مجنون کا دماغ سائنس کی نظر سے/عبدالسلام

عشق و محبت، دیوانگی اور فریفتگی انسانی فطرت کا وہ مظہر ہے جس پر اکثر ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ ہم انسانوں میں کیوں یہ جذبہ موجود ہے۔ مختلف تہذبیوں میں عشق و محبت کی داستانیں رہی ہیں، بھلے ان میں کافی مبالغہ بھی  رہا ہو۔ اگرچہ ایسے واقعات بالکل ہی عام نہیں ہیں لیکن عمومی طور پر ان کہانیوں نے انسانوں کے ذہن کو ہمیشہ متاثر کیا اور اسی وجہ سے انسانی تاریخ کے لٹریچر اور فلموں میں ایسی کہانیوں کا خاص مقام ہے۔ کوئی تو بات ہے کہ ہم انسان ان کہانیوں میں ایک کشش محسوس کرتے ہیں۔ بات صرف کہانیوں کی حد تک نہیں ہے بلکہ ہمیں کبھی کبھی اس قسم کے حقیقی واقعات بھی نظر آتے ہیں۔

تو چلیے علم و سائنس کی مشعل کو لیتے ہیں اور عاشق کے دماغ کی سیر کرتے ہیں۔ عشق سے متعلق اب تک ہمیں یہ کچھ معلوم ہوا ہے۔ نیچے دس پوائنٹ دیے گئے ہیں۔ یہاں بڑے بڑے عاشقوں کی پول کھلنے والی ہے۔

۱۔ انسان کے اندر جبلی طور پر صنف مخالف سے کشش  محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ انسان کے اعصابی نظام کی ساخت ہے ۔ اس میں دماغ کی ساخت  اور انسانی جسم میں خارج ہونے والے ہارمونز جیسے ڈوپامین اور آکسیٹاسین اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اور ان میں ممکنہ طور پر جنسی ہارمونز جیسے Testosterone اور Estrogen بھی شامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر محبت کی سائنسی تشریح کرتے ہوئے انہی کا ذکر ہوتا ہے،لیکن معاملہ اس سے بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کونسی  وجوہات، محرکات اور مواقع ہیں جب یہ ہارمونز فعال ہو کر انسان کو عاشق بناتے ہیں۔ ہم اس بات کو اگلے نکات میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

۲۔ عمر کے ایک خاص مرحلے میں انسان اپنے آپ کو ذاتی اور معاشرتی سطح پر منوانا چاہتا ہے۔ یعنی اسے خود کو اور دوسروں کو اپنی اہمیت اور مقصد ِوجود کو جتانا ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے۔ اس معاملے میں فطری طور پر ایک صنف مخالف سے تعلق اور اس کی طرف سے حاصل کردہ عزت (Admiration) اور محبت انسان کی اس نفسیاتی حِس کو تسکین دیتی ہے۔ اس قسم کی bonding یا بندھن کے بغیر معاشرے کا رُکن بن کر رہنا انسان کے لئے مشکل ہے۔ شاید اس کے بغیر انسانی معاشرے کا ارتقاء نہیں ہو پاتا۔

۳۔ معاشرے کے رواج کے مطابق ایک مرد اور عورت مل کر خاندان بناتے ہیں، ان کے بچے ہوتے ہیں اور ماں باپ بچوں کی دیکھ بھال کر کے انہیں اس قابل بناتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر اپنا خاندان بنائیں اور اس طرح نسلیں آگے چلتی رہتی ہیں۔ انسانی فطرت میں بقا کی جدوجہد فطری طور پر موجود ہے۔ اس وجہ سے انسان اپنی اولاد ہونے اور ان کی اولاد ہونے کے تسلسل میں اپنی بقا دیکھتا ہے۔ کیونکہ اسے تو پتہ ہے کہ ایک دن اس کو اس دنیا سے ختم ہونا ہے اس لئے اولاد کے تسلسل میں اسے اپنی بقا کی حس کی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے فطری طور پر اپنی جوانی کے دور میں ہر ایک انسان ایک جوڑے کی طلب رکھتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنی فنا کو بقا میں بدل سکے۔

۴۔ انسانی دماغ کے اندر ایک جمالیاتی حِس ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کچھ محسوسات سے خوشی اور فرحت محسوس کرتا ہے اور اس کی طرف کھنچا جاتا ہے۔ جمالیاتی حس انسانی دماغ کی ایک انتہائی دلچسپ خصوصیت ہے۔ اس بارے میں بنیادی اور سادہ سی بات یہ ہے کہ جن چیزوں سے انسان کی بقا ممکن ہے وہ چیز انسان کو خوبصورت اور پپرکشش محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ ہمیں کچھ چیزیں یونہی پُرکشش محسوس ہوتی ہیں اور ہمارے پاس ان کی کوئی مضبوط سائنسی توجیہہ نہیں۔ مثلا ً ہمیں میٹھی چیزیں اچھی لگتی ہیں کیونکہ ان میں کاربوہائڈریٹس ہوتے ہیں جو کہ انسان کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسی چیزیں بھی ہمیں میٹھی محسوس ہوتی ہیں جن میں کاربوہائڈریٹ نہیں ہوتے اور ان کا انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، مثلا سٹیویا کے پتے۔ اسی طرح ڈوبتے ہوئے سورج کا منظر اچھا لگنا، موسیقی کا اچھا لگنا، جھرنوں کی آواز کا اچھا لگنا کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی تشریح بقا کی تھیوری کے مطابق نہیں ہو سکتی۔ ممکن ہے کہ انسانی دماغ کی پیچیدگی کے پیش نظر یہ خصوصیات اتفاقاً موجود ہوں۔ اسی طرح مرد اور عورت کی طرف کشش ہونا ایک فطری بات ہے کیونکہ اس کشش کے بغیر نسل کی بقا مشکل ہے۔ لیکن مردوں کو کچھ عورتیں زیادہ خوبصورت لگتی ہیں اور کچھ کم خوبصورت لگتی ہیں۔ اب اس کی سائنسی توجیہہ مشکل ہے اس کی مزید وضاحت اگلے پوائنٹ پر آئے گی۔

۵۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مخصوص صنف مخالف کے ساتھ ہی کیوں بہت زیادہ وابستگی ہوتی ہے۔ اس کا سائنسی جواب مشکل ہے کیونکہ نسل کی بقا میں ایک کم خوبصورت لگنے والی عورت بھی اسی طرح مفید ہے جس طرح زیادہ خوبصورت لگنے والی عورت۔ ایک عاشق کے دماغ میں ایسا کوئی اتفاق پیدا ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے کوئی صنف مخالف کا فرد اس کو کچھ زیادہ ہی حسین لگنے لگے۔ پسند اور ناپسند کے معاملے میں ہر انسان  کی اپنی ذہنی ساخت ہوتی ہے اور ہم طے کر کے نہیں کہہ سکتے کہ کب ہمیں کون پسند آسکتا ہے۔ اور پھر جب کسی سے پہلی بار ملتے ہیں تو اس وقت اس کی اپنی ذہنی کیفیت کیا تھی، یا پھر کسی سے کتنی ملاقات ہوئی اور اُنسیت کے کتنے امکانات پیدا ہوئے، جنسی اور محبت کے جذبات کو کنڑول کرنے والے ہارمونز کتنی مقدار میں خون میں موجود تھے، پہلا ردعمل کس قسم کا آیا، یہ بہت سارے فیکٹر مل کر  ایک ایسا اچھا یا بُرا اتفاق پیدا کرتے ہیں جب صنف مخالف کے کسی ممبر کے ساتھ دیوانگی کی حد تک وابستگی پیدا ہو جاتی ہے۔

۶۔ عام طور پر جانداروں کے نر میں ایک خصوصیت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ ماداؤں پر مکمل قبضہ جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ “قبضے” کی کیفیت عین mating یا جنسی عمل کے وقت تو ہوتی ہے لیکن عام حالات میں بھی Possessiveness یا غیرت یا رقابت کی شکل میں یہ کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک جبلی جذبہ بھی ہے اور اس کے لئے کچھ ہارمونز ذمہ دار ہیں جیسے کہ Vasopressin اور Testosterone۔ خیال رہے کہ جبلی جذبے کی تحت پیدا ہونے والی بعض خصوصیات ترقی کر کے انسانی شعور میں سرایت کر کے نظریے کی شکل  میں بھی ڈھل سکتی ہیں۔ یہ جذبہ عاشق کے دماغ میں پائے والے جذبہ رقابت کی تشریح کرتا ہے۔ اگرچہ یہاں پر اس کو مردانہ خصوصیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ خصوصیات کے معاملے میں جانداروں کے نر اور مادہ میں بڑا واضح فرق ہو۔ عورتوں کے جسم میں بھی Vasopressin ہارمونز ہوتے ہیں، ان میں Testosteroneکم مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ Oxytocin کے ساتھ مل کر عورتوں میں بھی رقابت اور جلن کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔

اس کے نتیجے میں ایک عاشق کے اندر جارحانہ پن بھی پیدا ہوسکتا ہے اور مظلومیت اور بے بسی کی کیفیت بھی۔ پوائنٹ نمبر ۸ میں اس کی مزید تشریح آئے گی۔

۷۔ جن انسانوں میں اوپر بیان کی گئی خصوصیات زیادہ طاقتور ہوں، وہ اپنی نسلیں بڑھانے میں زیادہ کامیاب ہوئے۔ کیونکہ اولاد انہی کو ہوئی۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی بقا کی یہ خصوصیات اگلی نسلوں میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جن کے اندر یہ خصوصیت نہ رہی وہ اپنی نسل بڑھانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یعنی محبت اور فریفتگی کا نہ ہونے کا ایک نتیجہ نسل کا خاتمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو نسل آج بچی ہے ان میں محبت اور فریفتگی کی خصوصیات موجود ہیں۔

۸۔ جیسا کہ پہلے واضح ہوچکا کہ انسان فطری طور پر اپنے ماحول سے اپنی توثیق، وقار یا validation کا طلبگار ہوتا ہے۔ جب کوئی انسان کسی کی محبت کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں شدید خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے کی طرف بھی ایسی ہی آگ لگے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو انسان کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اس کے دماغ میں مسلسل یہی خواہش طاری رہتی ہے۔ اس میں اس کے دماغ پر اَنا، ناقدری، غصہ، مایوسی، بے بسی، جارحیت، لا پرواہی، لاتعلقی وغیرہ جیسے جذبات حاوی ہوسکتے ہیں۔ نتیجہ میں ایک شخص دیوداس بن  سکتا ہے۔ اس طرح ایک عاشق بھلے اپنی خوبیوں سے کسی کو متاثر نہ کرسکے لیکن اپنے  جذبے کی شدت سے اس کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا پھر کم از کم اپنے اسی شدتِ اظہار سے اپنے ماحول کو متاثر کر کے کسی طرح اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانی فطرت کی ایک خصوصیت ہوتی ہے جسے obsession یا خبط کہتے ہیں۔ یہ کیفیت نیورو ٹرانسمیٹر میں پیدا ہونے والی کمی بیشی کی صورت میں زیادہ ہوتی ہے۔ جب کسی انسان کو یہ لگنے لگے کہ اس کے جذبے کی قدر نہیں ہو رہی ہے، اس کو وقار یا validation نہیں مل رہی ہے اور جو اس کی سب سے محبوب ہستی ہے وہ اس کے پاس نہیں بلکہ کسی اور کے قریب ہے تو پھر obsession کی وجہ سے یہ کیفیت مزید بگاڑ اور اشتعال کے ساتھ ظاہر ہوسکتی ہے۔

۹۔ جب انسان کسی ایسے شخص کے سامنے ہو جس سے وہ شدید محبت کرتا ہو تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ شخص بھی اس سے متاثر ہو کر اس سے اتنی ہی محبت کرے۔ ایسے شخص سے سامنا ہونے کی صورت میں انسان کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور سانسیں تیز چلنے لگتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا دماغ اس کو زیادہ سے زیادہ توانائی فراہم کر کے اس کی حاضر دماغی اور اٹنشن کو بڑھا دیتا ہے۔ ایک عاشق اپنے جسم میں ہونے والی اس تبدیلی کو شدت سے محسوس کرتا ہے اور اس کو پختہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہ پاگلوں کی طرح اس سے عشق کرتا ہے۔ یہ جسمانی تبدیلی دماغی احساس میں مزید شدت پیدا کرتی ہے۔ اور دماغ میں پیدا شدہ احساس جسمانی تبدیلی کو مزید متحرک کرتا ہے۔

۱۰۔ عشق کی کامیابی سے عشق کا باب ختم ہو جاتا ہے اور ہمارے سامنے ناکامی کی مثالیں زندہ رہتی ہیں۔ اس وجہ سے معاشرے میں عاشق کا ایک دوسرا ہی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ہم عشق کی کامیابی کو اتنا یاد نہیں رکھتے جتنا عشق کی ناکامی کو یاد رکھتے ہیں۔ ایک کامیاب عاشق کامیابی کے  بعد ایک ایسے راستے چل نکلتا ہے جہاں پر اسے اپنے کرئیر اور خاندان بنانے جیسے دوسرے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں عشق کی یہ داستان ختم ہو جاتی ہے۔ البتہ ناکام عاشق کی داستان زیادہ واضح رہتی ہے۔ چونکہ اکثر انسانوں میں محرومیت کا احساس زیادہ رہتا ہے اس لئے اکثر انسان اپنے آپ کو ناکام عاشق کے ساتھ زیادہ متعلق محسوس کرتے ہیں۔

تو قارئین، یہ ہوئی عاشق کے دماغ کی سیر۔ ان سب اجزاء کو ملا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں انسانوں میں عاشق پائے جاتے ہیں۔

پوری تحریر عاشق کو مرد تصور کر کے لکھی گئی ہے اگرچہ کچھ معاملات میں ایک عورت بھی اسی طرح عاشق ہو سکتی ہے شاید اس کا شدت اظہار اتنا نہ ہو۔ یہاں پر یہ سوال ضروری پیدا ہوتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ دیوانگی کم کیوں پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت میں کامیابی کی صورت میں اس محبت کی قیمت عورتوں کو جسمانی طور پر زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ کافی مہنگی قیمت ہے۔ ظاہر بات ہے کہ کامیابی کے بعد فیملی تو بنانی پڑتی ہے۔ بچے کو نو ماہ پیٹ میں رکھنا، پھر اسے جننا، دودھ پلانا اور مسلسل اس کی صحت کا خیال رکھنا ایک مشکل کام ہے اور اس سلسلے میں جو جذباتی وابستگی وغیرہ ہوتی ہے وہ عورت کے لئے کافی مشکل کام ہے۔ اگرچہ اس کا بوجھ مرد پر بھی پڑتا ہے لیکن یہ بوجھ عورت کے مقابلے میں کم پڑتا ہے۔ اور اگر مرد ناکارہ نکل آئے تو عورت کے لئے بہت ہی سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے ان معاملوں میں عورتوں میں دیوانگی کے بجائے احتیاط پائی جاتی ہے اور وہ فطری طور پر یہ کوشش کرتی ہے کہ مرد ایسا ہو جو صرف محبت اور دیوانگی نہ دکھائے بلکہ بچوں اور خاندان کی ذمہ داری بھی سنبھال سکے۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کچھ استثناء نکل آئے۔

مختصراً یہ کہ جنس مخالف میں محبت کا جذبہ کافی پیچیدہ ہے اور یہ بہت سارے جسمانی، نفسیاتی اور جینیاتی اجزاء کے تعامل سے پیدا ہوتا ہے۔ اوپر جو کچھ کہا گیا وہ ایک پیچیدہ قدرتی مظہر کو سادہ انداز میں بیان کرنے کی ایک کوشش ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاتے جاتے علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آیا۔
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
کیا خیال ہے اگر آج علامہ زندہ ہوتے تو یہ شعر کہتے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply