امیر خسرو خواجہ سرا تھے /عثمان انجم زوجان

آٹھ صدیاں قبل برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں جس شخص نے ذاتی طور پر زوجان/ خواجہ سراؤں (جو اپنے صنف کے مخالف روح رکھتے ہیں) کی تہذیب کو زینت بخشی۔بلا شک و شبہ ان کا نام حضرت سیدنا ابو الحسن یمین الدین محمود ترک دہلوی تھا، جنہیں آج دنیا امیر خسرو اور طوطی ہند کے نام سے جانتی ہے، اور آپ حضرت سیدنا خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی کے مرید الاناب میں سے تھے۔امیر آپ کا موروثی لقب ہے،جو سب سے پہلے آپ کے جد امجد امیر تیمور نے اختیار کیا، البتہ شہرت خسرو کے تخلص سے پائی۔گرات الکمال میں خود امیر خسرو دہلوی  خود اپنے بارے لکھتے ہیں۔

شعر:ترک ہندستانیم من ہندوی گویم جواب
ترجمہ: میں ترک ہندوستانی ہوں اور ہندی بولتا اور جانتا ہوں

حضرت امیر خسرو دہلوی نے غزل ، مثنوی ، قطع، رباعی ، دوبیتی ، اور ترقی بند، دوہے ، گیت ، کہہ مکریاں، دو سخنے ، پہیلیاں، ترانےاور نہ جانے کیا کیا نہیں لکھا ,علاوہ ازیں موسیقی کے دلدادہ رہے، اور موسیقی کے اہم ساز طبلہ اور ستار پر تیسرا تار چڑھانا انہی کی ایجاد ہے۔
امیر خسرو دہلوی کو اردو زبان کا موجد اعلیٰ بھی کہا جاتا ہے، جسے انہوں نے ہندوی نام دیا تھا ، جو بعد میں ہندی پھر ریختہ پھر اردو معلی اور آخر پہ اردو کہلائی، یہی وجہ ہے کہ اردو کا پہلا شعر بھی انہی سے منسوب ہے۔

الله نے انسان کو تین اصناف میں منقسم کیا، مذکر، مونث اور زوجان۔۔

تاریخی طور پر یہ بات روز ازل کی طرح عیاں ہے کہ ماضی بعید سے ہی اللہ نے ان زوجان صاحبان کو جنہیں ہم ہیجڑے، خسرے(کھسرے) یا پھر خواجہ سرا کے نام سے جانتے ہیں، محلوں ،مسجدوں، درباروں، روضوں یہاں تک کہ  مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کی نگرانی کی ذمہ داری تفویض کی۔

حضرت امیر خسرو دہلوی بھی اسی تیری صنف زوجان یعنی خواجہ سرا سے تعلق رکھتے تھے، اور بہت بڑے مجتہد، عالم اور ولایت کے درجے پر فائز تھے۔

لفظ “کھسرا” اصل میں امیر خسرو دہلوی کی مناسبت سے پنجابی میں “خسرا” سے بگڑ کر بنا ہے، یہی وجہ رہی کہ آپ امیر خسرو دہلوی نے عمر بھر شادی نہ کی بلکہ مجرد رہے، البتہ ایک قدیم کتاب ” مفتاح الفتوح” میں ایک روایت میں ۹۸۶ ھ بمطابق ۹۲۱ ء کو ان کے بیٹے مسعود کی پیدائش کا تذکرہ آیا، جس سے کچھ واضح نہیں ہوتا کہ آپ نے کب، کہاں اور کس سے شادی کی۔ راقم کا خیال ہے کہ  مسعود اگر کوئی ہوا بھی تھا تو وہ شاید آپ کا چیلہ رہا ہوگا اور آپ اس کے گرو۔ والله اعلم

برصغیر پاک و ہند میں زوجان/ خواجہ سراؤں کی تحریک کے موسس اوّل حضرت امیر خسرو دہلوی تھے اور یہ خواجہ سرا شروع شروع میں امیر خسرو کے گیت شادی بیاہ میں گاتے تھے اور خسرو گیت گانے کی مناسبت سے خسرا کہا جانے لگا اور بعد میں یہ لفظ بگڑ کر کھسرا بن گیا۔

نا صرف امیر خسرو بلکہ بابا بلھے شاہ، مادھو لال حسین، عثمان مروندی المعروف بہ شہباز قلندر بھی اسی صنف سے تعلق رکھتے تھے۔

پرانے وقتوں  میں جب کسی کے ہاں ایسا بچہ پیدا ہوتا جو زوجان ہوتا تھا تو اسے خسرے/ کھسرے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ یہ خسرے/کھسرے دو چار کی ٹولی میں شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش پر حاضری دیا کرتے تھے، لیکن بچوں کی پیدائش پر دروازوں پر دستک دینا اور پھر والدین کے منع کرنے کے باوجود وہیں پر امیر خسرو کا کلام گانا بجانا شروع کر دیتے اور والدین ان کو کچھ دے کر واپس بھیج دیتے، یہیں سے پھر یہ ان کی آمدن کا ایک معقول ذریعہ بن گیا۔

مشرف دور نے جہاں بہت سی روایات میں روشن خیالی کو پروان چڑھیایا وہیں خسروں/ کھسروں میں بھی روشن خیالی عام ہو گئی، تب سے خسروں/کھسروں کے پیشے سے نام نہاد کھسروں نے بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا، وہ جو زیر زمین تھے، کھسروں کے بھیس میں منظرعام پر آ گئے، اب یہ کھسرے بڑے بڑے شہروں میں سڑکوں پر بھیک بھی مانگتے ہیں اور جسم فروشی کا دھندہ بھی کرتے ہیں، اب کتنے اصل کھسرے ہیں اور کتنے ان کے بھیس میں چھپے نام نہاد کھسرے، بعض اوقات تو ان کی خوبصورتی عورتوں کو بھی مات دینے لگتی ہے، اس وقت انورا نامی ایک کھسرے کا بہت چرچہ ہوا کرتا تھا جو سرکس میں اپنے کرتب سے دوسروں کو مائل کیا کرتا تھا۔

حضرت امیرخسرو دہلوی بھی اسی صنف سے تعلق رکھتے تھے، اور انکی یہ تیسری صنف انہیں گندی عادات پہ مجبور نہیں کر سکی، بلکہ شروع شروع میں  معاشرے کے سو کالڈ عزت دار لوگوں کی “دل پشوری” انہیں اسطرف مائل کرتی ہے اور رفتہ رفتہ اسے عادت اور پیشہ بنا لیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(مآخذ_____تاریخِ فیروزشاہی از ضیاء الدین برنی، تاریخِ فرشتہ از محمد قاسم فرشتہ،شعرا لعجم از مولانا شبلی نعمانی،صوفی امیر خسرو از سید صباح الدین عبدالرحمٰن، خسرو شناسی از مجموعہ مضامین،این سی پی یو ایل)۔(یو این این)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply