دس سال قید با مشقت۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی

ازراہ مذاق جس طرح صحافی عدالت سے باہر نکالے جانے پہ بیت الخلا کی دیواروں سے چپکے رہے ان کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے اور یقینی طور پر صحافت کا شعبہ پاکستان میں پھولوں کی سیج نہیں ہے یہ اندازہ اس بدبودار بیت الخلا کی کھڑکی  سے چپکے  خبر کے  متلاشی صحافیوں کو دیکھ کے ہو گیا۔ جو شاید امپورٹڈ ہینڈ واش استعمال کرنے کی عادی ہیں۔ اس کےبعد ذکر سزا و جزا کا۔
نواز شریف دس سال، مریم نواز سات سال، کیپٹن (ریٹائرڈ) صدر ایک سال۔ پینتیس سال سے زائد عرصے سے سیاسی کھلاڑی اگر وقت پر اپنے حق میں بہتر فیصلہ نہ کر سکے تو حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ کیسے تین مرتبہ اس ملک کا وزیر اعظم بنا رہا۔ موقع تھا شاندار، کہ پارلیمان میں جب موقع ملا تو اعلان ہوتا، جناب اسپیکر، مجھ پہ کیو ں کہ حرف آ گیا ہے، میرے کردار پہ حرف آ گیا ہے اور میرے اثاثے زیر بحث آ گئے ہیں لہذا میں خود کو حکومت چلانے کا اہل نہیں سمجھتا اور اس موقع پر عہدہ چھوڑتا ہوں اور میں ایک نئے عزم کے ساتھ اپنے کیس کا دفاع کرنے کے بعد اور کامیابی کے بعد واپس آوں گا۔

ہونا یہ تھا کہ سیاسی طور پر قد اتنا بڑھ جاتا میاں صاحب کا کہ شاید مخالف  فیصلے کے لیے بہت دل گردہ دکھانا پڑتا اور مزید کیا کیا جا سکتا تھا؟ کہا جاتا جناب یہ ایون فیلڈ؟ اس جیسے کئی ایون فیلڈ اپنے وطن پہ قربان میں اپنی جان وطن کے لیے دے سکتا ہوں تو یہ چار  فلیٹس  کیا چیز ہیں۔ اور کچھ نہیں تو خود ہی حکومت پاکستان کے متعلقہ اداروں کو  ہدایات جاری کرتے کہ بحق سرکار یہ فلیٹس سرکاری خزانے کا حصہ سمجھے جائیں۔ اورآج کے بعد میرا ان فلیٹس کی  ملکیت کا کوئی دعویٰ نہیں ہو گا۔ اور اگر میں کیس جیت بھی گیا تو بھی یہ حکومت پاکستان کے ہی رہیں گے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوتا مجھے کیوں نکالا کے  بیانیے  پہ شاید بھروسہ اتنا زیادہ تھا کہ امید تھی   جب وہ اپنے نکالے جانے کا واویلا کریں گے تو حکومت بھی دب جائے، عدلیہ بھی اور فوج بھی۔ مگر ایسا ہو نہیں سکا۔

ایک اور موقع ملا، ملک سے جانے کے بجائے اعلان کیا جاتا کہ میری شریک حیات بے شک موت و حیات کی کشمکش میں ہے (اگر وہ وینٹی لیٹر پر ہیں جو کہ ایک نہایت سنجیدہ مرحلہ ہے کسی بھی بیماری کا تو آپ نے ان کے پاس جا کے کیا کر لیا، اور دو بیٹے تیمارداری کے لیے تو وہاں موجود ہی تھے)۔ لیکن میں وطن میں ہی موجود رہ کے کارروائی کا سامنا کروں گا۔ آپ اگر کہیں کہ کوئی بھی بیوی کی اتنی شدید بیماری میں دور کیسے رہے تو عرض یہ ہے کہ آپ عام رعایا نہیں ہیں۔ آپ خاص اشرافیہ ہیں۔ آپ عوام سے خود کو خود ہی بالاتر کیے بیٹھے ہیں۔ آپ اگر ایسا فیصلہ کر لیتے تو آپ اس قوم کے ہیرو بن جاتے جس نے اپنے خاندان کے اتنے اہم فرد کی اتنی شدید بیماری کو بھی ملک کے مفادات میں رکاوٹ نہ بننے دیا اور پوری قانونی کارروائی کا سامنا کیا۔

اگر فیصلہ جو آج آیا آپ کی ملک میں موجودگی کے دوران آتا تو آپ عدالت سے جب باہر نکلتے باہر ایک جم غفیر ہو سکتا تھا جو آپ کو آپ کی   عدالتی حکم نامے کی منزل پہ کندھوں پہ اٹھا کے چھوڑ کے آتا اور آپ دیکھتے کہ اڈیالہ جیل کے باہر ایک میلہ لگ جاتا۔ لیکن اب بتائیے عام کارکن کیا کرے ؟۔۔ کہاں جا کے ڈیرہ ڈالے۔ جن کو سزا ہوئی وہ خود یہاں نہیں ،عوام کس کے کہنے پہ اور کہاں سڑکوں پہ نکلیں۔ اگر آپ کو امید ہے کہ شہباز شریف احتجاجی مہم کی قیادت کریں گے تو اب یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ وہ ایسا رسک لینے کو تیار نہیں ہو سکتے۔ کیوں کہ اب وہ پارٹی صدر ہیں اور انتخابات سر پہ ہیں وہ انتخابی مہم چلائیں گے یا احتجاجی مہم چلائیں گے۔

نہ جانے کیوں راقم کو چوہدری نثار علی خان یاد آ رہے ہیں۔ اور جب انہوں نے مشورہ دیا تھا کہ اداروں سے محاذ آرائی کی راہ نہ اپنائیں تو اس وقت بھی زیر قلم کیا تھا کہ مشورہ درست ہے۔ لیکن آپ نے انہیں شہباز شریف اور عمران خان کا دوست ہونے کی اتنی بڑی سزا دی کہ  اپنے گرد خوشامدیوں کا جھمگھٹا لگا لیا اور نثار کو کھڈے لائن لگانا شروع کر دیا ۔ نثار کی سیاست تو قائم ہے مگر آپ کی سیاست سسکیاں لے رہی ہے۔ اور آپ خود ہی اپنے کیے کے اگر منصف بنیں تو آپ کا دل فیصلہ دے گا کہ آپ نے محاذ آرائی کی سیاست میں اپنی بیٹی جو مستقبل کی قائد بن سکتی تھی اس کا مستقبل بھی اندھیر کر دیا ہے۔ اور بے چارے صفدر تو مفت میں مارے گئے۔ اور ایک ڈرامے کا ٹائٹل ان کے نام سے یاد آنا شروع ہو گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فیصلہ سازی کی قوت نہ ہونا، وقت کا انتخاب، بہتر مشیر، اورنرم مزاج ناپید ہونے کی وجہ سے نقصان کسی اور کا نہیں ہو رہا صرف آپ کا اپنا ہو رہا ہے۔ اور آج حال یہ ہے کہ خواتین کارکنان ہی عدالت کے باہر دھاڑیں مار کے روتی رہیں جب کہ کوئی حقیقی نمائندہ نہ آپ کو احتجاج کرتا ہوا نظر آئے گا نہ انتخابات میں رسک لیتا ہوا۔
ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹوئٹر پر میں بھی نواز ہوں ٹاپ ٹرینڈ ضرور بن جائے گا۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply