ملکی تاریخ کا مہنگا ترین سبق۔۔۔۔

ہمارے پاس حکومت ہے،اختیار نہیں ۔۔۔۔

فیصل واڈا کا یہ ایک فقرہ انتہائی سنگین قومی المیے کا خلاصہ بیان کرتا ہے ۔اس المیے کو سمجھنے کے لیے تھوڑا سا پیچھے جا کر ماضی قریب کی ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے 1979ء کے بلدیاتی اور پھر 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے سیاست دانوں کی جو نئی کھیپ وجود میں لائی گئی تھی، جولائی 2018ء کے حالیہ انتخابات تک وہ کسی نہ کسی طور اس نظام کا حصہ رہی ہے جس پر’حکومت’ نام کی تہمت دھری جاتی ہے۔ عرف عام میں سیاست دان کہلانے والے یہ لوگ بہر کیف اس حقیقت کو اچھی طرح جان چکے تھے کہ ان کی حیثیت ملک کے اصل مالکان کے جونئیر پارٹنر سے زیادہ کی نہیں ہے۔اگرچہ یہ لوگ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں مگر وہ اس بات کا ادراک بھی کرچکے ہیں کہ ان کی سیاسی جماعتوں کا معاملہ بھی چھوٹے موٹے تعمیراتی ٹھیکے داروں والاہے جن کے پاس اپنے مزدور اور بنیادی تعمیراتی اوزار اور آلات تو موجود ہیں لیکن وہ زمین اور گھر کے مالک ہر گز نہیں ہیں۔ انتخابات کہلانے والی مشق کے ذریعے ٹینڈر جس ٹھیکے دار کے نام پر نکلتا، وہ اپنے بندے اور سازو سامان لے کر جائے تعمیر ہر پہنچ جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ٹھیکے داروں کو یہ بات بخوبی سمجھ آچکی تھی کہ مالکان کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اِن کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ نظام کم و بیش تین دہائیوں تک چلا جس میں ایک مرتبہ مالک لوگوں نے جلال میں آکر کام بذات خود چلانے کی کوشش بھی کی لیکن یہ سلسلہ کچھ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوا اور دواڑھائی برس ہی کے اندر یعنی 2002ء میں چند پرانے ٹھیکے داروں کے خلاف تادیبی کارروائیاں کی گئیں. پھر کچھ نئے اور کچھ پرانے ٹھیکے داروں کو ملا کر ایک نئی کمپنی رجسٹرد کروائی گئی تاکہ اسی پرانے ٹھیکے داری نظام کی طرف واپس لوٹا جائے۔
مروجہ نظام میں ٹھیکے دار کو پہلے اپنے پاس سے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور پھرکہیں جاکر سرمایہ کاری اور محنت پر منافع وصول کرنے موقع نصیب ہوتا ہے لیکن اس میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ ٹھیکے دار کو یہ بالکل پتا نہیں ہوتا کہ اس کے پاس اصل زر اور منافع کی واپسی کے لیے کتنا وقت دستیاب ہے اور نہ جانے کس وقت یہ ٹھیکہ اس سے چھین کر کسی اور کو دے دیا جائے گا۔ اس سارے معاملے میں سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ نظام جس کی بنیاد ہی کرپشن پر رکھی گئی ہے، اس میں سب سے زیادہ زور (صرف سیاست دانوں کی) کرپشن کے خاتمے پر دیا جاتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ بجائے خود کرپشن ختم کرنا کبھی بھی مقصود نہیں رہا اوریہ محض ٹھیکے دار کو کسی نہ کسی طور دبا کررکھنے کا ایک ذریعہ ہے تاکہ کوئی بھی کام خراب ہونے کی صورت میں اسے قربانی کا بکرا بنایا جاسکے۔
یہ ٹوٹا پھوٹا کسی نہ کسی طور چل ہی رہا تھا جس میں پرانے ٹھیکے دار نہ صرف مالکان کے منشا و مقصود کو سمجھ چکے تھے بلکہ وہ ان کی خوبیوں اور کمزوریوں کو بھی جان چکے تھے اور اسی کے مطابق اس فرسودہ نظام میں اپنے لیے گنجائشوں کو بڑھانے کا ہنر بھی سیکھ چکے تھے۔دوسری طرف مالکان بھی اپنے کمزور پہلوؤں کو اچھی طرح جان چکے تھے اور انھیں اندازہ تھا کہ ٹھیکے داروں کو مزید سہولتیں اور رعایات دیئے بغیر چارہ نہیں۔ اس کا حل انھوں نے اس صورت میں ڈھونڈا کہ عوام بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں اور ملک کی معیشت میں حصہ ڈالنے والے پیشہ ور ماہرین کے اندر اس نظام کے بارے میں پائی جانے والی روز افزوں نفرت اور بے چینی کا رُخ پرانے ٹھیکے داروں کی طرف موڑ دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ نئے ٹھیکے داروں کی ایسی پود بھی تیار کی جائے جو سمجھنا تو دور کی بات، سُننے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ چنانچہ گزشتہ چند برسوں کے دوران اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد اور پرانے کھلاڑیوں کو کھیل سے باہر رکھنے کے لیے پوری عدلیہ و انتظامیہ سمیت ریاستی مشینری کی طاقت استعمال میں لائی گئی ۔دھرنوں اور سڑکیں روکے رکھنے کی صورت میں معیشت کو مفلوج کرنے کی کوششیں کی گئیں اور چند ہی ماہ میں ملک کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ سارے حربے استعمال کرلینے کے باوجود حالیہ انتخابات میں ‘مطلوبہ نتائج’ حاصل نہیں ہوپائے۔ ہاں ملکی تاریخ کی اس مہنگی ترین مشق کے نتیجے میں نئی ٹیم کو ٹھیکہ بھی دے دیا گیا اور ٹھیکے داروں نے جلد ہی یہ سبق ضرور سیکھ لیا ہے کہ ‘ ہمارے پاس حکومت ہے، اقتدار نہیں ہے’۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ان چھاتہ بردار نوواردوں کے سوا اس ملک کا عام آدمی بھی اس سبق سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس صورت حال پر سرپیٹنے یا نوواردوں کو بُرا بھلا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ان لوگوں کے اندر ملک و قوم کے لیے تھوڑا بہت بھی دُکھ درد رکھنے والا کوئی بھی فرد موجود ہوگا تو وہ جلد یا بدیر اپنی راہیں علیحدہ کرکے رہے گا، باقی رہی بات پیسے لگا کر اس پرکئی گنا منافع کمانے والے کھلاڑیوں کی تو ایسا کام پہلی مرتبہ کیا گیا ہے اور نہ ہی صرف پاکستان تحریک انصاف ہی کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ ایسے لوگ انتخابات جیتنے والی ہر جماعت میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔
پس نوشت:
س: اس کھیل کے اخراجات کس نے برداشت کیے؟
ج: مہنگائی، ناانصافی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے اس ملک کے غریب عوام نے
س: عوام کو اس سے کیا حاصل ہوگا؟
ج: مزید مہنگائی، ناانصافی اور مزید ٹیکسوں کا بوجھ۔

Advertisements
julia rana solicitors

http://mochibagh.com

Facebook Comments

تنویر افضال
پاکستان اور عالمی سماج کا ہر حوالے سے ایک عام شہری۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply