تبدیلی یا مشرف باقیات۔۔۔صبور ملک

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو دیکھا تو اک قطرہ خوں بھی نہ نکلا
ہمارے ہاں پوٹھوہاری میں ایک مثال دی جاتی ہے،کہ بکریے دودھ دتا ای اووی مینگڑان نا پریا،مطلب بکری نے دودھ دیا مگر مینگنیوں سے بھرا ہوا،یہ مثا ل مجھے یاد آئی موجودہ سلیکشن شدہ حکومت پر،جس میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے،وہی آزمائے ہو ئے گھر کے بچے جن کے دانت نہیں سال گنا کرتے ہیں،کان پک گئے ہمارے تبدیلی کا نعرہ سنتے سنتے،لیکن جب تبدیلی آئی تو وہی گردش وصبح شام اپنے ہمراہ لائی،عمران خان کی 22سالہ جد وجہد جو کہ یو ٹرن سے بھری ہوئی ہے،اُس سے کسی بہتری کی اُمید ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتی ہے،حقیقت نہیں،اور حکومت میں آنے کے بعد بھی یو ٹرن کی عادت نہیں گئی،گورنر بلوچستان کے معاملے پر یو ٹرن،لانے والے بھی یقینااس اُمید پر لائے ہوں گئے،کہ شاید حکومت ملنے کے بعد عقل آجائے لیکن بچپن سے بگڑی عادت بھلا کب سنورتی ہے۔

اسی کا اظہار چند دن قبل میں نے اپنے کالم میں کیاتھا،کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا،کہتے ہیں کہ ٹیم لیڈر اگر ایماندار اور ارادے کا پکاہو تو اپنے ٹیم کو کامیابی دلا سکتا ہے لیکن معاف کیجیے گا حضور ملک چلانے اور کرکٹ ٹیم چلانے میں بہت فرق ہے،تحریک انصاف کے وہ بانی کارکن اور عمران خان کے دیرینہ ساتھی جو 22سال سے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے تھے آج کہیں دور کونے میں بیٹھے خاموش نگاہوں اور سوالیہ چہروں سے یہ سوچ رہے ہیں،کہ کیا ہماری جدوجہد کا ثمر یہ تھا کہ جن لوگوں کے خلاف ہم نے تحریک کا آغاز کیا وہ آج منزل کے پہلے قدم پر اگلی صفوں میں کھڑے نظر آرہے ہے،عمران خان صاحب ذرا اپنے دائیں بائیں نظر تو دوڑالیں،ق لیگ کے پرویز الہی جسے آپ نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا آج آپ کا نہ صرف اتحادی ہے بلکہ آپ نے اُسی ڈاکو کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بھی بنادیا،اور ایم کیو ایم جس کو قاتل اور بھتہ خور کہتے دن رات آپ کی زبان نہیں تھکتی تھی،جس پر آپ نے مقتولہ زہرہ آپا کے قتل کا الزا م لگایا، وہی ایم کیو ایم آپ کی لانڈری میں دھل کر پاک صاف ہو کر وزارتو ں کے مزے اُٹھائے گی،کل تک جسے آپ اپنا چپڑاسی رکھنا گواراہ نہیں کرتے تھے وہ شخص آج آپ کی کابینہ کا رکن ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں سے اقتدار کے مزے لینے  والا ملتان کا گدی نشین اور مشرف دور میں ضلع ناظم ملتان آج کا وزیر خارجہ ٹھہرا،مشرف دور میں وزیر تعلیم رہنے والی زبیدہ جلال صاحبہ،جن پر توانا پاکستان کا فنڈ خردبرد کرنے کا الزام ہے،مشرف کا آہنی ہاتھ ایم کیو ایم جس کاسب سے بڑا بھیانک اور ہولناک مظاہرہ 12مئی 2007کر اچی میں نظر آیا،مشرف کا سینئر وکیل فروغ نسیم،جونئیر وکیل اور ترجمان فواد چوہدری،مشرف دور کا صوبائی وزیر شفقت محمود،مشرف دور کا ضلع ناظم نوشہرہ پرویز خٹک،جہانگیر ترین،مشرف کا مشیر اقتصادیات عبدالرزاق داؤد،پی پی پی اور بھٹو ازم کا جیالا بابر اعوان،اور خود مشرف کے نام نہاد جعلی اور غیر آئینی ریفررنڈم کے حمایت یافتہ عمران خان صاحب،موجودہ وزیرپٹرولیم خان سرور خان جن کا سیاسی سفر پی پی پی سے شروع ہوا اورمشرف سے ہوتا ہوا تاحال انصا ف لانڈری کے پلیٹ فارم پر قیام پذیر ہے،موصوف سیاسی جماعتیں بدلنے کے ماہر ہیں،دور مشرف میں محنت و افرادی قوت کے وزیر تھے،اور اب وزیر پٹرولیم،یہ تویوں لگتا ہے جیسا وزیر اعظم بدلا ہے کل میر ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز جیسی کٹھ پتلیاں تھیں اور آج عمران خان،باقی منظر وہی ہے،حتی کہ مشرفکے 5نکاتی پروگرام کو ہی قوم سے خطاب کا حصہ بنا دیا گیا۔

عمران خان نے جو قوم سے خطاب کیا اس میں نہ تو ملک کی خارجہ پالیسی کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی ملک کو گزشتہ کئی دہائیوں سے درپیش دہشت گردی پر کوئی بات کی گئی،اور یار لوگ پھر بھی خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں،کہ مدینہ جیسی ریاست بنے گی،کہاں مدینہ کہاں میں کمینہ،تصور کو بھی آتا ہے پسینہ،جو لوگ مشرف اور اس سے پہلے نواز شریف اور بے نظیر کے ساتھ رہ کر کوئی تبدیلی نہیں لا سکے،اُن سے آج کوئی اُمید وفا رکھنا عبث ہے،بس ذرا عمران کی حکومت کی کشتی ڈانواڈول ہونے کی دیر ہے جس کے پورے پورے امکانات ہیں، یہ فصلی بٹیرے اُڑان بھر کر دوسری ڈالی پر جابیٹھیں گئے،صاف چلی شفاف چلی کا نعرہ بظاہر بہت دلفریب لگتا ہے،لیکن یہ صاف چلی شفاف چلی کا نعرہ اس وقت مذاق بن کہ رہ جاتا ہے جب دوسری جماعتوں سے نیب زدہ کرپشن سے لتھڑے لوگ جب تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہیں،تو ان کے سابقہ گناہوں پر گویا ایک پردہ سا ڈال دیا جاتا ہے،مزہ تو تب تھا جب تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا تو بجائے روایتی گھسے پٹے چہروں کے بجائے حقیقتاً صاف ستھرے چہرے سامنے لائے جاتے،تحریک انصاف کے دیرینہ اور نظریاتی کارکنوں کو ان کا جائز مقام دتا جاتا،اور ان کو حصہ بقدر جثہ حکومت میں شامل کیا جاتا نئے چہروں پر مشتمل افراد کو سامنے لایا جاتا تو قوم بھی جان لیتی کہ واقعتاتیدیلی آگئی ہے،لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا اورتبدیلی کے نام پر قوم کو بے وقوف بنا کر اپنا اُلو سیدھا کر لیا گیا،اور اب سادگی کے نام پر مزید ڈرامہ کیا جارہا ہے،کہاں گئے وہ دعوے اور اب صرف ایک ہفتے کی کارکردگی نے یہ عیاں کردیا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والاہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

خارجہ محاذ پر دوناکام ریاستی حربے جن میں وزیر خارجہ کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کے خط کا ذکر جس کا بھارت نے انکار کردیا اورامریکہ کی جانب سے وزیر اعظم کو ٹیلی فون کے مندرجات پر طرفین کی جانب سے دو مخلف بیانات نے تبدیلی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے،قرضہ نہ لینے کی باتیں بھی ایک خواب ثابت ہوئیں،اپوزیشن میں رہ کر سڑکوں پر دعوے کرنا بہت آسان ہے اور اختیار مل جانے کے بعد عملی طور پر اقدامات کرنا ایک بات،یہی وہ نکتہ ہے جو عمران خان سمجھ نہ سکے اور اب جبکہ اُن کو اختیار مل چکا ہے تو گزشتہ 5سال کے دوران کئے گئے دعوؤں کے برعکس لئے جانے والے اقدامات موجودہ حکومت،تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے سیاسی خودکشی ثابت ہو ں گئے،کیونکہ مان لیا عمران خان ایک تبدیلی چاہتے ہیں،لیکن کیا اس کے لئے جو ٹیم انھوں نے منتخب کی ہے وہ اس تبدیلی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تیار اور مخلص ہے؟فی الوقت تو پرانی شراب نئی بوتل میں ڈال کر تبدیلی کا خواب دیکھنا بے وقوفی تو ہو سکتی ہے،عقل مندی نہیں،
بقول اقبال
فلک نے اُ ن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply