ذہانت (51،آخری قسط) ۔ مصنوعی ذہانت کی دنیا/وہاراامباکر

اس میں کوئی شک نہیں کہ آٹومیشن کے ساتھ ہماری زندگیوں میں بہت کچھ مثبت آیا ہے۔ ہمارے بنائے ہوئے الگورتھم بہت متاثر کن کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ یہ بہت مفید اور متاثر کن ہیں لیکن اپنے ساتھ یہ کچھ پیچیدگیاں چھوڑ جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ جہاں پر بھی دیکھیں، پرائیویسی، تعصب، غلطی، جوابدہی، شفافیت کے بارے میں ایسے سوال کھڑے ہیں جو آسانی سے حل نہیں ہوں گے۔ اور الگورتھم اپنے ہونے سے ہی fairness کے بارے میں ایسے سوال سامنے لے آتے ہیں جو اس حصے سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہم کیسی دنیا بنانا چاہتے ہیں۔
اور یہی نکتہ ہے۔ الگورتھم کو کوئی اتھارٹی سمجھ بیٹھنا وہ غلطی ہے جو کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الگورتھم پر سوال اٹھانے میں ہچکچاہٹ ایک مسئلہ ہے۔ ایسے سافٹ وئیر بیچے جا رہے ہیں جو کہ بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ معاشرہ محفوظ بنا دینے کا۔ مجرموں کو نکیل ڈال دینے کا۔ فلم کو سُپر ہِٹ بنا دینے کا۔ اور بلامبالغہ، الگورتھم بیچنے والے ان دعووں کے ساتھ بھی اپنا مال بیچتے ہیں کہ وہ آپ کو آپ کی سچی محبت ڈھونڈ دیں گے۔ شواہد ان کے خلاف ہیں۔
اور اگر یہ اپنے دعووں کے معیار پر پورا بھی اتریں تو بھی ان کو اتھارٹی کا درجہ دینا بڑی غلطی ہے۔ Unfairness کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے میں رسک یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس کا کوئی پرفیکٹ متبادل کہیں اور پڑ اہے جو کہ کچھ اور محنت سے مل جائے گا۔
یہ غلط امید ہے۔
ایسے الگورتھم جو کمال کارکردگی دکھاتے ہیں، ان میں بھی گہرے مسائل ہیں (جن میں سے چند کا جائزہ سیریز میں لیا گیا ہے)۔
اور ایسے مباحث اصل نکتے کو چھوڑ دیتے ہیں۔
کیا الگورتھم کے بغیر کی دنیا بھی پرفیکٹ، انصاف والی اور Fair ہے؟ یا ہو سکتی ہے؟ کیا الگورتھم سے ہماری توقع غیرحقیقی تو نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ پرفیکشن کا وجود نہیں؟ الگورتھم غلطیاں کریں گے۔ یہ غیرمنصفانہ فیصلے لیں گے۔ اور اس سے ہمارا دھیان انہیں بہتر اور زیادہ ایکوریٹ بنانے کی جدوجہد سے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اور یہ تسلیم کر لینا کہ یہ غلطیوں سے مبرا نہیں ہوں گے، اس بات کو تسلیم کرنے کا موقع بھی دے گا کہ ان کی بات اتھارٹی نہیں۔
شاید درست جواب یہ ہو کہ کسی ناممکن پرفیکٹ الگورتھم کی تلاش کے بجائے یہ رشتہ انسانوں کے مددگار کے طور پر رہے نہ کہ ہدایت کار کا۔ اور اس بات کی شفافیت ہو کہ فلاں فیصلہ کیوں لیا جا رہا ہے، بجائے اس کا نتیجہ سنا دینے کے۔
اور بہترین الگورتھم وہ ہوں گے جو ہر موقع پر انسان کی اس صلاحیت کو بھی سامنے رکھے کہ ہم مشینوں پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کرنے کی عادت رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹر سے شکست کھا جانے والے عالمی چیمپنن گیری کاسپروف شطرنج کے نئے آئیڈیا سنچور چیس کے حامی ہیں جس میں انسان اور الگورتھم ملکر اپنے مخالف انسان اور الگورتھم سے مقابلہ کریں۔ الگورتھم ہر چال کے نتائج کا تجزیہ کرے جس سے فاش غلطی کا امکان کم ہو جائے جبکہ فیصلہ کھلاڑی کے پاس رہے۔
کاسپروف کہتے ہیں،”جب کمپیوٹر کی مدد سے کھیلا جائے گا تو ہم پلاننگ پر توجہ دے سکتے ہیں جبکہ الگورتھم کیلکولیشن پر۔ اور اس سے انسانی تخلیق کاری کی صلاحیت مزید اہم ہو جائے گی۔ ایسی کھیل سامنے آئے گی جو ایک اگلی سطح پر ہو گی۔ پرفیکٹ تکنیک اور خوبصورت حکمتِ عملی۔ ہم دونوں دنیاؤں کا بہترین امتزاج دیکھ سکیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شاید ایسا ہی مستقبل ہی جس کی ہم امید رکھتے ہیں۔ بے حس اور جذبات سے عاری الگورتھم ماضی کا حصہ ہو جائیں۔ مشین کے فیصلوں کی سکروٹنی کی جا سکے۔ اس بات کا تقاضا کیا جا سکے کہ غلطیوں کی جوابدہی ہو گی۔ یہ معلوم ہو سکے کہ کس میں فائدہ کس کا ہے۔ اور یہ ایسے مستقبل کی کنجی ہے جس میں مصنوعی ذہانت اس دنیا کو مثبت طریقے سے بدل سکے۔
مصنوعی ذہانت طاقتور ہے۔ کیلکولیشن اور صلاحیت میں انسانی ذہانت اس کے قریب قریب بھی نہیں اور اس خلیج میں اضافہ تیزی سے ہوتا جائے گا۔
کیا گنا جا سکتا ہے؟ کیا اہم ہے؟ کیا ہونا چاہیے؟ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ انسان ہونے کا احساس مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں۔
مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ہماری ذہانت کی اہمیت اور ضرورت جتنی زیادہ ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں رہی۔
(ختم شد)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply