موجودہ سیٹ اپ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ “اپوزیشن” ویسی اپوزیشن کرنے کو تیار نہیں جو کہ سیٹ اپ لانے والوں کو سوٹ کرتی ہے۔ اس لئے خان صاحب کو پریشر تلے رکھنے کے لئے اپوزیشن کا “ہوا” اتنا کارگر نہیں لہذا ڈائریکٹ آرڈر کرنے پڑ رہے ہیں۔ یوں پوزیشن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ حکومت کون کر رہا ہے۔ لامحالہ طور پہ نواز شریف کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے۔
ایسے وقت میں ان کے کام کوئی آ سکتا ہے تو وہ پی پی پی ہے جو کافی حد تک اپنا ووٹ بینک کھو چکی ہے مگر اس کو اپوزیشن کا رول دیا جا سکتا ہے۔ پی پی پی پر کیسز، اور عدالت میں پیشیاں، پی پی پی کی بطور اپوزیشن بحالی کی اسی کوشش کا حصہ ہیں۔ زرداری صاحب کی پیشی پہ کارکنوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں تھی جتنی میڈیا کوریج ملی۔ وہی میڈیا جس کی آزادی کا ہمیں اب کافی حد تک اندازہ ہو چکا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف کی گزشتہ ہونے والی ریلی کو بھی کوریج نہیں مل رہی۔
مجھے لگتا ہے کہ زرداری میں تو وہ دم خم نہیں کہ اسے اپوزیشن بنا کےپیش کیا جائے لیکن بلاول میں ہے۔ اس لئے اسے اپوزیشن کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ کیا جا رہا ہے۔ ان شکوک کی بنیاد پی پی پی کے لیڈران پہ “کچا” ہاتھ ڈال کہ ان کو مظلوم بنانے کی کوشش بھی ہے۔ زرداری صاحب نے بلوچستان کی حکومت گرانے سے لے کہ وزیر اعظم کے الیکشن تک ہر موڑ پہ موجودہ سیٹ اپ لانے والوں کی مدد کی ہے۔ جب جب ان کے پلان میں کہیں رکاوٹ ہوئی، پی پی ان کی مدد کو آئی۔ سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ کی بلا مشروط رضا ربانی کے حمایت کا پی پی نے مثبت جواب نہیں دیا کیوں کہ رضا ربانی “ان” کو سوٹ نہیں کرتا تھا۔
مسلم لیگ کی “بیں بیں” پالیسی کو دیکھتے ہوئے، بلاول کو مزاحمتی لیڈر بنا نے کا فیصلہ ایک اچھی چال کہی جا سکتی ہے۔ اس میں پی پی کے ووٹ بینک کے واپس آنے کے امکانات بھی موجود ہیں جس سے پی پی امید کر سکتی ہے کہ اگلے الیکشن میں وہ پنجاب میں کہیں دکھائی دینے لگ جائے۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا عمران کو وزیر اعظم اور بلاول کو مزاحمتی لیڈر کا کردار دینے سے فلم کے چلنے کی امید کی جا سکتی ہے؟ پہلا کردار تو بری طرح سے “پٹ” گیا ہے اور دوسرے کو لانے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ مسلم لیگ کا لائحہ عمل ایک دفعہ پھر “فاختاؤں” سے “عقابوں” کے ہاتھ آ گیا ہے۔ شہباز شریف کی لندن روانگی اور خواجہ آصف کی بطور پارلیمانی لیڈر نامزدگی کے بعد نواز شریف کی جیل روانگی اور ریلی، واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے سویلینز کا پلڑا بھاری ہوتا جا رہا ہے۔
کٹھ پتلی کی کارکردگی نے نگاہ بینا کو مشکوک کر دیا ہے۔ انتخاب کی یہ غلطی کافی نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ آخری اور آزمودہ ہتھیار “ڈنڈا” ہے۔ ابھی تک یہ ہتھیار کارگر ہے۔ میڈیا کا گونگا پن اس کی واضح مثال ہے لیکن اپنے انتخاب کی نالائقی کو کور کرنے کے لئے جو آئی ایم ایف کی عبوری حکومت لائی گئی ہے وہ غریب کی زندگی میں مزید ایسی مشکلات کھڑی کر دے گی کہ سویلین سپریمیسی والا بیانیہ خود بخود مضبوط ہوتا جا ئے گا۔ پچھلے عشرے میں ہم نے دیکھا کہ “ڈنڈا” صرف اوپر والے طبقے کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے۔ جب بھی عوام الناس میں نفرت جنم لیتی ہے، سادہ کپڑوں میں دفتر جانے کے احکام جاری کرنے پڑ جاتے ہیں۔ فیصلہ سازوں کی موجودہ انتظامیہ خان صاحب کے انتخاب اور میاں صاحب کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بند گلی میں پھنستی جا رہی ہے۔
حل دو ہی ہیں میاں صاحب ٹوٹ جائیں یا خان صاحب لائق ہو جائیں۔ بظاہر دونوں ہی کام مشکل ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں