انسان کا اپنے عزیز و اقارب کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ‘ ملاقات‘ لین دین کا معاملہ ہمسایوں سے ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و نا خوشگواری کا زندگی کے چین و سکون پر بہت ہی گہرا اثر پڑتا ہے۔ پڑوسی اور اس کے اہل و عیال کے اخلاق و کردار سے خود ہمارے گھر والے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور اگر پڑوسی برا ہو تو اس سے انسان کا ناک میں دم آ جاتا ہے۔ دینی مجالس و خطبات میں حقوق اللہ پر تو بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے لیکن معاملات و حقوق العباد کو بہت کم زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہر ایک کو اس کے ذمے جو حقوق ہیں وہ ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام حسین و خوشگوار ماحول اور الفت بھرے معاشرے کو نہ صرف یہ کہ پسند کرتا ہے بلکہ جا بجا اس کی تعلیم و تاکید کرتا ہے۔صحیح احادیث میں بکثرت پڑوسیوں کے حقوق کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے جیسا کہ سید الانبیاءﷺ نے اس طرح فرمایا ہو گا کہ
۔ اللہ کی قسم وہ ایمان نہیں رکھتا، پوچھا گیا ”اے اللہ کے رسول! کون ایمان نہیں رکھتا؟“ فرمایا کہ وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، مسلم۔ ابوہریرہؓ)
۔ جبریل مجھ کو پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی برابر تاکید کرتے رہے،یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ پڑوسی کو پڑوسی کا وارث بنا دیں گے۔ (متفق علیہ۔عائشہؓ)
۔وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی جو اس کے پہلو میں رہتا ہو بھوکا رہے۔ (مشکوٰۃ۔ابن عباسؓ)
۔اے ابوذر! جب تو شوربا پکائے تو کچھ پانی زیادہ کر دے اور اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری کر۔ (مسلم)
۔ اے مسلمان عورتو! کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کو ہدیہ دینے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ ایک بکری کی کھری ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری، مسلم۔ابوہریرہؓ)
۔جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ اور رسول اس سے محبت کریں تو اس کو چاہیے کہ جب وہ گفتگو کرے تو سچ بولے اور اس کے پاس جب امانت رکھی جائے تو اپنے پاس رکھی گئی امانت کو مالک کے پاس بحفاظت لوٹائے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے۔ (مشکوٰۃ)
۔ قیامت کے دن جن دو آدمیوں کا مقدمہ سب سے پہلے پیش ہو گا وہ دو پڑوسی ہوں گے۔ (مشکوٰۃ۔عقبہ بن عامرؓ)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ میرے دو پڑوسی ہیں تو ان میں سے کس کے ہاں ہدیہ بھیجوں، آپ نے فرمایا، اس پڑوسی کے ہاں جس کا گھر تیرے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری)
ایک آدمی نے آپ ﷺ سے کہا کہ فلاں عورت بہت زیادہ نفل نمازیں پڑھتی‘ نفل روزے رکھتی اور صدقہ کرتی ہے اور اس لحاظ سے وہ مشہور ہے لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے۔آپ نے فرمایا کہ وہ جہنم میں جائے گی۔اس آدمی نے پھر کہا کہ اے اللہ کے رسول! فلاں عورت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کم نفل روزے رکھتی ہے اور بہت کم نفل نماز پڑھتی ہے اور پنیر کے کچھ ٹکڑے صدقہ کرتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔ آپ نے فرمایا کہ یہ جنت میں جائے گی۔ (مشکوٰۃ۔ابوہریرہؓ)
(حوالہ جات‘ راہِ عمل از مولٰنا جلیل احسن ندوی)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں