• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • مشتاق احمد یوسفی: نجات اس کی جو بیچ دریا سے پیاسا لوٹ آئے۔۔ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

مشتاق احمد یوسفی: نجات اس کی جو بیچ دریا سے پیاسا لوٹ آئے۔۔ڈاکٹر طاہر منصور قاضی

یہ مضمون 26 اپریل 2015 کو رائیٹرز فورم ٹورونٹو کینیڈا کے اجلاس میں پڑھا گیا تھا

معزز خواتین و حضرات: ہماری اردو تحریر کی نجابت میں دو چیزیں حائل ہیں۔ ایک انگریزی اور دوسرے ڈاکٹری۔ آج بہت زمانے کے بعد مشتاق احمد یوسفی اور ان کی نئی کتاب شامِ شعرِ یاراں پر بات کرنے کے لئے اردو میں ابھی چند ہی حروف تحریر کیے تھے کہ اپنی “خوش خطی” کو دیکھ کر مور کے پاؤں یاد آنے لگے اور اپنی ڈاکٹری کی سند پر پھر سے اعتبار آنے لگا۔ہمارا ارادہ ایک طولانی تمہید باندھنے کا تھا جس میں ادبی دوستوں سے ہماری دیرینہ رفاقت کا عکس جھلکتا ہو۔ بھلا ہوا کہ سرِ سطرِ شوق ہی یوسفی صا حب کا نام نامی آیا تو بے اختیار یہ شعر یا د آ گیا:

زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے!

سامعین: ہماری خوش قسمتی ہے کہ شاہد رسام یہاں موجود ہیں۔ یوسفی سے اِن کی قربت اپنی جگہ مگر آرٹ کی دنیا میں اِن کا ایک جدا گانہ مقام ہے۔ یوسفی نے اِنہیں”پلکوں سے پینٹ کرنے والا مصور” کہا ہے۔ اسی عنوان سے اپنی کتاب میں ایک پورا باب تحریر کیا ہے اور اِن کے آرٹ کو بے حد سراہا ہے۔ ہمیں اُنہوں نے اپنی آرٹ کو دیکھنے والی آ نکھ سے اِن کے ارتقائی عمل سے بھی روشناس کروایا ہے۔ تا ہم ، جناب فرماتے ہیں ۔ “رسام کی حسینوں کی تصویریں دیکھ کر خود رسام کے چٹکی لینے کو دل چا ہتا ہے” ۔ تو سامعین: جیسے یوسفی صاحب نے صرف تحریری چٹکی پہ اکتفا کیا ہے آپ بھی اس شورشِ جنوں کو بس حد ِ نگاہ تک رکھیں۔

یوسفی کو سبھی ایک مزاح نگار کے طور پر جانتے ہیں مگر اُن کا مزاح ہنسنے ہنسانے کا عامیانہ فعل نہیں ہے۔ انہوں نے انسان کو دیکھا اور سوچا ہے۔اُن کا انسان سے تعلق انسانیت کا ہے۔ وہ نہ تو سیاست دان ہیں اور نہ ہی اصلاح کار۔ وہ زندگی کے تحریری مصور ہیں جن کے خا کوں میں انسان جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ اُن کے خاکوں کو پڑھتے ہوئے بارہا خیال کی رو پیچھے مڑ کے دیکھنے سی لگتی ہے کہ “یہ ستارہ میرے پہلو میں کہاں سے آیا”۔

یوسفی زبان و بیان کے معاملے میں خود ہی معیار ہیں اور اپنی ہر نئی تحریر کو خونِ جگر سے سینچ کر ایک نیا معیار طے کرتے جاتے ہیں۔ یوسفی کی تحریر کو سنگسار کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس پہ تہمت لگائی جائے کہ یہ صراط مستقیم کی طرح سیدھی نہیں ہے۔ یہ رولر کوسٹر ہے، بالکل انسانی رویوں اور انسانی تار یخ کی طرح جس میں سیدھے سبھاؤسے نہ کبھی کوئی منزل طے ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکان ہے۔

انسانی رویے کی بات چلی تو یوسفی اپنی تحریر اور خاکوں میں فرائیڈ کے نظریہ “فری ایسوسی ایشن” کے حامیوں میں لگتے ہیں۔ “فری ایسوسی ایشن” کے نظریے سے تو آپ سبھی واقف ہوں گے اور آپ اس سے بھی واقف ہیں کہ یوسفی کے کردار ہر جگہ ایک لغزشِ پا لیے ہوئے ہیں۔ ان کی تحریریں اپنے مجموعی تاثر میں یوں بکھر بکھر جاتی ہیں جیسے نماز میں نمازیوں کا دھیان۔

“فری ایسوسی ایشن” سگمنڈ فرائیڈ اور دوسرے نفسیات دانوں کے لیے جو بھی ہو سو ہو، عام زندگی میں یہ یہی ہے جیسے یوسفی نے کشیدہ کاری کی ہے۔ یوسفی کے لئے یہ ایک سانس لیتا، ہنستا اور روتا رُلاتا انسانی رویہ ہے۔ آب گم کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:

” کاروبار مندا بلکہ بالکل ٹھنڈا،طبیعت زنگ رنگ، بے دلی کے عالم میں دن گزر رہے تھے۔ دکانداری اب ان کی مالی نہیں، نفسیاتی ضرورت تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دکان بند کر دی تو گھر میں پڑے کیا کریں گے۔ پھر ایک دن یہ ہوا کہ ان کا نیا پٹھان ملازم زرین گل خان کئی گھنٹے دیر سے آیا۔ ہر چند غصے کو پینے کی کوشش کرتے، لیکن پرانی عادت کہیں جاتی ہے۔ چند ماہ قبل انہوں نے ایک ساٹھ سالہ منشی آدھی تنخواہ پر رکھا تھا، گیروے رنگ کا ڈھیلا ڈھالہ جبہ پہنے، ننگے پیر زمین پر آلتی پالتی مارے حساب کتاب کرتا تھا۔ کرسی یا کسی بھی اونچی چیز پر بیٹھنا اس کے مسلک میں منع تھا ۔فرض شناس،ایمان دار،پابندِ صوم صلوٰۃ، زود رنج،کام چوپٹ،قبلہ نے طیش میں آکر ایک دن اسے حرامخور کہہ دیا۔۔سفید داڑھی کا لحاظ بھی نہ کیا۔اس نے رسان سے کہا “بجا!حضور کے ہاں جو شئے وافر ملتی ہے،وہی تو فقیر کھائے گا،سلام علیکم”۔یہ جا،وہ جا۔

دوسرے دن سے منشی جی نے نوکری پر آنا اور قبلہ نے حرام خور کہنا چھوڑ دیا۔لیکن حرام خور کے علاوہ اور بھی تو دل دُکھانے والے بُہتیرے لفظ ہیں۔زرّیں گُل خان کو سخت سست کہتے کہتے ان کے منہ سے وہی گالی نکل گئی جو اچھے دنوں میں ان کا تکیہ کلام ہوا کرتی تھی،گالی کی بھیانک گونج درہ آدم خیل کے پہاڑوں تک ٹھنٹھناتی پہنچی جہاں زرّیں گل کی بیوہ ماں رہتی تھی،وہ چھ سال کا تھا جب ماں نے بیوگی کی چادر اوڑھی تھی،بارہ سال کا ہوا تو اس نے وعدہ کیا کہ ماں!میں اور بڑا ہوجاؤں تو کراچی میں نوکری کرکے تجھے پہلی تنخواہ سے بغیر پیوند کی چادر بھیجوں گا، اسے آج تک کسی نے یہ گالی نہیں دی تھی،جوان خون،غصیلا مزاج،پٹھان کی غیرت اور پختو کا سوال تھا۔۔زرّیں گل خان نے ان کی ترچھی ٹوپی اتار کر پھینک دی،اور چاقو تان کر کھڑا ہوگیا۔کہنے لگا”بڈھے!میرے سامنے سے ہٹ جا،نہیں تو تیرا پیٹ پھاڑ کے کلیجہ کچا چبا جاؤں گا۔تیرا پلید مردہ بَلی پہ لٹکا دوں گا”۔

ایک گاہک نے بڑھ کر چاقو چھینا۔بڈھے نے جھک کر زمین سے اپنی مخملی ٹوپی اٹھائی اور گرد سے جھاڑ ے بغیر سر پر رکھ لی۔ [آخری گالی 76 – 77 آب گم]

یوسفی کی تحریر میں رعا یتِ لفظی ، کہیں تھوڑا مبالغہ، کہیں لفظ کو کلچرل رویے کی بساط پہ ایک مہرے کی طرح استعمال کرنا اور کہیں حرفِ سادہ میں ایک نئے اعجاز کا رنگ بھرنا سبھی کچھ شامل ہے مگر اس کے باوجود اُن کے لفظ کے استعمال میں اُس سوزِ د ر وں تک رسائی ہے جو ان کے کرداروں کے ہنسنے اور رونے دونوں میں شامل ہے۔ یوسفی کے کردار اپنی سوسائٹی کے معاشرتی رویوں، تاریخی مجبوریوں اور ذاتی الجھنوں میں گندھے ہوئے ہیں۔

ابتدائے آفرینش سے جب انسانوں نے اپنے آپ کو کائنات کے حوالے سے دیکھا تو زندگی کو ایک کاسمولوجیCosmology میں ڈھالا۔ جب زندگی کے اندر رہ کر دیکھا تو عقائد اور نظریات کی بنِا ڈالی۔ اور جب کبھی اپنے اندر جھانک کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بہت سی باتیں ہیں جو دل تو چاہتا ہے مگر عقائد، نظریات اور کاسمولوجی ، غرض یہ سبھی ستم ظریف اندرونی خواہش کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں جسے فرائیڈ نےSuppression کا نام دیا “ایک ہنگامہ کہ تھا ذات کی محبس میں کہیں” [عباس رضوی]۔

یوسفی کے لعابِ قلم سے بُنے ہوئے ریشمی کوکون کے اندر Suppression جس میں ان کے ہمزاد مرزا عبدالودود بیگ تحلیل نفسی کرنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ یوسفی شام شعر یاراں میں لکھتے ہیں:

“دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی،آگرے کی نواح میں موضع کھیریامیں انگریزوں کا ایک اہم فوجی اڈّہ تھا،شہر میں جگہ جگہ فوجی نظر آتے تھے،جو عرف عام میں ٹامی کہلاتے تھے،جس سڑک کا کچھ دیر پہلے ذکر کیا تھا،اُس پر بھی شام کو گورے اینگلوو انڈین لڑکیوں کی کمر میں ہاتھ ڈالے نشے کے عالم میں گھومتے تھے۔سارے ہندوستان کی کھلاڑ اور زود یاب اینگلو انڈین لڑکیوں کی آگرے میں ریل پیل تھی،ہم بھی اسی سڑک پر جو ہاسٹل کے سامنے تھی،اپنا جی جلانے اور برٹش راج کےخلاف خون کھولانے جاتے تھے،ہمیں ان ٹامیوں سے للّہی بیر تھا، زہر لگتے تھے،حالانکہ وہ نہ ہوتے تب بھی ان حسیناؤں کی کمر اور ہمارے ہاتھوں کے درمیان اتنا ہی ناقابلِ عبور فاصلہ رہنا تھا ۔

اور اب صاف کیوں نہ کہہ دوں کہ یہ تو میں نے عفتِ نگاہ،پاکیزگیء بیاں اور ڈر کے مارے انگریزوں ہی کے روایتی understatement(کسر بیانی) اور پاسِ نزاکت سے کام لیا،ورنہ امرِ واقعہ تو یہ ہے کہ وہ بے حیا اور بے صبرے ٹامی اُن عفیفاؤں کی عنایاتِ فراواں اور مرحمتِ شبانہ سے دن دہاڑے برسرِ عام بہرہ مند ہونے کی کامیاب کوشش کرتے تھے۔

مرزا کہتے ہیں کہ ٹامیوں کی مخربِ اخلاق حرکتوں کی مذمت کے دوران تمہارے لہجے میں جو واعظانہ دُرشتی،محتسبانہ سختی،مُصلحانہ تلملاہٹ،اخلاقی جرات،اعلی ترین اقدار کی پاسداری اور ذاتی جل ککڑا پن در آتا ہے،وہ اس ہُڑک اور حسرت کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ساری حرکتیں ان بدمعاشوں ہی کے حصّے میں کیوں آگئیں؟” [شام شعر یاراں، ص 20 -21]۔

یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یوسفی اپنی بات کے گرد اور بات سے پہلے ایک Context تخلیق کرتے ہیں جس میں لٹریچر اپنے لسانی معنوں میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس میں زبان و بیان Event Horizonپر سے کانٹیکسٹ کو کہنی مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس سے لازم ہوتا ہے یوسفی کی تحریر کو Phenomenologyکے حوالے سے دیکھا جائے۔بات ابھی فینومنالوجی سے “پوسٹ سٹرکچرل ازم” تک نہیں پہنچی تھی کہ بقول یوسفی قلم ہانپنے لگا۔

مشیتِ ایزدی یہی ہے کہ ایسے مواقع پر نزہت مشقِ ستم ہوں اور وہ ہوئیں بھی۔ سو ،سبھی کچھ لا بلا سننے کے بعد کہنے لگیں ، مجھے معلوم ہے کہ تھیوری اور Abstraction کے بغیر تمہیں چین نہیں آتا۔ مگر تحریر وہ، جس میں تھیوری موجود تو ہو مگر اس میں تھیوری کی ‘ رڑک ‘ نہ ہو۔ ابھی ان کا فقرہ مکمل نہیں ہوا ہو گا اور ہم نے دافعئہ البلیات کا ورد شروع کیا ہی ہو گا کہ دھیان میں منیر سامی آن ٹپکے جنہیں سرد و گرم چشیدہ سامیءباراں دیدہ کہنا زیادہ مناسب دکھتا ہے۔ ہمارے یہ عزیز دوست لٹریری تھیوری کی کتابوں سے ہمہ وقت ہمارے ذہن کی معصوم کم فہمی کی گھات میں رہتے ہیں۔

خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہماری بک شیلف پر نارتھ رپ فرائی، ٹیری ایگلٹن، اور جوناتھن کلر جیسے تنقید نگاروں اور کئی دوسرے علما کی کتابوں کی دو ، دو کاپیاں ہیں۔ پہلی کاپی یہ لگاوٹ میں عطا کرتے ہیں اور دوسرے کاپی تھیوری کی ترسیل میں ہم پہ ٹھونستے ہیں۔ ہم نے بہت سوچا کہ یہ کس لئے ہمیں اپنی عنایات کی ز د پہ رکھتے ہیں؟ گمانِ غالب یہی ہے کہ اب ان کی لٹریری تھیوری سے گھائل ہمارے علاوہ ، شہر بھر میں کوئی بچا ہی نہیں۔ بقول یوسفی “جب سے میری صحت خراب ہوئی ہے، ان کی طرف سے متردد رہتا ہوں۔۔ کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد” ۔ خواتین و حضرات: یہ سب جملہ معترضہ ہے۔ دراصل یہ ساری باتیں دوست داری کی ہیں مگر اس میں کچھ ہمارے مکافاتِ عمل کا دخل بھی ضرور ہے۔

جیسے نارتھرپ فرائی لکھتے ہیں کہ لٹریچر اپنی ذات اور ماہیت میں کوئی Organized Structure of Knowledge نہیں ہوتا۔ زندگی اور سوسائٹی کے اندر خیالات اور نظریات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جنہیں ایک مربوط شکل میں دیکھنے کے لئے فلاسفر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوسفی کے اس رنگ سے تعارف بھی بعینہ ہی ضروری ہے ویسے اس نوع کی مثالیں جگہ جگہ موجود ہیں ۔۔ آبِ گم 324 – 325:

“ایک پیاس وہ ہوتی ہے جو گھونٹ دو گھونٹ پانی سے بجھ جاتی ہے،اور ایک تو نس ہوتی ہے کہ جتنا پانی پیو اتنی ہی بھڑکتی ہے،ہر گھونٹ کے بعد زبان پرکانٹے پڑتے چلے جاتے ہیں،آدمی آدمی پر منحصر ہے،کسی کو کایاموہ،کسی کو زر، زمین کی پیاس لگتی ہے،کسی کو علم،شہرت کی ہے،یہ پیاس دریاؤں،بادلوں،گلیشئروں کو نگل جاتی ہے،اور سیراب نہیں ہوتی۔انسان کو دریا دریا،سراب سراب لیے پھرتی ہے،بُجھائے نہیں بُجھتی،العطش!العطش! پھر”جب طالوت لشکر لے کر چلا،تو اس نے کہا،ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے،جو اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں،میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے”، ہاں ایک آدھ چُلّو کوئی پی لے تو پی لے۔۔مگر ایک گروہ قلیل کے سِوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے،پھر پھر طالوت اور اس کے اہلِ ایمان ساتھی دریا پار کرکے آگے بڑھے تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ” [البقرہ 33]۔سو اس دریا کنارے ہر ایک کی آزمائش ہوتی ہے،جس نے اس کا پانی پی لیا اس میں بدی کے مقابلے کی طاقت نہ رہی،فلیس منی،فلیس منی۔۔۔پس جیت اس کی اور نجات اس کی جو بیچ دریا سے پیاسا لوٹ آئے”۔

یوسفی اپنی کتاب شامِ شعرِ یاراں میں فرماتے ہیں :

انیس جمع ہیں احباب حالِ دل کہہ دے

پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے

ہمارے بھلے دنوں میں لوگ اس شعر کو امیر مینائی سے منسوب کرتے اور یوں پڑھتے تھے:

امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے

پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے ۔۔( امیر مینائی)

انیسویں صدی کے ان دو مشاہیر کا زمانہ ہماری پیدائش سے چند سال پہلے کا واقعہ ہے۔ ہمارے لئے کوئی بھی عینی شہادت دینا ذرا مشکل ہے۔ البتہ یوسفی کا کہا ہوا سند کا درجہ رکھتا ہے۔ تو ہم اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صاحبِ کتاب نے ان دو اساتذہ کو یک طرفہ تخلص بدل بھائی بنا دیا ہے جیسا کسی زمانے میں دستار بدل بھائی ہوا کرتے تھے۔ اب اس معاملے ہم کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔ ہماری مجال، کہ ہم تو ہلاکِ جادوئے یوسفی ہیں۔

زرگزشت اور آبِ گم میں جن انسانوں کے کردار ہیں وہ سبھی عام اور روز مرہ ز ند گی سے انتخاب ہیں جنہیں یوسفی کے معجز قلم نے ہمیشگی عطا کر دی ہے۔ شامِ شعرِ یاراں کے سبھی کردار ذرا مختلف، پڑھے لکھے اور کاروبارِ حیات میں کشاں کشاں ہیں۔ ہر ایک کے بارے میں انہوں بڑی محبت اور سلوک سے لکھا ہے۔ وہ کوزہ گر ہیں، وہ تو خذف کو صدف میں ڈھال دیتے ہیں مگر فیض بارے بات کرتے ہوئے وہ اپنا قلم آبِ حیات میں بھگو کر لکھتے ہیں ۔ بات اب اختتام کی طرف آن پہنچی ہے مگر ایک چھوٹا سا اقتباس ضرور سنیے ۔۔

“فیض کی شاعری کا سارا اعجاز اور اس کی تمام تر پر اسرار غمناکی اور نغمگی اُن کے منفرد لہجے میں مضمر ہے۔ لہجہ میں بڑے شاعر کی چھب، چھاپ، تلک اور شناخت ہے۔ لہجہ لفظ کا تیسرا بُعد ہے۔ لہجہ وہ طلسم ہے جس سے خزینہء تاثیر کا سم سم کھلتا ہے اور دنیائے معانی کا درِ دل کشا واء ہوتا ہے۔ یہ لفظ کو نیا مزاج دیتا ہے۔ تازہ توانائی، تیور اور کاٹ بخشتا ہے۔ لہجہ لفظ کا اعتبار ہے۔ لہجہ لفظ کا سمپورن ٹھاٹ ہے۔ یہ زیور نہیں، حرف کی حرمت اور دمِ عیسیٰ کی حرارت ہے۔ یہ محرم رازِ نہاں خانہء دل ہے۔ لہجہ نیتوں کا امین ہے۔ لہجہ آدمی کی پہچان ہے۔ لہجہ خود آدمی ہے”( شام شعر یاراں صفحہ 63)۔

معزز سامعین : بات بیشک فیض کے حوالے سے شروع ہوئی تھی لیکن لہجہ جسے وہ نیتوں کا امین گردانتے ہیں اس کی چھاپ تلک یوسفی کے اپنے لہجے میں ہے۔ اس بات کے بعد ہم اور آپ احساس اور عجز بیان کے اس مرحلے پر ہیں جہاں مشتاق احمد یوسفی کے باب میں اختتامی بات کی گواہی کے لئےلٹریچر کی نہیں صحیفے کی ضرورت ہے :

“تو اس خدانے دو دریا رواں کیے جو آپس میں ملتے ہیں”

مرج البحرین یلتقیان

Advertisements
julia rana solicitors

فبای الاء ربکما تذبان!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply