جماعت اسلامی تبدیلی کے راستے پر/محمد اسد شاہ

ٹی وی پہ رات 9 بجے کی خبروں میں ایک بیان نشر ہوا؛ ” پی ڈی ایم جماعتیں چلتی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگیں۔ وفاقی حکومت فارم 47 سے بنی ہے، ہم اس کو تسلیم نہیں کر سکتے” ۔ شاید آپ سوچیں کہ یہ الفاظ پی ٹی آئی کے دوسرے درجے کے کسی شوخے لیڈر کے ہیں جو عمران خان یا بشریٰ کی خوشامد کر کے آگے آنے کے چکر میں ہے۔ لیکن درحقیقت یہ بیان ان حافظ نعیم الرحمٰن صاحب کا ہے جو جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر ہیں ۔ مذکورہ بالا بیان میں کہیں آپ کو سید ابوالاعلیٰ مودودی سے سید منور حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ تک کے لہجے اور مزاج کی چاشنی نہیں ملے گی۔ ٹی وی سکرین پر حافظ صاحب کی متحرک تصویر بھی نظر آئی۔ شکل و صورت اور لباس میں بھی سید ابوالاعلیٰ مودودی سے سید منور حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ تک کسی کے ساتھ کوئی مماثلت نہیں تھی۔ جو لوگ جماعت اسلامی کی روایات سے واقف ہیں، وہ ان الفاظ کو سن کر جان لیں گے کہ اب جماعت اسلامی، اس کی اجتماعی سوچ اور روایات سب کچھ بدل چکا ہے۔

میں ذاتی طور پر سکول کے دور سے جماعت اسلامی کے حوالے سے پسندیدگی کے جذبات رکھتا ہوں ۔ بچوں کے لیے ماہانہ شائع ہونے والے تین رسالے، “پیغام” ، “پھول” اور “تعلیم و تربیت” مستقلاً میرے مطالعہ میں رہتے تھے۔ “پیغام” اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔ اور اس کے ذریعے جہاں بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت ہوتی تھی ، وہیں جماعت اسلامی کے متعلق بھی ان کے اذہان میں بہت دل کش تصویر بنتی تھی۔ کالج کے ایام میں، میں نے چار طلبہ تنظیموں کو بہت متحرک پایا؛ اسلامی جمعیت طلبہ ، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن (نواز شریف گروپ)، جمعیت طلبائے اسلام (مولانا فضل الرحمٰن گروپ) اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن۔

میں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں صرف اسلامی جمعیت طلبہ کو ہی “جوش و خروش” سے کام کرتے دیکھا۔ کسی اور تنظیم کو یہ لوگ یونیورسٹی میں کام کرنے دیتے ہی نہیں تھے۔ ان دنوں مجھے جمعیت کے کئی پروگراموں میں شرکت کا بھی موقع ملا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور پھر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں تعلیم کے دوران قرآن مجید کی تفاسیر، تقابلِ ادیان، فقہ ، قدیم و جدید انگریزی ادب، اردو ادب، تاریخ اسلام، تاریخ برصغیر اور کسی حد تک تاریخ برطانیہ کے علاوہ جماعت اسلامی سمیت مختلف مذہبی جماعتوں کا لٹریچر بھی تفصیل سے پڑھنے کا مواقع ملا۔ تفہیم القرآن سمیت سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کئی کتب کا مطالعہ اس دور میں کیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، قاضی حسین احمد مرحوم، انجینئر مختار حسین فاروقی مرحوم، پیر ذوالفقار احمد نقشبندی اور طارق جمیل کے بیانات سامنے یا ساتھ بیٹھ کے بھی سنے اور کتب بھی پڑھیں، ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت مختلف علماء و مفکرین کے بیانات ٹی وی پر سنے، اور رائے ونڈ کی اجتماع گاہ میں بیٹھ کر تبلیغی بیانات بھی سنے۔ علمی و سیاسی لحاظ سے چند بڑی شخصیات کے ساتھ محبت و عقیدت کا تعلق بھی قائم ہوا۔ تب ایک بار ماہ رمضان میں اعتکاف کے دوران جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے ایک بزرگ رکن مسجد میں خاص طور پر مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور مودودی صاحب کی دو کتب تحفہ میں دیں۔ میں نے اعتکاف کے دوران ہی ان کا مطالعہ کیا۔ ان کا اثر آج بھی میں اپنے دل و دماغ میں محسوس کرتا ہوں۔ بعد میں بعض احباب کی طرف سے ایک عرصہ تک مجھ پر بہت محبت بھرا دباؤ رہا کہ میں جماعت میں باقاعدہ شمولیت اختیار کروں۔ اس دباؤ کے زیر اثر میں نے جماعت کے تاسیسی لٹریچر، منشور اور جماعت کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا اور پھر بعض اہل علم سے طویل مشاورت کے بعد، جماعت اسلامی کے متعلق پسندیدگی کے باوجود باقاعدہ شمولیت سے معذرت کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج تک میں نے کسی سیاسی یا مذہبی جماعت میں باقاعدہ شمولیت اختیار نہیں کی۔

یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی تعلیمات اور روایات کچھ نا  کچھ میرے علم میں ہیں۔ اسی وجہ سے میں جماعت اسلامی میں تیزی کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ اور تجزیہ کر سکتا ہوں۔

سراج الحق دور سے جماعت اسلامی کی روایات میں تین نہایت بنیادی اور معنی خیز تبدیلیاں نافذ کی گئی ہیں جنھیں مرکزی شوریٰ سے عام گلی محلے کے کارکن تک سب نے دل سے قبول کر لیا ہے :

1- جماعت اسلامی کے اشتہارات، پمفلٹس اور کتابچوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تصاویر، اور اجتماعات میں مودودی صاحب کی محبت کے نعرے مکمل طور پر غائب کر دیئے گئے ہیں۔ 2010 کے بعد جماعت کے امیدواران کے انتخابی اشتہارات پر ملک بھر میں سراج الحق اور کراچی میں نعیم الرحمٰن وغیرہ کی تصاویر تو لازمی نظر آئیں، لیکن مودودی صاحب کو انتخابی مہم سے مکمل غائب کر دیا گیا ہے۔

2-جماعت اسلامی ایک طے شدہ پالیسی کے تحت بہت سبک رفتاری کے ساتھ اپنے بنیادی تشخص یعنی دینی جماعتوں، جید علمائے کرام اور امت کا درد رکھنے والے دینی مفکرین و مقررین سے عمداً فاصلہ بڑھاتے ہوئے لاتعلق ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بجائے گزشتہ 10 سالوں سے جماعت کا بہت جذباتی اتحاد اور “قلبی رجحان” ایک سراسر لبرل جماعت کی طرف ہے، جس کے مخلوط جلسوں میں سر عام نوجوان لڑکیوں کا ناچ گانا عام ہے، جس کے بعض اہم ترین مرکزی راہ نماؤں کی شہرت پینے پلانے اور بلیک لیبل وغیرہ سے متعلق ہے، اور جس کے بانی لیڈر نے 2019 میں ایک عوامی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ڈاڑھی والے لوگوں کو ، نعوذ باللّٰہ ، بے ایمان قرار دیا۔ عمومی پروپیگنڈے کے برعکس مذکورہ جماعت میں کرپشن، لوٹ مار، بددیانتی اور نااہلی سمیت وہ تمام خرافات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، جن کا الزام وہ دوسروں پر لگاتی ہے۔ لیکن جماعت اسلامی اس پارٹی کے عشق میں سالہا سال سے مست ہے۔

3- سید ابوالاعلیٰ مودودی سے سید منور حسن تک جماعت کے ہر امیر کے سر پر قراقلی ٹوپی ہوا کرتی تھی اور چہرے پر بھرپور شرعی ڈاڑھی ہوا کرتی تھی۔ ڈاڑھی کے حجم کے متعلق مودودی صاحب نے جو الفاظ لکھے، اس سے ہٹ کر خود ان کی اپنے چہرے پر بھرپور ڈاڑھی تھی اور ویسی ہی ڈاڑھی میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن کے چہروں پر بھی رہی۔ سراج الحق نے چہرے پر ڈاڑھی تو سجائی، لیکن سر پر قراقلی ٹوپی کی بجائے ایک مختلف قسم کی ٹوپی ٹیڑھے انداز میں رکھنے کا نیا طریقہ مستقل اختیار کیا۔ اور اب تو جماعت اسلامی نے حافظ نعیم الرحمٰن کو مرکزی امیر منتخب کر لیا ہے جو ٹوپی یا عمامہ سے مکمل بے نیاز ہیں اور جن کی ڈاڑھی بھی بس ایسی ہے، جیسے ہفتہ بھر شیو نہ کر سکنے سے ہو جاتی ہے۔ کم از کم سید مودودی سے سید منور حسن رحمۃ اللّٰہ علیہ تک جماعت کے کسی امیر نے کبھی اس تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔

کالم کے آغاز میں حافظ صاحب کا جو بیان مذکور ہے وہ اس سطحی پن کا اظہار ہے جو اب جماعت میں غلبہ پا رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ “چلتی حکومت گرانے پر قوم سے معافی مانگی جائے”۔ یعنی کیا کبھی کوئی سوئی حکومت بھی گرائی جاتی ہے؟ پہلی بات یہ کہ ہر حکومت جیسی بھی ہو، اپنے گرائے جانے کے وقت کسی نہ کسی رفتار میں چل ہی رہی ہوتی ہے۔ تو کیا جماعت اسلامی کی خواہش یہ تھی کہ عمران کی حکومت تاقیامت قائم رکھی جاتی؟ میاں محمد نواز شریف صاحب کی حکومتیں تین مرتبہ چلتی اور شان دار کام کرتی حالت میں غیر آئینی طریقوں سے گرائی گئیں۔ بے نظیر بھٹو کی حکومتیں دو مرتبہ چلتی گرائی گئیں اور غیر آئینی راستوں سے گرائی گئیں۔ کیا جماعت اسلامی نے کبھی “ان” گرانے والوں سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ قوم سے معافیاں مانگیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد برطانیہ اور بھارت سے لے کر امریکہ اور پاکستان تک تمام ممالک میں کسی حکومت کو بدلنے کا جائز اور قانونی راستہ ہے۔ اس پر معافی کیوں مانگی جائے؟ اگر تحریک عدم اعتماد پیش کرنا جرم یا گناہ ہے تو یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو کی چلتی حکومت کو گرانے کے لیے ناکام تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ کیا جماعت اسلامی نے قوم سے معافی مانگی؟ تیسری بات یہ کہ معافی قوم سے کیوں مانگی جائے؟ کیا عمران صاحب کی حکومت “قوم” نے بنائی تھی؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میری خواہش ہے کہ جماعت اسلامی اپنے اصل عظیم مقصد کی طرف لوٹے، اپنی شناخت اور پہچان دوبارہ قائم کرے، اس کے امیر کے الفاظ میں سطحی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ والی ڈرامے بازی کی بجائے سید ابوالاعلیٰ مودودی، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن والی گہرائی اور دلیل ہو جو مخالفین کو مبہوت و لاجواب کر دے !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply