یہ ہاتھ صرف لکھتے نہیں/امیرجان حقانی

دونوں نوجوان مجھے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے۔
ان کو شدید حیرت ہوئی کہ ایک قلم کار، لیکچرار اور مولوی اتنا کام بھی کرسکتا ہے۔ انہوں نے میرے پلاٹ میں پہلے بھی کام کیا تھا۔ جب انہوں نے میرے اپنے ہاتھوں کے جمع کردہ پتھر، باجری، اور لگائے ہوئے درخت، سبزیاں، فصل اور کیاریاں دیکھیں تو ان کی حیرت انتہا کو پہنچی۔ وہ دونوں طالب علم بھی ہیں اور کبھی کبھار محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔

ان سے عرض کیا: ” بیٹا یہ ہاتھ صرف لکھنے کے لئے یا لیکچر بورڈ پر اتارنے کے لیے نہیں اور نہ ہی تقاریر کے دوران اونچے کر ہلانے کے لیے بلکہ بے تحاشا محنت کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سامنے پڑے پتھر اور باجری کے ڈھیر اس کا ثبوت ہے۔ یہ جو درخت، سبزیاں، پھول اور کیاریاں نظر آرہی ہے نا، یہ ان گداز ہاتھوں کی کارستانی ہے۔

میرے ہاتھوں کی ملائمیت، جو کاغذ پر قلم کے پھسلنے سے محسوس ہوتی ہے، اور وہی ہاتھوں کی مضبوطی، جو محنت بھرے کاموں میں نمایاں ہوتی ہے، دونوں ہی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا عکاس ہیں دونوں میں ہی برابر لطف و سرور ہے۔ یہ وہ ہاتھ ہیں جو محبت بھرے خطوط اور میسجزبھی لکھتے ہیں،احباب کیساتھ دل لگی کے لئے مزاحیہ چٹکلے، الزامی جوابات، اقدامی گفتگو ، اخباری کالم اور سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا میں احباب کے لئے مباحثہ و مکالمہ کا سبب بھی بنتے ہیں اور باغیچے میں کھاد بھی ڈالتے ہیں۔ یہ وہی ہاتھ ہیں جو کتابوں کے صفحات پلٹتے ہیں، کچی پنسل سے مطالعہ کے دروان حاشیے لکھتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اپنے گھر کے تعمیراتی کاموں اور عمارتی ستونوں کو مضبوطی سے تھامتے ہیں۔ اور محبت سے ملائے ہوئے احباب کے ہاتھوں کی نرمی اور گداز بھی محسوس کرتے ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے اپنے یہ ہاتھ ہر حال میں عزیز ہیں۔

صبح کی روشنی میں، جب پرندے چہچہا رہے ہوتے ہیں، ایک قلمکار اپنی ٹیبل پر بیٹھتا ہے۔ دائیں بائیں بکھری کتابوں پر نظر دوڑاتا ہے۔ اس کے پاس ایک گرم چائے کا کپ ہوتا ہے، اور وہ اپنے افکار و خیالات کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش میں مگن رہتا ہے۔ دل و دماغ کی تمام تاریں ہلا ہلا کر فلاح انسانیت کے لیے اپنا کنٹریبیوشن دیتا ہے۔ یہ لمحات خاموشی، سکوت اور طمانیت کے ہوتے ہیں، مگر ان میں دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی باتیں ہوتی ہیں جو روح تک کو تڑپا دیتی ہیں۔ قلمکار کا یہ وقت کالم نگاری، تحقیق اور لیکچر کی تیاری، شاعری، افسانے، یا مضمون نویسی کے لیے مختص ہوتا ہے، جہاں وہ اپنے خیالات کو آزادانہ پرواز کرنے دیتا ہے۔ آئیڈیاز کو جنریٹ کرتا ہے۔

مگر اسی دن کے دوسرے حصے میں، وہی قلمکار اپنے باغیچے میں جاتا ہے۔ درختوں کی شاخ تراشی کرتا ہے۔ پانی کی باری پر فصل اور ننھے پودوں کو پانی دیتاہے۔ مٹی اور گوبر گوند کر پھولدار اور پھولدار درختوں کے جڑوں میں پیوست کرتا ہے۔کیاریوں کی نگہداشت کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ مٹی سے بھر جاتے ہیں، اسی گوندھی ہوئی مٹی سے اس قلم کار کو خوشبو آتی ہے اور محنت کی اس خوشبو میں ڈوب جاتا ہے۔ اور پھر مکان کے تعمیراتی کاموں میں جب جُت جاتا ہے تو پسینہ اس کے ماتھے پر چمکنے لگتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، ایک رومان ہے ایک عشق ہے۔ اور وہ اس محنت کو دل سے قبول کرتا ہے۔ یہ کام جسمانی ہے، مگر اس میں بھی ایک قسم کی رومانیت ہوتی ہے، جب وہ اپنی محنت سے زمین کو زندہ کرتا ہے اور مکان کھڑا کرنے لگتا ہے۔ ایسے میں ہر چیز اسے محبت کا مجسمہ لگتی ہے۔

یہ عملی تضاد قلمکار کی زندگی کا خوبصورت حصہ ہے۔ وہ کاغذ پر محبت بھرے الفاظ بھی لکھتا ہے، موبائل اور لیپ ٹاپ کی سکرین پر لمبے لمبے مضامین بھی جوڑتا ہے اور اپنے باغ میں محبت کے ساتھ پودے بھی اگاتا ہے اور تعمیراتی کاموں میں مِستری اور مزدوروں کیساتھ برابر کام بھی کرتا ہے ۔ وہ کتابوں کی دنیا میں بھی جیتا ہے اور حقیقی دنیا کی مٹی میں بھی۔ یہ دونوں دنیائیں اس کے لیے یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔ اور دونوں سے یکساں مانوس ہوتا ہے۔

ایسی زندگی میں رومان اور محبت کی گنجائش ہمیشہ ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر لکھتا ہے، تو وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے لکھتا ہے۔ اور جب وہ باہر جا کر کام کرتا ہے، تو وہ اپنی محنت میں محبت کی توانائی اور طاقت دیکھتا ہے۔

ہمارے سماج میں ایسے لوگ کم ہیں۔ ہمیں نوکری مل جائے تو کام کو عار سمجھتے ہیں۔ پسیہ مل جائے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ تاہم اپنی پروفیشنل زندگی کے ساتھ دیگر کاموں میں محنت کرنا عظمت کی بات ہے۔ قدیم زمانے کے اہل علم ایسا ہی کرتے تھے۔ سینکڑوں مثالیں دستیاب ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ محنت کی عظمت صرف قلم کاغذ پر نہیں، بلکہ ہر اس کام میں ہے جو ہم محبت اور عزم کے ساتھ کرتے ہیں۔ چاہے وہ لکھائی ہو یا محنت، ہر کام کا اپنا حسن ہے، اور یہ حسن ان ہاتھوں سے نکلتا ہے جو دل سے کام کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ کے لیے امر ہوتے ہیں۔

وہ افراد جو قلم کاری کے ساتھ ساتھ مشقت بھرے کام بھی کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں طاقت اور محنت کی عظمت ہوتی ہے۔ یہ ہاتھ کاغذ پر خیالات کو زندہ کرتے ہیں، اور ساتھ ہی یہ بھاری بھرکم کاموں کو انجام دیتے ہیں۔

روز مرہ کے معمولات میں، قلم کار کی انگلیاں کاغذ پر رقص کرتی ہیں، قلم کار لکھتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، اور خیالات کو ترتیب دیتے ہیں۔ مگر جب وہ دفتر یا دارالتصنیف سے باہر نکلتے ہیں، تو وہی ہاتھ کسی مکان کی تعمیر میں، باغبانی میں، یا کسی گاڑی کی مرمت میں مگن ہوتے ہیں۔ یہ تنوع ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ اور یہ کیا خوب زندگی ہے۔

یہ افراد جو علم کے ساتھ ساتھ محنت میں بھی ماہر ہیں، معاشرے کے لئے ایک منفرد کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں لکھائی اور مشقت دونوں کا توازن ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ علم کی طاقت ہے، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عملی کام کی قدر اور اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ وہ ہر حال میں الکاسب حبیب اللہ کا عملی مصداق بن جاتے ہیں۔ و عملوا الصالحات کی تفسیر ان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ کما کر کھانے میں کتنی عظمت ہے نا۔

ان افراد کی کہانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ محنت اور مطالعہ دونوں ہی اہم ہیں۔ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ زندگی میں توازن لانا ممکن ہے، اور ہم اپنے ہاتھوں سے جو بھی کام کریں، اس میں عظمت ہے۔ چاہے وہ علم کی دنیا میں ہو یا محنت کے میدان میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے میں ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں، جہاں علم اور عمل کا ملاپ ہوتا ہے۔ ان کی محنت اور علم کی عظمت کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے۔ ان سے انسپریشن لینا چاہیے۔

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply