رنگین کفن۔۔محمد منیب خان

لویا دو،لیلن دو، پرانیاں جوتیاں دو، چھان بُورا دو۔ سورج ابھی سوا نیزے پہ نہیں آیا تھا لیکن کرم دین اپنی پوری توانائی سے ایک خاص لَے میں یہ آواز لگا رہا تھا۔ یہ الفاظ اور کرم دین کا انداز دونوں ہی محلوں والوں کے لیے اجنبی نہ تھے۔ برس ہا برس سے کرم دین کا معمول تھا کہ وہ اپنی پرانی سائیکل پہ کاٹھ کباڑ کا تھیلا لٹکائے گلی گلی آواز لگایا کرتا تھا۔ کرم دین کی سائیکل کا اگلا مڈگارڈ شاید بار بار ٹکرانے کی وجہ سے ٹیڑھا ہو چکا تھا۔ جبکہ سائیکل کا چین کور بھی وقت کے ساتھ اپنی ہیت بدل چکا تھا۔ سوجونہی وہ محلے میں داخل ہوتا اس کی لہکتی آواز کے ساتھ سائیکل کے ٹائر کامڈگارڈکے ساتھ رگڑنے اور پیڈل کا چین کور سےٹکرانے کا بیک گراؤنڈ میوزک بھی چلتا۔ اس لہکتی آواز اور رگڑ کی موسیقی کو سنتے ہی بچے گھروں کی کھڑکیوں اور چھتوں پہ بنیرونسوںپہ کھڑے ہو جاتے۔ اور ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے کہ آج کون، کیا کیا بیچنے آ رہا ہے۔ اور بیچ کر کتنے پیسے لے گا اور پھرشام ڈھلے ان پیسوں کی کونسی چیز وہ آج خریدے گا۔ پھر وہی خریدی ہوئی چیز وہ گھرکی چھت پہ چڑھ کر دوسری چھتوں پہ موجود سب بچوں کو دکھائے گا۔ اگر کوئی کھانے والی چیز ہو گی تو وہ کھائے گا تو تنہا لیکن پانی باقی سب بچوں کے منہ میں آئےگا اور کئی دوست یار اس سے چکھنے کا تقاضا کریں گے۔ کوئی چھیننے کی کوشش کرے گا اور کوئی محض حسد سے بری نظر ڈالےگا۔ گلی محلوں کی یہی کہانی ہوتی ہے۔

یوں تو قلعہ روپا سنگھ کی گلیاں اتنی تنگ نہ تھیں۔ لیکن وقت کے  ساتھ ساتھ گھروں کے آگے تھڑے، سیڑھیاں اور پھر موٹر سائیکلوں کو اوپر چڑھانے کے لیے بنائے جانے والی ڈھلوانوں سے گلی سکڑتی گئی۔ وقت کے ساتھ واقعہ یہ ہے کہ  جوں جوں وقت گزرتا ہے۔ ایساایسا بدلاؤ انسان دیکھ لیتا ہے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کرتا۔ تجاوزات کا بڑھنا اور گلیوں اور سڑکوں کا چھوٹا ہونا تو معمولی واقعہ ہے کیا کوئی نوجوان اپنے جھریوں زدہ چہرے کو تصور کرتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ یوں تو کرم دین بھی ابھی تیس کے پیٹے میں تھا لیکن شاید غربت سے جنگ لڑنے میں اس کی جوانی پیری کا پرتو بن چکی تھی۔ ایسا بڑھاپا چند سالوں کا نہیں ہوتا بلکہ صدیوں پہ محیط ہوتا ہے۔ نجانے وقت کو خود سے کیسے معلوم ہو جاتا ہے کہ کب، کہاں، کس کے لیے تیز چلنا ہے اور کس کے لیے سست۔ تنگ دستی،دکھ اور پریشانی میں وقت کسی کینچوئے کی طرح چلتا ہے، انسانوں پہ اپنے نشان  ثبت کرتا ہے۔ جبکہ خوشی، راحت اور خوشحالی کاوقت بھاگتا ہے جیسے کھلاڑی اولمپکس میں سو میڑ کی ریس جیتنے کے لیے بھاگتے ہیں۔ لہذا جن کے حالاتسوکھےہوں ان کےچہرے ہشاش بشاش اور تروتازہ ہوتے ہیں۔ کرم دین کے لیے بھی وقت کینچوئے کی طرح چل رہا تھا۔ وہ بلا ناغہ گھر سے نکلتا چونیاں کی گلیوں میں آواز لگاتا اور شام کو سارا کاٹھ کباڑ بازار کے آخری کونے پہ موجود ایک کباڑ یے کو بیچ کر اپنی دیہاڑی جیب میں ڈالےگھر چلاجاتا۔

ویسے تو ردی خریدنے والے کے لیے یہ کاٹھ کباڑ ہی اصل سرمایہ تھا لیکن اس سرمائے کے علاوہ کرم دین کے دو معصوم بچے اور ایک قبول صورت بیوی بھی تھی۔ بڑا بیٹا دس سال کا تھا اور سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا جبکہ چھوٹا بیٹا ابھی چھ سال کاہونے والا تھا۔ پہلی اولاد اور پہلا عشق مرد کو ہمیشہ ہی بہت عزیز ہوتے ہیں۔ عورت کا معاملہ مختلف ہے کہ عورت کے لیے ہر عشق ہی خاص ہوتا ہے اور ہر اولاد ہی عزیز ہوتی ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ مستقبل میں اولاد والدین کے ساتھ کیا وطیرہ اپناتی ہے، ساری اولاد ہی والدین کے لیے قیمتی اور پیاری ہوتی ہے، لیکن بڑے بچے سے والدین کا انس خاص ہی ہوتا ہے۔ اس لیے کرم دین کو بھی اپنےبڑے بیٹے سے خاص لگاؤ اور محبت تھی۔

ایک نسل اگر غربت اور تنگدستی کیوجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائے تو اس نسل کی کوشش ہوتی ہے کہ اگلی نسل ضرور زمانے کےحساب سے تعلیم حاصل کرے۔ اسی لیے کرم دین کی بھی خواہش تھی کہ اس کے دونوں بچے پڑھ لکھ جائیں بلکہ پڑھ لکھ کر ماسٹربنیں اور علم کے کنویں سے مسلسل ڈول نکال نکال لوگوں کو سیراب کرتے رہیں۔ لہذا کرم دین نے اپنے بڑے بیٹے پہ تعلیم کے حوالے سےخصوصی توجہ دی اور اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

کرم دین کے بڑے بیٹے کو تصویریں بنانے اور ان میں رنگ بھرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ تصویر بناتا، کارٹون کے سکیچ بناتا اور ان میں رنگ بھرتا۔ لہذا کرم دین کو اس کے لیے اتنی کاپیاں یا کتابیں خریدنے کی فکر نہیں ستاتی جتنا اس کے لیے اچھے رنگ لینے کی فکررہتی تھی۔ کرم دین اگر ایک بار پنسل رنگوں کا پیکٹ لیتا تو اگلی بار مارکر رنگوں کا اور پھرکرےیون” (crayon) کا۔ آرٹ اور ڈیزائن کا شوق چاہے پہلی جماعت کے بچے کو ہو یہ نسبتا مہنگا شوق ہے۔ لیکن کرم دین کے ماتھے پہ یہ سب خریدتے کبھی شکن نہ آئی۔جب کبھی اسے تنگئی دامن کا اندیشہ ہوتا وہ لمبی دیہاڑی لگانے کی کوشش کرتا۔ یا لوگوں سے بھاؤ تاؤ میں زیادہ وقت صَرف کر کےچار پیسے بچانے کی کوشش کرتا۔ اگر پھر بھی کوئی کمی بیشی  رہ جاتی تو شام کو کاٹھ کباڑ کی دکان والے سے کچھ پیسے ادھارلے لیتا۔ لیکن اس نے اپنے بیٹے کے رنگوں کا شوق پورا کیے رکھا۔

کرم دین کو اپنی مزدوری کرنا ہوتی تھی اور بیوی کو گھر کے کام کاج دیکھنا ہوتے تھے، اس کے علاوہ وہ آس پڑوس کے ایک دو گھروں کے کام کاج کر کے کچھ نہ کچھ پیسے جوڑ لیتی تھی، جو اس کا خیال تھا کہ برے وقت میں کام آئیں گے۔ سال بعد ویسے بھی جب بچے نئی کلاس میں جاتے تو اس وقت بھی پرانے سویٹروں، صندوقوں اور الماری کے کونوں میں چھپائے یہ پیسے کام آ جاتے تھے۔ویسے بھی والدین کے لیے اولاد سے بڑھ کر اور کونسی بچت سکیم ہو سکتی ہے؟ لہذا والدین اپنی جمع پونجی کو اس اکاونٹ میں جمع کرتے رہتے ہیں۔ کرم دین اور اس کی بیوی بھی اپنی مسکراہٹ کی قربانی دے کر بھی اولاد کو پال پوس رہے تھے۔ سال کے تین سوپینسٹھ دن ایک سے نہیں ہوتے۔ کبھی بیماری، کبھی موسم کی خرابی اور کبھی ویسے ہی دیہاڑی کم لگتی ہے۔ یہ سب زندگی کاحصہ ہے۔ اس لیے یہ تو ہوا کہ کرم دین اور اس کی بیوی بھوکے سو گئے ہوں لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ کرم دین کا بڑا بیٹا اپنے آرٹ میں رنگ بھرے بِنا رہا ہو۔

رنگوں کا انتخاب اور رنگوں کا امتزاج انسان کے مزاج کی خبر دیتا ہے۔ یہ اس کی  جمالیاتی حِس کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ کرم دین کےبیٹے کا بھی رنگوں کا انتخاب خوب تھا۔ محلے میں جو کوئی اس کی ڈرائنگ دیکھ لیتا اس کی خداد داد صلاحیت کی داد دیے بنا نہ  رہتا ، بھلا ایک کاٹھ کباڑ خریدنے والے کا بچہ رنگوں میں اتنا شاک کیسے ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض صلاحیتیں  خداداد ہوتی ہیں ۔ جو ماں کے پیٹ میں ہی عطا کر دی جاتی ہے۔ رنگوں سے کھیلنے کے علاوہ کرم دین کا بیٹا پڑھائی میں بھی اوسط درجے سے بہتر تھا۔ یعنی فی الحال تعلیم کے حوالے سے ایسی کوئی تشویشناک بات نہیں تھی۔ لہذا کرم دین دن میں خواب دیکھتا تھا۔ انسان کے پاس دولت نہ ہو تو وہ خواب دیکھتا ہے۔ دولت مند خواب نہیں دیکھتا وہ تعبیر کرتا ہے بلکہ تعمیر کرتا ہے۔ خواب اچھا یا برا ہو تو اس کا اتنا اثر نہیں پڑتا لیکن اگر تعبیر بری ہو تو زندگی کو عذاب بنا دیتی ہے۔ اسی لیے سیانے کہتے ہیں کہ خدا سے دولت بھی مانگو تو سکون والی مانگو۔ اسی طرح کرم دین بھی خواب دیکھتا تھا۔ اپنے بڑے بیٹے کو ایک تعلیم یافتہ شخص کے طور پہ سوچتا تھا۔ وہ چشم تصور سےدیکھتا تھا کہ کس طرح اس کا بیٹا پڑھ کر  واقعی ماسڑ بن گیا ہے۔ کس طرح اس نے اپنی پہلی تنخواہ لا کر ماں کی ہتھیلی پہ رکھی ہے۔ ہائے ہائے لیکن یہ کیا اس کی ماں بھلے مانس تو اس وقت تک بوڑھی ہو چکی ہے۔ کرم دین نے خود کلامی کی۔ لیکن کرم دین  تُو  تومشقت کی چکی پیستے ابھی سے بوڑھا ہو چکا ہے۔ تیرے بالوں میں سفیدی اتر آئی ہے، بایاں ہاتھ تھوڑا کانپتا ہے۔ کمر  کے مہرےبوجھ اٹھا کر اپنی جگہ سے کھسک گئے ہیں۔ اور تیری نظر کا چشمہ ہر دو سال بعد نمبر بڑھا لیتا ہے۔ مرد بھی عجیب مخلوق ہے خودکو پیری میں بھی برتر سمجھتا ہے اور عورت کو جوانی میں بھی کمتر۔ خیر کرم دین کے سارے خیال گڈ مڈ ہو گئے اور وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر اٹھ  کھڑا ہوا۔

شام کا سورج منڈیروں پہ سرخی بکھیر کر غروب ہو چکا تھا، کرم دین رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنی بیوی کے پہلو میں لیٹا تھا۔ عمرکے اس حصے میں ایک دوسرے کے جسموں کی بدبو ان کو ناگوار لگنا بند ہو چکی ہے۔ انسان کو جنس مخالف کی جسمانی قربت کااحساس ہوتے ہی صرف ایک جذبہ طاری ہوتا ہے جو باقی سب حواس کو ماؤف کر دیتا ہے لہذا وہ دونوں بھی ایک دوسرے کے جسموں کی بساند سے  بیزار  نہیں ہوئے۔ مرد ایسے موقع پہ کچھ نہیں سوچتا البتہ عورت کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ کرم دین کی بیوی نے محلے میں پھیلی تشویشناک خبروں کو کرم دین تک پہنچایا۔ بھلا سارا دن گلی گلی پھرنے والا کرم دین ان خبروں  سے کیسےبے خبر ہو سکتا تھا۔ لیکن مرد اپنی پریشانی چھپاتا ہے جبکہ عورت اپنی پریشانی بتاتی ہے۔ لہذا کرم دین کی بیوی نے بھی اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ چونیاں شہر میں بھی ایک آدھ واقعہ ہو چکا تھا۔ نامعلوم لوگ کوئی پھول اور کوئی کلی مسل دیتے تھے۔ جبکہ ملک بھر میں تو واقعات کا ایک تسلسل تھا۔ ان واقعات میں وقفہ ضرور آتا تھا لیکن پھر حادثہ ہو جاتا۔ اور پھر جب ایک واقعہ خودشہر میں ہوگیا تھا اس لیے پریشانی یقینی تھی۔ کسی بھی والدین کے لیے ان کے پھول یا کلی کی پتیاں تار تار کرنا کس قدر ذہنی اذیت اور صدمے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کا اندازہ کوئی غیر متاثرہ فریق نہیں کر سکتا۔ ایسی خبر سن کر دوں روح کانپ جاتی ہے توجیسے پہ بیتے اس کے دکھ اور کرب کا اندازہ کیسے لگایا جائے۔

کوئی حادثہ جب تک خود پہ نہ بیتے وہ ایک خبر رہتا ہے۔ ایک تشویش ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لہذا کرم دین نے اپنے اندر کےڈر کو بھی دبایا اور اپنی بیوی کے ڈر کو بھی کم کیا۔ کرم دین کا خیال تھا کہ ہم غریب بندے ہیں محنت مزدوری کرنے والے بھلا کوئی  کیوں  ہمارے باغیچے سے پھول نوچے گا۔ ہم نے آج تک کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ ہم سے کوئی کیوں دشمنی رکھے گا۔ اس کے بعدکرم دین نے وہ سارے دلائل دے ڈالے جو اس کے ذہن میں آئے۔ حالات و واقعات کا تجزیہ عقل سے کیا جاتا ہے جبکہ بعض حادثات ان حالات و واقعات کے باہر سے ہوتے ہیں جن کو مد نظر رکھ کر  تجزیہ کیا جا رہا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ دن تھا کہ ڈھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا، بچے عموماً سکول سے دو ڈھائی بجے تک آ جاتے تھے۔  سکول تو محلے سے چند ہی فرلانگ دور تھا۔ صبح کے وقت کرم دین خود دنوں بچوں کو سائیکل پہ بیٹھا کر سکول چھوڑنے جاتا جبکہ واپسی پہ بچے کبھی پیدل اور کبھی کسی  ہم جماعت کے ساتھ سائیکل پہ آ جاتے تھے۔ اسی لیے کسی روز وہ دو بجے واپس پہنچتے اور کسی روز ڈھائی بجے۔ جبکہ خودکرم دین بھی دیہاڑی لگا کر چار پانچ بجے تک آ جایا کرتا تھا۔ لیکن آج کرم دین جب چار بجے لوٹا تو اس کی بیوی کے چہرے پہ فکرتھی۔ یو ں محسوس ہوتا تھا کہ اس کے چہرے کا گوشت فکر سے گھل گیا ہے اور صرف ڈھانچے میں دھنسی ہوئی آنکھیں ہیں جو آنسوبہا رہی ہے۔ آج کرم دین کے بڑے بیٹے نے چھوٹے بھائی کو تو سکول سے ایک ہم جماعت کے ساتھ سائیکل پہ بھیج دیا تھا البتہ خود وہ پیدل  آ رہا تھا۔ لیکن اب چار بج گئے تھے لیکن وہ گھر نہیں پہنچا تھا۔ لہذا ماں کو فکر ہونا فطری بات ہے۔ کرم دین نے اپنی بیوی سےکہا فکر نہ کر میں ابھی جاتا ہوں یہاں ہی راستے میں آتا ہوگا یا کسی دوست کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہوگیا ہوگا۔ کرم دین سائیکل پہ فوراً سکول پہنچا لیکن نہ تو سکول اور نہ ہی راستے میں وہ کہیں نظر آیا۔ اب لامحالہ کرم دین کے قدم اسکے ان ہم جماعتوں کے گھروں کی طرف اٹھے جو محلے میں رہتے تھے۔ جس وقت عشا کی اذان ہو رہی تھی تو کرم دین خود بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا  اپنے صحن میں بیٹھا روئے جا رہا تھا۔ محلے والے سب حوصلہ دے رہے تھے کہ ابھی اسکا بیٹا مل جائے گا۔ مسجدوں میں اعلان بھی کروا دیے تھے۔ اور سب گاؤں میں تلاش بھی جاری تھی۔ اب آخری حل یہی تھا کہ پولیس سے رابطہ کیا جائے۔ کرم دین محلے  والوں کے ساتھ پولیس سٹیشن گیا، عملے نے روایتی بے رخی اور ٹال مٹول کے بعد اس کی درخواست درج کر لی اور روایتی تسلی دے کر گھر بھیج دیا۔ کرم دین جب واپس گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے اس کے چھوٹے بیٹے نے کھیلتے ہوئے بھائی کے سارے رنگ توڑدیے ہیں۔ سارے رنگ زمین پہ جا بجا بکھرے پڑے تھے۔ کرم دین کے منہ سے زور کی چیخ نکلی۔۔

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply