• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • علی اکبر ناطق کے افسانوی مجموعے ”قائم دین“ اور ”شاہ محمد کا ٹانگہ“۔۔رضوان شاہ

علی اکبر ناطق کے افسانوی مجموعے ”قائم دین“ اور ”شاہ محمد کا ٹانگہ“۔۔رضوان شاہ

علی اکبر ناطق کے عقیل سین کی وساطت سے موصول ہونے والے دونوں افسانوی مجموعے ”قائم دین“ اور ”شاہ محمد کا ٹانگہ“ پڑھ لیے ہیں… اِس عمل سے کشید کیا گیا لطف قطرہ قطرہ چکھتا رہوں گا، اب دیکھیں صراحی کتنا عرصہ ساتھ دیتی ہے؛ بعد میں پِھر صراحی پانی سے بھر کر عرق کے عرق کا سواد لے لُوں گا۔

ناطق کا طریقہ واردات زبردست ہے… قاری کو اپنے ساتھ لیے چلتے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ  موضوع و سیٹنگ کی مناسبت سے، منظر، محل وقوع، فضا اور کیفیت سے آگاہ کرتے جاتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نابینا شخص کو اُنگلی تھامے کسی ایسے مقام سے گزار رہے ہوں، جہاں اُس کا پہلے گزر نہ ہُوا ہو۔ الفاظ کے انتخاب اور جملوں کی ساخت میں سادگی کے باوجود ابلاغ اس قدر موثر ہے کہ قاری خود کو منظر میں موجود پاتا ہے…

افسانہ کیسے لکھا جائے، ایک اچھے افسانے کی جزئیات کیا ہوتی ہیں، ایک افسانہ نگار میں کیا کیا خصوصیات پائی جانی  چاہئیں؛ ان سب سوالات کے جوابات تو اساتذہ کی تحریروں میں پڑھے جا سکتے ہیں… میں تو صرف اتنا کَہ سکتا ہوں کہ اِن سب اُمور کی عملاً پرکھ کی تربیت کے لیے افسانہ ”قائم دین“ کو بطور ماڈل پیش کیا جا سکتا ہے…

ناطق اپنے اِن افسانوی مجموعوں میں بیک وقت کئی رول نبھاتے نظر آتے ہیں… کہیں وہ خالص فکشن نگار ہیں؛ تو کہیں مؤرخ (دِلّی کا مرقع)؛ کہیں خاکہ نگاری میں مہارت دکھاتے ہیں (قائم دین) تو کہیں طنز نگاری و مزاح نگاری میں (مولوی کی کرامت؛ مومن والا کا سفر)… کہیں ماہرِ سماجیات کے طور پر سامنے آتے ہیں تو کہیں حاصلِ زیست اسباق سکھاتے ہیں (جیرے کی روانگی، کمّی بھائی؛ الہ دین کی چارپائی، سفید موتی)؛ کہیں زندگی کی پیچیدگیاں سُلجھاتے نظر آتے ہیں تو کہیں نفسیات کی تَہ میں چُھپے گُنجل آشکار کرتے دِکھائی دیتے ہیں (شیدے نے پگڑی باندھ لی؛ والٹر کا دوست؛ شریکا؛ سیاہ ٹھپا)…

ناطق قدرے طویل افسانوں؛ جیسا کہ افسانہ ”قائم دین“؛ میں تو موضوع کا مفصل جائزہ لیتے اور ایک ایک چیز واضح طور پر بیان کر کے اور تمام امکانات کو واضح صورت دے کر افسانے کو ایک ایسے مقام پر ختم کرتے ہیں جہاں مزید کُچھ کہنے کی گنجائش رہ نہیں جاتی۔ اس کی ایک اور مثال کے طور پر افسانہ ”سفید موتی“ کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔

لیکن ناطق کے افسانوں کی ایک خُوبی جو مُجھے بھائی، وہ کہانی کو مکمل طور پر ڈیویلپ کر کے اچانک سے ایک حیران کُن اور بظاہر ناقابلِ یقین موڑ پر ختم کر دینا ہے (شاہ محمد کا ٹانگہ؛ شریکا؛ مومن والا کا سفر؛ شہابو خلیفہ کا شک؛ تابوت؛ کَت وغیرہ)۔ حیرت کے جھٹکے سے سنبھلتے چند ثانیے لگتے ہیں جس کے بعد قاری عش عش کر اُٹھتا ہے یا ہنس دیتا ہے اور جب یہ کیفیت گزر چُکتی ہے تو غور و فکر کی طرف مائل ہونے کے ساتھ ساتھ داد دینے اور خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

میری اِس تحریر کو بھی خراجِ تحسین ہی سمجھیے۔

 

بُک کارنر جہلم کی پیشکش یہ افسانوی مجموعے دیدہ زیب ٹائٹل اور طباعت کے اعلیٰ معیار کے حوالے سے قابلِ تعریف ہیں؛ جس کا تذکرہ کُتب وصولی کی رسید کے طور پر کی گئی پوسٹ میں کر چُکا ہوں۔

ایک دو امور کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کُتب کے ابتدائی صفحہ پر علی اکبر ناطق کے مختصر تعارف میں اُن کے نام کے ساتھ بریکٹ میں سنِ پیدائش 1976 درج ہے مگر اُسی صفحہ کی اگلی سطور میں سنِ پیدائش 1977 درج ہے۔ کئی مقامات پر واوین (inverted commas) کا استعمال کیا جانا چاہیے تھا، مثلاً افسانہ ”قائم دین“ کے ابتدائی پیراگرافس میں جہاں اِکا دُکا ڈائیالاگ ہیں، بغیر واوین کے پڑھتے تھوڑی کنفیوژن ہوتی ہے۔ ”شاہ محمد کا ٹانگہ“ کے پیش لفظ میں مجموعہ میں موجود افسانوں کی تعداد 14 بتائی گئی ہے جب کہ مجموعے میں شامل افسانوں کی حقیقی تعداد 13 ہے۔ چند ٹائپوز جو نوٹ کیے ہیں وہ بھی مینشن کر دیتا ہوں، اگرچہ ٹائپوز کو اتنا ایشو بنانا نہیں چاہیے؛ کمپوزنگ کا تجربہ ہونے کے باعث جانتا ہوں کہ جتنی مرضی ہے کوشش کر لی جائے ٹائپوز کہیں نہ کہیں رہ ہی جاتے ہیں۔ بہرحال جو میں نے نوٹ کیے ہیں درج کیے دیتا ہوں:

Advertisements
julia rana solicitors

قائم دین: ص42 آتا/آٹا؛ ص63 اپہلا/پہلا؛ ص127 اٹھارہ سال س/ س فالتو ہے؛ ص149 اوروشن/ اور روشن
شاہ محمد کا ٹانگہ: ص24 بشیر،،/ کاما سنگل ہونا چاہیے تھا؛ ص120 پیشے سے کی/سے فالتو ہے؛ ص133 جویوں/جوتوں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply