سگمنڈ فرائیڈ: بابائے نفسیات کےنظریات کاتعارف(6)-عدیل ایزد

زبان اور قلم کی لغزشیں
خوابوں کی طرح عام بول چال میں ہونے والی بُھول چوک ،غلطیاں اور لغزشیں جنہیں ہم اتفاقی تصور کرتے ہیں ،کے پیچھے بھی لا شعور کی کار فرمائی ہوتی ہے۔سگمنڈ فرائیڈ زبان اور قلم کی معمولی لغزشوں کو ذہنی زندگی میں نا  صرف اہم سمجھتا ہے بلکہ ان میں معنی تلاش کرتا ہے ۔ ڈاکٹر نعیم احمد اس حوالے سے لکھتے ہیں :
فرائیڈ کا سائنسی ذہن یہ بات تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا کہ روزمرہ کی زندگی میں ہونے والی لغزشیں ،خطائیں یا بھول چوک بے معنی ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ اس چھوٹی چھوٹی بے ربط باتوں کو اگر لاشعوری پس منظر مہیا کر دیا جائے تو یہ مربوط اور بامعنی بن جاتی ہیں ۔
ان کو وہ حرکی اور حسی میں تقسیم کرتا ہے ۔
۱۔ حرکی
زبان ،قلم اور اسی قسم کی ایسی لغزشیں جس کے ذریعے ایک خاص مقصد کا اظہار کیا جا سکے ۔ کسی ایسی حرکت کا سر زد ہونا جسے فرد خود نہیں چاہتا۔
۲۔حسی
بات کا بھول جانا :
غلط تصور ،یاداشت یا نگاہ کی لغزش
یہ لغزشیں بادی النظر میں محض ذہن کی نارمل حالت میں ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتاہے لیکن اگر اسے کریدا جائے تو اس کے پیچھے ایک خاص مقصد ہوتا ہے جو اس لغزش کی وجہ بنتا ہے ۔فرائیڈ نے جب ان پر تحقیقات کیں  تو معلوم ہوا کہ ان باتوں سے فرد خود بھی ناواقف ہوتا ہے ۔مثلاً کسی سے ملنے کا وعدہ کر کے بھول جانا ،بیوی سے ناچاقی کی صورت میں اس کے لیے اگر کچھ لانا ہے بھول جانا،کسی کا نام بھول جانا یا کسی اور نام سے اسے پکارنا،بے سبب یا بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ فرائیڈ کے مطابق ’’دباؤ‘‘ کا اثر ہوتا ہے کہ ایک شخص کا نام ہم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ایک خاص موقع پر اچانک اس کا نام ہمارے ذہن سے اتر جاتا ہے۔ یہ حادثہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کوئی خاص وجہ ہوسکتی ہے کہ ذہن اس نام کو یاد نہیں کرنا چاہتا ۔ایسا مقصد لا شعوری ہوتا ہے۔کیونکہ لا شعوری طور پر نام سے ناپسندیدہ یادیں وابستہ ہیں ۔فرائیڈکے خیال میں جو اس بھول کو حافظے کا نقص قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔یہ ذہن کا عمل ہے جو لاشعوری طور پر ہوتاہے۔
تجزیہ نفس کے ذریعے ان لغزشیوں کی تحقیق سے پتا چلاکہ تمام ذہنی امراض کا انحصار نسیان پر ہوتا ہے اور بعض ہسٹریا کے مریضوں میں بھی یہ پایا جاتاہے۔یہاں تک کہ مریض اپنانام ،شناخت اور گزشتہ زندگی کے احوال تک کو بھول جاتا ہے ۔ فرائیڈ کی تحقیقات سے پہلے بچوں کی ذہنی زندگی کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا تھا لیکن ا س نے اس زندگی میں سے ایسے نتائج اخذ کیے جن پر ہماری آئندہ زندگی کا انحصار ہوتاہے ۔فرائیڈ کہتا ہے کہ ہم اپنے بچپن کی اکثر باتیں بھول جاتے ہیں اور یاد کرنے کے باوجود انہیں یا د نہیں کر پاتے شائد کبھی کوئی بات یاد آ جائے ۔حالانکہ اس زمانے میں ہمارا ذہن تجربات کے لحاظ سے زیادہ زرخیز ہوتا ہے۔ ان لغزشوں کے سلسلے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کبھی کبھی ایک ہیجان دوسرے میں دخل اندازی کرتا ہے۔مثلاًخوش کے بجائے ناخوش کا لفظ غلطی سے لکھ کر چھپے ہوئے جذبات کا اظہار ہو سکتا ہے ۔ماہرین لسانیات کے لیے شایدلفظوں کا یہ ہیر پھیر کوئی بڑا واقعہ نہ ہو لیکن ماہر نفسیات کے نزدیک لفظ ’’نا‘‘کے پیچھے ایک پوری کہانی لاشعور میں دفن ہوتی ہے ۔بعض حالتوں میں فرد سے غلطی کے ساتھ ساتھ ایسی جسمانی حرکات کا ارتکا ب بھی ہوتا ہے جو شعوری ارادے کے الٹ ہوتا ہے ۔وہ اگرچہ بلاارادہ ایک فعل کا مرتکب ہوتا ہے حالانکہ اسے ایسا کرنے کی بالکل خواہش نہیں ہوتی ۔اس ضمن میں جہاں ’’اتفاقاًپانی کے گلاس کا گر کر ٹوٹ جانا آتا ہے ‘‘۔ (جس سے ناراضگی کاا ظہار ہوتا ہے) ان میں مہلک حادثات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو بلاارادہ یا اتفاقیہ رونما ہوتی ہیں۔ان کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بے اختیاری حادثات در اصل لاشعوری ہیجان جس میں قتل ،خود کشی جیسے رجحان کا اظہار ثابت ہوئے۔

فرائیڈ کا نظریہ جنس
طفلی جنسیت
فرائیڈ سے قبل جنس سے متعلق مختلف مفکرین کی مختلف آراء موجود تھیں جن میں ایک بات مشترک تھی کہ جنسی جبلت کا اظہار بلوغت کے زمانے میں ہوتا ہے جبکہ بچپن میں یہ جبلت مفقود ہوتی ہے ۔ دوسرا جنسی رغبت کی شدت جو عنفوا ِن شباب میں رونما ہوتی ہے اور دونوں مخالف جنسوں کو بے قابو کر دیتی ہے اسی کا نتیجہ یہ بھی خیا ل کیا جاتا ہے کہ اس جبلت کا مقصد صرف جنسی ملاپ یا ایسے افعال ہیں جو اس ملاپ کی طرف رہنمائی کریں ۔اس لیےہم کہہ  سکتے ہیں کہ فرائیڈ سے قبل”جنس” سے مرادصرف اور صرف اس مخصوص کار کردگی کو لیا جاتا تھا جس کا بنیادی اور مرکزی نقطہ ’’جنسی فعل‘‘ تھا۔تاہم فرائیڈ نے ’’تحلیل نفسی‘‘ کے توسط سے سابقہ نظریات کو رَد کیا ہے وہ لکھتا ہے:
اس امر کابہ آسانی یقین کیا جا سکتا ہے کہ جب ’’تحلیل نفسی‘‘نے’’جنسیت‘‘ کے بارے میں تمام عام  آراء کی تردید کی تو اسے استعجاب اور انکار کا سامنا کرنا پڑا جس کی بِنا پر انہی تین بنیادی حقائق پر تھی جنہیں نظر انداز کیا گیا تھا۔اس کے اہم نتائج حسب ِذیل ہیں:
(ا) جنسی زندگی صرف سن بلوغ سے شروع نہیں ہوتی بلکہ پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد اس کا واضح اظہار شروع ہو جاتا ہے
(ب) ’’جنسی‘‘اور’’تناسلی‘‘ کے تصورات کے درمیان واضح امتیاز قائم کرنا ضروری ہے۔پہلاتصور زیادہ وسیع ہےاور بہت سے ایسے اعمال پر حاوی ہے جن کا اعضائے تناسل سے کوئی تعلق نہیں۔
(ج) جنسی زندگی جسم کے(مختلف) حصول سے لذت حاصل کرنے پر مشتمل ہے یہ ایسا عمل ہے جو آگے چل کر توالد و تناسل کے عمل  میں معاون بن جاتا ہے۔لیکن اکثر ان دونوں اعمال میں مکمل مطابقت نہیں پیدا ہوتی۔

سگمنڈ فرائیڈ نے تجزیہ نفس کے توسط سے جنس کے مسئلے پر ایک نئے زاویے سے روشنی ڈالی ہے ۔عام لوگ جنسی مسائل میں محض لذت اندوزی کے لیے دلچسپی کا اظہار کر تے رہے ۔جنس کو محض جبلی تسکین کا ذریعہ سمجھا جا تا رہا ،اس کے برعکس فرائیڈ نے جن حقائق کو تحقیق کے بعد منظر عام پر لایا وہ اتنے تلخ اور الم ناک ہیں کہ عام آدمی ان کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ شخص اپنی ماں کے متعلق ناپاک اور نا محرم جذبات رکھتا ہے تو قدرتی بات ہے کہ وہ شخص اس بات کا  بُرا منائے گا ۔ہمارے معاشرے میں ماں سے محبت جائز مگر اس محبت میں جنس کا دخل ناجائز تصور کیا جاتا ہے ۔ایسے جذبات رکھنے والے شخص کو فاترالعقل اور قابلِ  علاج سمجھا جاتا ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ معاشرے کی طرف سے جنس کے مختلف پہلوؤں پر کئی طرح کی بھاری پابندیاں لگی ہوئی ہیں ۔گناہ کا تصور جنس سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف اخلاق کے نام پر بہت سخت رویہ رکھا جاتا ہے اس لیے ہر فرد کو اپنا یہ فطری جبلی جذبہ دبانا پڑتا ہے۔جب ہم اس سختی یا دباؤ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو جن خیالات کو سختی سے دبایا گیا ہے وہ کس قدر شدید اور طاقت ور ہیں۔اس داخلی دباؤ کا بیشتر حصّہ لاشعوری ہوتا ہے ۔جنس کے خلاف جس قدر شعوری طور پر قدغن لگائی جائے گی لاشعوری تعصب اس سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنس کا حصّہ جتنا فرد کے شعور میں ہوتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ وہ لاشعور میں عمل پیرا ہوتا ہے۔فرائیڈ نے جنسی جبلت کی اصطلاح کووسیع تر معنوں میں استعمال کیا ہے۔جسم کی سطح پر بھی اس کا تعلق محض تناسلی اعضا کی تحریک یا ان کی عمل داری سے نہیں ہے بلکہ اس میں جسم کے اور منطقے (Tones)بھی شامل کر لیے گئے ہیں ان میں تین شہوانی منطقوں کا تعلق دہن (Mouth) دبر(Anus) اور تناسلی اعضا ء سے ہے۔ویسے تو جسم کا کوئی حصّہ بھی جنسی منطقے کا کردار ادا کر سکتاہے اور ساتھ ہی جنسی تحریک اور لذت دونوں سے حاصل ہو سکتی ہے۔ہر بڑے جسمانی منطقے کے ساتھ کسی بہت ہی لازمی ضرورت کا تعلق بھی ہوتا ہے۔مثلاً دہن کا کھانے کے ساتھ ،دبر کا فضلے کےاخراج کے ساتھ اور تناسلی اعضاء کا تولید کے ساتھ ۔جو لذت ان منقطوں کے ساتھ حاصل کی جاتی ہے۔اس کا اس عمل کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا جسے ہم قوتِ  حیات کا نام دیتے ہیں۔ مثلاًانگوٹھاچوسنا یا جلق لگانا اس لیے احتیار کیا جاتاہے کہ جذباتی ہیجان میں کچھ کمی آجائے ۔مگر نہ انگوٹھا چوسنے سے بھوک کم ہوتی ہے اور نہ ہی جلق لگانے سے تولیدی عمل مکمل ہوتاہے۔جنسی منطقوں سے جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ نہ تو قو ِت حیات ہے اورنہ ہی اس کو مکمل تشفی سے کوئی غرض ہے یہ شہوانی منطقے شخصیت کے ارتقاء کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ وہ ابتدائی منبع ہے جن کا تعلق ہیجانی حقیقتوں سے ہے اور بچے کو انہی پر اکتفاکرنا ہوتا ہے اور انہی کے وسیلے سے بچہ لذت کے اہم تجربات سے دوچار ہوتا ہے ۔ فرائیڈ کا انکشاف کہ ’’بچوں میں بھی جنس کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں ‘‘پر بہت اعتراضات کیے گئے ۔فرائیڈ کے اپنے دوستوں خاص طور پر ایڈلر اور ژونگ نے بھی اس سےاتفاق نہیں کیا ۔ مخالفت کے باوجو د فرائیڈ نے اپنا نظریہ بھرپور انداز میں پیش کیا اورکہا کہ بچے اپنی جنسی دلچسپیوں کو خود سے اور اپنے بڑوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں ۔فرائیڈ نے یہ دعو ٰی کیا ہے کہ جس وقت بچہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے اسی لمحے سے اس کی جنسی جبلت سرگرم عمل ہوجاتی ہے۔ اور آخری دم تک جاری و ساری رہتی ہے ۔

اس کے ا عمال کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ مختلف شکلوں میں سامنے آتی ہے ۔ہم اکثر اس جبلت کو اس کے اعمال کی  وجہ سے پہچان نہیں سکتے ۔جنس کے اعمال کو اعضا ئے مخصوص تک محدود کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ اب تجزیہ نفس کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں جن میں جسم کے دوسرے حصے لب ،چھاتیاں وغیرہ انہیں خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں جو اعضا ئے مخصوص سے متعلق ہیں ۔بعض حالتوں میں ضمنی اعمال اتنی ہی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں جو جنس کے مرکزی عمل کو حاصل ہیں اس طرح جنس سے متعلق تین زاوے ہمارے سامنے آتے ہیں۔
الف۔ جنس کا آغاز بلوغت کی بجائے پیدائش کے فوراً بعد، اس کے مظاہر دکھائی دینے لگتے ہیں اور یہ تصور غلط ہے کہ ننھے اور نومولود میں جنس نہیں پائی جاتی۔
ب۔ جنس نہایت وسیع اور لا محدود قوت ہےاور اسے صرف اور صرف”جنسی فعل” تک محدود کرنا درست نہیں بلکہ اس کے دائرہ کار میں ایسے افعال واعمال بھی شامل ہیں جس کا جنسی اعضا سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
ج۔ جنسیات کا بنیادی کام جنس کے مختلف حصّوں سے مسرت کا حصول ہے یہ فعل تولید اور اشاعت ذات کےلیے استعمال ہوتا ہے،تاہم ان دونوں افعال کو یکجا نہیں کیا جا سکتا اور ان کے مقاصد بھی مختلف ہیں۔

جنس کی جبلت کو مدرجہ بالا مباحث کی روشنی میں درج ذیل ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلا دور
جنس کی نشوو نما میں پہلا دور فرد کا بچپن ہے ۔جس میں بچہ چوسنے لگتا ہے۔ بقول فرائیڈ بچے کا دودھ پینا اور ماں کے پستان کو چوسنا محض بھوک کی تسکین نہیں بلکہ وہ اس سے حِظ بھی حاصل کرتا ہے ۔ ابتدائی دور میں بچے کی جنسی خواہش اس کی خوراک کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔لیکن بعد میں یہ خواہش خالصتاً جنسی ہوجاتی ہے ۔ہمارے تجربے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بچے کا بار بار انگوٹھا چوسنا اسے لذت سے ہمکنار کرتا ہے ۔شیر محمد اختر کے مطابق فرائیڈ سے قبل بھی بچوں میں ایسی حرکات کو جنس سے جوڑنے کی بہت سے مفکرین نے کوشش کی ہے۔
ان کے بقول :
بچوں میں جنسی خواہشات کا انکشاف فرائیڈ نے ہی نہیں کیا بلکہ سب سے پہلے ہنگری کے مشہور ڈاکٹر لینڈ نر نے کیا ۔اس نے اپنی تحقیقات میں اس جنسی سرگرمی پر بہت زور دیا ہے ۔اس کے ہاں بچوں کی پرورش گاہ (نرسری)میں اکثر انگوٹھا چوسنا بھی دوسری جنسی شرارتوں کی طرح ایک شرارت قرار پائی تھی۔۔۔۔ڈاکٹر گلنٹ نے ایک نوجوان لڑکی کے اعتراف میں لکھا ہے کہ وہ ابھی تک انگوٹھا چوسنے کی عادی ہے اور اسے اس سے ویسی ہی لذت محسوس ہوتی ہے جیسے جنسی تسکین سے خصوصاً اپنے محبوب کو بوسہ دینے میں ۔اس نے یہ بھی بتایا کہ بوسہ دینے میں وہ لذت کہاں جو انگوٹھا چوسنے میں میسر آتی ہے۔

انگوٹھا چوسنے کے ساتھ ساتھ ناخن چبانا یا کسی اور حرکت کی عادت بھی پڑسکتی ہے ۔فرائیڈ نے فرد کے بچپن کے پہلے تین سالوں پر محیط یہ عرصہ بتایا ہے جس میں بچے کی تمام جنسی خواہشات منہ کے ذریعے سے ہی پوری ہوتی ہیں ۔

دوسرا دور
تین سال کے بعد بچے میں شہوت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں ۔چوسنے کی وہ خواہش جو پہلے تین سالوں میں ہوتی ہے بوسے کی خواہش اختیار کر جاتی ہے۔بوسہ دینے اور چوسنے میں کوئی خاص فرق بھی نہیں ،چونکہ دونوں صورتوں میں جنسی خواہش کو پورا کرنے کا ذریعہ منہ ہی رہتا ہے۔ علاوہ ازیں انگوٹھے کا متبادل عضو مخصوص سے لذت حاصل کرنا مثلاً خود کاری یا ایسی کوئی اورعادت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ بچے کی جنسی زندگی کادوسرا دور ہے ۔ اس دور میں لڑکیا ں اپنے مخصوص اعضا کی رگڑ سے لذت حاصل کرتی ہیں ۔لڑکے اور لڑکیا ں کھیلتے وقت ایک دوسرے کے مخصوص اعضاء ،مختلف حرکات اور اعضا کے متعلق باتیں کرتے ہوئے بھی لذت حاصل کرتے ہیں ۔اس طرح پیشاب کرتے یا کسی دوسرے کو ایسا فعل کرتے دیکھنے سے بچے کی جنسی خواہش شہوت میں بدل جاتی ہے۔یہ خواہش بعد میں ہم جنس پرستی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

تیسرا دور
اس دور میں جنسی جذبہ اپنی انتہائی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اورفرد کو دوسری مخالف جنس کی تلاش کرنا پڑ جاتی ہے۔اس دور میں ا عضائےمخصوص زیادہ اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور یہ اہمیت زندگی بھر برقرار رہتی ہے۔فرد جان لیتا ہے کہ ان اعضا کا مقصد محض لذت نہیں بلکہ بقائے نسل کے لیے عمل تولید بھی ہے ۔ان ادوار میں جنسی نشوونما کے ساتھ ساتھ محبت اور ایثا ر کے جذبات بھی ترقی کرتے رہتے ہیں ۔ جنس کی جبلت کی مندرجہ بالا صورتوں کی روشنی میں ہمیں تین ادوار کا پتا چلا ہے ۔
پہلے دور کا نام(Auto eraticsm)رکھا ہے ۔اس دور میں دوسری ذات کی بجائےبچہ اپنے جسم سے جنسی آسودگی حاصل کرتا ہے اور اسے اپنی ذات یا انا کا احساس نہیں ہوتا ۔دوسرے دور میں نرگسیت پیدا ہوجاتی ہے اس کی ایگو ارتقائی منازل طے کرتی ہے ۔جس سے جبلت کی تسکین خود بچے کی ایگو سے ہوتی ہے ۔وہ اپنے آپ سے محبت کرنے لگتا ہے۔یہ رجحان تمام عمر موجود رہتا ہے۔تیسرے دور میں بچہ اپنی جنسی تسکین کے لیے خارجی دنیا میں کسی اور ذات کی تلاش کرتا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنا پیار اسے دے سکے بلکہ اس کے شعوری اور لا شعوری جنسی تصورات آسودگی حاصل کر سکیں ۔ ظاہر ہے کہ بچے کی بیرونی دنیا کا دارو مدار اپنا خاندان ہوتا ہے اور وہ انہی سے ہی جنسی لذت حاصل کرتا ہے۔اس زمانے میں بچے کی محبت کا پہلا مرکز ماں ہوتی ہے اور جیسے جیسے اس محبت کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے بچہ اپنے باپ کو رقیب سمجھ کر حسد ،رشک اور نفرت و حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتا ہے لیکن وہ ان جذبات کا بر ملا اظہار نہیں کر سکتا اس لیے اس کے ذہن میں ایک الجھن جنم لے لیتی ہے جسے فرائیڈ نے ’’ایڈی پس الجھن‘‘ کا نام دیا ہے ۔جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔

اوڈی پس کمپلیکس  (Oedipus complex)

اوڈی پس کمپلیکس کی اصطلاح فرائیڈ نےایک کلا سیکی یونانی قصے سےمستعار لی ہے جس کا مختصر خلاصہ یہ ہے۔ ایڈی پس یونانی دیو مالائی ایک کردارہے ۔اس کا باپ لائسیس ،تھیبس (Thebes) کا حکمران تھا ۔ایڈی پس کی ماں کا نام جوکاسٹا  (Jocasta)تھا۔ایڈی پس کی پیدائش پر وہاں کے نجومیوں نے پیشگوئی کی کہ یہ بچہ بڑا ہو کر اپنے باپ کو قتل اور ماں جوکاسٹا سے شادی کرے گا ۔جس پر اس کے باپ نے اسے جنگل میں پھینکوا دیا ۔وہاں سے ایک چرواہا اٹھا کر اسے اپنے گھر لے آیا اس کی پرورش کر نے لگا ۔بعدازاں کسی بادشاہ نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا اور اس تعلیم و تربیت ایک شہزادے کی حیثیت سے کی گئی ۔ایڈی پس کو اپنے اصلی والدین  کا کوئی علم نہ تھا ۔یہاں بھی ایڈی پس کو باپ کو قتل کرنے اور ماں سے شادی رچانے کی پیش گوئی کی گئی ۔جس پر وہ بہت پریشان ہوا ۔سوتیلے ماں باپ کا محل چھوڑ دیا اور ملکوں ملکوں مارا مارا پھرتے ہوئے کسی شاہراہ پر اس کی ملاقات اپنے حقیقی باپ سے ہو گئی ۔ستم ظریفی اس پر یہ کہ یہ ملاقات ایک لڑائی میں مقابلے کی صورت میں ہوئی۔دونوں کے درمیاں سخت مقابلہ ہوا جس میں لائسیس مارا گیا۔ایڈی پس نے دوبارہ آوارہ گردی شروع کر دی اور ایک دن وہ اپنے شہر تھیبس(Thebes)جا پہنچا ۔جہاں اس نے اپنی ذہانت سے شہر کے لوگوں کو ایک خوف ناک وبا سے چھٹکارا دلایا ۔اس کے عوض وہا ں کے لوگوں نے اسے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا اور وہاں کی رسم کے مطابق بیوہ ملکہ جوکاسٹا جو اس کی حقیقی ماں تھی لا علمی میں اس سے شادی کر لی ۔چار بچوں کی پیدائش کے بعد اس نے وہاں کے نجومیوں کو جب اپنی سرگذشت سنائی کہ کس طرح اسے اس کے والد نے اس کے پاؤں میں میخ ٹھونک کر جنگل میں پھینکوایا تھاتونجومیوں نے اسے فوراًپہچان لیا۔حقیقت کے انکشاف پر ایڈی پس نے لوہے کی گرم سلاخوں سے اپنی آنکھیں پھوڑ لیں اور یوکاسٹا نے خود کشی کر لی ۔اندھے ایڈی پس کی باقی ماندہ زندگی احساس گنا ہ کی اذیت سہتے ہوئے گزری ۔

فرائیڈ نے جب اس قصے کو ڈرامے کی صورت میں تھیٹر میں دیکھا تو اس کو انکشاف ہو ا کہ ایسا تو گھر گھر میں ہر بچے کے ساتھ ہوتا ہے۔ پیدائش کے فوراً بعد بچے کی اولین جنسیت غیر واضح اور اس کا کوئی معر وض نہیں ہوتاجس کو فرائیڈ خود شہوتی کا نام دیتا ہے۔لیکن چند سالوں میں اس کی جنسیت ایک مخصوص معروض سے جڑ جاتی ہے۔لڑکے کا پہلا ہدف ماں ہوتی ہے جبکہ لڑکی اپنی تمام تر جذباتی وابستگی اپنے باپ سے وابستہ کر لیتی ہے۔لڑکے کے معاملے میں تو فرائیڈ وثوق سے کہتا ہے کہ وہ اپنی جنسی وابستگی ماں سے جوڑ لیتا ہے۔اس نے اس کی توضیح کرتے ہوئے کہا کہ بچہ شروع میں باپ کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اسے قتل کر دینا چاہتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ماں کے ساتھ اس کی محبت پھیلتی پھولتی رہتی ہے ،وہ اپنی ماں کے عشق میں اس قدر مبتلا ہو جاتا ہےکہ اس کے معصوم ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس کی اپنی ماں پر صرف اورصرف اسی کا حق ہے اس حق کو حاصل کرنے کے لیے وہ ذہنی طور پر کسی حد تک جا سکتا ہے۔بقول فرائیڈ:
جب ایک لڑکا دو یا تین سال کی عمر سے اپنے لبیڈو کی نشونما کے ذکری دورر(Phallic phase) میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے جنسی عضو میں خوشگوار احساسات پاتا ہےاور یہ احساس حاصل کرنے کے لیے اسے ارادتاًاپنے ہاتھ سے تحریک دینا سیکھ لیتاہے تو وہ اپنی ماں کا عاشق بن جاتا ہے۔وہ جسمانی طور پر اس پر اس طرح قابض ہونا چاہتا ہے جس طرح اس نے اپنے مشاہدات کو جنسی زندگی کے وجدانی اندازوں سے قیاس کیا ہےاور اسے اپنے عضو تناسل کی نمائش سے بہکانہ چاہتا ہے جس کی ملکیت پر اسے فخر ہوتا ہے۔مختصر یہ ہے کہ اس کی قبل از وقت پیدا ہونے والی مردانگی اسے اس بات پر اکساتی ہےکہ وہ اپنی ماں کے ساتھ وہ مقام پائے جو اس کے باپ کو حاصل ہے۔باپ کی طاقت بچے کے لیے قابل ِرشک ہے۔اس کاباپ اب ایک رقیب کے روپ میں سامنے آتا ہے جو اس کی راہ میں حائل ہےاور جسے وہ دھکیل کر دور کر دینا چاہتا ہے۔
یہ عمل چار پانچ سال کی عمر تک جاری رہتا ہے اور بچے کی شخصیت اس خوف ناک صورت حال سے دوچار رہتی ہے ۔جب سپر ایگو کی تشکیل ہوتی ہے تو یہ کش مکش دبنا شروع ہوجاتی ہے اورباپ بچے کا دشمن ہونے کے بجائے آئیڈیل بننا شروع ہوجا تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بچپن کی اکثر یادیں فراموش ہوجاتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں ۔لاشعور کی گہرائی میں اس کا وجود جاری رہتاہے ۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ فرائیڈ اوڈی پس کمپلیکس کی تشریح مثبت اور منفی کے حوالے سے بھی کرتا ہےمثلاً

مثبت اوڈی پس کمپلیکس
مثبت انداز میں ظہور پذیر ہونے والے کمپلیکس میں ضروری ہوتا ہے کہ  بچہ جنسی لحاظ سے اپنے سے مخالف جنس کے والدین سے متاثر ہو۔مثال کے طور پر لڑکا ماں میں جنسی کشش محسوس کرے گا اور اسی مناسبت سے لڑکی باپ کو اپنا جنسی معروض منتخب کرے گی ۔
منفی اوڈی پس کمپلیکس
اس سے مراد بچہ ہم جنس والدین سے جنسی لحاظ سے متاثر ہوتا ہے۔یعنی لڑکا باپ میں دلچسپی لیتا ہے جبکہ لڑکی ماں سے اپنی جنسی آرزوئیں منسوب کرتی ہے۔
الیکٹرا الجھاؤ  (Electra Complex)
فرائیڈ نے لڑکوں کی مناسبت سے لڑکیوں میں بھی اس طرح کی الجھن تلاش کی ہے ۔وہ ایڈی پس کمپلیکس کی طرز پر لڑکیوں میں الیکٹرا کمپلیکس کی اصطلاح استعمال کرتا ہے ۔اس میں لڑکی کی لبیڈو کا مرکز باپ بن جاتاہے ۔اگرچہ یہ خواہش شدید اور دیر پا ہوتی ہے تاہم اتنی ڈرامائی نہیں ہوتی جتنی کہ لڑکوں میں ہوتی ہے۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ لڑکی جب لڑکوں میں مردانہ عضو تناسل دیکھتی ہے تو اسے شبہ ہوتا ہے کہ اس کی ماں نے کسی سزا کے طور پر اس کا یہ قض عضو خاص کاٹ دیا ہے جسے فرائیڈ رشک قضیب کا نام دیتا ہے۔معصوم لڑکی اس کی تمام تر ذمہ داری اپنی ماں پر ڈال دیتی ہے اور لاشعوری طورپر اپنی ہی ماں کو ہی دشمن تصور کر لیتی ہے۔
بقول فرائیڈ:
لڑکی اپنے رشک کے زیر اثرجو اسے ذکر سے ہوتا ہے اپنی ماں کو کبھی معاف نہیں کرتی جس نے اسے اتنے ناکافی سازو سامان کے  ساتھ دنیاوی زندگی کے سفر کا آغاز کرنے پر مجبور کیا ہے۔اس نارضگی میں وہ ماں کو چھوڑ دیتی ہے اور ایک دوسرے شخص(باپ)کو اپنی محبت کے معروض کی حیثیت سےاس کی جگہ دے دیتی ہے۔
جس طرح لڑکا اپنے باپ کی جگہ لینا چاہتا ہے اس طرح لڑکی اپنی ماں  کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ایسے مظاہرے ہمیں اس ے ی کھیلوں اور مشاغل میں بھی نظر آتے ہیں جہاں وہ اپنے باپ کے ساتھ ماں کی جگہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ماں جس سے وہ شروع میں محبت کرتی تھی اب اس سے اسے نفرت ہونے لگتی ہے۔اس نفرت کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔پہلی ماں سے رشک جبکہ دوسری عضو مردانہ سے محرومی جس کی زمہ دار اس کی ماں ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کے لیے پہلے چار پانچ برس کا عرصہ کشمکش میں گزرتا ہےاور بچے کی شخصیت اس خوفناک صورحال کا شکار رہتی ہے۔لیکن جب سپر ایگو  کی نشو ونما ہوتی ہے تو یہ کشمکش لا شعور میں دبنا شروع ہو جاتی ہےاور باپ جسے بچہ دشمن سمجھ رہا ہوتا ہے سپر ایگو کے زیر اثروہی باپ بچے کا آئیڈل بننا شروع ہو جاتا ہے۔یہی وجہ  ہے کہ طفلی زندگی کی اکثر و بیشتر یادیں اسی طرح فراموش ہو جاتی ہیں۔یہ فراموشی ایک قسم کا دفاع ہے جس سے بچہ اوڈی پس صورتحال کے خوفناک اثرات سے خود کو بچا لیتا ہے۔فرائیڈ کے نزدیک اسے دبایا تو جا سکتا ہے مگرختم کرنا اسے نا ممکن ہے چونکہ لا شعور میں اس کا خلفشار جاری و ساری رہتا ہےاور بچے کی آئندہ زندگی پر اس کے اثرات دور رَس ہوتے ہیں۔

جنسی نشوونما کے مراحل
فرائیڈ کے نزدیک جنسی نشو ونما کے تین مراحل ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
خود جنسیت (Auto sexuality)
فرد کی جنسی منزل کا یہ پہلا قدم ہے۔فرد اپنی ہی ذات یا جسم سے تصوراتی اور خیالی دنیا میں رہ کر لذت حاصل کرتا ہے جبکہ خارجی ذر ئع اس عمر میں اس کے لیے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
ہم جنسیت (Homo sexuality)
اس دور میں فرد جنسی لحاظ سے ہم جنس سے متاثر اور رابطے کا خواہاں ہوتا ہے۔اس دور میں مخالف جنس میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔جنسی معلومات کا جذبہ اس دوران غالب ہوتا ہے۔
مخالف جنسیت (Hetro sexuality)
فرد ہم جنسیت کے دور سے گزر کر مخالف جنس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔اور یہ دور باقی تمام عمر قائم رہتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ خود جنسیت اور ہم جنسیت کے اثرات اور اس کی پیدا کردہ الجھنیں مخالف جنسیت کے دور میں بھی فرد کی جنسی زندگی پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔
جنسی نشو نمایا شخصیت کی تشکیل
فرائیڈ جنسی نشو نما کے لیے درج ذیل اصطلاحات کو استعمال میں لاتا ہے۔
لبیڈو  (Libido)
’’جنس‘‘ اور ’’جبلت‘‘ کے دو پہلو ہوتے ہیں ،ایک جسما نی جبکہ دوسرا ذہنی۔بطور اصطلاح اس کے اثرات محض تناسلی اعضا ء  تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ فرد کا ذہن اس سے شدید متاثر ہوتا ہے۔اس میں ایک پوشیدہ توانائی ہو تی ہے جس کےذریعے جنسی جبلت کو ذہین میں نمائندگی ملتی۔اس کے متعلق فرائیڈ لکھتا ہے:
لبیڈو وہ قوت ہےجس کے ذریعے سے جنسی جبلت کو ذہن میں نمائندگی ملتی ہےاور ہم اسے لبیڈو کی جنسی طلب کہتے ہیں اور یہ شدت کے لحاظ سے بھوک اور ہوس اقتدارسے مشابہہ ہے۔۔۔(لبیڈو) ان جبلتوں کی قوت کا نام ہے جو محبت کے عنوان کے تحت آ جاتی ہیں۔
لبیڈو بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں میں موجود ہوتی یے، البتہ عمر کے تفاوت اور جسمانی طاقت کی مناسبت سے اس کی شدت میں کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے۔یہ مختلف جسمانی خطوں کے ذریعے حرکت پذیر رہتی ہے۔لبیڈو جو کہ ایک سیال حالت میں ہوتی ہے،اس کے بہاؤ کا خاتمہ مختلف صورتوں میں ہوتا ہےجن کو ہم خارجی اور داخلی منزل میں بیان کر سکتے ہیں خارجی منازل سے مرادفرد کی لبیڈو محبت کے زیر اثر کسی اور شخص پر مرکوز ہو جاتی ہے۔اس حالت میں لبیڈو کا بہاؤ غیر مسدود ہوتا ہے جبکہ داخلی صورت میں لبیڈو کا مرکز خود فرد کی اپنی ذات بن جاتی ہے۔اس طرح فرد اپنے آپ سے محبت کرنے لگ جاتاہے جسے فرائیڈ نے نرگسیت کا نام دیا ہے۔لیکن قوی امکان ہوتا ہےکہ لبیڈو عادت یا ماہیت کا باعث کسی شے پر مرکوز ہونے کے لیے بے چین رہتی ہے اسی دوران فرد واہمے میں کیسی شے کی تخلیق کرتا ہے اور اس دوران لبیڈ و کا بہاؤ اندر کی طرف ہوتا ہےجس کو داخلیت کہتے ہیں۔اسی داخلیت ہی ہے جو فرد کی شخصیت کی ارتقائی منزل ہے جس کی مناسب نشونما سے اہم تخلیقی اعمال سر انجام پاتے ہیں جو فرد کی انا کے لیے باعث افتخار ہوتے ہیں۔

جنسی نشو نما کے مراحل
جنسی نشو نما کے درج ذیل مراحل ہیں
۱۔دباؤ  (Repression)
مخصوص نفسیاتی اصطلاحی معنی میں ’’دباؤ‘‘ وہ لا شعوری نظام ہے۔جب طفلانہ فطری جبلتیں ،خواہشات اور ہیجانات وغیرہ مکمل طور پر رد کر کے لاشعور میں دھکیل یا دبا دیے جاتے ہیں مگر ان سے جڑی قوت ختم ہونے کی بجائے نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ انتشار،تصادم اور کشمکش پیدا کرتی ہے،جس سے فرد تشویش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ فرد کے نفسیاتی و ذہنی ارتقاء میں دباؤ کا اہم کردار ہوتا ہے۔آزاد جنم لینے والے بچے پر والدین کے احکام دباؤ کا اولین نقش ہیں ۔پھر وہ جب بڑا ہوتا ہے تو معاشرے اور اس کے قوانین واصول آڑے آ جاتے ہیں کیونکہ وہ تمام لا شعور جبلی خواہشات جو کسی بھی حال میں تسکین چاہتی ہیں معاشرہ ان کی اجازت نہیں دیتا تو فرد یہاں بھی ان خواہشات کو دبا لیتا ہے اور تمام عمر یہ عمل جاری رہتا ہے۔مگر بد قسمتی سے ان تمام خواہشات کو دبایا ضرور جاتا مگر ختم نہیں کیا جا سکتا۔جب بھی انہیں موقع ملتا ہے ہزاروں بہروپ بدل کر سطح شعور تک رسائی کی تگ و دو میں رہتے ہیں اس عمل کو فرائیڈ معکوسیت (conversion) کا نام دیتا ہے۔ دباؤ کے عمل کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مثلاً
ابتدائی دباؤ:جب کسی فرد کی سخت ماحول میں تربیت ہو جس میں ذہنی ہوں یا عملی،اعمال جو اپنی ناخوشگواری کے سبب دبا دیے جائیں علاوہ ازیں ان ناخوشگوار خواہشات کو شعوری کوشش سے لا شعوری بنایا گیا ہوابتدائی دباؤ میں آ ئیں گی۔

ثانوی دباؤ: اسے فرائیڈ حقیقی دباؤ کا نام بھی دیتا ہےاور ’’تحلیل نفسی‘‘ میں بھی اسی دباؤ کی اہمیت ہے۔یہ دباؤ اس وقت سامنے آتا ہے۔ جب ’’ایگو‘‘ کو یہ احساس ہو جائے کہ نا امیدی اور مایوسی کے جنم لینے والے تصورات دراصل ’’سپر ایگو‘‘ کی وجہ سے دبائے گئے ہیں اور ’’سپر ایگو‘‘ کی احتسابی قوت کے باعث ہی فکر واندیشہ اسے رنج پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ایسی صورت میں بے چینی اور تشویش جنم لیتی ہےکیونکہ لاشعوری خواہشات تحت الشعور کے راستے شعور میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو اس دوران ’’سپر ایگو‘‘ کی احتسابی قوت حرکت میں آ جای ہے اوران لا شعوری خواہشات کو جکڑ لیتی ہے۔حقیقی دباؤ اسی وقت ہوتا ہے جب احتسابی قوت اتنی طاقتور ہو کہ ان ناشائستہ خواہشات کو سطح شعور پر نہ آنے دے۔اس دباؤ کی صورت میں وہ تما م لاشعوری الجھنیں سر گرمی کا مظاہرہ کرتی ہیں جو بعد میں فرد کے لیے تشویش اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ فرائیڈ کے نزدیک فرد لاشعوری خواہشات کی شورش اور ان کے دباؤ سے پیدا ہونے والی بے چینی سے خود بھی انجان ہوتا ہے۔احتسابی قوتیں بھی اس تصور سے ناطہ توڑ لیتی ہے جیسے اسکا رڈ کے اس تصور کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں۔ فرد کے اندر جبلی بہیمی رجحان پایا جاتا ہےاور وہ شعوری طور پر اسے دبانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے کیونکہ ’’سپر ایگو‘‘ کے زیراثر تربیت کے ذریعے ہر فرد کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کی یہ خواشات یا رجحان سماجی اقدار کےلیے نقصان دہ ہے۔بد قسمتی سے فرد چکی کے دو پاٹوں میں پستا ہے۔ایک طرف ان جبلی ہیجانات کو ختم نہیں کیا جا سکتا تو دوسری طرف معاشرہ اسے تسکین کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی اس تسکین کے ذرائع فراہم نہیں کرتا۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ فرد خوف جسےAgora phobiaکہا جاتا ہے کا شکار ہو جاتا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ فرد محفلوں سے گھبراتا ہے،لوگوں کا سامنا کرنے سے جھجھک محسوس کرتا ہے،وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر شخص اس کی لاشعوری خواہشات سے آگاہ ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply