عشق کی نئی تفہیم۔۔آغرؔ ندیم سحر

پروفیسر صاحب نے غصے سے پہلو بدلا اور گویا ہوئے”کیا گلیوں اور گھروں میں چراغاں کر نے‘عشقِ رسولؐ کے دھواں دار نعرے لگانے‘لنگرکی تقسیم سے‘ محفلِ نعت اور محفل میلاد سجا نے یا جلوس نکال کر سڑکیں بلاک کردینے سے عشق کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے؟“مجھے ان کی بات میں وزن لگا۔میں نے مسکراتے ہوئے انکار میں سر ہلا دیا۔پروفیسر صاحب نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا۔”آپ کو پتا ہے پہلی قومیں کیوں تباہ ہوئیں؟“۔میں نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔وہ بولے”پچھلی قوموں نے اپنے انبیا کرام کے ارشادات بڑے بڑے ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر کمروں میں تو سجا لیے مگر ان پر عمل کی کبھی کوشش نہیں کی،وہ لوگ اس بات پر تو یقین رکھتے تھے کہ پیغمبر خدا کا نمائندہ ہوتا ہے‘وہ ہمیں وہی احکامات دیتا ہے جو خدائے لم یزل کی طرف سے جاری ہوتے ہیں مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔آپ قومِ لوط ؑ کو دیکھیں یا قومِ نوحؑ کو،آپ قومِ بنی اسرائیل کو دیکھیں یا پھرابو جہل کو۔یہ تمام اس بات پرقوی یقین رکھتے تھے کہ ہمارا پیغمبر جو بھی احکامات دے رہا ہے‘یہ سب خدا کی طرف سے ہیں لیکن اس سب کے با وجود ان کی اتباع صرف زبان کی حد تک محدود تھی۔پھر جب اللہ کا عذاب آیا تو نہ ہی حضرت نوحؑ کا بیٹا بچ سکا اور نہ حضرت لوطؑ کی بیوی۔سب خدا کے عذاب کی نذ رہوگئے کہ آنے والی قوموں کے لیے عبرت ناک داستان بن گئے“۔پروفیسر صاحب کی بات یقینا قابلِ غور تھی۔میں جب بھی مسلم امت کو عیدِ میلاد النبیؐ یا مذہبی رسومات میں بھرپور شرکت کرتے دیکھتا ہوں‘میرے دل میں سب سے پہلا سوال یہی آتا تھا اور یہ سوال آج انگریزی ادب کے ایک استاد نے حل کر دیا۔

میں اس دفعہ بھی عید میلا النبیؐ کے جلسے میں کھڑا اس سوال کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ہم کیسی عجیب قوم ہیں۔ہم جھوٹ بولتے ہیں‘ہم دوسروں کو تکالیف پہنچاتے ہیں‘ہم غرور بھی کرتے ہیں‘ہم ایک دوسرے کو گالی بھی دیتے ہیں‘ہم وعدہ کرنے کے بعد مکر بھی جاتے ہیں‘ہم زنا کرتے ہیں‘ہم سارا دن تجارت میں دو نمبری بھی کرتے ہیں‘ہم نماز کے دوران بھی گھریلو معاملات اور دکانداری کے بارے میں سو چ رہے ہوتے ہیں‘ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ عزت و ذلت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے ہر عزت دار شخص کی پگڑی اس لیے اچھال رہے ہوتے ہیں کہ یہ عزت ہمیں کیوں نہیں ملی‘ہم اپنے اپنے شعبوں میں رشوت لیتے ہیں اور سود بھی کھاتے ہیں‘ہم اپنی زندگی کا زیادہ حصہ دوسروں کی غیبت کرتے‘ٹانگیں کھینچتے گزار دیتے ہیں‘ہم نماز کے اوقات کے دوران بھی گالیاں دیتے ہیں‘مسجد جانے والے بزرگوں پر آوازیں کستے ہیں‘سارا دن بازاروں اور چوراہوں میں بیٹھ کر غیر محرم عورتوں کو دیکھتے ہیں‘ان پر نہ صرف ہنستے ہیں بلکہ ان پر بری آوازیں بھی لگاتے ہیں اور اس پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ہم غیر مسلموں سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ان سے بات کرنا تک گوارا نہیں کرتے‘ہم اپنے حقوق کے لیے کئی کئی دن دھرنا دے لیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارے دھرنے سے عوام کو کتنی تکلیف ہوئی‘کس کس کا کتنا حق مارا گیا‘ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے کبھی کسی کو تکلیف دی اور نہ ہی اس کا حق غصب کیا۔ ہم فتوی دینے میں بھی بہت ماہر ہے‘ہر دوسرے مسلمان کو کافر کہنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے‘ہمارے تما م فرقے دوسرے مسلم فرقے کو ہی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں‘اسے کافر کافر کہ کر دل کوایسے تسلی دے رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ان کے پاس جنتی ہونے کا ٹکٹ موجود ہے‘ہمارے مولوی ممبروں پر بیٹھ کر ”پین کی سری“سے لے کر تمام بڑی چھوٹی گالی دیتے ہیں اور ان کے مقتدی اس پر بھی واہ واہ اور”کمال کمال“ کی گردان پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ہم بھکاری کو آئے روز دھتکار تے ہیں یہ سوچتے ہوئے بھی کہ ہمارے نبیؐ نے بھکاریوں سے کیسا سلوک کیا۔ہم بچوں پر ظلم بھی کرتے ہیں‘انہیں گھر میں بطور ملازم بھی رکھتے ہیں اور پھر ان کو پیٹتے بھی ہیں‘یہ جانتے ہوئے بھی کہ نبی اکرم ؐ کا بچوں سے کیسا سلوک تھا۔ہم دو نمبری میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ کلو دودھ میں چار کلو پانی ملا کر بیچتے ہیں‘ہم لالچ میں بھی انتہاکو پہنچ گئے ہیں‘ہم کسی مریض کی عیادت‘کسی مردے کا جنازہ تک لالچ کے بنا نہیں پڑھتے۔ہم یہ ہی سوچتے ہیں کہ یہ میرے باپ کے جنازے پہ آیا تھا تو آج مجھے جانا ہے‘ یہ میری بیماری پر آیا تھا تو مجھے بھی عیادت کرنی چاہیے۔ہم کسی کام میں بھی مخلص نہیں‘ہم بچوں کو پیدا ہوتے کی جھوٹ کا درس دینا شروع کر دیتے ہیں‘ہم ان کی تعلیم و تربیت میں بھی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں،ہم اپنے نبیؐ کے نام پر دھرنا دے کر الیکشن کمپین بھی کرتے ہیں‘ہم ایک ہی جماعت کے عالم ہو کر ایک دوجے کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور کرپشن کا الزام بھی لگاتے ہیں مگر ہم پھر بھی عاشقِ رسولؐ ہیں۔ دنیا کی ہر برائی ہم میں موجود ہیں مگر ہم عاشقِ رسولؐ ہیں‘ہمیں اس میلاد پر لنگر بھی تقسیم کرنا ہے اور محفل وجلوس بھی منعقد کرنے ہیں کیونکہ ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو نئی گاڑی خریدنے کے بعد اسے سجا کر گلی گلی تشہیر کرتا ہے‘روزانہ اس کو پانی سے دھوتا توہے مگر اس پر سفر نہیں کرتا‘اسے اپنے اور معاشرے کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔پروفیسر صاحب ٹھیک کہتے ہیں ”ہم انتہائی غیر ذمہ دار‘فرائض سے دور بھاگنے والی اور لفظوں کی جگالی کرنے والی قوم ہیں‘ہم صرف نعرے لگا سکتے ہیں کیوں کہ ہمیں یہ کام سب سے ذیادہ آسان لگتا ہے‘جس کام میں بھی محنت کرنی پڑے ہم وہ نہیں کر سکتے کیوں کہ ہماری گھٹی میں دو نمبری ہے لہٰذا ہم اس پر پوری شدت سے کاربند ہیں“۔پروفیسر صاحب مزید غصے سے بولے”یہ عشق کی کون سی نئی تفہیم ہے جس کی مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ محبوب سے محبت کے نعرے تو دن رات لگائے جائیں مگر اس کی کوئی بات نہ مانی جائے۔ہمیں عشق کے بنیادی تقاضے سمجھنے کی ضرورت ہے‘۔سچا عاشق صرف نعرے بازی نہیں بلکہ عمل کرتا ہے‘۔میں آج جلوس میں کھڑا پروفیسر صاحب کے اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں کہ آج ۲۱ تربیع الاول والے دن بھی ایک نماز نہیں پڑھیں گے‘ہم آج بھی جھوٹ روٹین کے مطابق بولیں گے‘ہم آج بھی دو نمبری پوری تن دہی سے کریں گے‘ہم آج بھی جلوس میں نہ شریک ہونے والوں کو گالی بھی دیں گے اور ان کے عاشق رسول ؐ ہونے پر شک بھی کریں گے‘ہم آج بھی کفر کے فتوے بانٹیں گے لیکن ہم عملی طور اپنے نبیؐ کا ایک حکم نہیں مانیں گے۔میں سوچ رہا ہوں کہ عشق کی یہ نئی تفہیم کس نے کی اور کیسے کی؟۔کیا میرا پیغمبرؐ صرف ایک دیگ بریانی یا چار سو کی لائیٹنگ کا محتاج ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں آج انتہائی سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ اگر عشقِ رسولؐ کی یہ نئی تفہیم اسی طرح عام ہو گئی تو ہمارے نبی ؐ کے ان احکامات کا کیا بنے گا جو خدا کی طرف سے ہمارے لیے اتارے گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منبر پر بیٹھا طبقہ (علماء)اس نئی تفہیم کاخاتمہ کر کے اس قوم کوسچے عاشقِ رسولؐ کے تقاضوں سے متعارف کروائے۔ان جھوٹی مذہبی رسومات کا قلع قمع کر یں (جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں) سچے اسلام کی بنیادوں کو مظبوط کرے کیوں کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن سب سے کڑا حساب عالمِ دین کا ہوگاکیوں کہ وہ صرف اپنا ہی نہیں پوری قوم کا جواب دہ ہوگا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply