​پہلے نام کی موت-صادقہ نصیر/مبصّر-سائیں سُچّا

اندھیرے کا ذکر ہوتے ہی ہمیں اپنی بینائی کی صلاحیت کے متعلق تشویش شروع ہو جاتی ہے کہ اب ہم ظلمت میں کیا کریں گے۔ یہ اور بات ہے کہ تیرگی میں صرف چند لمحات بعد ہماری ہر ایک حِس نہ صرف جاگ اُٹھتی ہے ، بلکہ محرک بھی ہو جاتی ہے ۔بطور انسان، روشنی میں ہم اپنی آنکھوں کے استعمال کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمارے کان، ناک، زبان اور لمس کی حِس دوسرے درجہ پر آ جاتی ہے، لیکن، اندھیرے میں یہی اعضا ہماری ایک اور طرح سے  رہنمائی کرتے ہیں۔ ایسے اوقات میں جب اندھیرا ہم پر حاوی ہو تو کم سے کم روشنی بھی ہمیں اپنے اِدر گِرد کی اشیاء کا حجم اور مقام کا  تعین کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ یہ اندھیرا چاہے کسی کمرے میں ہو یا کسی ذہن میں، ایک راہبر کی موجودگی ہی بہت بڑا دلاسہ ہے کہ ہم کہیں گم نہیں ہو جائیں گے۔

صادقہ نصیر ایک ایسی ہی راہبر ہے جو چار دہائیوں سے اُن لوگوں میں رہ کر، اور اُن کے ساتھ کام کر کے ، جو کسی نہ کسی وجہ سے اُس بصیرت سے محروم ہوتے ہیں جو کہ ایک عام انسان میں پائی جاتی ہے، ہمیں انسانیت کی اُن گہرائیوں میں لے جاتی ہے جہاں اکثر لوگ جاتے ہی نہیں، اور اگر کبھی چلے بھی جائیں تو اُن لوگوں کو نہیں پہچان پاتے جو وہاں زندگی گزارتے ہیں۔ معاشرتی  زندگی میں ایک بہت بڑی محرومی یہ بھی ہے کہ   جب ایک فرد اپنے اِرد گِرد کے لوگوں سے اپنے خیالات کی ترسیل نہیں کر سکتا۔۔ یہ رکاوٹ چاہے نفسیاتی ہو، روایتی  یا معاشی، کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ خود کو بیان نہ کر پانا ہی بہت بڑی اذیت ہے۔

صادقہ نصیر نے ۱۹۸۲ میں کراچی یونیورسٹی سے تیئس سال کی عمر میں نفسیات میں امتحان پاس کیا۔ ۱۹۸۳ سے اب تک وہ پاکستان اور پھر کینیڈا میں بطور ماہر نفسیات کام کر رہی ہیں۔ گو اُن کے مریضوں میں ہر طرح کے لوگ شامل رہ چکے ہیں، اُن کا اپنا رُجحان بچوں کی طرف ہے۔ چالیس  سال ایک بہت لمبا عرصہ ہے جس میں ایک متجسس انسان دوسرے افراد کے ذہنوں کا معائنہ کر سکے، اُن کی کہانیاں اور داستانیں سُن سکے ۔ خاص طور پر وہ داستانیں جو دوسرے سُننے کو تیار نہیں ہوتے، یا سمجھ نہیں پاتے۔

“پہلے نام کی موت” وہ افسانے ہیں جو صادقہ نے اس عرصہ میں اکٹھے اور تخلیق کیے۔ یہ اُن لوگوں کی کہانیاں ہیں جو عام زندگی گزارنے سے قاصر ہیں، کبھی اپنی کمزوریوں کی بِنا پر ، اور کبھی دوسروں کی زیادتیوں کی وجہ سے۔ کہنے کو تو یہ ایک افسانوں کی کتاب ہے، مگر یہ افسانے ایک میلے درپن کی مانند آپ کو حقیقت کے وہ عکس دکھائیں گے جو پہلے تو دھندلے ہوں گے، مگر کچھ شناسائی کے بعد صاف نظر آنے لگیں گے۔

گو ، ہر افسانہ ایک مختلف کہانی ہے، لیکن چند کہانیاں آپ کو ایک نئے انداز سے اِن “ہلےِ ہوئے لوگوں” سے متعارف کریں گی جہاں لاغر ذہن اور شاطر افراد ایک ہی منظر کو اپنے اپنے انداز سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ “عالمی دِن کا نوحہ” اور “آدھا راستہ” ایسے دو بیانیے  ہیں۔ “توشیو” مصنف کا ایک نئے پیشے سے تعارف تھا جہاں کبھی کبھی ڈاکٹر اور دوست کا امتیاز مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے ہر افسانے کو بہت دھیان سے پڑھا اور سمجھنے کی کوشش کی، لیکن یہا ں میں  علیحدہ علیحدہ افسانوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ ان کو پڑھتے وقت بہتر ہو گا کہ آپ کا راہبر صرف صادقہ ہی ہو جو مختلف حالات پر روشنی ڈالے۔

ان پندرہ افسانوں کی زبان، باوجود اس کے کہ یہ بہت سے پیچیدہ موضوعات پر ہیں، عام فہم اور دلچسپ ہیں ۔
میں نے اس کتاب کا تعارف اندھیرے سے شروع کیا تھا، لیکن صادقہ کی منزل ظلمت میں پھنسے رہنا نہیں بلکہ وہ اجالا ہے جو ہمیں حالات کو سمجھنے اور اُن کا مناسب حل ڈھونڈنے کے بعد مِلتا ہے۔ اُس کے افسانوں کے کردار مظلوم سہی مگر سب کے سب شفقت اور انسانی مروت کے متلاشی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں، کہ میرے اس سفر کے دوران زندگی کی  ان تاریک گلیوں میں مجھے صادقہ کی رہنمائی اچھی لگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply