• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مقامی مسلم فیمینزم – بیگمات بھوپال سے بی اماں تک( 3)-احمر نعمان

مقامی مسلم فیمینزم – بیگمات بھوپال سے بی اماں تک( 3)-احمر نعمان

۱۹۲۲ میں سلطان بیگم بنگال کی پہلی مسلم خاتون بنیں جنہوں نے قانون میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔
اسی دور میں بمبئی کی فیضی سسٹرز (عطیہ، زہرہ اور نازلی) نے شہرت حاصل کی جواعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک گئیں۔ ان میں سے ایک عطیہ فیضی، شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کے حوالہ سے معروف ہیں۔
۱۹۲۴ میں خواتین کو محمڈن کانفرنس MEC کے سالانہ اجلاس سے باہر رکھا گیا۔ 1925 میں، عطیہ فیضی نے بمبئی سے علی گڑھ کا سفر کیا، MEC کی سالانہ میٹنگ جہاں منعقد ہو رہی تھی،وہ اس کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئیں اور پردے کے پیچھے سے تمام مردوں کے اجتماع سے خطاب شروع کر دیا۔ پریذائیڈنگ آفیسر اس قدر متاثر ہوا کہ وہ انہیں ڈائس پر لے گیا جہاں سے انہوں نے رہے سہے ٹیبوز توڑ کر اپنی بات کہی، اس واقعہ کے بعد MEC میٹنگز سے خواتین کا کبھی اخراج نہ ہوا۔

۱۹۲۹ میں معروف شاردہ ایکٹ (child marriage restraint act) جس میں بچیوں کی عمر کی کم سے کم حد پندرہ برس  کا مطالبہ تھا، اس کی نمایاں لابسٹ بیگم شریفہ حامد علی تھیں، جنہوں نے سندھ کے مسلم/ہندو گھرانوں میں جا جا کر اس ایکٹ کا پرچار کیا۔ بیگم خود سات بیٹیوں کی والدہ تھیں اور ذاتی طور پر شادی کی عمر اٹھارہ سال ،چاہتی تھیں۔ یہ ایکٹ ہندوستان کی سرزمین پر ‘لبرل فیمنزم’ کا پہلا نمونہ مانا جاتا ہے۔

بیگم شریفہ ، گاندھی جی کے دوست اور آزادی ہند کے مجاہد بدرالدین طیب کی بھتیجی کی صاحبزادی تھیں، ان کی والدہ امینہ طیب علی بھی پردہ کے خلاف مہم سے معروف تھیں۔ بیگم حامد علی اردو، گجراتی، فارسی، مراٹھی، انگریزی کے علاوہ فرینچ بھی روانی سے بول سکتی تھیں، ان کا ذکر آگے ہے۔

۱۹۳۰ کی گول میز کانفرنس میں سر شفیع کی صاحبزادی جہاں آرا شاہنواز کی جانب سے ایک یادداشت پیش کی گئی جسمییں مذہب، ذات، نسل یا جنس سے قطع نظر سب کے لیے حقوق کا مطالبہ کیا۔ ۱۹۳۲ میں مسلم لیگ نے اس کی حمایت کی؛

۱۹۳۵ میں ہاجرہ بیگم سجاد ظہیر اور زیڈ احمد کے ساتھ ہندوستان لوٹیں، وہاں وہ کمیونسٹ پارٹی آف برطانیہ میں شامل ہونے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ ۱۹۳۵ میں ان طلبہ میں شامل تھیں جنہوں نے سوویت یونین کا دورہ کیا، واپس آ کر کرامت حسین کالج لکھنو کی لیکچرر بنیں، سجاد ظہیر، مجاز، فیض، علی سردار جعفری وغیرہ کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین ( All India Progressive Writers Association (AIPWA)) کی بنیاد میں شامل رہیں۔آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں شامل ڈاکٹر زین العابدین المعروف زیڈ۔اے۔احمد سے شادی کی جو ہندوستان لوٹ کر نہرو کے سیکرٹری بنے۔جلد ہی سرکاری نوکری سے استعفی دے کر مزاحمتی تحریک کو ہی کیریر بنا لیا۔،بین الاقوامی سطح پر جیسے ورلڈ پیس کانفرنس ویانا اور کوپن ہیگن کے علاوہ ایشین-افریقن خواتین کانفرنس -قاہرہ، ہر جگہ ہاجرہ بیگم نمایاں نظر آتی ہیں۔ آل انڈیا ویمن کانفرنس کی جنرل سیکٹری سوویت یونین نے ۱۹۶۰ میں لینن کی صد سالہ سالگرہ کی تقریب میں انہیں سوویت جوبلی ایوارڈ سے نوازا۔

۱۹۳۵ کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نے 60 لاکھ خواتین کو حق رائے دہی کا حق دیا اور پہلی بار دونوں جگہوں میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی گئیں۔ ۱۹۳۵ میں ہی بیگم شریفہ حامد طیب علی نے ماڈل نکاح نامہ پیش کیا، اسی برس وہ آل انڈیا ویمن کانگریس کی صدر منتخب ہوئیں۔
۱۹۳۴ میں بیگم حامد نے انٹرنیشنل ویمن الائنس کی استنبول کانفرنس میں ہندوستانی کی نمائندگی کی اور ۱۹۳۷ میں بیگم چیکوسلواکیہ میں خواتین کی بین الاقوامی امن کانفرنس میں نمائندہ رہیں ۔
بیگم حامد مذہب سے ماورا، مسلمان، ہندو ہریجن /شودر، سکھ، تمام خواتین کے حقوق اور ان کی آگہی کے لیے گاوں گاوں ، قریہ قریہ جاتی رہیں۔

۱۹۳۷ کے مسلم پرسنل لا نے مسلم خواتین کے جائیداد میں حصہ لینے کے حقوق تسلیم کئے مگر اس میں ابھی زرعی اراضی شامل نہیں تھی، جس کے پیچھے سامراج اور جاگیردار کا گٹھ جوڑ شامل تھا۔ سروجنی نائیڈو جب قید ہوئیں تو بیگم حامد ہی آل انڈیا ویمن الائنس کی صدر منتخب ہوئیں۔
۱۹۴۰ ماہ اپریل میں تحریک پاکستان میں پردہ پوش خواتین نے پہلی بارگھر سے نکل کر سڑکوں پر احتجاج کیے، ایک وجہ ان کے مردوں کی گرفتاری تو تھی ہی، دوسری وجہ خاکسار تحریک پر لگائی گئی پابندیاں شامل تھیں۔ اخبارات نے انہیں بے شرم کا خطاب دیا۔

۱۹۴۰ -جون میں انہونی ہوئی جب دہلی سے تعلق رکھنے والی ۱۱ سالہ سعیدہ بانو بیگم نے خاکسار تحریک میں خطاب کیا۔ اسی مظاہرے میں چند روز بعد برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار خواتین گرفتار کی گئیں۔
۱۹۴۱ میں مسلم گرلز سٹوڈنٹ فاؤنڈیشن کا قیام ہوا.
۱۹۴۲ میں مسلم لیگ سنٹرل کمیٹی نے خواتین کی سماجی، معاشی اور ثقافتی ترقی کے لیے پروگرام مرتب کیے، جناح نے خواتین کی کمیٹیوں میں شمولیت کی حمایت کرتےان سے خطاب کیا۔ خواتین کی شمولیت کی اہمیت پر زیادہ بات ہونے لگیں، ذیلی کمیٹی نے گھریلو خواتین کے مسائل، جیسے وراثت کا مسئلہ، خوراک کی قلت پر قراردادیں منظور کیں ۔قومی جدوجہد میں خواتین کی آہستہ آہستہ شمولیت بڑھتی گئی۔

1942 کے الیکشن میں جہاں آرا شاہنواز اور سلمی تصدق حسین نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات لڑے۔ حکومت نہ بننے پر پانچ سو خواتین نے سڑکوں پر احتجاج بھی کیا، بیگم شاہنواز گرفتار ہوئیں اور انہی مظاہروں میں سرحد سے تعلق رکھنے والیں بیگم کمال الدین کو بھی گرفتار کر کے لاہور میں قید کیا گیا۔ خواتین نے گرفتاریوں پر بھی احتجاج کیا جس پر تاریخ میں پہلی بار (خواتین پر) آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
1943 میں قحط بنگال سے نبرد آزما ہونے کے لیے مسلم لیگی خواتین نے فنڈز کی خاطر مشاعروں کے اہتمام کئے۔ اسی برس پانچ ہزار خواتین نے کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی سالانہ کانفرنس میں شرکت کی۔

۱۹۴۵ میں پہلی خواتین نیشنل گارڈ کی تشکیل ہوئی، جس میں پانچ ہزار خواتین نے حصہ لیا، فاطمہ جناح روح رواں تھیں۔
1947 جنوری میں سولہ لیگی خواتین گرفتار ہوئیں، بیگم سلمی تصدق بھی گرفتاریوں میں شامل تھیں۔ ان خواتین کو گورا بیرک میں رکھا گیا جس پر تین برقع پوش خواتین نے دیوار پھاند کر مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا دیا۔ انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا؛ مظاہرے پھوٹ پڑے، خواتین کی بڑی تعداد نے سیکریٹیریٹ مارچ کیا اور تیرہ سالہ فاطمہ صغری نے اس دوران دیوار پھلانگ کر یونین جیک اتار کر اپنا دوپٹہ لہرا دیا جو مسلم لیگ کے پرچم جیسا تھا، یہ مسلم لیگ کا کسی بھی سرکاری عمارت میں لگایا گیا ایسا پہلا پرچم تھا۔ مجاز نے غالبا ۱۹۳۷ میں اپنا شہرہ آفاق شعر کہا تھا
؂ تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا (مجاز)

Advertisements
julia rana solicitors london

سول نافرمانی کی تحریک میں سرحد سے تعلق رکھنے والی خدائی خدمت گار پٹھان خواتین نے بے پردہ مارچ کیا اور مسلم لیگ کا جھنڈا لہرایا۔
1947، اپریل میں پندرہ سو خواتین نے جنگی کونسل تشکیل دی اور ایک زیر زمین ریڈیو سٹیشن قائم کیا جسے پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کا نام دیا گیا جو قیام پاکستان تک قائم رہا۔
ہندوستانی مسلم خواتین نے جدوجہد سےحقوق حاصل کیے، بےشمار روایات کی قربانی دینا پڑی، اس وقت نقاب اتارے، جب ایسا ناممکن تھا، اس وقت جلوس نکالے، جب عورت کاگھر سے باہرقدم رکھنا آسان نہ تھا، دوپٹے کے جھنڈے سرکاری عمارات میں لہرائے، ریاستی جبر، پولیس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کی بطور خواتین جدوجہد، آزادی کی جدوجہد کے اندر ضم ہو گئی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply