عام آدمی کا المیہ (دوسری قسط)

باسم اللہ
گزشتہ میں اسی عنوان سے کچھ باتیں عرض کی تھیں۔
آج وہ باتیں بیان کرنی ہیں جن کا اندازہ لگانا عموما مشکل تر ہوچکا۔
خطیب اور تاریخ دان نے عام آدمی کو کس المیے میں ڈالا اس کا ایک صرف ایک پہلو اور اس کا نقشہ یوں ہے:
سنو اے خطیب ! جب بھی تم کچھ بیان کرتے ہو تو عام آدمی کا المیہ شروع ہوجاتا ہے ۔ وہ تمہاری ہر بات پر سبحان اللہ کہہ کر ایمان لاتا ہے اور اس کے سامنے تم اور صرف تم خدا کا روپ بن جاتے ہو گویا تم اتخاذ ارباب من دون اللہ کی عملی تصویر ہو جو میرے دیس میں عام ہے۔
سنو کہ تمہاری تاریخ دانی جو کہ اصلا تاریک دانی ہے اس نے کیا ظلم ڈھایا ؟ اس نے اللہ کے قرآن کو بہت پیچھے رکھوا دیا یا شاید بہت بلند مقام پر رکھوا دیا اتنا بلند کہ اب اس تک عام آدمی نہیں پہنچ سکتا !!!!
عام آدمی ! کہ جس کی ایک ہی تو ٹیکسٹ بک تھی، ایک ہی نصابی کتاب تھی، جانتے ہو تم نے کیا کیا ؟ تم نے اس سے وہ کتاب چھین لی اس کے بدلے تم نے اسے تاریخ کے تاریک اور بوسیدہ اوراق کا مجموعہ تھمایا۔ وہ بوسیدہ تو تھے ہی ان میں بدبو بھی بہت تھی۔ لیکن تم نے اس بوسیدگی کو لفظوں کے سحر سے تازہ کیا اور بدبو کو نورانی ہیولوں میں چھپا ڈالا۔
پھر بھی تمہیں خطرہ ہوا کہ عام آدمی کہیں کبھی کسی وقت تمہاری اور تمہارے لفظوں کی پوجا چھوڑ بیٹھا تو کہیں قرآن نہ پڑھ لے تو تم نے ایسی باتیں گھڑیں جن سے قران کا وجود مشکوک ٹھہرتا دکھایا گیا اور مزید ستم یہ کہ قرآن کے حفاظ (حفاظت کرنے والوں) ہی کو تم نے محمد ﷺ کا منافق قرار دیا اور پھر اس کے لئے جو کچھ ایجاد چاہی وہ تم نے کی جہاں چاہا حدیث میں ایجاد کی اور تاریخ ، اس میں تو منع ہی کیا ہے کہ وہاں تم کیا کچھ نہ کرتے ۔ لہذا جو چاہا لکھا ۔
پھر کیا ہوا ؟ پھر یہ ہوا کہ تمام تر تورایخ کے مطابق محمد ﷺ ناکام دکھائے گئے، ایسے ناکام کہ وہ جس کام کے لئے بھیجے گئے وہ ہی پورا نہ ہوسکا۔ تاریخ میں تو وہ ایک گروہ اور ایک علاقہ اور ایک بستی بھی ایسی نہ بنا سکے جو ان کی سچی پیرو کار اور قیامت تک کی نسل انسانی کے لئے ہدایتِ اکمل کا بندو بست کرنے والی ہو۔ اکا دکا ہستیاں تم نے جان بوجھ کر بچا لیں لیکن ان سب کو تاریخ کے ایک اور وار میں مقتول قرار دیا۔
آج تاریخ کے یہ اوراق ہی سب کے ایمان کا مستقل حصہ ہیں۔ ساتھ ہی دعوی بھی جاری رہا کہ دین مکمل شکل میں ہم تک آیا لیکن تم جو کچھ بھی کہو دین ہم تک، تمہاری تاریخ کے مطابق نہیں پہنچ سکا۔ چناچہ ایک تاثر تاریخ کا یہ ملا کہ محمد ﷺ اپنے مشن میں بالکل ناکام ہیں۔
پھر ایک دن ، ایک عام آدمی ، تمہاری بات کے سحر سے نہ جانے کسے نکل آیا شاید اللہ نے کوئ شرارت ہی کی ہو گی یا منتر پڑھا ہوگا تو سحر ٹوٹا ہو گا ورنہ تم تو ہمیشہ سچے تھے۔
تمہارے جیسے خطیب یہود کے پاس تھے کہ جو کہتے تھے کہ جبریل ہمارا دشمن ہے اور وہ یہ بات کم از کم سچ ہی کہتے تھے دشمنی کیوں نہ ہو گی ایسے لوگوں سے۔
بہر حال اس عام آدمی نے دیکھا کہ اللہ تمہاری ساری تاریخ کو الٹ کر رکھ دیتا ہے اور گواہی دیتا ہے اور تائید میں توریت اور انجیل کی بھی گواہی لا کر سامنے رکھ دیتا ہے:
"""ذلک الکتاب لاریب فیہ"""( سورہ بقرہ دوسری آیت )
اور پھر
"""مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ … """سورہ فتح آیت نمبر 29
""محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اﺛر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے، مثل اسی کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وه موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ﺛواب کا وعده کیا ہے)
غور کریں کہ قرآن توریت اور انجیل ایک اچھی خاصی تعداد والے گروہ کی گواہی دے رہی ہیں کہ محمد ﷺ اپنے مشن میں کامیاب تھے اور ہیں کہ وہ قیامت تک کی نسلوں کے لئے ایسے لوگوں کی تربیت کرگئے ہیں جو جہاں جائیں گے ھدایت کے چراغ بن کر رہیں گے۔ اور یہ کہ وہ آپس میں رحیم ہیں اور صرف کفار پر سخت ہیں۔"""
اے میرے خطیب ! یہ قرآن کی آیت شاید صرف میرے قرآن میں ہے یا عام آدمی کا قرآن کا طاق بہت اونچا ہے کہ وہ اسے اٹھا کر نیچے اپنے قد تک لانے سے قاصر ہے یا پھر یہ قرآن جھوٹا ہے ؟ کیا ہے کہ جو میری سمجھ سے عام آدمی عقل سے دور ہے اور جس تک صرف تمہاری پہنچ ہے؟
اے میرے خطیب ! اگر میں سب عقل و دانش کو الگ رکھ کر تمہاری بات پر ایمان لاؤں، گویا تم پر ایمان لاؤں تو مجھے روز جزا میں چھوڑ تو نہ دو گے یہ کہ کر کہ مجھے اپنی پڑی تو اپنی خود نبیڑ؟
اے میرے خطیب ! اگر میں تم پر ایمان لانے کی وجہ سے پکڑا گیا تو تم میری آگ کو، میری جگہ، اپنے پر لینے کو تیا ر ہو جاؤ گے؟؟؟
اے میرے خطیب! کیا تم روز جزا کو مانتے بھی ہو یا نہیں؟
اے خطیب اگر تم سچ مچ اللہ کو مانتے ہو محمد ﷺ کو آخری نبی مانتے ہو اور قرآن کو مکمل اور سب سے سچا کلام مانتے ہو تو تمہارے لئے یہ اشعار ہیں ناراض نہ ہونا بلکہ غور کرنا کہ عام المیہ زدہ آدمی کو تم ہی اس گڑھے سے نکال سکتے ہو۔
اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو عنقریب عام آدمی اربابِ کلیسا کی طرح اربابِ مسجد و محراب کو بھی صرف علامتی بنا ڈالے گا اور ساری ذندگی کونے میں کھڑا رکھے گا ۔
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کار گہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
( جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply