آؤ جنگ کریں ۔۔۔ مریم مجید ڈار

“آؤ جنگ کریں “۔

کتنا ولولہ انگیز لگتا ہے یہ جملہ!

رگوں میں بہتے لہو کو ابال آنے لگتے ہیں، تفاخر، سامان حرب اور دفاعی اثاثوں کا ذکر کسی آیت کی مانند محب وطن لوگوں کی زبانوں پر جاری ہو جاتا ہے۔
اتنے بم،  اتنے میزائل، ٹینک، توپ اور۔۔ایٹمی اثاثے! “ایک ایک منٹ میں ایک ایک شہر تباہ”.
بزدل دشمن کا دل ہمارے طیاروں کی گھن گرج سے پانی کی مانند بہہ نکلے گا۔ سینے ٹینکوں کے ارتعاش سے پھٹ جائیں گے اور آنکھیں ہمارے تیر بہدف بموں کی چکاچوند سے نابینا ہو جائیں گی۔ کیسا حسین منظر ہو گا!
آؤ جنگ کریں!

Advertisements
julia rana solicitors

ایل او سی پر جنگ بندی کے معاہدے سے کچھ عرصہ قبل کی بات ہے۔ سرحدی علاقے میں رہنے کے سبب کراس بارڈر حملے معمول کا حصہ تھے۔ کئی بار لوگ مرتے،  زخمی ہوتے۔ بے گناہ اور معصوم لوگ!  لوگوں کے گھر تباہ ہو جاتے، مال مویشی مر جاتے،  گھاس کو آگ لگ جاتی اور زمین کا سینہ میزائلوں کی برچھیوں سے چھیدا جاتا۔ فضا میں خوف، گرد اور بارود کی بو ہوا کرتی تھی۔
کبھی سکولوں میں علم حاصل کرتے بچے لوہے کا رزق بنتے اور کبھی مسجد کے نمازی حالت سجدہ میں جان،  جان آفریں کے سپرد کر دیتے۔
گھروں کے باہر مورچے، سکولوں میں شہری دفاع کی تربیت دینے کے اہتمام ہوتے اور زندگی ایک مستقل بے یقینی کے سائے میں پلتی رہتی۔
یہ کسی مقبوضہ علاقے کی روداد نہیں،  آزاد کشمیر کے سرحدی علاقے کی داستان ہے۔ اور راوی، یعنی کہ میں بنفس نفیس اس سب سے گزری ہوں۔
سن دو ہزار کی ایک گرم، اگست کی دوپہر تھی ۔ دوپہر کے ڈھائی بجے کا وقت تھا اور میرے بہن بھائی کھانا کھا کر اب فریج میں رکھے آموں کے مکمل ٹھنڈے ہونے کے منتظر تھے۔
ابا مسجد گئے تھے اور میں ان کے انتظار میں گیٹ کے چکر لگا رہی تھی کہ وہ آئیں اور انہیں کھانا دے کر میں بھی آموں کی دعوت اڑا سکوں۔
گرم دوپہر میں ہمیشہ ایک سنسان خاموشی ہوتی ہے کہ پرندے بھی کسی پناہ میں سر جھکائے موجود ہوتے ہیں ۔ مگر اس دوپہر کو خاموش نہیں رہنا تھا۔
یکایک گم صم فضا کو ایک کریہہ آواز نے مرتعش کر دیا اور میرے سینے میں دھڑکتا دل منجمند ہو گیا.
وہ میزائل کی آواز تھی اور اس کی دہشت اس کے دھماکے سے کہیں زیادہ ہوتی ہے. وہ ایک چیختی ڈائن جیسی سیٹی تھی جو پرواز کرتے میزائل سے آتی ہے۔ اور اگلے ہی پل زمین دھماکوں سے لرزنے لگی۔
ایک کے بعد ایک میزائل اور سب لوگ ایک قدرے محفوظ کمرے میں پلنگوں تلے چھپے تھے اور ابا؟  وہ ابھی تک گھر نہیں  آئے تھے۔ اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بموں کی بارش میں آپ کا باپ گھر سے باہر ہو تو دل پر کیا گزرتی ہے.
اگرچہ گھر بھی تحفظ کی ظمانت نہیں ہوتے لیکن ایک چھت تلے ہونے کا احساس ہی بڑی شے ہوا کرتا ہے کہ جو بھی بھگتنا ہے،  ساتھ ہی بھگتیں گے۔
پانچ یا شاید دس منٹ تک بمباری جاری رہی اور پھر رک گئی ۔
ہم اپنی پناہ گاہ سے نکلے کہ باہر حالات کا جائزہ لیا جا سکے کہ اسی اثناء میں ابا آ گئے ۔ بتانے لگے کہ مسجد سے گھر آنے تک آس پاس چار میزائل فائر ہوئے۔ ہم اپنے گھر کے بالکل ساتھ کھڑے تھے اور وحشت سے بھرا ماحول ،لوگوں کی چیخ و پکار اور افراتفری دیکھ رہے تھے۔
تب میں نے اپنے ابا سے کہا کہ اب اندر آ جائیں اور کھانا کھا لیں۔ کیونکہ  کچھ ہی دیر میں زخمی آنے لگیں گے اور آپ ان کے ساتھ مصروف ہو جائیں گے۔
زبردستی ان کا بازو تھام کر اندر لائی اور کھانا گرم کر کے لے آئی۔
میں اورابا برامدے میں بچھے لکڑی کے ایک تخت پوش پر کھانا کھا رہے تھے اور شاید ایک یا دو لقمے ہی لئے ہوں گے کہ مکروہ چڑیلیں پھر سے چلانے لگیں اور اس مرتبہ وہ اتنا نزدیک تھیں کہ میرے کان سماعت سے گویا محروم ہو گئے ۔ ایک تباہ کن دھماکہ ہوا اور ہمارے گھر کا دروازہ اڑتا ہوا صحن میں  آ گرا۔ کھانا، تخت پوش، کرسیاں اور سٹول!  مٹی کے طوفان میں تنکوں کی مانند اڑ رہے تھے اور ہمیں بس اتنی مہلت مل سکی کہ دو قدم کے فاصلے پر موجود کمرے میں جا سکیں۔
جونہی کمرے میں پہنچے تب دوسرا دھماکہ ہوا اور لکڑی کی سیلنگ ہمارے سروں پر آن گری۔ گردوغبار کے طوفان میں سانس لینا محال تھا۔ اندھیرا، سرخ غبار اور رگوں میں پیوست ہوتی کنکریاں ۔
وہ پل قیامت کے تھے”! جو گزرنے میں نہ آتے تھے۔ اور جب گزرے تو ایک حیرت تھی جو ہماری آنکھوں میں پیوست ہو گئی تھی۔
ہمارا گھر!  ہمارا گھر کہاں تھا؟؟
تین میزائلوں نے اسے تاش کے پتوں کی مانند بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ اور  ہم سب اس بکھرے ہوئے ملبے،  ٹوٹے ہوئے کھڑکیوں کے کانچ،  گری ہوئی چھتوں، دیواروں اور دروازوں کے پرزوں میں ،میزائل کے لوہے میں اور بے انت خوف کے دشت میں گھرے بے حقیقت ذروں کی مانند تھے۔
دس منٹ پہلے تک جو گھر تھا اب وہ کباڑ کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ وہ کمرہ جس میں ہم سب پناہ لئیے ہوئے تھے اور کچن معجزانہ طور پر مکمل منہدم ہونے سے بچ گیا تاہم وہ آم جو ٹھنڈے ہونے کی غرض سے فریج میں رکھے گئے تھے اب دیگر سامان کے ساتھ کچلے ہوئے پڑے تھے۔
ہم جب اپنے محفوظ و مامون گھروں  میں سکون پذیر ہوتے ہیں تو ماں ،باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ ایک مرتب گھر کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اور ایکا ایکی جب آپکا گوشہ محفوظ تہس نہس کر دیا جائے تو خوف سے بھی زیادہ بدترین بے یقینی آپ کو بے روح کر ڈالتی ہے۔
میری ایک بہن میزائل کے سپلنٹرز سے زخمی ہو گئی تھی۔ اس کا لباس چیتھڑوں کی شکل میں تھا اور گردن سے خون بہہ رہا تھا۔ اس اذیت اور وحشت میں بس ایک ہی قابل شکر امر تھا کہ ہم سب لوگ زندہ تھے ۔ایک دوسرے کے ساتھ تھے!
ہم زندہ تھے! کسی اور جنگ کا ایندھن بننے کے لئے!
اس کے بعد کی داستان کو مختصر کرتے ہوئے بس اتنا کہوں گی کہ ایک لمبا عرصہ لگا، ملبے کو دوبارہ گھر کی شکل دینے میں اور اس سے بھی طویل وقت اس بے یقینی، ہراس اور دہشت کے اثر سے باہر آنے کے لئے درکار تھا۔
وہ وقت گزر گیا،  ملبہ صاف ہو گیا،  جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہو گئے لیکن میرے کانوں میں چیختی ڈائنیں خاموش نہ ہوئیں۔
دوپہر کے ڈھائی بجے کے وقت سے مجھے خوف آنے لگا اور جوں جوں گھڑی کی سویاں دو بجے کا سفر طے کرتیں میری سانس گھٹنے لگتی اور وحشت پاگل کرنے لگتی۔ مجھے لگتا تھا میری زندگی میں اب جو بھی حادثہ ہو گا وہ اسی وقت ہو گا۔
کوئی برتن بھی گرتا تو میرے کانوں میں برچھیاں پیوست ہو جاتیں،  فون کی گھنٹی ، اطلاعی گھنٹی اور دروازے کی دستک سب مجھے موت کے پیامبر محسوس ہوتے اور میرا دل کئی ثانیوں تک ایک پاتال میں گرا لرزتا رہتا تھا۔
ہمارے ڈرائنگ روم میں پلاسٹر آف پیرس کا ایک آرئشی کتے کا سکلپچر دھرا رہتا تھا اور جب میزائل حملے ہوئے تو کسی سپلنٹر نے اسے ایسے کاٹ دیا تھا کہ کتے کا سر گردن سے جدا ہو گیا تھا مگر باقی جسم پر خراش تک نہ آئی تھی. یوں جیسے نرم مکھن کو گرم چھری سے کاٹ دیا جائے ۔ خوابوں میں اس کتے کی جگہ میں خود کو دیکھتی۔ گردن کٹی لاش اور گرم بہتا خون مجھے محسوس ہوتا رہتا۔
خیر!  وقت گزرا، جگہ اور علاقہ کچھ عرصے کے لئے چھوڑے اور ایل او سی پر امن بحال ہوا تو ذہن پر لگے گھاؤ پڑھائی اور دیگر مصروفیات کی بدولت گوشہ نشین ہونے لگے تو وحشت اور بے سکونی نے بھی پیچھا چھوڑ دیا. کانوں میں چڑیلوں کے بین بھی سکوت پذیر ہو گئے اور گھڑی کی سویوں سے گھبرانا بھی ختم ہو گیا۔
مگر وہ محسوسات وقت کی گرد تلے دبے شہر کی طرح ہیں جو جنگی جنون کی ہر خبر سے ایک بار پھر اپنی جھلک دکھا جاتا ہے۔
اسی لئے میں جب بھی کسی کو جنگ کی بات کرتے سنتی ہوں تو ایک لمحے کو یہ خیال آتا ہے کہ کاش یہ اس اذیت سے گزرا ہوتا تو آج جنگ اس کے لئے جوش کی نہیں، بلکہ وحشت کی علامت ہوتی۔ جو اپنے آلات حرب پر فخر کرتا ہے اور دور تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تفصیلات بتاتا ہے تو جی چاہتا ہے اسے کہوں کہ تم نہیں جانتے یہ ہتھیار انسان کے ذہن اور دل میں کہاں تک مار کرتے ہیں اور سب ادھیڑتے چلے جاتے ہیں ۔
جنگ کا ایندھن بارود نہیں،  انسان ہوتے ہیں، لوہا، کنکریٹ نہیں بلکہ گوشت پوست کے اجسام ہوتے ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک مذہب رنگ نسل قوم کے بھی ہوں، یکساں تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔
گولی کا دیس نہیں ہوتا،  بم کا مذہب نہیں ہوتا اور انتہا پسندی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔
وہ سب، جو اپنے گھروں میں کھانا کھاتے ہوئے اور ٹی وی دیکھتے ہوئے، سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے جنگ کی بات کرتے ہیں، ٹویٹس کرتے ہیں اور جوش کا اظہار کرتے ہیں،  کیا آپ کے کانوں نے کبھی میزائل کے پنکھے کی آواز سنی ہے؟  کیا آپ اس لرزش سے واقف ہیں جو زمین کے سینے پر پھٹتے بموں سے پیدا ہوتی ہے. ؟
اپنے گھروں کی پناہ میں رہتے ہوئے کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ گھر کو ملبے میں بدلتے دیکھنا کیسا ہوتا ہے۔ ؟
یقیناً نہیں!  کہ اگر آپ جانتے تو اس بھیانک عفریت کے وجود کے انہدام کی بات کرتے۔
سرحد کے دونوں طرف کے رہنے والو!
عراق، شام، افغانستان، کشمیر کی نسلوں سے پوچھو!  جنگ کس قدر تباہ کن شے ہے۔
جن کی کئی نسلیں طاقت وروں کے جنون کی بھینٹ چڑھ گئیں اور جن کے بچے پیدائش کے بعد ماں باپ کی آوازوں کے علاوہ جس تیسری آواز سے شناسا ہوتے ہیں وہ بم، گولی اور سائرن کی ہوتی ہے۔ دم توڑتی انسانیت کی آہوں اور مظلوموں کی سسکیوں کی ہوتی ہے.
جن کے کھیلنے کے لئے گولیوں کے خول اور پڑھنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ جو اگر تصویر بھی بنائیں تو ان کے کینوس پہ باغوں، پھولوں، جھولوں کے رنگوں کی جگہ ٹوٹی عمارتیں،  بکھرا ملبہ، جلتا شہر اور اس سے اٹھتا دھواں ہوتے ہیں ۔ جو اگر گیت گانا چاہیں تو بس جنگی ترانوں کو جنم دے سکیں گے۔
وہ کھیل میں جنگ کرتے ہیں اور جنگ میں جیتے ہیں۔
جن کے کھیتوں کو ٹینک اتنا روند چکے کہ اب ان سے ہریالی کے تنکے کی نمو کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جن کے دریا اور باولیوں کےمیٹھے  پانی لہو کے کھارے پن میں ڈھل گئے۔ جن کی جھیلوں اور تالابوں کی سنہری اور سرخ مچھلیاں بارود سے مر گئیں اور ترقی اپنی موت آپ مر گئی!  ان سے پوچھئیے کہ جنگ کیسی شے ہے!.
جنگ اپنے ساتھ بھوک، بدحالی، افلاس، احتیاج، موت اور دہشت لاتی ہے۔ معشیت برباد ہوتی ہے،
اقوام کی نہ شناخت رہتی ہے، نہ پہچان!.
بچے یتیم ہوتے ہیں، بیویاں بیواؤں کا روپ دھار لیتی ہیں ۔ ماں باپ لاوارث ہو جاتے ہیں اور “جنگ کے بچے” پیدا ہوتے ہیں ۔ وار بے بیز!  وہ کس کے ہوتے ہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ وہ مظلوم کی کوکھ میں ظلم کے بچے ہوتے ہیں۔ جنگ دھرتی ہی نہیں اجاڑتی، کوکھیں بھی ویران کرتی ہے۔
انسانیت سسک سسک کر ٹینکوں کے بھاری پہیوں تلے جان دیتی ہے اور آگ اگلتی بندوقیں، ڈیزی کٹر بم، فاسفورس بم اور پیلیٹ گنز بس انسانی لہو سے سیر ہوتے ہیں ۔
کھیتوں میں بھوک اگتی ہے اور درس گاہوں پر سیاہ علم پھڑپھڑاتے ہیں۔ گلیوں میں موت ہوتی ہے اور پیٹوں میں افلاس!
تو اے انسانو!  اے سامان حرب اور جنگی صیلاحیتوں پر ناز کرتے انسانو!  خدارا!  جنگ کے عفریت کو سویا رہنے دو! کہ اگر یہ جاگ گیا تو کسی کے قابو میں آنے کا نہیں ہے!
اور اسکی بھوک بے حساب اور پیاس بے انت ہے۔
اپنے کھیتوں میں ہل چلاو، ٹینک نہیں!  اپنے دریاؤں میں بہتے پانی کو بارود کے زہر سے آلودہ نہ ہونے دو۔ اپنے بچوں کے دلوں میں معصومیت اور زندگی برقرار رہنے دو ۔ فضاؤں میں قہقوں کا اہتمام کرو نہ کہ جنگی جہازوں کی گھن گرج کا!
اور اگر جنگ کرنا بہت ہی ضروری ہے تو آؤ! جنگ کریں!
بھوک سے،  افلاس سے، بدحالی، ظلم، ناانصافی سے جنگ کریں ! اور ان سرحدوں پر جنگ کریں جہاں بیماری، جہالت اور پست میعار زندگی کو شکست ہو۔ اور ایسے امن کا قیام عمل میں لائیں
جہاں پچاس روپے کی دوا کے لئے پچیس برس کا انسان ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم نہ توڑ دے۔
جہاں باپ کا انتظار کرتے بچے کی آس نہ مرجھائے اور بوڑھے ماں باپ کی جھریوں میں  ان کے کٹے ہوئے قلوب کے گھاؤ نہ ہوں۔
زندگی سے زیادہ اور امن سے اہم کوئی سرحد ہے نہ کوئی جنگی جوش و جذبہ!. امن بہرطور جنگ سے افضل ہے اور بہر صورت مقدم ہے
اس لئے اے شریف انسانو!  جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے!.

Facebook Comments

مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply