حکومتیں نہیں ،قانون بدلیں ۔۔آصف محمود

ہمارے ہاں یہ غلط فہمی عام ہے کہ حکومت بدل جائے گی تو حالات اچھے ہو جائیں گے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جب تک قانون میں اصلاحات نہیں آتیں یہاں کوئی بھی حکومت آ جائے حالات بہتر نہیں ہوتے ہو سکتے۔ ملا نصیر الدین صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی چابی گلی میں گم ہوئی تھی اور وہ اسے گھر میں تلاش کر رہے تھے۔

ہماری خوش حالی کی چابی دور غلامی کے قوانین کی موٹی اور بھدی کتابوں میں گم ہوئی ہے اور ہم اسے حکومتوں کی تبدیلی میں تلاش کر رہے ہیں۔ ملا نصیر الدین صاحب کے پاس تو اس سہل پسندی کا بہانہ موجود تھا کہ چونکہ گلی میں اندھیرا ہے اس لیے وہ چابی کو گھر میں تلاش کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اس سہل پسندی کا کیا عذر ہے؟

ہمارے تین بڑے مسائل ہیں۔ اول: دور غلامی کے قوانین جن پر ہم نے آج تک بحث ہی نہیں کی کہ کون سا قانون کتنا قابل عمل ہے۔ دوم: ہمارے اپنے بنائے گئے قوانین جن کے مقاصد ہی اگر مشکوک نہیں تو سوالیہ نشان ضرور ہیں اور جنہیں کسی وسیع تر قومی ا ور عوامی مفاد کی بجائے اہل اقتدار اور بالادست طبقات کی وقتی ضرورت کو پوراا کرنے کے لیے بنایا گیا۔ سوم:ہماری اسلامائزیشن، جو ہم نے زیادہ تر معاملات میں دین کا مقصود سمجھے بغیر عجلت میں اور جلدی میں کر دی تا کہ قانون سازی کو تھوڑا سا ” اسلامی ٹچ” دے کر اقتدار اور سیاست کے میدان میں سرخرو ہوا جا سکے۔ چنانچہ اب ہم غلطی ہائے مضامین کا دیوان بن کر رہ گئے ہیں اور ہمیں خود معلوم نہیں ہم ہیں کیا اور ہم چاہتے کیا ہیں۔

دعا زہرا کا کیس دیکھ لیجیے۔ ایسے معاملات میں عرصے سے تجویز دے رہا ہوں کہ مقامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی اجتہادی رائے قائم کیجیے اور لکیر کا فقیر بننے کی بجائے جیورسپروڈنس کو وسعت نگاہ دے کر ایسے معاملات سلجھائیے۔ آسان طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ بالغ اور نابالغ کے درمیان ایک عبوری مدت کا دورانیہ بھی رکھا جائے۔ یعنی بچہ نابالغ ہو تو شادی نہیں ہو سکتی اوربلوغت کو پہنچ جائے یعنی 18کا ہو جائے تو اپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی کر سکتا ہے، کے درمیان بھی ایک مقام رکھا جائے جہاں بچہ عبوری مدت میں کچھ دیر سستا لے۔

یہ عبوری مدت کا فارمولا کیا ہے؟ میں عرض کر دیتا ہوں۔ فرض کریں ان قباحتوں سے بچنے کے لیے ریاست اپنے ا ختیارات استعمال کرتے ہوئے یہ قانون بنا دیتی ہے کہ 18سال کا بچہ شادی تو کر سکتا ہے لیکن بالغ ہونے کے بعد ایک عبوری دور ہو گا جس میں شادی کے لیے ولی اور بچے دونوں کی مرضی ضروری ہو گی۔ یہ عبوری مدت دو سال کی بھی ہو سکتی ہے ا ور تین چار سال کی بھی۔ یعنی یہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ 18 سال سے22 سال کی عمر کا بچہ شادی کرے گا تو اس میں اس کی اور اس کے ولی کی مرضی کا شامل ہونا ضروری ہے اور 22 سال کے بعد بچی مکمل با اختیار ہے کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے شادی کر لے۔

یہ عبوری دورانیہ کم اور زیادہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے مقامی حالات کے مطابق اور عموومی شعوری سطح کو دیکھتے ہوئے اس دورانیے کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جب بھی متعلقہ حلقوں میں بات ہوئی، میں نے ہمیشہ یہ تجویز رکھی لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاست کی طرح ہماری فکری دنیا بھی عصبیتوں میں لپٹی ہے۔ یہاں کوئی سنتا ہی نہیں۔ ہر ایک اپنی لگی بندھی رائے کا اسیر ہے اور ڈنڈے کے زور پر اسے مسلط کرنا چاہتا ہے۔ ندرت خیال ختم ہو چکی ہے۔

اسلامائزیشن ہو یا مغربی دنیا سے آیا معاشی امکانات ورنہ خطرات، میں لپٹا کوئی قانون، ہم نے بس اس کو ٹچ دینے کے لیے اپنا لیا۔ کبھی اسلامی ٹچ کے لیے قانون سازی کر لی کبھی سیکولرانہ ٹچ کے لیے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری ساری جیورسپروڈنس مکس اچار بن کر رہ گئی ہے۔

نیب کا قانون آیا تو کا مطالعہ ہی بتا دیتا ہے کہ مطلوب و مقصود کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کرنا تھا۔ جسمانی ریمانڈ جو اب قریب قریب غیر ضروری سی چیز ہو چکی ہے اور اسے بس ایک روایت سمجھ کر نبھایا جا رہا ہے، اس کا دورانیہ عام مقدمات میں دو ہفتوں کا ہے۔ نیب نے اسے 90 دن کا کر دیا۔ یعنی نیب کسی کو اٹھا لے تو الزام جھوٹا ہو یا سچا اس شریف آدمی کے 90 دن تو گئے۔ دن بھی گرمیوں کے ہوں اور نیب کی تحویل میں بجلی یا پنکھوں کے مسائل پیدا ہو جائیں تو پھر، ہم خیال، اور پیٹریاٹ، پیدا ہونے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے؟ ضمانت کا حق ہی نیب قانون میں ختم کر دیا گیا۔ یعنی جو پکڑا گیا اب جب تک اچھا بچہ نہیں بن جاتا جیل سے باہر آنے کا امکان ہی ختم کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ اسفند یار ولی کیس میں اسے غیر آئینی قرار دے چکی ہے اور حکومتوں سے کہہ چکی ہے اس میں ترمیم کی جائے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ چنانچہ عدالتوں نے ضمانت کی درخواستوں کی بجائے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ضمانتیں دینا شروع کر دیں۔

تماشا دیکھیے کہ قانون 1860 کا ہے جب یہاں انگریز کی حکومت تھی۔ وہ قانون انگریز نے انگریزی زبان میں بنایا۔ آج تک کسی نے اس قانون میں اصلاح تو دور کی بات ہے اس کا ڈھنگ سے ترجمہ تک نہیں کیا۔ معاشرے کی شرح خواندگی کا جو عالم ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ 48 فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ جو خواندہ ہیں وہ بھی اس معیار پر ہیں کہ اپنا نام پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔ ایسے معاشرے کا قانون مگر انگریزی میں ہے۔ اور قانون یہ کہتا ہے کہ یہ بہانہ ہر گز نہیں چلے گا کہ مجھے قانون کا علم نہیں ہے۔ Ignorance of law is no excuse۔ اب بتائیے یہ تماشاکیسا ہے کہ آدھے ملک کو اردو پڑھنی نہیں آتی اور اس کا قانون انگریزی میں ہے اور اسے حکم دیا جاتا ہے قانون پر عمل کرو اور ہاں یہ بہانہ مت کرنا کہ تمہیں قانون کا علم نہ تھا۔

عام آدمی کو جو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں وہ انگریزی زبان میں لکھے ہوئے ہین تا کہ نہ کسی کو سمجھ آئے نہ کوئی ان کا مطالبہ کرے۔ ساتھ نیشنلزم کا ٹچ دینے کے لیے لکھ دیا گیا ہے کہ قومی زبان اردو ہو گی ا ور اسے جلد ہی دفتری زبان بھی بنا دیا جائے گا۔ آئین میں یہ بات بھی البتہ انگریزی میں لکھی ہوئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ صدیوں پرانے قوانین کسی روز بیٹھ کر پڑھیں جو آج بھی پاکستان میں رائج ہیں، آپ کے چودہ نہیں تو دس بارہ طبق ضرور روشن ہو جائیں گے۔ ایسے ایسے قوانین ہیں کہ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ جی چاہتا ہے ایک ایک قانون پر پڑائو ڈال کر اس پر بات کی جائے لیکن ایک کالم میں آخر کتنی بات کی جا سکتی ہے۔ کاش کبھی پارلیمان میں اس پر بات ہو جو بنی تو قانون سازی کے لے کی تھی لیکن وہ نالیوں اور گالیوں تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply