سفید گلاب (افسانہ)-احمد شہزاد

شہر کی سب سے خوبصورت سڑک کو دونوں جانب سے بڑے بڑے گھنے سرسبز درختوں نے ڈھانپ رکھا تھا اس دو رویہ سڑک کی خوبصورتی کو جو چیز بڑھا رہی تھی وہ درمیان میں بہتی ہوئی نہر تھی ۔ نہر کا مٹیالہ پانی اٹھکیلیاں کرتے ہوئے رواں دواں تھا مگر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی ، کہیں اِکا دکا گاڑی گزرتی دکھائی دے رہی تھی ۔ نہرکنارے سڑک کو لاہور کے حُسن کا جھومر سمجھا جاتاہے مگر آج اس کا حُسن ماند دکھائی دے رہا تھا ۔ فضا میں عجیب سی خاموشی تھی ۔ کہیں رونق نظر نہیں آ رہی تھی ۔
راشد یونی ورسٹی میں انٹر نیشل ریلیشن میں شام کی کلاسز میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور پارٹ ٹائم بطور ڈرائیور اوبر چلارہاتھا ، راشد نے نہر والی سڑک ویران دیکھ کر رفتار تیز کر دی تا کہ وہ جلد از جلد مطلوبہ جگہ پہنچ جائے جہاں ایک اوورسیئز فیملی کو ائیرپورٹ پہنچانا تھا ۔
شہر میں جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے ، پولیس نے بعض معروف جگہوں پر ناکے اور ٹریلر کھڑے کر کے سڑک بند کر رکھی تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ پولیس ناکوں سے بچتے ہوئے مطلوبہ جگہ پہنچ گیا ۔فیملی کے بیٹھتے ہی راشد نے ایک غیر معروف راستے سے ہوتے ہوئے ائیر پورٹ کی جانب گاڑی بڑھا دی۔
” آپ ہمیں بحفاظت ایئر پورٹ پہنچا تو دیں گے، ” بچوں کے والد نے سوالیہ اور پریشانی کے انداز سے پوچھا۔
” جی آپ مطمئن رہیں سبھی راستے میرے دیکھے بھالے ہیں ۔” ڈرائیور نے جواب دیا۔
والد نے مزید کہا کہ ” دنیا بھر میں احتجاج ہوتا ہے پر ہمارے ہاں کی پولیس کچھ زیادہ ہی کارکردگی دکھانے کے چکر میں ہوتی ہےناجائز پکڑ دھکڑ شروع کر دی جاتی ہے جس سے ماحول میں تلخی پیدا ہوتی ہے۔اور یہ بھی ہے کہ جب لوگوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے تو وہ ٹھان لیتے ہیں کہ ہر حال میں اپنا حق لینا ہے پھر انقلاب کے لیے راہ کی ہر دیوار گرا نے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں”
“بھائی دیکھیں ہمیں محفوظ راستے سے فلایئٹ کے لیے پہنچنا ہے ، چند سال پہلے ہم کراچی میں تھے تو ائیر پورٹ جانا مشکل ہو گیا تھا” پیچھے بیٹھی ہوئی خاتون فکر مندی سے بولیں۔
ڈرائیور نے دھرمپورہ نہر کے پل سے فورٹریس کی جانب مڑتے ہوئے خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ” آپ بے فکر رہیں ہم کینٹ کے محفوظ راستے سے جا رہے ہیں۔”
“ہیں ! ………یہ کیسے محفوظ ہے سال پہلے 9 مئی کا واقعہ ادھر ہی کا بتایا جا تا ہے۔” پیچھے بیٹھے ہوئی لڑکی فوراً بولی
والد نے پلٹ کر کہا “کچھ فالس فلیگ کارروائیاں بھی تو ہوتی ہیں۔ بہرحال آپ کے لیے آگے سرپرائز ہے ۔”
” اچھا !……..سرپرائز وہ بھی اِدھر !……. اب بیٹا بھی بول پڑا۔
بس کچھ آگے کورکمانڈر ہاؤس آنے لگا ہے جس کی وجہء شہرت9 مئی ہے۔ والد نے پیچھے مڑ کر کہا۔
“ابو آپ اسے کورکمانڈر ہاؤس تو نہ کہیں یہ اب جناح ہاؤس ہے ، آپ اس کی اہمیت کم کر رہے ہیں” بیٹی نے ہنستے ہوئے کہا
پھر سبھی ہنسنے لگے ، والد نے ایک عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”وہ رہا ، کیا خیال ہے کچھ دیر رک کر 9 مئی کی مذمت کرتے ہوئے نہ چلیں……………….”
خاتون ایک دم بولیں ، ” پہلے ہی دھڑکا لگا ہوا ہے کہ ائرپورٹ پہنچیں گے کہ نہیں آپ کو کچھ اور ہی سوجھ رہا ہے ”
اس موقع پر راشد نے کہا “9 مئی کو حکومت کی فسطائیت نے یہ دن دکھایا جب اسلام آباد ہائیکورٹ سے ایک مقبول لیڈر کو عدالت کے اندر سے شیشے توڑ کر گرفتار کیا گیا پھر اس کے بعد واقعات رونما ہوئے ۔ آج بھی بہت سی ماؤں کے لختِ جگر حتیٰ کہ بہو بیٹیاں قید و بند میں ہیں۔آئینی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں قانون کو موم کی ناک بنا کر رکھ دیا ہے ”
“کیا اس ملک کی عدالتیں انصاف نہیں کر رہیں؟…………”دونوں بچوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اکٹھے کہا۔
ڈرائیور نے دونوں کندھے اچکاتے ہوئے گردن کے اشارے سے نفی کا اظہار کیا۔
کچھ ہی دیر میں ائیرپورٹ آ گیا سبھی نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا ، ڈرائیور انہیں اُتار کر بغیر سواری لیے واپس چل پڑا، کیونکہ شام کی کلاس لینی تھی۔
ابھی ائیرپورٹ سے نکلے کچھ ہی دیر ہوئی تھی اس کے موبائل پر لبرٹی کی سواری کا میسج موصول ہوا ، ڈرائیور نے فوری کلک کیا اور مطلوبہ لوکیشن ایک فورسز کی آفسیرز میس تھی کچھ ہی دیر میں وہ میس کےسامنے تھا ۔وہاں ایک نوجوان آفیسر منتظر تھا ، گاڑی میں بیٹھتے ہی نوجوان نے AC چلانے کا کہا ، پھر وہ فون پر بات کرنے لگا ۔
“جان! پلیز میں کچھ ہی دیر میں پہنچ جاؤں گا ، میں گاڑی میں بیٹھ چکا ہوں اور بس تمھارے لیے راستے سے بُکے) bouquet ( لینا ہے ، ہاں ہاں لے لوں گا………. ریسٹورنٹ کی لوکیشن لگا لی ہے ۔ ”
عزیز بھٹی روڈ آتے ہی نوجوان نے کہا ” CSD پر روکیے مجھے کچھ لینا ہے اور AC نہ بند کرنا ”
ڈرائیور نے اثبات سے سر ہلایا اور گاڑی مطلوبہ عمارت کی طرف موڑ دی ۔ نوجوان اُتر کر اند رچلا گیا ۔ تقریباً دس منٹ کے بعد آیا اور اس نے سگریٹ سلگایا ہوا تھا ۔
“براہ ِ مہربانی سگریٹ بجھا دیں کمپنی رولز کے تحت گاڑی میں سگریٹ نہیں پی جاتی کیونکہ اکثر لوگ بُو کی وجہ سے اعتراض کرتےہیں اور گاڑی میں نہیں بیٹھتے ۔”ڈرائیور نے نوجوان سے کہا۔
نوجوان آفیسر نے پہلے تو منہ بنایا پھر بادلِ نخواستہ سگریٹ بجھایا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
“تھوڑا آگے فورٹریس سٹیڈیم کی کسی شاپ پر روکئے گا مجھے یہاں سے پھول نہیں ملے وہاں شاید سفید گلاب مل جائیں۔” نوجوان نے کہا
“میں تو سمجھا تھا کہ آپ ڈائریکٹ لبرٹی جائیں گے اس لیے کلک کیا تھا کیوں کہ میں نے شام کی کلاس بھی جوائن کرنی ہے ۔” ڈرائیور نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
نوجوان آفیسر نے سر ہلایا اور ایک دکان کے سامنے اُتر گیا ، کچھ دیر میں اس دکان سےنکل کر کسی اور دکان میں داخل ہوتے دکھا ئی دیا ۔شاید سفید پھول مل نہیں رہے تھے۔
تقریباً پندرہ منٹ کے بعد آیا تو اس کے ہاتھ میں رنگ برنگے پھولوں کا ایک گلدستہ تھا اور صرف ایک سفید گلاب تھا۔
” یہاں سے ایک ہی سفید پھول بمشکل ملا ہے ” نوجوان آفیسر نے اپنی تاخیر کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا۔
اس پر ڈرائیور نے کہا :” معاف کیجئے …………. سُرخ رنگ محبت اور انقلاب کی علامت ہے اور آپ سفید پھول ڈھونڈ رہے ہیں………..”
” سفید گلاب کی فرمائش تھی ” نوجوان نے محبت سے بتایا۔
اتنے میں اُسے فون آیا پھر اس کی آواز سنائی دی ” جان ! ۔۔۔۔بس پانچ منٹ تک ریسٹورنٹ میں ہوں گا ، یہ سفید گلاب مشکل سے ملا ہے۔”
اور وہ پھول اپنے چہرے کے سامنے لایا اور دیر تک اُس کی خوشبو سونگھتا رہا ۔
کچھ ہی دیر میں وہ ریسٹورنٹ کے سامنے تھے ۔ نوجوان آفیسر نے وائلٹ نکال کر اسے رقم دینی چاہی ڈرائیورنے پیسے دیکھتے ہی کہا “جناب یہ تو وہ کرایہ ہے جو آن لائن طے ہوا تھا آپ راستے میں دو جگہ رُکے ہیں کمپنی رولز کے تحت راستے میں رُکنے کے الگ سے پیسے ہیں ۔”
نوجوان مزید پیسے ادا کرنے میں پس و پیش کرنے لگا ، ڈرائیور کے بار بار اصرار پر نوجوان مزید طیش میں آگیا ۔ ڈرائیور بھی باہر نکل آیا۔
جیسے ہی ڈرائیور باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک خوبصورت لڑکی سفید لباس پہنے ریسٹورنٹ کے دروازے پر کھڑی تھی جبکہ نوجوان کی اُس طرف پشت تھی۔
نوجوان آفیسر مزید پیسے ادا کرنے سے انکاری تھا اور وہ اب اول فول بکنے لگا ڈرائیور نے پھر کہا ” آپ کا آدھے گھنٹے سےزیادہ انتظار بھی کیا اور اے سی بھی چلنے دیا ۔”
یہ سُنتے ہی نوجوان آفیسر نے طیش میں آ کر ڈرائیور کو you bloody civilian کہتے ہوئے تھپڑ مارنے کی کوشش کی ، ڈرائیور نے نیچے جھک کر اُس کا ہاتھ روکا ، پھر ہاتھ پوری قوت سے لہرا کر ایک گھونسا اس کے چہرے پر جما دیا۔
گھونسا لگتے ہی بُکے اس کے ہاتھ سے گرا ، صرف سفید پھول ہاتھ میں رہا ۔
نوجوان آفیسر کے ناک سے خون کا فوارہ پھوٹا جو سیدھا سفید پھول پہ گرا ………………
سفید گلاب …………….. سُرخ گلاب میں تبدیل ہو چکا تھا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply