امداد کے طریقے۔۔مہرساجدشاد

ہر معاشرہ معاشی لحاظ سے طبقات میں تقسیم ہے، معاشرے  کا نظم و نسق اسی فرق کے مرہون منت چلتا ہے، ضرورتمند کام کرتا ہے اور کام لینے والا معاوضہ ادا کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر مفلس اور مفلوک الحال لوگ زندہ رہنے کی اپنی بنیادی ضروریات کیلئے صاحبان ثروت پر انحصار کرتے ہیں۔ امیر کی جیب سے سرمایہ غریب کے منہ تک نوالے بن کر جاتا ہے تب  ہی معاشرے میں امن  و سکون اور عافیت رہتی ہے۔

کسی بھی ضرورتمند کی امداد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو کسی کام پر لگایا جائے اور اس پر اسے اُجرت دی جائے یا اسے چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن کوئی کام شروع کروایا جائے اور اس سے خریداری کر کے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ عزت کیساتھ اپنی زندگی کے معاملات چلا سکے۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو مستحقین کی مدد کے بنیادی طور پر دو طریقے ہیں،
اوّل براہ راست مدد، دوم کسی کے ذریعے مدد۔

براہ راست مدد ہی سب سے بہترین اور موثر طریقہ ہے، آپ ضرورتمند کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اسکے مسائل سے واقف ہیں تو اسکی بہتر اور ٹھیک مدد کر سکیں گے، اس میں سب سے احسن طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ سے دیں اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو، لیکن اگر اپنے ارد گرد کے صاحبان حیثیت لوگوں کو ترغیب دینے کیلئے اسکی ایسی تشہیر جس میں ضرورتمند کی عزت نفس کسی صورت مجروح نہ ہو اسے اختیار کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔

دوم طریقہ کسی کے ذریعے مدد کرنا ،کچھ بنیادی اصولوں کیساتھ کارآمد ہو سکتا ہے جیسے اپنے بچوں کو اس امداد کے کام میں لگانا اور ان کے ذریعے مدد کرنا تاکہ انکی اس ضمن میں تربیت ہو۔ کسی ایسے شخص کے  ذریعے مدد کرنا جس کی توجہ آپ اس ضرورتمند کی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ کسی ایسے دوست اور عزیز کے  ذریعے مدد کرنا جو خود بہت مالدار نہیں لیکن آپ انہیں اپنی نیکی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

بہت سے لوگ انفرادی طور پر یا اجتماعی گروپ تنظیم وغیرہ کے  ذریعے مستقل امدادی کام کرتے ہیں یہ امداد اکٹھی کرتے ہیں ،ضرورت مند مستحقین کا تعین کرتے ہیں اور پھر ان تک یہ امداد ذمہ داری سے پہنچاتے ہیں یہ بہت قابل قدر اور قابل ستائش خدمت ہے اور ان کی یقیناً حوصلہ افزائی ہونا چاہیے۔

لیکن بدقسمتی سے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسی طرح کی سرگرمیاں کرنے والے کچھ لوگ اسے اپنا کاروبار بنائے ہوئے ہیں، کچھ تو مکمل فراڈ ہیں اور سب مال اسباب ہڑپ  کر لیتے ہیں اور کچھ جمع شدہ مال میں   خردبرد کر لیتے ہیں اور کچھ لوگوں کو دکھانے کیلئے لگا دیتے ہیں۔ کسی بھی فرد گروہ یا تنظیم کو ضرورت مندوں اور مستحقین کیلئے دیا ہوا مال یقینا ً ثواب اور اجر کا باعث ہے وہ اجر کے اعتبار سے ضائع نہیں ہوگا لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس بات کا یقین کر لیا جائے یہ مال اسباب ان مستحقین تک پہنچ گیا ہے انکے فائدے کا باعث بنا ہے۔

ایسے معاملات میں چند بنیادی اصول بنا لینے  چاہیئں، ذاتی طور پر جاننے کے باوجود اس شخص سے مستحق تک رسائی حاصل کریں اور خود امداد پہنچائیں، گروہ یا تنظیم کو بغیر رسید اور ایک سے زائد افراد کی معلومات کے بغیر رقم نہ دیں۔ جو گروپ یا تنظیم آپکو اپنے کھاتے حساب نہ دکھائے ان سے معذرت کر لیں۔ وقتا فوقتا انکی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیں یا جائزہ لینے کیلئے انکے کاموں کے دوران دورہ کریں۔

آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے دیہاڑی دار مزدور اصل ضرورتمند ہیں ان کی براہ راست مدد کریں، اپنے گلی محلے علاقے میں پتہ کریں اور انکی ضرورت پوری کریں، کہیں دور کسی شہر کے لوگ بعد میں مستحق ہیں، پہلے آپکے اردگرد کا آپ پر حق ہے۔ کوئی بیلچہ اٹھائے آپ تک آئے کہ کام نہیں ہے مدد کر دیں تو اسکا ایڈریس لیں اور راشن  اسکے گھر پر پہنچائیں کیونکہ بہت سے نوسرباز بھی سرگرم ہیں۔ اس موقع پر راشن تقسیم کا کام بہت وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے مانگنے والے اجنبیوں کو ان منظم تنظیموں کے حوالے کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ رب العزت سے دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے اس آزمائش اس آفت کو ہم سے دور کرے اور وطن عزیز کا امن راحت عافیت لوٹا دے اس دنیا کو اللہ امن کا گہوارہ بنا دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply