کے حامل نظر آتے ہیں۔آپ نے اپنے سوانحی ناول لکھتے ہوئے میراجی اور ساغر کا انتخاب اسی روایت کے زیراثر کیا یا اردو شعراء کے باقاعدہ موازنے کے بعد آپ نے ان شخصیات کو منتخب کیا؟
ژولیاں: ہاں یہ میں نے خود ایک بیانیہ تشکیل دیا تھا، اور کچھ یوں بھی تھا کہ مجھے ان میں اپنے ادب کے کچھ لوگ نظر آئے، انیسویں صدی کے آخر کے ملعون شعراء۔۔ میرا جی اور ساغر جیسے ملامتی شاعر مجھے ایک طرح سے ان کے ہمزاد نظر آئے۔۔ لیکن یہ بیانیہ میں نے اپنی سہولت کے لیے بنایا۔ اب میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ بیانیہ بالکل بیوقوفانہ ہے۔ میں نے ان لوگوں کو چنا، جن کے بارے میں میں اس زمانے میں لکھ سکتا تھا کیونکہ وہ میرے ہمزاد تھے۔ وہ کسی بودلیئر، ویرلین، کسی رینبو کے ہمزاد ہوتے تو مجھے کسی طرح ان کے بارے میں لکھنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی۔ ان کا ملعون ہونا بھی مجھے بہت اچھا نہیں لگا، یا وہ میرے لیے کوئی قابل تحسین بات نہیں ہے۔ وہ میرے ہمزاد تھے اس زمانے میں۔ جب میں ساغر لکھ رہا تھا، تو میں جس فضا میں رہتا تھا، ساغر بالکل میرا ہمزاد ہو گیا تھا۔ اور میرا جی جب میں لکھ رہا تھا تو وہ بھی اسی طرح کی ایک صورتحال تھی۔ آپ کو ایک شخصیت چاہیے ہوتی ہے، جس کے توسط سے آپ کا کتھارسس ہو سکے۔ چونکہ میرے ناولوں میں ہمیشہ ان کے ساتھ برا ہوتا ہے، ہمیشہ مر جاتے ہیں۔ تو ساغر لکھتے وقت میری مرنے کی خواہش تھی اور تباہ ہونے کی بھی خواہش تھی۔ میں نے اچھی طرح سے اپنا کتھارسس کر لیا۔ میرا جی لکھتے ہوئے بھی مجھے آتشک زدہ ہو کر یا کسی بھی شدید بیماری سے مرنے کی خواہش تھی۔ پہلے تو میں خودکشی کا سوچ رہا تھا۔ پھر بعد میں میں نے سوچا کہ کسی اذیت ناک قسم کی بیماری سے مرنا بھی ٹھیک ہے، کہ آپ کے حواس ایک ایک کر کے کام کرنا چھوڑ دیں۔ منیر جعفری شہید جب میں لکھ رہا تھا تو میں قتل ہونا چاہ رہا تھا۔ تو یہ سب لاشعوری چیزیں تھیں۔
یہاں کے لکھنے والوں کے بارے میں ایک بات کہوں گا کہ اگر وہ اپنی سیاست بازیاں، انعامات کے پیچھے بھاگنا، جوڑ توڑ کرنا، لالچ میں رہنا چھوڑ دیں تو بقا حاصل ہو گی، ورنہ تو بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ انگریزی کے لکھنے والوں میں ایک بات ہے، وہ جس طرح کے ہوں گے، حریص ہوں گے، لیکن وہ دنیا کے ساتھ جڑے ہوں گے، اور وہ زیادہ روشن خیال بھی ہیں۔
سوال: آپ کے ہاں اردو کا جو رومان ہے، اس میں یہاں کی تہذیب، ثقافت اور لوگوں کا کس حد تک اثر ہے؟
ژولیاں: دیکھیں جب ہم کسی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں، ایک چادر تاننا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی سرا پکڑنا ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ زبان وہ سرا ہے۔۔ آپ جب وہ سرا کھینچ لیتے ہیں تو آپ کے پاس ساری چادر آ جاتی ہے۔ مذہب بھی، ثقافت بھی، معاشرہ بھی۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ان سب چیزوں کی بنیاد وہ زبان ہے۔ حالانکہ وہ ان سب چیزوں کا نتیجہ ہونی چاہیے، لیکن مجھے الٹا لگتا ہے۔ مجھے ایک دروازہ کھولنا ہے اور میرے لیے اس کی کنجی کا نام ہے زبان۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو سے بے پناہ محبت ہے یا یہ روسی اور فارسی زبان سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ لیکن اردو کی طرف مشتشرقین کے جھکاو میں اردو کا اپنا کوئی قصور نہیں ہے، یہ اردو کی رومانویت ہے۔ مستشرق کو رومانویت کے عہد نے پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا۔ یہ ماضی کا رومان ہے، مستشرق کو زبان میں مستقبل نظر نہیں آتا، ماضی ہی نظر آتا ہے۔ یہ اس کا مشرق کے ساتھ رومان تھا، شاید اسی لیے اس نے مشرق کا رخ ہی نہیں کیا۔ ہمارے سنسکرت کے استاد کہتے تھے کہ وہ کبھی ہندوستان نہیں گئے، خاص کر ان علاقوں میں جہاں ہندی اور بنگالی بولی جاتی ہے۔ اس لیے کہ انہیں یہ جان کر بہت افسوس ہوتا کہ سنسکرت کتنی بگڑ گئی ہے۔ گارساں دتاسی کا معاملہ بھی وہی ہے۔ اس کو اردو میں ایک خالص پن نظر آتا ہے۔ میں کوئی اور بھی زبان اختیار کر لیتا، لیکن مجھے اس وقت دو چیزوں کا احساس ہو رہا تھا۔ پہلے مجھے احساس ہوتا تھا کہ میں فرانسیسی میں ہی لکھ لکھ کے خود کو دوہرا رہا ہوں، تو مجھے لگا کہ میں ایک الگ زبان میں لکھوں۔ اردو کی امیجری، اس کا مزاج، اس کا بیانیہ سب فرانسیسی سے مختلف ہے۔ تو آپ کو سب کچھ دوبارہ سے سوچنا ہوتا ہے۔ آپ اپنے پہلے لکھے ہوئے کا سہارا نہیں لے سکتے۔ آپ فصاحت کا سہارا نہیں لے سکتے۔ کیونکہ فصاحت تو ایک زبان تک محدود ہے، آپ دوسری زبان میں آ گئے ہیں تو جب تک آپ فصاحت کو پوری طرح نہ سیکھیں گے، آپ بھٹکتے رہیں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ تخلیقی رہیں گے۔ تو وہ زبان تو کوئی بھی ہو سکتی تھی، اور اس زبان کے اور میرے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہونا تھا، جتنا کہ اردو اور میرے درمیان۔
سوال: آپ نے کہا کہ مستشرقیت، رومانویت کے عہد کی پیداوار ہے، لیکن ایڈورڈ سیڈ اور بعد کے دانشوروں نے رد مستشرقیت کا جو خیال پیش کیا ہے، اس اور اس سے جنم لینے والے سیاسی بیانیے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ژولیاں: جب میں مستشرقیت کی بات کر رہا تھا، تو میں ایک خاص نسل کی بات کر رہا تھا، جو پہلی پہلی پود تھی۔ ان مصوروں اور سائنسدانوں وغیرہ کی پود جو نپولین کے ساتھ مصر گئے تھے۔ اور جب وہ تصویریں لے کے آئے مصر سے، تو وہ انتہائی رومانٹیک تھا۔ انہیں وہاں تحریک نظر آ گئی، روشنی نظر آئی۔ انہوں نے ایک دنیا دیکھی جو وقت سے ماورا تھی۔ تو بعد میں، مجھے لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ وہ رومانویت ختم ہو گئی تو انہوں نے ایک اور عجیب سا روپ دھار لیا۔ پہلے مشرق آپ کو مسحور کر لیتا ہے۔ پھر آخر میں وہ آپ کو اتنا بیزار کر دیتا ہے کہ آپ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ اور اس دشمنی میں آپ اتنے آگے چلے جاتے ہیں کہ کامیو کے کردار کی طرح آپ ایک عرب کو مار دیتے ہیں۔ عرب کدھر ہے؟! آپ نے ان کو نکالا ہوا ہے۔ اور عرب کہہ کے سب سے پہلے آپ نے انہیں اپنے بیانیے سے ان کو نکالا ہوا ہے۔ جو وہاں کے آبادکار ہیں، جو وہاں کی کہانی سناتے ہیں، جو مقامی لوگ ہیں، وہ غائب ہیں اس بیانیے سے۔ کتنا عجیب ہے۔ جیسے کامیو نے الجیرز کے بارے میں لکھا تھا، لوگ تو بالکل ناپید ہیں اس میں۔ عجیب ہے ناں؟ پہلے تو عرب تھے، فطرت تھی، خوبصورتی تھی۔ ایک صدی کے اندر اندر اس مشرقی سحر نے کیا روپ اختیار کیا ہے۔
پرانے مستشرقین کا سائنسی کام جو تھا، اس میں عمرانیات بھی ہے، انسانیات کا علم بھی ہے، نسل شناسی کے علم کی بھی شروعات انہوں نے کی وہاں، جو بعد میں بہت زیادہ بدل گئی۔ سائنسی کام میں مانتا ہوں کہ بہت بڑا ہے، وہ آئے تھے نوآبادیاتی نظام کے ساتھ۔ جب سائنسدان، نوآبادیاتی نظام کے ساتھ آتا ہے تو اس کا کیا کردار رہ جاتا ہے، یہ مجھے سمجھ نہیں آتا۔ باقی جو امیجری ہے، پینٹنگ کا کام ہے، یہ انیسویں صدی میں فرانس میں بہت ہوا۔ وہاں پہ تو مجھے بکواس نظر آتی ہے، تذلیل نظر آتی ہے۔
سوال: آپ خود کسی مستشرق قسم کے طلسم کے زیرِ اثر رہے ہیں؟
ژولیاں: ہاں شاید پندرہ سال کی عمر میں، کچھ مہینوں کے لیے۔ لیکن اس کے بعد جب آپ دستاویزی فلمیں دیکھتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں، لوگوں سے ملتے ہیں، تو وہ سحر تو نہیں رہتا۔ تو حقائق آپ کے سامنے آ جاتے ہیں۔ مستشرقیت اس حقیقت کے ساتھ میل نہیں کھاتی جس میں ہم رہتے ہیں۔ جب میں پندرہ سال کا تھا، ایک پینٹر تھا اس زمانے میں، Geromeاور اتفاق سے وہ ایک مستشرق مصور بھی تھا اور اس نے کچھ سفر بھی کیا تھا، ترکی وغیرہ گیا تھا، اس نے کچھ پینٹگز بنائی تھیں۔ ان چیزوں نے مجھے بہت ذیادہ مسحور کیا۔ اب جب میں ان کو دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ بہت بڑا تھئیٹر ہے۔ اس نے ایک ننگے آدمی کو لے لیا، اور اس کو مشرقی کپڑے پہنا دیے اور ایک اورئینٹل پینٹنگ بنا لی۔ اور یہ بھی دیکھیں ناں کہ جب میں بڑا ہوا تو اس وقت وہ اورئینٹ بھی نہیں رہا تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں سیاسی نظام بالکل الگ تھا۔ اس وقت تو سلطنتیں تھیں، اس وقت تک وہ سب کچھ موجود تھا جو انہوں نے الف لیلہ میں پڑھا تھا۔ تو اورینٹل ازم کے ہونے کا امکان تو ختم ہو گیا۔ اگر اب مستشرقیت کے اوپر کوئی سوچ ہے تو وہ سامراجی سوچ ہے یا نسل پرستانہ سوچ ہے۔
سوال: پاکستان کے لوگوں، یہاں کے لکھنے اور پڑھنے والوں اور یہاں کے سماجی سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی امید یا کوئی خدشہ؟
ژولیاں: اس پر تو میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ یہی کہوں گا کہ تمام حالات، تمام امکانات موجود ہیں۔ لیکن کیسے ٹھیک ہو گا، یہ مجھے نہیں پتہ۔ میرے مشاہدے اتنے مختلف قسم کے ہیں۔ میں اگر صرف دو لوگوں سے ملا ہوتا تو شاید کوئی تبصرہ بھی کر سکتا۔ وہ لوگ جن پر عوام مشتمل ہے، ان کو مل کر پتہ چلتا ہے کہ یہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ تو لوگوں کے آدرش اتنے مختلف طرح کے ہیں، کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آگے کیا ہو گا۔
افسانے کے حوالے سے اب جو رجحان چل رہا ہے، ستر کی دہائی میں تو وہ نہیں تھا۔ چلو میں نے کل (لاہور ادبی میلے میں) علامتی افسانہ نگاری کو بہت برا بھلا کہا۔ لیکن اب اس کے بعد کوئی راستہ نہیں اپنایا گیا۔ اس کے بعد کیا چیزیں لکھی گئیں؟! بکواس!! مجھے بتائیں کہ پچھلے پچیس تیس سالوں میں کون سے بڑے افسانے لکھے گئے ہیں۔ بابوں نے لکھے ہیں، جو ایک ہی انداز میں پچاس سال سے لکھ رہے ہیں۔ تب علامت کے رجحان میں یوں تھا کہ تجربے ہو رہے تھے۔ تجربوں سے الفاظ کے نظام کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش تھی۔ وہ مجھے بہت حد تک انور سجاد کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔ وہ ایک طرح سے صحیح انارکسٹ تھے۔ وہ انارکی اس کے بعد دیکھنے کو کہاں ملی؟!۔ ہاں، انیس ناگی بھی۔۔ آپ کچھ بھی کہیں، اس کے ہاں انارکی کی خواہش تو موجود ہے ناں۔۔ خواہش تو تھی۔۔۔
یہاں کے لکھنے والوں کے بارے میں ایک بات کہوں گا کہ اگر وہ اپنی سیاست بازیاں، انعامات کے پیچھے بھاگنا، جوڑ توڑ کرنا، لالچ میں رہنا چھوڑ دیں تو بقا حاصل ہو گی، ورنہ تو بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔ انگریزی کے لکھنے والوں میں ایک بات ہے، وہ جس طرح کے ہوں گے، حریص ہوں گے، لیکن وہ دنیا کے ساتھ جڑے ہوں گے، اور وہ زیادہ روشن خیال بھی ہیں۔ قاری طبقے میں میں انگریزی والوں کا ساتھ دیتا ہوں۔ انگریزی میں اگر آپ کو گھٹیا قسم کا رومانس پڑھنا ہے، تو وہ جائیں ریڈنگز کے اسٹال پر دو کلومیٹر تک لگے ہوئے ہیں، انگریزی میں آپ پورنوگرافی لکھنا یا پڑھنا چاہتے ہیں، لکھیں، پڑھیں۔ اس کے برعکس اردو کے اسٹال پر جائیں، ڈائیوو کے اڈے پر۔۔
وہ کیا پڑھتے ہیں، فضول قسم کے مٹھی بھر ڈائجسٹ۔۔ کوئی پورنوگرافی اردو میں لکھ دے تو سب پریشان ہو جائیں گے۔۔ پچیس تیس روپے کی کتابیں ہوتی ہیں، گھٹیا سی بلیک اینڈ وائٹ چھپائی میں، فٹ پاتھ والوں نے چُھپا کے رکھی ہوتی ہیں، صرف شوقین لوگوں کو دیتے ہیں، پسند نہ آئے تو واپس لے کر، مزید دس روپے لیکر ساتھ میں ایک اور دے دیتے ہیں۔ یہ اردو کی ریڈرشپ ہے۔ اردو اور انگریزی کا قاری بٹا ہوا ہے، پھر پنجابی اور اردو کے قاری میں تقسیم ہے۔ کیوں بٹے ہوئے ہیں لوگ؟
بشکریہ لالٹین!

Save

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اردو ادب کی عمارت جنسیت کی نفی پر کھڑی ہے: ژولیاں/انٹرویو

  1. واہ مزا آ گیا انٹرویو پڑھ کر
    بندے نے بڑی سچی باتیں کی ہیں ، کیا عمیق مشاہدہ ہے

Leave a Reply