یادش بخیر ۔۔۔ ہمارے یار مہربان ڈاکٹر خالد یوسف سے جب بھی بات ہو ذہن پر پرانی یادوں کے کسی ساون کی پھوار گرنےلگتی ہے۔ دو تین مہینے ہوئے انہوں نے میر پور سے فون پہ بتایاتھا کہ وہ” ہرمن ہیس” کے ناول سدہارتھا میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد گاہے گاہے فون کر کے ناول کے بارے میں اپنے خیالات اور تاثرات سے بھی آگاہ کرتے رہے۔ ادب کے بارے میں ہماری گفتگو کالج کے زمانے سے چلی آ رہی ہے اور ابھی تک نامکمل ہے۔ سدہارتھا ناول سے ہمارا تعلق بھی بہت پرانا ہے، کئی مرتبہ پڑھا ہے اور ان کے کہنے پر اب کے اسے پھر سے بک شیلف سے نکال لیا۔ سو اس تحریر میں شفق کے جو بھی رنگ ہیں ان میں ہمارے شفیق دوست خالد یوسف کے ساتھ مکالمے کا عکس بھی ہے۔
ڈاکٹر خالد یوسف نے یاد دلایا کہ ناول سدہارتھا قریبا” ایک صدی پہلے لکھا گیا تھا اور ابھی تک پرانا نہیں ہوا۔آج تک ہر نئی نسل اس سے استفادہ کیے چلی جا رہی ہے۔ احمد فراز کا مصرع بر محل ہے،ع: “حیف اس فن پہ جو فنکار سے پہلے مر جائے”۔ کسی بھی ادب پارے کے قد کا تعین کرنے کے لئے ایک معیار یہ بھی ہے کہ وہ کتنی دیر تک زندہ رہتا ہے۔
کہنے لگے کہ یہ ناول دراصل بدھ ازم کے بارے میں ہے۔ ہماری رائے میں ناول ہونے کے ناطے یہ ایک فکشن ہے اور یوں بھی بدھ ازم کے تاریخی حقائق اس ناول سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر مہاتما بدھ کے دوست کا نام آنند تھا۔ اس ناول میں ہیرو کا ایک دوست ہے مگر اس کا نام گووندا ہے۔ کئی اور باتوں کے علاوہ مہاتما بدھ کی سوانح حیات اور اس ناول کا پلاٹ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
مہاتما بدھ کی زندگی اور ناول سدہارتھا کے پلاٹ میں فرق کے باوجود ڈاکٹر خالد یوسف کا خیال کچھ حد تک بجاہے۔ کینڈا کے مشہور ادبی تنقید نگار” نارتھرپ فرائی” کہتے ہیں کہ بڑے ادب کا رشتہ لا محالہ مذہبی صحیفے سے جا ملتا ہے۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ لکھتے ہوئے نارتھرپ فرائی کی نظر میں بائیبل اور یورپی ادب کا گراں قدر ورثہ تھا، تاہم ان کی بات نہایت آسانی کے ساتھ ناول سدہارتھا پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ حیات و ممات کی رامائن جس کا منطق کی دنیا میں کوئی جواب موجود نہیں، اس کے ان دیکھے اساطیرالاولین میں سارے مذاہب کا کردار ایک جیساہے سوائے اس فرق کے کہ سارے صاحب ایمان اپنے اساطیر کو مذہب کے معتبر نام کے پکارتے رہے جبکہ دوسروں کے مذہب کی ابتدائی بنیادوں کو اسطورہ کا نام دیتے ہیں۔ قطع نظر اس بحث سے کہ کیا ایسا کہنا درست ہے یا نہیں، سارے مذاہب کی تعلیمات اور اساطیر میں تمام روایات زندگی کے معنوی زاویوں سے عبارت ہوتی ہیں جبکہ آرٹ اور لٹریچر زندگی کے گنبد بے در کو محسوس کرنے کا جمالیاتی زاویہ ہے۔
ہرمن ہیس کا مشہور زمانہ ناول سدہارتھا آج سے دو ہزار پانچ سو سال پرانے ہندوستان کے سماجی اور مذہبی پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ اس زمانے میں ہندوستان میں عوام الناس کی روحانی اور دنیاوی تعلیم پر کاہنوں اور پروہتوں کا قبضہ تھا جنہوں نے رگ ویدا کے مظاہر فطرت میں رچے ہوئے حمدیہ گیتوں پر طرح طرح کی مادی قربانیوں کا تار عنکبوت بن رکھا تھا اور عوام الناس روحانیت کی آڑ میں مادہ پرست رسومات کی بھینٹ چڑھ رہے تھے۔
یہ وہی زمانہ تھا جب دنیا بھر میں انسان کے شعور میں ایک تبدیلی نمودار ہو رہی تھی۔ اس زمانے میں یورپ نے فلسفے کے مباحث کو گلے لگایا۔ یورپ میں اس فکری نہج کے بانی مبانی حضرت سقراط تھے۔ سقراط کے فلسفیانہ خیالات کی پاداش میں ان کے سامنے زہر کا پیالہ رکھ دیا گیا۔ انہوں نے بصد خوشی زہر ہلاہل پی کر جسم کی ظاہری زندگی سے نجات پائی اور حیات جادواں کو گلے لگایا جو ہمیشہ سے نوع انسان کا مطمع نظر رہی ہے۔ ناول سدھارتھا کا ہیرو بھی آلائش دنیا سے کنارہ کش ہو کر نروان کی ابدی منزل کا متلاشی ہو جاتا ہے جس کا ذکر بدھ ازم کے صحائف میں موجود ہے۔ دھاماپادہ میں ارشاد ہے: “جب تم تلاش کی ندی کے پار اتر گئے تو جو زمین سامنے بچھی ہو گی اس کا نام نروان ہے”۔
جس زمانے کی بات ہو رہی ہے، اسی زمانے میں ہندوستان میں تواہم اور رسومات سے اکتائے ہوئے لوگ مادی دنیا سے دور ہو کر ادراک کی روحانی جہتوں کی تلاش میں تھے۔ اس ماحول میں مہاتما بدھ کی تعلیمات ایک نئی روشنی کا استعارہ بن رہی تھیں۔ کیا بچے اور کیا جوان، سبھی جوق در جوق بدھی اور گیان کی جستجو میں بدھ مت کو اپنا رہے تھے۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات برہمنوں کی مقدس قرار دی ہوئی زبان سنسکرت جسے عام آدمی کے لئے سیکھنا ممنوع تھا، اس کی بجائے عوامی بول چال کی زبان “پالی” میں تھیں۔ بات زبان کی نہیں بلکہ انسانی شعور کی اس زیریں لہر کی تھی جو اس زمانے میں روئے زمین پر کروٹ لے رہی تھی۔ اس میں ایک بغاوت تھی کہ روئے کبریا سےشناسائی، اکیلی برہمن ذات کا حق نہیں۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات کے نتیجے میں بصیرت کی تمنا اور اس کے لئے تپسیا ہر انسان کے ذاتی حق کے طور پر مانی جانے لگی۔ حق کے متلاشی اپنے خونی رشتوں اور اپنی بستیوں کو تیاگ کر حصول علم میں محو رہتے تھے۔ یہ بدھ بھکشو قریہ قریہ بستی بستی گھوم کر بھیک مانگتے مگر صرف جسم وجاں کے رشتے کو قائم رکھنے کی حد تک ۔ اس سے زیادہ کا حصول ان کےلئے ممنوع تھا کیونکہ یہ ان کے روحانی سفر میں اڑچن تھی۔ بدھ بھکشو جس دروازے پر بھیک مانگنے کو پہنچتے، اس کے مکین اسے اپنے لئے عزت گردانتے۔ اس طریقے سے سماج طالب علم کا کفیل تھا اور یوں بالواسطہ پورا سماج ایک روحانی سفر میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھا۔
ناو ل سدہارتھا اسی مذہبی اور سماجی بیک گراونڈ میں لکھا گیا ہے۔ یہ اصل حقیقت کی تلاش میں بدن سرائے کی کثافتوں سے ماورا ہو کر باطن ذات سے الہام کشید کرنے کی تپسیا کی کہانی ہے۔سدہارتھ نام کا شہزادہ ناول کا پروٹاگونسٹ ہے اور اس کا دوست گووندا سایے کی طرح ہر آن اس کے ساتھ موجود رہتا ہے۔ ناول میں گووندا کا کردار ایک لٹریری ضرورت ہے۔ وہ ایک دوست ہے مگر ناول کی بنت میں وہ دوست سے زیادہ سدہارتھ کا ہمزاد دکھائی دیتا ہے۔ ناول کے ابتدا میں ہرمن ہیس نے ایک جگہ گووندا کے لئے “سایہ” کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔نفسیات دان کارل یونگ نے اس طرح کے کردار کو “پرسونا” کہا ہے۔ کہانی میں گووندا کے کردار کے ساتھ ایک مکالمے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ سدہارتھ کی گووندا کے ساتھ گفتگو دراصل ہیرو کا اپنے ساتھ ایک مکالمہ ہے جو آخر تک چلتا چلا جاتا ہے۔ سدہارتھ اور گووندا کے آپس میں مکالمات کی سمجھ بوجھ شاید “پرسونا” کی وضاحت سے نمایاں ہو سکے۔ پرسونا نفسیات کی زبان میں باطن ذات میں چھپی خواہشات کو سماجی ماحول میں ڈھالنے کے عمل کا نام ہے۔
اس ناول کا ہیرو سدھارتھ اپنی تلاش میں شعوری طور پر اکیلا آگے بڑھتے ہوئے ہر مشکل مقام پر اپنے “پرسونا” گووندا کے ساتھ محو کلام ہوتا ہے، یعنی اپنے ساتھ۔ سدہارتھ کا پرسونا گووندا ناول میں کئی جگہوں پر ذہنی اور روحانی کشمکش میں الجھے ہوئے تیاگی کے لئے نسبتا” آسان راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ گووندا کا کردار ہیرو کے قریب بھی ہے اور دور ایک علیحدہ کرداربھی۔ لٹریری ٹیکنیک کے اعتبار سے اسے بڑی خوبی سے نبھایا گیا ہے۔ دونوں کے درمیان مباحث کا معیار وہ ہے جسے پروٹاگونسٹ طے کرتا ہے۔ مباحث کے معیار کے اعتبار سے دونوں کے درمیان ایک برابری ہے مگر لطف کی بات یہ ہے کہ ہر مشکل مقام پر سدہارتھ جو ہیرو اور پروٹاگونسٹ ہے وہ اپنے فکری حلیف اور حریف گووندا کی طرف سے بتائی ہوئی رعایت کی راہ کو چھوڑ کر نجات کی ان دیکھی مشکل راہ کا انتخاب کرتا ہے۔
سوچا جا سکتا ہے کہ ناول کے ہیرو سدہارتھ کی فطرت اور شخصیت میں ایک “میسو کسٹ” یعنی ایذا پسند بیٹھا ہے۔ یہ عین ممکن ہے مگر ہر سماج میں ایسے بہت سے انسان ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جبہی تو سارے مذاہب میں ذہنی اور جسمانی ریاضت کی تعلیمات ہیں۔ بہت پرانے زمانوں سے ہی سماج میں ریاضت کی تعلیمات ذہن انسان کی شاید اسی انفرادی اور اجتماعی کجی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ بحث کسی اور دن کے لئے مگر اتنا کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسانی معاشروں نے نفسانی خواہشات کی حدیں مقرر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس دانائی کے ساتھ کہ جبلت پر پابندیوں کو مذہب کی تقدیس عطا کی ہے اور آرٹ اس جبر کو کلچر میں ڈھال کر قابل قبول بنا دیتا ہے اور یوں بھی تو ہوتا ہے کہ آرٹ کی جمالیات کلچر کے جبر کی لگام تھام لیتی ہیں۔
سدہارتھ گیانیوں کی تعلیمات سے فیض یاب ہوتا ہے اور ان کے بتائے ہوئے طریق پر اپنے وجود اور ذات کی نفی کر کے اصل حقیقت تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرتا ہے مگر ایک بے چہرہ سی بے کلی اس کے اندر موجود رہتی ہے۔ وہ وجود اور ذات کی نفی کے طریقے کو کھوٹا پاتا ہے۔ اسی طرح سدہارتھ دوسروں کے تجربے اور کسی دوسرے کی علمی ریاضت کو اپنے لئے بیساکھی گردانتا ہے اور رد کر دیتا ہے۔ اسے دور افق میں نروان کی جو پرچھائیں دکھائی دیتی ہے وہ اس تک رسائی کے لئے اپنے ذاتی تجربے کو راہبر مانتا ہے۔ وہ گووندا سے کہتا ہے کہ اس کے نزدیک تعلیمات علم پر مشتمل ہوتی ہیں ان کی ترسیل اور اظہار ممکن ہے مگر حکمت و دانش تجربے کی دین ہوتی ہے، اس کی ترسیل تعلیم کے ذریعے ممکن نہیں۔
باوجود اس کے کہ سدہارتھ تجربے کو علم پر ترجیح دیتا ہے مگر جو سوالات وہ اٹھاتا ہے، وہ علمیات کے بارے میں اس کے وسیع المطالعہ ہونے کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکے۔ اسی نکتے پر ناول نگار واقعات کو زینہ زینہ آگے بڑھا کر نئے سوالوں کی لڑی میں پروئے چلا جاتا ہے۔ علم کے اجزا کون سے ہیں، اس کا منبع اور مرجعہ کہاں ہے؟ کیا ذات کی نفی اور دنیا کو تیاگ دینے کی تپسیا کا نام علم ہے؟ کیا حواس کی دنیا اور اس کی لطافتوں کو جھٹلانا ابدی حقیقت سے شناسائی کا وسیلہ ہے؟ یہ سوالات دراصل لاشعور کے تاریک گوشوں سے پیدا ہونے والے سوال ہیں۔ ان پر فلسفیانہ مباحث زمانوں سے چلے آ رہے ہیں۔ اس نوع کے ہر سوال کے جواب میں ایک علیحدہ دیوتا کا وجود تمام پرانے اساطیر کا خاصہ ہے۔ تاہم ان سارے مباحث میں مشترکہ صفت انسان کے لاشعور سے ابھرے ہوئے وہ شعوری سوالات ہیں جن کا کوئی حتمی جواب آج تک میسر نہیں آ سکا۔ خیر ، روز مرہ کا تجربہ ہے کہ کوئی منطقی جواب اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا کاروبار حیات کی تندی میں ذہن کا آسودہ رہنا۔
ذہنی ناآسودگی کے عام طور پر جو دو پہلو ہوتے ہیں انہیں اس ناول کے پلاٹ میں خوبصورتی کے ساتھ واقعات کے تانے با نےمیں بنا گیا ہے۔ کشا کش حیات میں ہر انسان کے باطن میں ایک “ایگو سیلف” ہے اور دوسرے “سائیکک سیلف”۔ اردو میں انہیں خود انانیت اور کشف ذات کہا جا سکتا ہے۔ سدہارتھ وجود اور اس کی حسیات کی نفی کے وظائف کے بعد بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی جسمانی اور ذہنی جبلت اس کے اندر زندہ و تابندہ ہے جو اسے دائروں میں لئے پھرتی ہے۔ تیاگ تپسیا کی ہر مشق اور ہر کیفیت اسے اپنے آپ سے فرار لگنےلگتی ہے کیونکہ جب بھی ریاضت سے آنکھ کھلی وہ اپنی حسیات کو وجود کے آنگن میں موجود پاتا ہے۔ تب اس پر عیاں ہوتا ہے کہ تیاگ کی جسمانی اور ذہنی ریاضت منزلوں کا سراب ہے۔ سول اٹھنے لگتی ہے۔ ایک پیاس ہے کہ سیراب نہیں ہوتی۔ سو وہ سدہارتھ جو نروان کے راستے پر چلا تھا، وہ وجودی اور ظاہری اور دنیاوی پیاس سے نجات کی بجائے رواں دواں سنسار کے پاکھنڈ میں تاجر کاماسوامی اور امراء کی منظور نظر کملا کی بستی جا بسرام کرتا ہے۔ اور یہ راز بھی تجربے کے بعد ہی اس پر عیاں ہوتا ہے کہ دنیا داری خود انانیت کا اکھاڑہ تو ہوسکتی ہے مگر کشف ذات کا مقام جہاں شعور اور جبلت پر گزرتا وقت آب حیات میں تحلیل ہو جاتا ہے، اس کا نشان کہیں نہیں ہے۔
وقت کی لہروں پر زندگی کی دھوپ چھاوں سدہارتھ کو دوبارہ اسی گھاٹ لے آتی ہے جہاں سے اس نے ایک دفعہ دریا پار کیا تھا۔ اس نے دریا پار کہاں کیا تھا اور آج تک کون دریا پار کر سکا ہے۔ دریا کا بہتا پانی لمحہ موجود اور ہر لمحہ حرکت کرتے ہوئے وقت کا استعارہ ہے۔ مگر یوں تھا کہ گزرتے سمے کی دھارا نے اپنی پرچھائیاں سدہارتھ کے چہرے کی لکیروں میں رکھ دی تھی۔یہ گزرتے ہوئے وقت کا گیان ہے کہ مادی دنیا کی ہر چیز دھوکہ ہے اور بدھ مت کی زبان میں “دکھ” ہے جو گزرتے وقت کا شعور ہے ۔اس عالم دہر میں کوئی چیز فنا نہیں ہوتی، بس لوح وقت پر شکلیں بدلتی رہتی ہے۔ خزاں میں گرتے پتے، ہوائوں کے ساتھ اڑتی خوشبو، درختوں میں سرسراتی ہوا، بہتا جھاگ اڑاتا پانی اور سمندر کا جوار بھاٹا سب روح کل کا پرتو ہے، بے شک ظاہری شکلیں ہیں کہ بدل رہی ہیں۔ ان بدلتی شکلوں کے بیچ جو چیز حائل ہے وہ وقت ہے اور وقت کی ریت پر بنتی بگڑتی لکیروں کے احساس کا نام شعور ہے۔
مادے کی دنیا میں بنیادی ذرہ ایٹم ہے، آرٹ کی دنیا میں بنیادی اکائی لکیر یا لائن ہے۔ آرٹسٹ اور مجسمہ ساز جانتے ہیں کہ لائن کی سادگی میں اس کا جوہر پنہاں ہے۔بقول ن م راشد “مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاوں // بات کرنے کے بہانے ہیں بہت” ۔۔۔ دنیا کا آج تک کا سارا لٹریچر اور سارا آرٹ زندگی کے چہرے پہ لکھی لکیروں کی شرح ہے۔ آرٹ میں لائن وجود کی علامت ہے اور شعور کی علامت ہے۔ یہ فضائے بسیط میں وقت کی رو پر Ontos یعنی ہونے کو نا ہونے سے ممیز کرتی ہے اور اسی لائن کی نہایت پر قرآن کی آیت رقم ہے”والعصر “یعنی قسم ہے وقت کی ۔ ناول سدھارتھا بس اسی آیت کی کہانی ہے۔
Photo Courtesy:Internet
Facebook Comments
“یہ گزرتے ہوئے وقت کا گیان ہے کہ مادی دنیا کی ہر چیز دھوکہ ہے اور بدھ مت کی زبان میں “دکھ” ہے جو گزرتے وقت کا شعور ہے ۔اس عالم دہر میں کوئی چیز فنا نہیں ہوتی، بس لوح وقت پر شکلیں بدلتی رہتی ہے۔ خزاں میں گرتے پتے، ہوائوں کے ساتھ اڑتی خوشبو، درختوں میں سرسراتی ہوا، بہتا جھاگ اڑاتا پانی اور سمندر کا جوار بھاٹا سب روح کل کا پرتو ہے، بے شک ظاہری شکلیں ہیں کہ بدل رہی ہیں۔ ان بدلتی شکلوں کے بیچ جو چیز حائل ہے وہ وقت ہے اور وقت کی ریت پر بنتی بگڑتی لکیروں کے احساس کا نام شعور ہے۔….” ہر جملہ خوب، ہے خیال قابل داد۔۔۔سدھارتھ ایک ایسا کردار جو عقل، شعور، گیان کے راستوں پر چلنے والوں کے لئے ایک رہ نما ہے۔