ہوا بدل گئی ہے؟۔۔اشرف لون

میں دنیا کے اس خطے میں رہتا ہوں جہاں ہر گھنٹے کے بعد موسم بدلتا ہے اور اگر موسم کو مستقل طور پر بدلنا ہو تو اس میں  تین  مہینے لگتے ہیں۔ پتہ نہیں دنیا کے کسی اور خطے میں اس طرح موسم بدلتا ہے کہ نہیں۔ اکثر میں لوگوں سے سنتا ہوں کہ ملک سویزر لینڈ میں ایسے موسم ہیں اور ایسی خوبصورتی لیکن چونکہ نہ تو میرے پاس کرایہ ہے اور نہ ہی مجھے سویزرلینڈ جانے کا راستہ پتہ ہے اس لیے اس معاملے میں چپ رہنا ہی بہتر ہے۔ بہرحال ہمیں اس سے غرض نہیں اور نہ ہمیں رکھنی  چاہیے کہ کہاں کا موسم اچھا ہے یا کون سا ملک خوبصورت ہے کیونکہ یہاں پہلے سے ہی اتنے مسائل ہیں کہ اگر آپ ایک دن سکون کے ساتھ گزاریں وہ بڑی بات ہے۔ موسموں کے ساتھ ساتھ یہاں سیاسی ماحول بدلنے  میں بھی دیر نہیں لگتی۔ کب کیا ہوجائے اس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ ہمارے”وکیپیڈیا دانشور“ حضرات بھی نہیں۔

ایک دن سفر کے دوران میں مسافر گاڑی، جسے ہم بس بھی کہتے ہیں، میں ایک فرد سے پوچھا کہ اس بار کون جیتنے والاہے۔ تو اس نے جواب میں کہا:
”بھائی صاحب مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں آپ۔ سب جانتے ہیں کہ جسے دہلی کا آشیرواد حاصل ہو وہی جیتے گا۔“

میں نے واپس کہا: ”لیکن ہمارے دانشور حضرات ریڈیو، ٹی وی اور اخباروں میں تو کہتے ہیں کہ فلاں فلاں جیتے گا۔“
دانشور کا لفظ سن کر وہ چونک گئے اور پھر مجھے دس پندرہ منٹ دانشور لفظ کی تشریح میں گزارنے پڑے۔ اور بالآخر وہ مجھ سے مخاطب ہوئے:
” بھائی صاحب، میں ان دانشوروں کو نہیں مانتا، یہ سب پیسوں کے لیے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے لکھتے ہیں۔ ان کو کوئی نہیں پڑھتا ہے اور نہ ان کی کوئی سنتا ہے، ورنہ جو آج ہماری حالت، کیا وہ ہوتی؟“

بحث کو فوراً ختم کرنے کی غرض سے جی ہاں جی ہاں کرتا رہا۔ اور جہاں مجھے اترنا تھا اس سے ایک اسٹاپ پہلے ہی بس سے اُتر گیا۔

اُدھر کچھ برسوں سے یہاں جس طرح سیاست دانوں نے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی زندگی سے کھیلا ہے،وہ بیان سے باہر ہے۔ کسی نے قانون کی بحالی کی آڑ میں تو کسی نے کرسی کی  خاطر بچوں کی زندگیوں سے کھیلا۔ کسی نے خودمختاری کا وعدہ کیا تو کسی نے رائے شماری کا۔ اور اس دوران میں سیکڑوں آزادی کے نعرے کی  بھینٹ چڑھ گئے۔ ادھر جب ہر پارٹی اور سیاستداں کرسی حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا تو افواہ پھیلی کہ کوئی نوجوان، ایک نیا نعرہ لے کر میدانِ  سیاست میں آگیا ہے۔ نوجوان نے پہلے کلرکی کی خاطر ڈاکٹری کے  پیشے کو خیر باد کہا لیکن جب لگا کہ کلرکی میں وہ مزہ نہیں جس کا خواب اس نے دیکھا تھا بلکہ یہاں جاہل اور رشوت خورسیاست دانوں کی جی حضوری کرنی پڑتی ہے تو پھر اس کلرکی کو سیاست کی خاطر الوداع کہا کہ اس میدان میں کمانے کے مواقع بھی زیادہ ہیں اور کوئی پوچھ تاچھ بھی نہیں۔ نعرہ آپ بھی سنیے:
”ہوا بدلے گی۔“
ہاں۔آپ نے سنا ”ہوا بدلے گی۔“
اور اگر آپ نے یہ نعرہ پہلے کبھی نہیں سنا تو آج سنیے۔ میں نے بھی اس سے پہلے صرف موسموں کے بدلنے کے بارے میں سنا تھا لیکن ہوا بھی بدلتی ہے یہ پہلی  بار سنا۔ اب یہ نومولودسیاست داں اپنے اور اپنے گھر والوں کے بینک اکاونٹ کی ہوا بدلنے والے تھے یا واقعی سیاسی یاقدرتی ہوا میں کچھ تبدیلی ہونے والی تھی وہ یہی جانیں۔ ہمیں اس ادک فلسفے کی تشریح میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور یہ ہمارے پاس اتنا وقت ہے۔ اس پر پہلے ہی یہاں کے وکیپیڈیا دانشور حضرات پوزیشن سنبھا لے ہوئے ہیں۔

اگر مجھ سے تانیثیت کے علمبردار ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ اس ہوا بدلنے والی پارٹی میں ایک عدد عورت کو بھی رکھا گیا تھا تاکہ اگر ہوا بدل بھی گئی تو عورتوں کو بھی اس بدلتی ہوا کا پتہ چلے اور وہ بھی اس ہوا کا فائدہ اٹھائیں۔ میں اس جھمیلے میں زیادہ نہیں پڑنا چاہتا لیکن ایک بات یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے ملک کی عورتوں نے پچھلے تیس سال سے جو ظلم سہے ان کا مداوا کرنے کا دعوی ٰ کسی سیاسی عورت نے نہیں کیا اور نہ کبھی اس حوالے سے کوئی کام کیا۔ ہاں یہاں اپنی تجوریوں کو بھرنے کی غرض سے انہوں نے بھی کچھ وعدے کیے۔ بس جنہوں نے ان مظالم کو سہا ہے انہوں  نے اپنی الگ پارٹی بنائی ہے جو کئی دہائیوں سے وقت کے حکمرانوں سے انصاف مانگ رہی ہیں۔

بہرحال ”ہوا بدلے گی” نعرے کے پیچھے کیا عوامل اور نفسیات کارفرما تھی مجھے اس سے غرض نہیں، بلکہ میں تو ہر وقت اسی  سوچ میں ڈوبا رہتا تھا کہ شاید سچ میں اس بار ہوا بدلے گی۔ سب یہی چاہ رہے تھے کہ ہوا بدلے گی۔ اورہوا بدلنی چاہیے تھی کیونکہ پچھلے تیس سال سے یہاں جو ہوا چل رہی تھی اس میں اب بہت زہربھر گیا تھا اور اس میں لوگوں کا جینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔اس لئے لوگوں کی اس نعرے سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں۔ ہمارے وکیپیڈیا دانشور حضرات جنہیں ہر مسئلے میں ٹانگ اڑھانے کی لت لگی ہوئی ہے، نے بھی اس ہوا بدلنے والی کی تعریف میں کچھ مضامین لکھ ڈالے اورساتھ ہی ان مضامین میں دنیا کے بڑے سے بڑے فلسفیوں کے قول درج کردیے تاکہ عوام پر ان کی دانشوری کا رعب برقرار رہے۔

لیکن کیا ہوا کہ اس بار نہ ہوا بدلی نہ موسم۔ بلکہ ہوایا موسم بدلنے سے پہلے ہی ٹنل کے اس پار والے پھیکونے سب پانسہ پلٹ دیا۔ یہ پھیکو اصل میں ایک ملک کا حکمراں ہے لیکن ووٹ کی خاطر زیادہ پھنکنے اور غلط بیانی کی وجہ سے ” پھیکو“ کے نام سے مشہور ہے۔ ہمارے یہاں بھی بڑی تعداد میں پھیکو پائے جاتے ہیں۔

بہرحال پھیکو نے پانسہ کیوں پلٹا وہ اگر آپ پوچھنا بھول گئے ہیں تو بتاتا چلوں کہ یہاں کے جھموروں نے اس پھیکو کو بہت غصہ دلایا۔ اور مثل مشہور ہے کہ جاہل سے کبھی پنگہ نہیں  لینا چاہیے کہ پتہ نہیں وہ کب کیا کر بیٹھے۔ باقی سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ہوا بدلے گی نعرہ دینے والی سیاسی جماعت کے ارکان بھی نظر بند کر دیے گئے۔ جیسے ہی یہاں کی سیاست اور سیاست دانوں پر شب خون مار دیا گیا۔ پھر کیا ہوا کہ ہوا بدلے گی جماعت کے صدر نے پھیکو کے اس قدم کی مذمت کی اور اسے جمہوریت کے قتل سے تعبیر کیا۔ صحیح بھی تھا کہ دنیا میں نام نہاد جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والا ملک جب سیاست دانوں کو اس طرح جیل میں ڈال دیتا ہے تو آپ کر بھی کیا سکتے ہیں بجائے اس کے آپ جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالیاں دیں۔ اور اس سب فعل میں خرچہ بھی کم آتا ہے۔

کچھ مہینے بعد نہ کوئی انقلاب آیا نہ سیاسی موسم میں کوئی بہتری آئی لیکن ہوا بدلنے والے کی نیت ضرور بدل گئی۔ پہلے اس نے فرسٹریشن میں عوام کو گالیاں دیں  کہ وہ اس کے جیل سے رہا کروانے کے لیے سڑکوں پر کیوں نہیں آئے جس پر لوگوں نے ظاہر ہے منفی ردِ عمل دکھایا پھر کچھ مہینے بعد اس نے سیاست کو ہی خیر باد کہہ دیا اور بالآخر ایک دن ایسا بھی آیا کہ جس پھیکو کو اس نے پہلے اپنی نظر بندی کے وقت گالی دی تھی اسے دنیا کا سب سے بڑا سیاست دان، ماہر اقتصادیا ت ا  ور مہا پُرش قرار دیا۔ سب تو نہیں لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد یہ سب سن کر دم بہ خود ہوگئی۔ مگر کر بھی کیا سکتے تھے کہ ہر طرف پہرے لگے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سب ہنگامہ آرائی کے کچھ دن بعد جب میں اس بس میں چڑھ گیا جس میں اکثر گھر سے اور آفس تک کا سفر کرتا تھا تو میں نے اس فرد کو اسی سیٹ پر براجمان دیکھاجہاں وہ اس دن بیٹھا تھا جس دن مجھ میں اور اس میں ہوا بدلنے کے بارے میں بحث ہوئی تھی۔ میں نے جلدی سے اپنی جیب سے ماسک نکالا اور اپنے منہ پر لگا دیا۔ میرے سامنے بیٹھے ایک آدمی نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے اچانک اپنے منہ پر کیوں ماسک لگادیا؟ تو میں چپکے  سے اس سے مخاطب ہوا:
”ہوا بدل گئی ہے“۔

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply