ہمدمِ دیرینہ سے ملاقات۔۔کبیر خان

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ۔۔۔۔۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری نے فرمایا تھا:
تشکیل و تکمیلِ فنّ میں جو بھی حفیظؔ کا حصّہ ہے
نصف صدی کا قصّہ ہے ، دوچار برس کی بات نہیں
بڑا بول کیوں بولیں ، اگرکوئی ڈانگوں کے گزوں سے ماپے تو ہمارا حصّہ ،حفیظؔ سے دو چار برس زیادہ ہی نکلے گا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُن کا میدان فنّ تھا، ہمارا شعبہ اَن ہے (اہلِ سیاسہ والا’’اَنّ‘‘ نہیں) ۔ یہ اپریل 1968 کا واقعہ ہے ، ہم قسطوں میں میٹرک تک فارغ التحصیل ہو کر ،آبا کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ’’کرینچی‘‘ روانہ ہوگئے۔ پڑھے پڑھائے تھے، اس لئے آئیڈیل شعبہ میں کیریئر بنانے کا چانس نہیں دیا گیا۔ یوں ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ رکشہ چلانے کا ارمان دل میں لے کر دیکھا دیکھی پاک فضائیہ میں بھرتی ہوگئے۔ اور ابتدائی تربیت کے لئے کوہاٹ جا پہنچے ۔ وہاں ہماری ملاقات ایک بندے سے ہوئی جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا:
خطر نورستہ چہرے پر ترے کیا خوب لگتا ہے
ہے گویا ماہِ چار دہ کے دور ہالہ کا
لیکن قریب سے دیکھا تو دو چار ملاقاتوں میں ہی لگ پتہ گیا۔۔۔۔۔۔ وہ جماندروُ ہتھّے سے اُکھڑا معلوم پڑتا تھا۔ تاہم اس میں خوبی یہ تھی کہ اُسے فلسفہ خودی پر اقبالؒ کے بیسیوں اشعار نہ صرف منہ زبانی یاد تھے بلکہ اُن کی عملی شرح پر بھی عبوررکھتا تھا:
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ
اُس شخص کا نام کریم خان ہے ۔ اور آج بھی لہو گرم رکھتا ہے۔ نیز اس کارِ خیر کے لئے اُسے کسی بہانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ جس کی دوسری وجہ ہمیں یہ لگتی ہے کہ موصوف کا غریب خانہ آستانہ عالیہ نیریاں شریف کے زیر سایہ ہے۔ اور اُسے کسی کے سائے میں رہنا گوارہ نہیں ۔ وہ تو ابتدائی فوجی تربیت کے دوران کبھی دوچھتّی چارپائی کے’’گراونڈ فلور‘‘پر نہیں سویا۔اُس نے اسی برتری کی خاطر سنیئر سے ساز باز کر کے ڈبل ڈیکر کا اپّر فلور اپنے نام کروا رکھا تھا۔
پہلی بار جب ہم نے ڈاکخانہ ملانے کی غرض سے پوچھا کہ گھر کہاں ہے ؟ تو دانت پیستے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔یہ بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے۔ صاحبو! اگرچہ تب ہم بھی بے بال وپر تھے ۔ (بے بال و پر تو ہم آج بھی ہیں لیکن اُس کی وجوہات قدرے مختلف ہیں ۔ قسم سے ہماری بیگم انتہائی شائستہ اور رحم دل واقع ہوئی ہیں ۔۔۔۔ بال چھڑ کا عارضہ تو ہمیں گھومڑوں کا دیسی علاج کرنے کی وجہ سے لاحق ہوا ہے۔ )۔ لیکن ہم حیران ہیں کہ کریم خان نے جان بوجھ کرداڑھی رکھی ہے یا بڑھی ہوئی ہے ؟۔ ورنہ اتنی چھدری داڑھی جس سے مسکراتی جھُریاں بھی واضح تر ہو کر نظر آئیں،کم از کم کریم خان تو نہیں پال سکتا۔ آپ نے وہ پتھریلی باڑی دیکھی ہے ،جس میں دو مُٹھّی گندم صرف اتمام حجت کے لئے بیجی جاتی ہے تاکہ اہلِ دیہہ کسبی نہ کہیں ؟۔ پوٹا بھر پودا یہاں ،اُنگل بھر وہاں ۔ اور درمیان میں ویرانی ہی ویرانی؟ کریم خان کی سفید ریش مبارک ایسی ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ کہ لوگ ’کسبی‘ نہ کہیں۔
مجموعی طور پر باون برس کی پیٹی اور پیٹ بھائیوالی کے بعد کوئی دوسال پیشتر خودی نے اچانک حملہ کیا تو آنجناب ہتھّے سے اُکھڑ گئے ۔ نوکری کو لات مار ابوظبی سے لوٹ کے گھر کو آگئے۔ ہم وہاں کیا کرتے؟ پیچھے پیچھے ہم بھی آگئے۔ عزیزی قمر رحیم نے اُنہیں اطلاع کردی کہ ہم بھی دو دن سے شہر میں ٹپکے ہوئے ہیں ، وہ بھری برسات میں آن راولاکوٹ پہنچا۔ موصوف نے ازسرِ نو چہرے پر سفید سفید خطر نورستہ اُگا رکھا ہے، جو اُن کی لپک جھپٹ سے زیادہ لگاّ نہیں کھاتا۔اُوپر سے کڑک کالر والی قمیض کی جگہ لُنڈا بُچّا کُرتا۔ (اُس کے سراپے میں یہی ایک تبدیلی ہمیں مثبت لگی۔ بحث تمحیص کے دوران مدِّ مقابل ہاتھ ڈالے گا بھی تو کِس پہ؟)۔ ہماری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ موصوف سیاست پر ہاتھ نہ ڈالیں توزیادہ بھلے مانس لگیں گے۔
وہ تڑاکھل سے آتے ہوئے راولاکوٹ کی طرف دیکھ کر یقیناً چکرایا ہو گا۔ بتانی کیا چھپانی کیا، در اصل ہم دونوں کسی کو پھیلتے پھولتے نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔۔ اپنی گھر والیوں کو بھی نہیں۔ مُلک موہڑے کا پھیلاوٗکیسے برداشت کرتے ۔ لیکن جو ہوا ہماری عدم موجودگی میں ہوا۔ بستیوں کی بستیاں پھل پھول کر کُپّا ہوگئی ہیں ۔ جہاں جنگل تھے وہاں منگل ہیں ،جہاں بدھ تھے وہاں چندے کی صندوقچیاں ہیں۔۔۔۔ ’’سو کا نوٹ ڈالیں ،جنت کی الاٹمنٹ چِٹ لے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔’’آج باوٗلی کی تعمیر میں حصّہ ڈالیں ، شرطیہ کل حوضِ کوثر سے پانی پیئیں‘‘وغیرہ۔ لیکن سب سے زیادہ پیداوار لاوٗڈ اسپیکروں کے شعبہ میں ہوئی ہے۔ جن کی شرح پیدائش بچّوں اور سیاستدانوں سے کم نہیں ۔ چنانچہ وہ اجاڑ جہاں بلائیں گھُستے ہوئے کتراتی تھیں ، وہاں بازار کھُل گئے ہیں ۔ ہمارے پڑوس میں جہاں دوُب نہیں اُگتی تھی، وہاں ایک ’’موتی بازار‘‘لہلہا رہا ہے۔ ہمارے محلّہ میں خواتین سویرے پڑوسیوں سے آگ مانگ کر لاتی تھیں ، اب فون پر دکاندار سے ادھار ماچس منگوا لیتی ہیں ۔ ۔۔۔۔۔ گھر سے ٹھیکری اور ٹاکی لے جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔
صاحبو! کریم خان پڑھا لکھا اور صاحبِ مطالعہ ہی نہیں لائق مطالعہ بھی ہے۔ بس اُسے چھیڑنے کی دیر ہوتی ہے۔ پلیز ! اسے کبھی چھیڑ کر دیکھیں ۔۔۔۔مگر ذرا محتاط فاصلے سے۔ کریم خان بھوُنتر بھی سکتا ہے،لیکں صرف اور صرف دین اور اقبالؔ کے باب میں ’بے پڑھی ٹھوکنے‘پر۔ ہم جیسوں پر اُسے غصّہ نہیں ترس آتا ہے۔ یہ بندہ تراڑکھل میں ’’میسّر‘‘ ہے،کبھی مل کر تو دیکھیں ۔۔ چنگا نہ لگا تو پیسے واپس۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply