نکاح نامے میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟۔۔۔۔حافظ صفوان محمد

پچھلے مہینے ملتان کے ایک پوش علاقے میں ایک مصالحتی کمیٹی میں کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ لڑکی نشتر میڈیکل کالج سے 2016 میں ڈاکٹر بنی، بیوی بنی، ماں بنی، اور اب مطلقہ بننے کو تھی کہ بال بال بچ گئی۔ الحمدللہ۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تین ہفتے میں کئی نشستیں ہوئیں جن میں دورانِ گفتگو یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ زیادہ بدزبان کون ہے، لڑکی یا اس کی ماں۔ اس سارے قضیے میں لڑکی کے والد کی حیثیت ایک کیمرے کی رہی جو عالی مقام بلند بانگ مقررین کی گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے گردن موڑ کر کبھی ادھر منہ کرلیتا تو کبھی ادھر۔

“نکاح نامے میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟” وہ ٹیپ کا بند ہے جو لڑکی کی ماں کے منہ سے بار بار تراوش ہوتا رہا۔ میں نے لڑکی سے کہا کہ ذرا اپنی میڈیکل کی ڈگری لے کر آؤ۔ وہ لے آئی۔ میں نے کہا کہ بیٹا ذرا بتاؤ کہ اس کاغذ میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ تم مریضوں کے علاج کے لیے اتنے اتنے گھنٹے ڈیوٹی دو گی اور دوسرے شہر میں پوسٹنگ پر بھی جاؤ گی، اور اس میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ تمھارے والد نے تمھاری ڈاکٹری کے لیے اتنی اتنی فیس دی ہے۔ یہ دو چار سوالات سن کر لڑکی کی ماں ایک دم چپ ہو رہی اور لڑکی کی زبان بھی تالو سے جا لگی۔

اب میں نے لڑکی کی والدہ کو جو دور کی عزیزہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی ڈاکٹر ہیں اور قریب کے شہر میں واقع ایک ذاتی ہسپتال کی مالک، خوب سیدھیاں سنائیں اور ان کے وہ لتے لیے کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔ میں نے اسے کہا کہ معاف کیجیے، لڑکی کا گھر اس نے خود نہیں بلکہ آپ نے خراب کیا ہے اور اس خرابی میں آپ کی تنگ نظری اور مرد کو ذلیل کرنے کے نفسیاتی مرض کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ بیٹی کو اپنی ملکیت سمجھنا اور داماد کو گندگی کا کیڑا سمجھنا ہے۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس قسم کا “اقدامی جہاد” کبھی کبھی بہت ضروری ہو جاتا ہے۔

اب میں نے لڑکی کو اس کے والد کے پاس بٹھایا اور اس کی والدہ سے چند منٹ کے لیے کمرے سے باہر تشریف لے جانے کو کہا۔ الحمدللہ وہ اتنے شدید غصے میں تھیں کہ گاڑی کی چابی اٹھاکر گھر ہی سے باہر تشریف لے گئیں۔

اب لڑکی سے بات شروع ہوئی تو وہ کچھ ہی دیر میں بھوں بھوں کرکے رو پڑی اور بے حساب روئی۔ پھر وہ اپنے مسکین والد سے کہنے لگی کہ مجھے میرے گھر جانے دیں، میں کل کیس واپس لے لوں گی۔ بس آپ میری امی کو میرے گھر میں مداخلت کرنے سے روکیں۔ الحمدللہ سب شانت ہوگیا۔

بچیوں کو اعتماد دینا اور ملک کا پراعتماد شہری بنانا الگ مضمون ہے جب کہ ویمن ایمپاورمنٹ کے نام پر بچیوں کو بدتمیزی سکھانا اور زبان چلائی کے فن میں طاق کرنا بالکل الگ بات۔ اس کا نتیجہ صرف تباہی ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ خدا سمجھ دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: کچھ ضروری معلومات میں دانستہ ابہام ڈالا گیا ہے۔ شکریہ۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply