کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!

مراد سعید کی جاوید لطیف پر مکا بازی کی مشق کوئی اتفاقی حادثہ یا وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، سب ہی پر خان صاحب اپنی باطنی نسل پرستی کے اظہار کے سبب شدید تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے، انہیں خود پر سے میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لئے ایک ایسے ہی واقعہ کی اشد ضرورت تھی ۔ ایسے میں امیر الانصافین کی نظروں میں سرخرو ہونے کو مراد سعید جعلی ڈگری والے سامنے آئے۔ انہیں شاید امید ہو کہ اس طرح وہ خان صاحب کی مزید قربت حاصل کر کے اصحابِ خاص میں نام لکھوا سکیں گے۔ ویسے مجھے مراد سعید کی ڈگری جعلی ہونے پر مزید یقین ہو چلا ہے، کیونکہ کوئی پڑھا لکھا باشعور شخص، جو عمران خان کی تاریخ سے واقف ہو، اس سے ایسی امیدہر گز نہیں رکھ سکتا، الاّ یہ کہ وہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی طرح جہاز اور لمبے نوٹ نہ رکھتا ہو۔ خیر! یہ ایک نہایت بھونڈی سکیم تھی جو کبھی کامیاب نہ ہوتی اگر نون لیگ کے جاوید لطیف صاحب اپنے رد عمل کو پست سطح پر لے جا کر مراد سعید کی بہنوں سے متعلق گھٹیا بات نہ کرتے۔ الیکٹرانک میڈیا پر اس مکا بازی کی خبر نشر ہونے کے بعد سے جاوید لطیف کی پریس کانفرنس تک، میڈیا کی مجموعی ہمدردی نون لیگ کے ساتھ ہی تھی اور مراد سعید بمعہ تحریک انصاف تنقید کا نشانہ بن رہے تھے۔ اگر چہ اس مہم جوئی کویہ جزوی کامیابی ضرور حاصل ہوئی کہ میڈیا کی توجہ عمران خان سے ہٹ کر مراد سعید کی جانب چلی گئی اور یوں ایک ’’ریلو کٹے‘‘ نے ایک ’’پھٹیچر‘‘ چال چل کر اپنی ذات کے تحفظ کے لیے پوری پارٹی کی ساکھ کو داؤ پر لگانے میں ذرا عار محسوس نہ کی (واضح رہے کہ یہاں ریلو کٹا مراد سعید کو نہیں کہا گیا)، یہ مہاتما بنی گالوی صاحب کی خود پرستی کی انتہا کا ایسا مظہر تھا جو ان کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیتا اگر جاوید لطیف اسے اپنی چھوٹی ذہنیت سے آکسیجن نہ فراہم کرتے ۔ اپنی باپ کی عمر کے شخص پر ہاتھ اٹھانا ہمارے معاشرے کے کسی طبقے کے یہاں اچھا نہیں سمجھا جاتا، واضح رہے کہ جاوید لطیف نے مراد سعید کی بہنوں سے متعلق نامناسب بات مکا رسید کئے جانے کے بعد کی تھی۔ مراد سعید کی جانب سے انہیں مکا ان ریمارکس کی وجہ سے نہیں رسید کیا گیا تھا بلکہ بقول خود مراد سعید کے ، وہ اسمبلی کے فلور پر جاوید لطیف کی عمران خان پر کی گئی تنقید کی وجہ سےبرانگیختہ تھے۔ اب آپ اس سب کے تناظر میں خان صاحب کا بیان اس معاملے کی بابت ملاحظہ فرمائیں ۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے ایم این اے کے متشدد رویے کی مذمت کرتے ،جس کی وجہ سے اسمبلی کا تقدس پامال ہوا، حصار خود پرستی میں قید یہ حضرت یہ کہہ کر اس رجحان کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں کہ ’’اگر میں مراد سعید کی جگہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا کردیتا‘‘! گویا ان کے نزدیک ان کی ذات تنقید سے اس قدر ماورا ہے کہ اس کےبدلے میں لوگوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا جائز ہو جاتا ہے۔ یعنی لفظوں کا بدلہ اب ہاتھا پائی سے لیا جائے گا! جواز تراشا جا رہا ہے کہ یہ تو نجی گفتگو تھی! واہ ، کیا منظق ہے، سبحان اللہ! پہلی بات تو یہ کہ دس بارہ صحافیوں کے درمیان، جب آفیشل انٹرویو چل رہا ہو اور کیمرے لگے ہوں، کون گھامڑ ’’نجی‘‘ یا آف دی ریکارڈ گفتگو کا سوچ سکتاہے؟ دراصل یہ جواز بھی کافی بعد میں ’’ڈیمج کنٹرول ‘‘ کے لئے تراشا گیا تھا۔ دوسرے یہ کہ اگر یہ نجی گفتگو ہی تھی، تب بھی کیا نجی سطح پر نسل پرستی اور گھر آئے مہمانوں کی توہین کوئی مستحسن روش ہے کہ جس پر نادم ہونے کے بجائے اس کا دفاع کیا جائے؟
دوسرا جواز، جو کہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے مصداق ہے، یہ تراشا گیا خان صاحب کے الفاظ تو نسل پرستانہ ہیں ہی نہیں! یہ تو لاہور کی کلب کرکٹ کی ’’اصطلاحات‘‘ ہیں جن کا استعمال عام ہے۔ ہم پر تو خیر خان صاحب کی نسل پرستی اسی وقت آشکار ہو گئی تھی جب انہوں نے بھرے مجمعے میں ہمارے شہرکے باسیوں کو زندہ لاشیں کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا تھا (اور حسب سابق اس پر معذرت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی) خان صاحب یہ بتا دیں کہ کیا لاہور کے کرکٹ کلب میں یہ اصطلاحات (ان معانیٰ کے مطابق جو خود خانصاحب نے بیان کیے) کسی کھلاڑی کی تعریف و توصیف کے لیے استعمال کی جاتی ہیں؟ نسل پرستی کے الزام سے دستبردار ہوبھی جائیں تو کیا یہ گھر آئے مہمانوں کی کھلی توہین کے مترادف نہیں؟ ہم اگر جاوید لطیف کی گھٹیا زبان پر ان کی فہمائش کر رہے ہیں تو اتنی آسانی سے آپ کی مسلسل بد کلامی کو بھی اس مصنوعی طوفان کی گرد میں دبنے نہیں دیں گے۔ آپ کے بارے جناب سلیم صافیؔ صاحب کا آج کا چشم کشا کالم ہی کافی ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا!

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply