نطشے اور مریل گھوڑا /ناصر عباس نیّر

میرے قدم لائبریری کی طرف بڑھ رہے تھے ۔میرے دھیان میں لائبریری کا وہ شیلف تھا، جہاں میری مطلوبہ کتابیں پڑی تھیں۔
مجھے خیال آرہا تھا کہ کہیں کسی نے ان کی ترتیب برہم نہ کردی ہو۔ یہ خیال اندیشے سے زیادہ ،ایک تجربے کے سبب تھا۔ میں اس لائبریری میں اکثر آیا کرتا ہوں۔ یہاں آنے والوں کو غور سے دیکھا کرتا ہوں۔ اکثر کے چہرے ہی نہیں، ان کے رویے اور روشیں بھی پہچاننے لگا ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ لوگوں کو پہچاننے کے لیے لائبریری سے بہتر جگہ روئے زمین پر نہیں۔ آدمی گھر، بازار، مسجد ، دفتر،عدالت اور تنہائی میں اپنی اصل چھپا سکتا ہے، لائبریری میں نہیں۔

باقی جگہوں پر۔۔یہاں تک کہ تنہائی میں جواب دہی پر مجبور ہوتا ہے، لائبریری میں نہیں۔ وہ جن کتابوں پر پہلی، دوسری ، چوتھی ، دسویں نظر ڈالنے کے بعد پھینک دیتا ہے، انھی کے ذریعے اپنی اصل سے واقف ہوتا ہے۔کئی بار ان پر کچھ لکھتا بھی ہے۔کتابوں پر سب سے قیمتی اور سچے تبصرے یہی ہوتے ہیں۔ مجھے کبھی وقت ملا تو میں ان تبصروں کو جمع کرکے ایک کتاب چھاپوں گا۔مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ماہرین نفسیات کے بہت کام آئے گی۔

ترتیب سے زیادہ برہمی ، آدمی کے وجود کی اصل کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر آ پ نے لائبریری میں ادھر اُدھر ، بے ترتیبی سے پڑی، لاوارث اور ترک کردی گئی چیزوں کی مانند کتابیں دیکھی ہیں تو آپ میری بات کا یقین کر لیں گے۔

میں لائبریری کی طرف جانے والی اس چھوٹی سڑک پر تھا، جو مرکزی شاہراہ سے نکالی گئی ہے،اور جس کے اردگرد املتاس، گل نشتر ، شیشم اور ارجن کے درخت ہیں۔ سامنے ایک گھوڑے پر نظر پڑی ۔اس نے ایک نظر مجھ پر ڈالی ۔ میرے قدم رک گئے۔ایک پل میں مجھے حیرت نے آ لیا۔
یہ تو وہی مریل گھوڑا ہے، جس پر ۳ جنوری ۱۸۹۹ء کو ٹیورن شہر میں سائیس چابک برسا رہا تھا۔ نطشے کی نظر اس پر پڑی تو وہ دیوانہ وار اس کی جانب بڑھا تھا ۔ اس نے سائیس سے کچھ کہا ،نہ اس سے چابک چھینا۔ بس گھوڑے کی گردن میں اپنی بانہیں حمائل کردی تھیں ۔ دونوں میں ایک ایسا راز ونیا ز ہوا تھا ، جسے نطشے اور وہ گھوڑا ہی جانتا تھا۔یہ راز ونیا ز کسی کتاب میں نہیں، اس درخت کی جڑ میں محفوظ ہوا ہے جس کی شاخوں کا سایہ ،اس وقت گھوڑے کی کنوتیوں پر پڑ رہا تھا۔

میں نے گھوڑے کی طرف دیکھا۔پسلیاں نکلی ہوئی ، پیٹ اندر دھنسا ہوااور کمر کی ہڈی نمایاں تھی۔اس کی گردن کو دیکھا۔ہلکی بھوری ایال بکھری ہوئی اور گرد آلود تھی۔یہ عین وہی گھوڑا ہے۔ وہ شام کا وقت تھا۔ میں اسی لا ئبریری میں نطشے کی سوانح عمری پڑھ رہا تھا۔جب ۳ جنوری ۱۸۹۹ ء کے واقعات پڑھے تھے تو میں نے نہایت محنت سے نطشے اور گھوڑے کی تصویر ذہن میں بنائی تھی۔ میں نے پہلے ذہن کو باقی سب باتوں سے خالی کیا تھا، تب یہ تصویر بنی تھی، ا س لیے مجھے شک نہیں ہوا کہ یہ کوئی اور گھوڑا ہے۔

میر اجی چاہا کہ میں بھی اس کی گردن میں اپنی بانہیں ڈال دوں،مگر ایک خیال نے روک لیا۔ جس گھوڑے نے نطشے کے آنسو دیکھے ہوں ، اس کی کراہیں سنی ہوں، میں اس سے کیسے،کچھ کہہ سکتا تھا۔ میں ا س امانت میں کیسے خلل ڈالتا جو نطشے کی سرگوشیوں کی صورت اس کے دل میں محفوظ تھی۔مجھ میں اور نطشے کے گھوڑے میں کوئی راز و نیا زنہیں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ گھوڑا ایک سو چوبیس سال دس ماہ بعد کیسے ٹیورن سے ہزاروں میل دور اس شہر کی سڑک پر، سردیوں کی سہ پہر پہنچا، اگر میں اس سوال پر سوچتا تو سامنے اس لائبریری میں نہ جاسکتا تھا، جہاں سے مجھے کچھ کتابیں حاصل کرنا تھیں۔
میں سوچ سکتا تھا یا پڑھ سکتا تھا۔
مجھے لگا کہ ایک گھوڑے پر سوچنے کے مقابلے میں ، ایک کتاب پڑھنا آسان ہے۔ میں نے آسان راستہ اختیا ر کیا۔
(زیر طبع پانچویں افسانوی مجموعے ’’جب تک ہے زمیں ’’ میں اپنے خوابوں پر مبنی ایک افسانے سے مقتبس)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply