دوربین کی کہانی

پیارے بچو ! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے کسی شہر کے ایک پرانے سے محلے میں ایک چھوٹا سا لڑکا رہتا تھا۔ اسے آسمان پر چمکتے تارے بہت حیران کن لگتے تھے۔ وہ تاریک راتوں میں گھر کی چھت پر جاکر اکثر انہیں دیکھا کرتا اور سوچتا رہتا کہ یہ ہم سے کتنے دور ہوں گے۔ قریب سے کیسے ہوں گے۔ ان پر کون لوگ رہتے ہوں گے۔ ان سے پرے کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ اس کی باتیں سن سن کر اس کے دوستوں نے اس کا نام سعدی نیپچون رکھ دیا تھا۔
انٹرنیٹ تو اس زمانے میں ہوتا نہیں تھا۔ سائنس ڈائجسٹ اس کی معلومات کا واحد ذریعہ تھا۔ اچھی بات یہ کہ اردو میں ہوتا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ دوربین کی مدد سے دور کی چیزوں کو بڑا کرکے دیکھا جاسکتا ہے تو اس کے دل میں ایک دوربین حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن اسے یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ دوربین بہت مہنگی ہوتی ہوگی۔ چنانچہ یہ خواہش دل ہی میں رہی۔وقت گذرتا گیا۔ وہ بڑا ہوتا گیا اور دوربین کا خواب، خواب ہی رہا۔ اسکول کے بعد کالج، کالج کے بعد یونیورسٹی اور پھر اسے ایک جگہ پروگرامر کی جاب بھی مل گئی۔ پیسے کم ملتے تھے لیکن وہ خوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ ایک دوربین خرید سکے گا۔ دوربین کی قیمت پتہ کی تو اس کے ارمانوں پر اوس پڑگئی۔ دوربین اب بھی اس کی پہنچ سے بہت باہر تھی۔
وقت گذرتا رہا۔ کچھ سال بعد جاب بھی اچھی مل گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ خرچے بھی بڑھ گئے۔ شادی ہوگئی زندگی بہت مصروف ہوگئی۔ آٹھ دس سال اور گذر گئے۔ اللّہ نے بہت کرم کیا اور اسے کسی چیز کی کمی نہ رہی۔ لیکن اب ٹارگٹ بھی بڑے ہوچکے تھے۔ تین شرارتی اور اودھم باز بچے بھی گھر میں آچکے تھے۔ ایک گھر بھی خریدنا تھا۔ اس تمام ہنگامے میں دوربین کو وہ بھول ہی چکا تھا۔سو گھر بھی خرید ہی لیا گیا۔ اب کچھ فرصت ملی جب چالیس کے قریب پہنچ رہا تھا۔ اکا دکا بال بھی سفید ہورہے تھے۔ لیکن دوربین کا خیال اب بھی نہ آیا۔
لیکن پھر ایک دن اس کی چھ سالہ بیٹی نے اس سے دوربین کی فرمائش کردی اور وقت کا پہیہ جیسے الٹا گھوم گیا اور وہ ایک بار پھر وہی چھوٹا سا بچہ بن گیا جو ستاروں کو حیرت سے دیکھتا تھا۔لیکن اب وہ ایک اور الجھن میں پھنس گیا۔ بے شک اب وہ مہنگی سے مہنگی ٹیلی اسکوپ خرید سکتا تھا لیکن وہ اپنے بچوں کو پیسے کے بجائے اپنی محنت پر بھروسہ کرنا سکھانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ٹیلی اسکوپ خود بنانے کا فیصلہ کیا۔
آٹھویں جماعت میں مس زبیدہ کی پڑھائی ہوئی آپٹیکل سائنس اسے آج بھی کچھ کچھ یاد تھی۔ پتہ نہیں اب ایسے اچھے ٹیچر ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگلے دن وہ بھاگم بھاگ قریبی بک شاپ پہنچا اور دو محدب عدسے یعنی میگنی فائنگ گلاس یا کانویکس لینس، کچھ گتے کی شیٹس اور ٹیپ وغیرہ خرید لایا۔ گتے سے دو پائپ بنائے۔ ایک موٹا اور ایک پتلا۔ موٹے پائپ کے آگے بڑا لینس فٹ کیا اور چھوٹے پائپ کے پیچھے چھوٹا لینس فٹ کردیا۔ پھر چھوٹے پائپ کو بڑے کے اندر ایسے لگا دیا کہ وہ آگے پیچھے حرکت کرسکتا تھا۔ لو جی بن گئی ٹیلی اسکوپ۔ اور وہ سب چاند کو دیکھنے چھت پر جا پہنچے۔ لیکن یہ پہلی ٹیلی اسکوپ اتنی لمبی تھی اتنی لمبی تھی کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا اور اس کا اگلا سرا چاند میں ہی جا کر اٹک گیا۔ چاند کے بونے بہت ناراض ہوئے۔ انہوں نے نہ صرف ٹیلی اسکوپ کا پائپ پھاڑ دیا بلکہ چاند کو بھی چھپا دیا۔ بڑی مشکل سے کچھ دن بعد پشاور والوں کو چاند دیکھنے کی اجازت دی۔
(تصویر نمبر ١)
خیر اب اس نے سنجیدگی سے ٹیلی اسکوپ بنانے کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ پھر پہنچ گیا ایک دن بولٹن مارکیٹ اور اٹھا لایا ڈھیر سارے بڑے چھوٹے محدب عدسے۔ اور اب کی بار ذرا بہتر ٹیلی اسکوپ بنائی۔ پچھلے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے اس نے نئی دوربین کے لئے ایک اسٹینڈ بھی بنا لیا ،جو تھا تو بھدا لیکن کام چلانے کے لئے ٹھیک تھا۔اب وہ یہ سب لے کر جنوری کی ایک تاریک رات کڑکڑاتے جاڑے میں دوبارہ چھت پر جا پہنچا۔ اور کچھ دیر کی کوشش کے بعد بالآخر اورین نیبولا کو دیکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ آج اسے کسی انگریز کی کہی اس بات کا مطلب سمجھ میں آیا کہ اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی دوربین سے کائنات کے راز کھوجنے کا احساس ہی کچھ اور ہے۔
(تصویر نمبر ٢)
اب یہ کہانی دھیرے دھیرے ٹیکنیکل ہوتی جائے گی تاکہ ایسی دوربین تم بھی پانچ سات سو روپے میں گرمیوں کی چھٹیوں میں بنا سکو جو کہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ خود اللہ ہم سے کائنات پر غور و فکر کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اور کیوں نہ کرے؟ ہم بھی تو جب کوئی اچھی پینٹنگ بناتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ جو دیکھے تعریف کرے۔ تو اللہ کی پینٹنگ کی داد دیئے بغیر دنیا سے چلے جانا کیسی بدذوقی ہوگی۔
خیر یہ نئی دوربین زیادہ طاقتور نہ تھی۔ اگلے سرے پر لگے ایک بڑے لینس پر مبنی ایسی دوربین اٹلی کے گیلیلیو کی ایجاد تھی اور اس میں ایک مسئلہ تھا جس کی وجہ سے یہ زیادہ واضح تصویر نہیں دے پاتی تھی، الّا یہ کہ اس میں بہت مہنگا لینس ڈالا جائے۔ اس خامی کو کرومیٹک ایبریشن کہا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ زیادہ بڑے لینس بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔ اس لئے اب اس طرح کی دوربینیں زیادہ مقبول نہیں۔ بہرحال گیلیلیو ایک جینیئس تھا اور مشتری یعنی جیوپیٹر کے چار چاند اسی نے اپنی ٹیلی اسکوپ سے دریافت کیے تھے۔
ان مشکلات کا حل گیلیلیو کے ساٹھ ستر سال بعد نیوٹن نے نکالا۔ اس نے ستاروں سیاروں سے آنے والی روشنی کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کے لئے لینس کے بجائے کروی آئینے کا استعمال کیا۔ اس طرح حاصل ہونے والی تصویر زیادہ واضح بھی تھی اور بڑا آئینہ بنانا بڑا لینس بنانے سے آسان ہے۔ دوربین کا یہ ڈیزائن نیوٹونین کہلاتا ہے اور آج بھی انتہائی مقبول ہے۔خیر اب اس نے نیوٹونین ٹیلی اسکوپ بنانے کی ٹھان لی۔ مشکل یہ تھی کہ ٹیلی اسکوپ کا آئینہ ملک میں بنا بنایا ملنا مشکل تھا اور وہ خود آئینہ بنانے کی جھنجھٹ سے بچنا چاہتا تھا۔ لیکن اگر کسی کو دلچسپی ہو تو اس کی رہنمائی کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ اس نے آئینے چائنا سے منگوا لیے اور کچھ اور ضروری سامان بھی۔
جب تک چائنا سے سامان نہیں آیا وہ سستے سے دو سو روپے والے آئینے سے دوربین بنانے کی کوشش کرتا رہا اور ایک عجیب الخلقت دوربین بنالی لیکن اس کی تصویر یہاں دینا مناسب نہیں ورنہ سب ہنسیں گے۔بالآخر مہینے بھر بعد چائنا سے آئینے بھی آگئے اور تین آئی پیس بھی۔ آئی پیس دراصل محدب عدسے ہی ہوتے ہیں لیکن انہیں خاص طرح ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ یہ تصویر کو بہتر بنادیتے ہیں۔
اب وہ ایک بار پھر کام میں جت گیا۔ شیشے کی ڈائننگ ٹیبل اس کی فیکٹری بن گئی جس پر اس کا سامان پھیلا رہتا۔ بچے بھی ارد گرد بیٹھے اپنی انجینئرنگ کے جوہر دکھاتے رہتے۔ اور بچوں کی ممی مزے مزے کی چیزیں بنا بنا کر دیتی رہتیں۔ ایک دو بار تو ڈائننگ ٹیبل کا شیشہ ٹوٹتے ٹوٹتے بچا ورنہ تو بیگم کے ہاتھوں شامت آجاتی۔ یہ الگ بات کہ وہ خود آئے دن گلاس وغیرہ توڑتی رہتی ہیں۔
تین ہفتے کی محنت کے بعد ایک بھاری بھرکم دوربین تیار ہوگئی۔ جب اس نے اس کا رخ چاند کی طرف کیا تو حیران رہ گیا کیونکہ چاند کی سطح کے گڑھے اور پہاڑ تک صاف نظر آ رہے تھے۔ اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ مشتری اور اس کے چار چاند بھی دیکھ ڈالے جو خالی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔
اس ٹیسٹنگ میں دو بڑے مسائل کا اندازہ ہوا۔ ایک، آئینے کا ناقابل حرکت ہونا۔ اور دوم، دوربین کا بیلنس بہتر نہ ہونا جس کی وجہ سے اسے ایک جگہ روکنا مشکل تھا۔ اس وجہ سے دوربین واپس فیکٹری میں پہنچ گئی یعنی ڈائننگ ٹیبل پر آگئی۔ایک بار پھر کام شروع ہوا لیکن اب موسم بدل رہا تھا۔ گرمیاں آچکی تھیں اور گھنٹوں کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ لیکن ہمت نہ ہاری گئی اور یہ خامیاں بھی دور کرلی گئیں۔ اب اس کی دوربین آسمان کی سیر کرانے کے لئے بالکل تیار تھی۔ یوں اس کے بچپن کا خواب پورا ہوگیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب اس نے ایک اور بہت بڑی دوربین اور ایک آبزرویٹری بنانے کا خواب دیکھنا شروع کردیا ہے جو سوچ کر مشکل تو لگتا ہے لیکن کسی نے خوب کہا ہے کہ وہ خواب ہی کیا جو تمہیں خوفزدہ نہ کردے۔
(تصویر نمبر ٣)
آئندہ انشاءاللہ ہم دوربین کی ٹیکنیکل تفصیلات میں جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ سعدی نیپچون نے اس سفر میں جو کچھ سیکھا وہ اس ملک کے ہر بچے تک پہنچے اور ہر بچہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا خواب دیکھنے لگے۔ کیا پتہ ان میں سے کون نیوٹن بن جائے کون گیلیلیو اور کون کارل ساگان بن کر ابھرے اور کون مستقبل کا انریکو فرمی ثابت ہو۔

Facebook Comments

احمد سعد
سافٹ ویئر انجینئر اور سائنس کا معمولی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply