کارل مارکس نے اپنے افکار میں سرمایہ داری کی جنگوں کے بارے میں کئی اہم نکات پیش کیے ہیں۔ مارکس کے نظریے کے مطابق، سرمایہ دارانہ نظام میں جنگیں اکثر معاشی مفادات اور منافع کی خواہش کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
مارکس کا خیال تھا کہ سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جو محنت کش طبقے کے استحصال پر مبنی ہے، اور یہ کہ سرمایہ دار طبقہ اپنے منافع کو بڑھانے کے لیے مسلسل نئے بازاروں، وسائل اور سستی مزدوری کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مختلف ممالک کے سرمایہ دار طبقے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور وسعت کے لیے جنگوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
مارکس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جنگیں نہ صرف سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش ہوتی ہیں بلکہ یہ ان کے لیے ایک طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے طبقاتی مفادات کو مزدوروں پر مسلط کریں اور محنت کش طبقے کی جدوجہد کو دبا دیں۔ اس طرح، مارکس کے نظریے کے مطابق، سرمایہ داری کی جنگیں ایک طرف تو سرمایہ داروں کے لیے منافع کا ذریعہ ہوتی ہیں، لیکن دوسری طرف یہ محنت کش طبقے کے استحصال اور دباؤ کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں۔
کارل مارکس نے سرمایہ داری اور جنگ کے تعلقات پر کئی اہم بیانات دیئے ہیں۔ ان کے خیالات میں، جنگیں اکثر سرمایہ دارانہ مفادات کی وجہ سے ہوتی ہیں، جیسے کہ نئے بازاروں کی تلاش، وسائل کی دستیابی، اور معاشی اجارہ داری کا قیام۔ یہاں کچھ اہم اقوال دیئے گئے ہیں:
جنگ، جیسا کہ معمول ہوتا ہے، سرمایہ دارانہ مقاصد کے لئے لڑی جاتی ہے۔”
“سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے لیے جنگ ضروری ہے، کیونکہ یہ سرمایہ کے اضافی مال کو ختم کرتی ہے۔”
“سرمایہ داری کی ترقی کا مطلب ہے مزید جنگیں، کیونکہ سرمایہ دار اپنی معیشت کو بڑھانے کے لئے مسلسل نئے بازاروں اور وسائل کی تلاش میں رہتے ہیں۔”
“ہر جنگ سرمایہ دارانہ نظام کے داخلی تضادات کو عارضی طور پر حل کرتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی نئے تضادات کو جنم دیتی ہے۔”
یہ اقوال مارکس کے نظریے کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ داری اور جنگیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔ اور سوویت یونین کے قیام کے لیے روس میں انقلاب کے وقت سرمایہ دارانہ جنگوں کے بارے میں کارل مارکس کے افکار کی سچائی بہت کھل کر سامنے آئی ۔ ایک دوست نے مجھے ایک پیراگراف بھیجا ہے اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ اور میں اسے یہاں ان کا نام لیے بغیر درج کر رہا ہوں:
“روس میں اشتراکی انقلاب کی دشمنی میں وہ سارے لبرل باؤلے ہوئے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو ‘امن’ کا علمبردار کہتے ہیں(آج کل ان لبرلز میں اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کو لیکر جوتم بیزاری ہورہی ہے بلکہ یوں کہہ لیں لبرلز کے کیمپ میں اس مسئلے کو لیکر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے) یہ کبھی آپ کو نہیں بتائیں گے کہ جب روس میں 1917ء کا اشتراکی انقلاب برپا ہو رہا تھا تب روس کی اشتراکی تحریک کے اندر دایاں بازو یعنی منشویک (یہ پیٹی بورژوازی / درمیانے طبقے کے انقلاب سے منحرف روسی بایاں بازو تھا) اور سوشل انقلابی (یہ سمجھتے تھے کہ کسانوں میں ماقبل سرمایہ داری رشتوں کو برقرار رکھتے ہوئے بھی انقلاب لایا جاسکتا ہے) انھوں نے روسی لبرل بورژوا/ سرمایہ داروں سے اتحاد بنایا تھا اور زار شاہی کی سامراجی جنگوں کا دفاع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے میں ان کی نام نہاد امن پسندی کے خلاف روس کی کمیونسٹ پارٹی / بالشویک کی قیادت میں روس کے محنت کش طبقات نے بھرپور بغاوت کی اور دوسرا انقلابی ابھار آیا اور یہ محنت کشوں کی کام کی جگہوں پر بنی کمیٹیاں تھیں جن کی طاقت نے /یعنی محنت کشوں کی طاقت جسے روسی کسانوں کی مدد حاصل تھی نے روس کو سرکاری طور پر سامراجی جنگ سے دستبردار کرایا یہ اکتوبر انقلاب تھا جس نے پہلی سرمایہ دارانہ سامراجی عالمی جنگ کو اس وقت گہری اور شدید ضرب لگائی جب اسے شروع ہوئے تین سال ہوچکے تھے۔ لیکن دوسری طرف تمام اطراف کے جو سامراجی تھے ان کے پہلی عالمی جنگ میں اس قدر مفادات تھے کہ ان کے کانوں پر روسی انقلاب کی جنگ سے دستبرادری سے جوں تک نہ رینگی اور انہوں نے اپنے سامراجی سرمایہ داری کے منافعوں کی خاطر جنگ جاری رکھا- اور انہوں نے ایک سال مزید اس جنگ کو جاری رکھا جس نے اسقدر تباہی پھیلائی اور وحشت و بربریت کا ننگا ناچ ہر جگہ نچایا اور جن سوشلسٹوں نے سامراجیوں کی اس طرح کی جنگوں کو ریاست کے دفاع، حب الوطنی اور اپنے اپنے ممالک کے دفاع کے نام پر ساتھ دیا وہ اپنے ممالک میں انقلاب کے ابھار کوسختی سے ریاستی مشینری کے ہاتھوں کچلنے کا سبب بن گئے۔ لینن کے لیے یہ بات انتہائی تکلیف کا سبب تھی کہ جرمنی کا سب سے بڑا مارکس وادی استاد کارل کآؤتسکی بھی اس گند میں گر گیا ہے۔ اور جب سامراجی جنگ کے خلاف جرمنی جیسے ملکوں مکں انقلابیوں کو کھڑا ہونے کا خیال آیا اور وہ میدان عمل میں اترے تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور روزا لکسمبرگ و کارل لبیکخت جیسے انقلابی سامراجیوں کی متشدد اور فسطائی مشینری کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں