مقام عشق و مستی /سلیم زمان خان

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ﱟ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ(92)( آل عمران )

ترجمہ:- تم ہرگز بھلائی کو نہیں پا سکو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔

اس آیت کی تشریح میں ایک حدیث پاک بیان کی جاتی ہےکہ:-

“حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ (رض) مدینہ میں کھجوروں کے لحاظ سے سب سے زیادہ مالدار تھے ‘ اور ان کا سب سے زیادہ پسندیدہ مال بیرحاکا باغ تھا ‘ یہ مسجد (نبوی) کے سامنے تھا ‘ رسول اللہ باغ میں داخل ہوتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے ‘ حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : تم ہرگز نیکی نہیں حاصل کرسکو گے حتی کہ اس چیز سے خرچ کرو جس کو تم پسند کرتے ہو “ تب حضرت ابو طلحہ (رض) اٹھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور عرض کیا : یا رسول ! بیشک اللہ فرماتا ہے : تم ہرگز نیکی حاصل نہیں کرسکو گے حتی کہ اس چیز سے خرچ کرو جس کو تم پسند کرتے ہو۔ “ اور بیشک میرا سب سے زیادہ پسندیدہ مال بیرحا ہے ‘ اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے اور میں اللہ کے نزدیک اس کی نیکی اور آخرت میں اس کے اجر کی توقع رکھتا ہوں ‘ یارسول ! آپ جہاں مناسب سمجھیں اس کو رکھیں ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھوڑو ‘ یہ نفع بخش مال ہے ‘ یہ نفع بخش مال ہے ‘ اور میں نے سن لیا جو تم نے کہا ہے ‘ اور میری رائے یہ ہے کہ تم اس کو اپنے رشتہ داروں کو دے دو ‘ حضرت ابوطلحہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسا ہی کروں گا پھر حضرت ابوطلحہ نے اس باغ کو اپنے رشتہ داروں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم کردیا “۔ (صحیح بخاری 1461)

متعدد احادیث اور مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں استعمال ہونے والا لفظ “الْبِرَّ” سے مراد صلہ رحمی ،رشتہ داروں سے حسن سلوک یعنی نیکی، حسن سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے اور یہی افضل ہے۔ اگر یہاں تک آپ کو بات سمجھ آ رہی ہے تو یہ جان لیں کہ کائنات میں صحابہ کرام ہر وقت قرآن و حدیث اور خصوصی طور پر نبی کریمﷺپر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اور نیکی کی انتہا مذہب یا دین کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دینا ہے۔ لیکن اس سے ایک درجہ آگے یہ ہے کہ انسان کسی پر جاں تو کیا ایمان بھی نثار کر دے۔۔۔

بس کائنات کی ایک عجیب اور واحد ہستی ایسی گزری جس نے نبی کریمﷺکی خدمت کی خاطر ایمان بھی وار دیا ۔ دنیا میں ایمان کی خاطر جان قربان کرنا سب سے بڑی نیکی ہے لیکن جن پر ایمان لانا ہی مالک کی رضا اور خوشنودی ہو ان کی خاطر ایمان قربان کرنا صرف نبی کریمﷺکے چاہنے والوں میں سے ایک ہستی ہی کر سکی جو نہ آدم علیہ السلام کے پیروکار کر سکے اور نہ ہی قیامت تک یہ رتبہ نبی کریمﷺکے کسی بھی اور امتی کو نصیب ہو گا کہ تمام عمر بے لوث ساتھ بھی دیا جائے اور اس ڈر سے ایمان نہ لایا جائے کہ کہیں لوگ نبی کریمﷺ کو کمزور نہ سمجھ لیں۔۔۔ اس بات کو ہضم کرنا بہت مشکل ہے لیکن اگر تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو علم تکوین کا یہ نقطہ واضح نظر اور سمجھ آ سکے گا لیکن اس کے لئے عشق و مستی کا چشمہ ضروری ہے ناکہ تعصب و بغض کا۔کیونکہ زمانہ جاہلیت میں مکہ کے قبائلی نظام کا یہ اصول تھا کہ اگر کوئی سردار یا بڑا آدمی اپنی قوم کے خلاف جا کر اسلام قبول کر لیتا تو اس سے کسی بھی بندے کو پناہ دینے اور اپنے قبیلہ کی پشت پناہی کا حق لے لیا جاتا اوراسے قبیلہ کی عزت دار کرسی اور منصب سے معزول کر دیا جاتا۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر ،حضرت عثمان علیھم اجمعین کہ معاشرے کے عزت دار ترین فرد ،بڑے تاجر مگر اسلام لانے کے بعد کفار کا تختہ مشق بنے رہے۔۔

وہ ہستی جس نے رسول اللہ کی حفاظت اور ان کے اللہ کے حکم سے پشت پناہی کی خاطر اپنا ایمان داو پر لگایا اور 51 سال تک نبی کریمﷺکے بے لوث حامی اور بطور بنو ہاشم کے سربراہ حفاظت اور دین اسلام کی ترویج میں مدد فراہم کی ۔ حضرت ابو طالب کی ذات پاک ہے۔۔ چیں بہ جبیں ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔ کچھ حضرت ابو طالب کی شخصیت پر ایک غیر جانبدار نظر ڈال لی جائے۔۔
یہ انبیاء کی شان نہیں کہ کسی بھی مشرک سے محبت کریں جیسا کہ :- قرآن میں حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے کی سفارش کی تو اللہ نے انہیں روک دیا اور ارشاد فرمایا کہ آپ اس کی سفارش مت کریں ۔

وَ نَادٰى نُوْحٌ رَّبَّهٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَهْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْكَمُ الْحٰكِمِیْنَ(45)

ترجمہ:- اور نوح نے اپنے رب کو پکارا تو عرض کی: اے میرے رب! میرا بیٹا بھی تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے۔

تو اللہ کریم نے انہیں تقریبا تنبیہ کے انداز میں ارشاد فرمایا کہ۔۔

قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَۚ-اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﲦ فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(46)

ترجمہ:- (اللہ نے) فرمایا: اے نوح! بیشک وہ تیرے گھر والوں میں ہرگز نہیں ، بیشک اس کا عمل اچھا نہیں ، پس تم مجھ سے اس بات کا سوال نہ کرو جس کا تجھے علم نہیں ۔ میں تجھے نصیحت فرماتا ہوں کہ تو ان لوگوں میں سے نہ ہو جو جانتے نہیں ۔

اسی طرح حضرت ابراہیم کے والد جب بتوں کی پرستش سے بعض نہ آئے تو ان کے لئے بھی حضرت ابراہیم نے دعا کا وعدہ کیا لیکن اس پر بھی انہیں تنبیہ کی گئی۔

وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ-اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(114)
ترجمہ:- اور ابراہیم کا اپنے باپ کی مغفرت کی دعا کرنا صرف ایک وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا پھر جب ابراہیم کے لئے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہوگئے ۔ بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا ، بہت برداشت کرنے والا تھا۔

اسی طرح لوط علیہ السلام کی بیوی اور نوح علیہ السلام کی بیوی کا انجام بھی کافروں میں ہوا۔

فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ﳲ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ(83)

ترجمہ:- تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی سوائے اس کی بیوی کے ۔وہ باقی رہنے والوں میں سے تھی۔

وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَّطَرًاؕ-فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ(84)
ترجمہ:- اور ہم نے ان پر بارش برسائی تو دیکھو ،مجرموں کاکیسا انجام ہوا؟

لیکن جب ہم حضرت ابو طالب اور نبی کریمﷺ کا رشتہ پاک پر نظر دوڑائیں تو کیا دیکھا جاتا ہے کہ د2ن2ں ہستیاں ایک دوسرے سے والہانہ مھبت و عقیدت رکھتی ہیں۔ایک روز آپ نے حضرت ابوطالب کے ایک فرزند عقیل رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ :-
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیل سے فرمایا: میں تم سے دو بنیادوں پر محبت کرتا ہوں ، مجھ سے تمہاری قربت کی وجہ سے ، اور میرے چچا (ابوطالب علیه السلام)کی محبت کی وجہ سے ۔( الطبقات الکبری از محمد بن سعد)

اسی طرح حضرت ابو طالب آپ ﷺ سے اس قدر محبت کر تے تھے کہ آپ کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا تے کیونکہ انہیں مسلسل یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں کوئی دشمن رسول اللہ ﷺ کو رات کے وقت سوتے ہو ئے قتل نہ کر دے۔ لہذا حضرت ابو طالب کا یہی وطیرہ رہا کہ رات کا کچھ حصہ گز ر جانے کے بعد وہ نبی کریم ﷺ کو ان کے بستر سے اٹھا کرکہیں اور سلا دیتے تھے اور اس جگہ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو یا خود ان کے بستر پر سو جاتے تاکہ اگر کوئی سب خون مارے تو آقاﷺ حفاظت میں رہیں ۔ اسی طرح حضرت فاطمہ بنت اسد زوجہ ابو طالب کو یہ خصوصی ہدائت تھی کہ نبی کریمﷺکے دسترخوان پر بیٹھنے سے قبل ان کی اولاد اور وہ کوئی بھی شخص تب تک لقمہ نہ کھائیں گے جب تک آقا کریمﷺ تناول نہ فرما لیں۔۔۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی وحی کے بعد دعوت اپنے خاندان بنو ہاشم اور قریش کی دی تو جس کھانے ک انتظام کیا گیا وہ بھی حضرت ابو طالب کے گھر پر اور حضرت ابو طالب کی اولاد بطور میزبان خاندان کی خدمت کا اعزاز رکھتے ہیں۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آقا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وجود سے ابوطالب کے بارش طلب کرنے پرخود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی راضی تھے اور آپ نے خود بھی مبعوث ہونے کے بعد اور خصوصی طور پر مدینہ پاک میں لوگوں کے لئے بارش کی دعاء فرماتے تھے اور بارش ہوتی تھی جس سے پورا دشت سر سبز و شاداب ہوجاتا تھا۔ تب آقا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرط جذبات سے فرماتے : اگر ابوطالب زندہ ہوتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ، کون ہے جو ان کے اشعار کو میرے سامنے پڑھے ؟ حضرت علی (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اور کہا : یا رسول اللہ شاید آپ کی مراد ، ان کے یہ اشعار ہیں: جو ابو طالب نے مکہ میں قحط کے زمانے میں نبی کریمﷺکے وسیلے سے دعا میں پڑھے تھے اور پھر پڑھ کر سنا ئے۔ کیا کوئی نبی کسی مشرک اور منکر دین کے لئے ایسے الفاظ ادا کر سکتے ہیں۔۔ اور اس پر وعید بھی نازل نہ ہو جیسے حضرت کوٹ و ابراہیم علیہم سلام پر ہوئی۔۔
صحیح بخاری میں حضرت انس سے نقل ہوا ہے : جب قریش قحط سے دوچار ہوتے تھے تو حصرت عمر ابن خطاب اورعباس بن عبدالمطلب سے توسل کرتے تھے اور کہتے تھے : خدایا ہم انبیاء سے توسل کرتے تھے تو بارش ہوتی تھی ، اب اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے چچا سے توسل کرتے ہیں ، لہذا ہم پر بارش نازل فرما ، حضرت انس کہتے ہیں پھر توسل کے بعد بارش ہوتی بھی تھی۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ
●۔ پہلے تو نبی مکرم کسی کافر کی مدح سرائی یا نعت پاک یا تعریف پر کبھی خوش نہیں ہوتے اور یہ آپ کے جلیل القدر منصب کے خلاف ہے کہ آپ امام الانبیاء ہیں۔
●۔ دوسرا جنگ احد میں ایک یہودی اور ایک کافر نے مسلمانوں کی مدد کی کوشش کی تو آپ کریمﷺ نے یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ ہمیں کسی منکر خدا اور میری تکذیب کرنے والے کی مدد کی ضرورت نہیں اور اسے واپس بھیج دیا۔ لہذا یہ بات تو ہو نہیں سکتی کہ آپ کریم کسی بھی کافر کو ایسے وقت میں یاد فرمائیں جب آپ کریم سے کوئی معجزہ سرزد ہو۔

جب حضرت نوح اپنے بیٹے کی سفارش پر رب سے معافی مانگیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تنبیہ ہو۔ لوط علیہ السلام اور نوح علیہہ السلام کی بیویاں تھوڑی سی خیانت پر کفار کے ساتھ ہی عذاب سے دو چار ہو جائیں ۔
لیکن نبی کریمﷺ اپنے چچا اور اپنی زوجہ محترمہ کی وفات کے سال کو “عام الحزن ” غم کا سال کہہ کر منائیں اور تا قیامت تاریخ میں وہ سال جس میں ان دو ہستیوں کا انتقال ہوا اسی نام سے پکارا جائے گا۔ اسی طرح ہم مُسلمانوں کو قیامت کے بعد جنت میں جو بیویاں ملیں گی انہیں ازواج مطہرات کہا جائے گا۔ لیکن نبی کریمﷺکی حیات میں جو آپ کریمﷺکی ازواج تھیں انہیں دنیاوی زندگی میں ازواج مطہرات کہا گیا اور ان سب کی سردار حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہ ہیں ۔ جن کے برابر کائنات کی کوئی زوجہ نہ جنت میں ہے اور نہ دنیا میں۔۔جن کو ان کی زندگی میں جنت اور جنت میں موتیوں کے محل کی بشارت دی گئ۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی کریمﷺ ایک متبرک ترین ہستی کو ایک( نعوذ باللہ ) غیر مسلم ( حضرت ابو طالب) کے ساتھ ملا کر اس سال کو عام الحزن کا نام عطا فرمائیں۔ ایک عام ترین اعتراض جو سورہ توبہ کی آیت کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ یہ ابوطالب کے لئے مغفرت سے نبی کریمﷺ کو منع فرمایا گیا تو اس سلسلے میں ہر مسلک کی تحقیق ہے کہ سورہ التوبہ 8 یا نو ہجری کو نازل ہوئی جب حضرت ابوبکر امیر حج بنا کر مسلمانوں کا پہلا حج کرنے کے لئے بھیجے گئے اس دوران یہ سورہ نازل ہوئی تو آقاﷺنے حضرت علی کو اس سورہ کو حج میں منادی کرنے کو بھیجا جبکہ ابوطالب کی وفات کو تب تک 10 سال گزر چکے تھے۔ اور اس آیت کے نزول کے بعد بھی آقاﷺنے کبھی حضرت ابو طالب کی مذمت نہیں فرمائی ۔۔اور نہ ہی سال عام الحزن کا نام تبدیل فرمایا۔۔
اس لئے اگر کوئی شخص یا گروہ نبی کریمﷺ کے کئے ہوئے عمل کو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریم قران پاک اور اللہ کی( نعوز بااللہ) ایات کو سمجھ نہیں سکے یا ان سے روگردانی فرمائی وہ نبی کریمﷺکی علمیت سے زیادہ عقل رکھتا ہےتو شاید وہ نبی کریمﷺکی ذات اقدس پر بہتان لگا رہا ہے ۔ اور نبی کریمﷺکی تعلیمات سے روگردانی کر کے کفر کا مرتکب ہو رہا ہے۔۔
یہ بات صحابہ کرام کے ایمان کا حصہ رہی کہ جس سے نبی کریمﷺکو پیار تھا صحابہ کرام کے لئے وہ عزیز ترین ہوتی اور جس کو آپ چھوڑ دیتے صحابہ کرام بھی اس سے منہ موڑ لیتے ۔۔لہذا ہمیں ہر اس چیز اس ذات سے پیار ہے عقیدت ہے جس سے نبی کریمﷺکو پیار ہے۔ اب اگر یہ بات کسی کو ہضم نہ ہو تو یہ شاید اس کی بدقسمتی ہے۔۔ کیونکہ جان تو تاقیامت انسان اللہ کے دین کے لئے لٹاتے رہیں گے۔۔ لیکن اگر کوئی ایک ہستی اس منصب پر فائز ہوئی کہ نبی کریمﷺکے لئے اپنے ایمان کو تمامتر عقیدت و محبت کے بھی آقاﷺ کے قدموں پر نثار کر دیا ۔۔ تو اس صف میں قیامت کے دن صرف ابوطالب ہی کھڑے نظر آئیں گے۔۔ اور شاید تب بھی اللہ اور ان کے حبیب کریمﷺ لوگوں سے انہیں چھپا کر رکھ لیں۔۔ کیونکہ یہ ایسی نیکی ہے جس کے راز دان صرف اللہ اور ان کے حبیب ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکیم میری نواؤں کا راز کیا جانے
ورائے عقل ہیں اہلِ جُنوں کی تدبیریں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply