سندھ میں سیرت نگاری۔۔محمد احمد

علم سیرت کی تدوین اور آغاز کب اور کیسے ہوا، پہلے ایک زمانے تک یہ تحقیق پیش کی جاتی رہی کہ امام زہری اس کے بانی ہیں، لیکن جب حضرت عروہ بن زبیر رح کی کتاب سامنے آئی تو یہ بات واضح ہوئی کہ پہلے سیرت نگار حضرت عروہ بن زبیر ہیں۔ ان کی یہ کتاب محمد مصطفی اعظمی رح کی تحقیق سے مطبوع ہے، تازہ سندھی زبان اس کی مفصل اور بہترین شرح پروفیسر ڈاکٹر اسرار احمد علوی رح کی تحقیق سے منظر عام پر آئی ہے۔ پہلی صدی میں سیرت پر مواد جمع کیا گیا، دوسری صدی میں باقاعدہ تدوین شروع ہوئی اور تیسری صدی میں سیرت پر کئی  جلدوں میں شاندار اور عظیم الشان کتابیں سامنے آئیں۔ اولین سیرت نگاروں میں حضرت ابان بن عثمان، موسی بن عقبہ،وہب منبہ، محمد بن شہاب زہری،شرحبیل بن سعد سلمان بن طرخان، امام علی بن حسين زین العابدین کے نام شامل ہیں۔

ان کے علاوہ امام السیر محمد بن اسحاق کو سیرت میں اللہ تعالیٰ خاص مقام عطا فرمایا ہے، ان کو بالاتفاق سیرت کا امام مانا جاتا ہے۔
سیرت کو عام  کرنے  کے لیے سرکاری سطح پر پہلی بار حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ اقدام کیا کہ عاصم بن عمر انصاری کو مقرر فرمایا کہ وہ دمشق کی جامع مسجد میں سیرت پر درس دیا کریں۔
وادی مہران کو جس طرح سب پہلے قرآن پاک کے ترجمے کا اعزاز حاصل ہے، اسی طرح فن سیرت نگاری میں بھی علما  سندھ کا بڑا حصہ ہے۔جب فن سیرت مدون ہورہا تھا تو سندھ کے عظیم سپوت ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن السندی نے اس فن میں کتاب لکھی، آپ ان کی عظمت کا اندازہ لگائیے! سندھ اور علما  سندھ کی علمی حیثیت دیکھیں۔

جب یہ فن مدون ہورہا تھا اور اپنی ترتیب و تدوین کے مراحل   سے گزر رہا تھا تو اس دور میں  سندھ کے عظیم سپوت امام ابو معشر نجیح بن عبدالرحمٰن السندی نے بھی سیرت میں ایک کتاب تصنیف فرمائی۔ جن کو “امام السیر والمغازی” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ واقدی جیسے مشہور مؤرخ ان کے تلمیذ رشید تھے۔

جن کے بارے میں خطیب بغدادی لکھتے ہیں “وکان من اعلم الناس بالمغازی” یعنے وہ مغازی کے بڑے عالم تھے۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے محدث اور فقیہ اور صاحب تقوی شخص کی گواہی ان کے لیے سند کا درجہ رکھتی ہے، انہوں نے فرمایا کہ: بصیر فی المغازی۔ یعنے امام ابو معشر مغازی میں بصیرت رکھنے والے ہیں۔

یہ کسی سندھی عالم کی سیرت پر پہلی کتاب تھی جو سن دو ہجری میں لکھی گئی لیکن یہ کتاب زمانے کے ستم کی نذر  ہوگئی، محفوظ نہ رہ سکی۔ اس کتاب کے کچھ اقتباسات واقدی اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں ذکر کیے ہیں۔
اس کے بعد سن تین ہجری میں امام ابو جعفر محمد بن ابراہیم بن عبداللہ دیبلی نے “مکاتیب النبی صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے موسوم یہ کتاب لکھی۔

رسول اکرمﷺ   نے دعوت و تبلیغ کے حوالے سے جو مختلف شاہوں اور قبائلی سرداروں کی طرف خطوط لکھے تھے، وہ سیرت کا اہم حصہ ہیں، مختلف بزرگ حضرات نے ان خطوط کو جمع کیا ہے اور کتابیں ترتیب دی ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ رح نے اس باب میں بڑی خدمات سرانجام دی ہیں، ایک سندھی محقق ابو عائلی نقشبندی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لکھے گئے خطوط کو دو جلدوں میں جمع فرمایا ہے، ان کی یہ بڑی خدمت ہے کہ انہوں نے اتنا ذخیرہ ایک جگہ جمع فرمادیا۔ امام دیبلی کی یہ کتاب زمانے کے حوادث سے محفوظ رہی اور آج بھی موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عبدالشہید نعمانی اور سندھی ترجمہ مولانا سلیم اللہ چوہان نے کیا ہے۔

اس کے علاوہ سندھ کے محقق عالم مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رح نے جو بیک وقت مفسر، محدث، فقیہ اور صوفی بھی تھے، جن کے قلم نے ہر موضوع پر اپنا لوہا منوایا، آج بھی ان کی تصانیف کو عالم اسلام میں بڑا مقام حاصل ہے۔ مخدوم صاحب نے سیرت پر ” بذل القوۃ فی حوادث سنی النبوۃ” کے نام سے کتاب لکھی، اس کو کتاب اگر عالم اسلام میں اپنی طرز پر یکتا اور منفرد کتاب کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس کتاب میں مخدوم صاحب نے دو حصوں میں ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد والے واقعات کو سن وار ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب 1966 میں مخدوم امیر احمد کی تحقیق کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ سے چھپ بھی چکی ہے۔ یہ کتاب اس کے علاوہ عربی اور اردو تحقیق سے بھی چھپی ہے، اس کا علاوہ سندھی زبان میں پروفیسر اسرار احمد علوی رح نے اس کی بہترین اور مایہ ناز شرح لکھی ہے۔

مخدوم صاحب نے اس کا اختصار “فتح العلی فی حوادث سنی البنوۃ صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے لکھا ہے۔
علما  سندھ کی یہ تینوں کتابیں عربی زبان میں تھی۔
سندھی زبان میں سیرت پر سب سے پہلے کتاب لکھنے کا سہرا بہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رح کے سر ہے۔ انہوں نے سندھی زبان میں “قوت العاشقين” کے نام سے ایک منظوم کتاب 1127 ھج میں لکھی۔ جس میں صرف معجزوں کا بیان ہے، تقریبا 160 معجزوں کو نہایت تحقیق اور پوری سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ برصغیر میں رائج زبانوں میں سے سیرت پر سب سے پہلی کتاب کا اعزاز اس کتاب کو حاصل ہے۔ اس کا نثری ترجمہ مولانا محمد رمضان پھلپوٹو نے کیا ہے، جو چھپ چکا ہے۔

1197 میں مخدوم عبدالسلام نے “شمائل ترمذی” کا منظوم سندھی ترجمہ کیا تھا اور کتابی صورت میں چھپ چکا ہے۔ اس منظوم ترجمہ کا نثری ترجمہ مولانا محمد بنوی نے کیا ہے، جو قادر الکلام شاعر، ادیب، نامور عالم دین اور دیوبند کے فاضل تھے۔ ان کا یہ ترجمہ مطبوع نہیں۔ اس کے علاوہ شمائل ترمذی کی سندھی شرح امام العصر حضرت مولانا عبدالکریم قریشی رح نے ہے، جو نہایت تحقیقی اور علم و ادب کا بڑا شاہکار ہے۔

یہ تھی سندھ میں سیرت نگاری کی مختصر تاریخ وتعارف اس کے علاوہ بھی سیرت پر کیے کتب لکھی گئی ہیں جن کا ایک مضمون میں احاطہ مشکل ہے۔
آج تلک سندھی زبان میں سیرت پر سینکڑوں کی تعداد میں نظم ونثر، منقوط و غیر منقوط اور ضخیم کتابیں لکھی جاچکی ہیں، جن میں سے بعض کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل اور بعض صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں۔

دیگر زبانوں میں غیر منقوط کتاب لکھنا آسان ہے، لیکن سندھی زبان میں “کار باشد” جس کے سہ حرفی کلمے میں بھی بارہ بارہ نقطے ہیں۔
مبارکباد کے لائق ہیں مایہ ناز ادیب اور مصنف جناب رسول بخش تمیمی صاحب جنہوں نے سندھی زبان میں سیرت پر بغیر نقطوں کے کتاب “محمد رسول اللہ ” لکھی۔ تمیمی صاحب نے اس کے علاوہ  “پارہ عم” کا بغیر نقطوں کے ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماہ ربیع الاول کی نسبت سے “سندھ میں سیرت نگاری” کے عنوان پر یہ کچھ سطور افادہ عام کی خاطر لکھ دی ہیں۔ لاکھوں درود وسلام ہوں ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر، اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حوالہ جات:
1۔ مقالات قاسمی از مولانا غلام مصطفی قاسمی
2۔پی ایچ ڈی مقالہ از ڈاکٹر مفتی محمد ادریس السندی
3۔ محاضرات سیرت از ڈاکٹر محمود احمد غازی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply