کیا پینتیس سالہ خاتون کا رشتہ صرف اس بنیاد پہ ٹھکرا دینا چاہیے کہ بچہ ابنارمل پیدا ہو گا ؟؟
ہم انسانوں کی جسمانی ساخت ایسی ہے کہ ہمارے جسم کے سیلز پہلے بڑھتے ہیں، پھولتے ہیں، مضبوط ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک نارمل سائیکل ہے، جو ہر کسی کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ایسے میں انسان کا مضبوط ترین جسمانی دور عموماً بیس سے چالیس سال کا ہوتا ہے۔ کوئی بھی جسمانی عمل اس دور میں زیادہ بہتر طریقے سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔
خواتین کے لیے ماں بننے کا بہترین دور بھی یہی ہے۔ اس دور میں بھی شروع کے دس سال قدرے زیادہ بہتر ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ شروع کے دس سال کے علاوہ ماں بننا انتہائی خطرناک ہوتا ہو یا اس عمر کی خاتون سے شادی کرنے پہ بچوں میں بیماری ہونے کا قوی امکان ہو۔
یہ مسئلہ کہ کیا پینتیس سال کی عمر کے بعد خواتین کی طرف بچے کا پیدا ہونا خطرناک ہوتا ہے، یا ایسے بچے کا ابنارمل ہونا یقینی ہوتا ہے، ہم اس کو ڈسکس کرتے ہیں۔
پہلے آپ بچے کے ابنارمل ہونے کو سمجھ لیں۔ عموماً بچے میں دو طرح کی جینیاتی خرابی آ سکتی ہیں۔
* ایک وہ جو کروموسوم سے متعلقہ ہوتی ہے، جیسے کہ
* Down Syndrome (21)
* Edward Syndrome (18)
* Patau Syndrome (13)
یہ تین بیماریاں مثال کے لیے لکھی ہیں، ورنہ ایسی ہی مزید کروموسوم کی خرابیاں بھی ہوتی ہیں۔ بیماری کے آگے اس کروموسوم کا نمبر لکھا ہے جس میں مسئلہ بننے سے یہ بیماری ہوتی ہے۔
* دوسری وہ ہیں جو کروموسوم سے متعلقہ نہیں ہیں، جیسے کہ
* Structural defects (CHD’s, NTD’s etc.)
* Genetic disorders (Cystic fibrosis, Sickle cell etc.)
* Metabolic disorders (Galactosemia, PKU etc)
* Environmental (Nutritional, Teratogenic exposure etc.)
بچوں میں پیدائشی طور پہ یہ دو طرح کے مسائل ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے جو کروموسوم میں ہونے والی بیماریاں ہیں۔ بڑی عمر کی خواتین میں پیدا ہوتے بچوں میں یہ بیماریاں ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
جب کہ وہ بیماریاں جو کروموسوم سے متعلقہ نہیں ہیں، اکثر ریسرچرز کے مطابق ان کے امکانات نہیں بڑھتے۔ عموماً پچیس سال اور پینتیس سال کی خاتون کی طرف ہونے والے بچے میں کروموسوم سے غیر متعلقہ بیماری ہونے کے امکان ایک جتنے ہی ہوتے ہیں۔
ایک طرح کی بیماریاں زیادہ ہونے کا امکان تو ختم ہو گیا، اب آتے ہیں واپس کروموسوم کی بیماریوں کی طرف کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔ ہم مثال کے لیے بات کرتے ہوئے ڈاؤن سنڈروم کی۔
ایک پچیس سال کی خاتون کی طرف بچہ پیدا ہو تو اس بچے کے ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہونے کے امکان تقریباً ہزار میں سے ایک ہیں۔ یعنی ایک ہزار خواتین میں ایک بچہ ایسا پیدا ہو سکتا ہے۔
اگر خاتون پینتیس سال کی ہو تو تقریباً ساڑھے تین سو بچوں میں سے ایک بچے میں یہ بیماری ہونے کے امکان ہیں۔ یعنی امکان بڑھ ضرور جاتے ہیں لیکن ابھی بھی ساڑھے تین سو میں سے صرف ایک خاتون کی طرف ایسا بچہ پیدا ہو سکتا ہے، باقی سب یعنی تین سو انچاس خواتین کی طرف ایسا بچہ پیدا نہیں ہو گا۔
یہ ایک مثال تھی، اسی طرح باقی کروموسوم کی بیماریاں ہونے کے امکان بھی کچھ بڑھ جاتے ہیں لیکن پھر بھی سینکڑوں خواتین میں سے کسی ایک میں ایسا ہونے کا امکان ہوتا ہے، باقی سب خواتین کی طرف بچے نارمل ہوتے ہیں۔
البتہ اگر خاتون کی عمر چالیس سے بڑھ جائے تو یہی کروموسوم کی بیماری ہونے کے امکان مزید بڑھ جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ کافی قسم کی جینیاتی بیماریوں میں سے صرف کروموسوم کی بیماریوں کے ہونے کے امکان بڑھتے ہیں، باقی سب بیماریوں کے نہیں۔ اور یہ امکان بھی تین چار سو میں سے کوئی ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صرف اس بات پہ کوئی رشتہ نہیں ٹھکرا سکتے، بچے کے پیدا ہونے کو نہیں روک سکتے۔ کیوں کہ اس ایک بدقسمت کے علاوہ باقی سینکڑوں بچے تندرست ہی ہوں گے۔
خلاصہ یہ کہ صرف خاتون کے پینتیس سال کا ہونے کی وجہ سے بچے کے ابنارمل پیدا ہونے کے امکانات اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ رشتہ دیکھتے ہوئے اس بات کو مدنظر رکھا جائے یا پیمانہ بنایا جائے۔
چونکہ میں اس فیلڈ سے ہوں، اور اس بات پہ بہت شور مچا ہوا ہے تو مجھے لگا میری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس موضوع پہ اپنے علم کے مطابق آگہی دینے کی کوشش کروں۔

امید ہے آپ کو اس مسئلے کی کچھ سمجھ آ گئی ہو گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں