ایک لاوانڈوین کا کتھارسس۔۔اعظم معراج

لاوانڈا کا ایک عظیم مزدور لیڈر تھا، وہ محنت اور ووٹوں سے پہلے ایک لاوانڈوین صوبے کا وزیر ایکسائز، پھر وزیراعلی پھر تین دفعہ وزیراعظم بنا ۔چالیس سال عوامی خدمت کی ،پھر اس پر انکشاف ہوا ۔۔اس ملک کی اسٹبلشمنٹ عوام کے دکھ درد بانٹنا نہیں چاہتی۔ان چار دہائیوں میں اس نے اپنی خاندانی و ازدواجی زندگی بھی داؤ پر لگا دی۔ اسکے بچے اسکی خدمت خلق کی طبیعت کی وجہ سے رل گئے۔وہ پردیس میں دھکے کھاتے محنت مزدوری کرنے لگ گئے۔ آخر اسے عوامی خدمت کرنے کے جرم میں جھوٹے سچے کرپشن کے کیسوں میں پھنسا کر غیر آئینی عدلیہ نے سزا سنا دی۔ کیونکہ وہ عوام کے لئے دودھ کی ندیاں بہانا چاہتا تھا۔جبکہ اس ملک کی اسٹبلشمنٹ،اور ریاست کے تینوں ستونوں کے ساتھ مل کر عوام کو بھوکا مارنے پر تلے ہوئے تھے۔جیسے تیسے اس نے ہر لاوانڈوین کے لئے ملک اور دینا بھر میں ایک ایک گھر بنایا۔دور دیسوں میں انکے علاج معالجے کا بندوست کیا۔انکے بچوں کی تعلیم کا بندوست ترقی یافتہ ممالک میں کیا۔گو کہ اس کے پوتے نواسے لاوانڈا میں ہی ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے رہے۔لیکن اس نے اسٹبلشمنٹ سے بالا ہی بالا ہر ذہین غریب بچوں کے لئے دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم کا بندوست کیا۔ جس کی وجہ سے اس کے بچے بھی ناراض رہنے لگے۔

کیوں کہ  قوم کے بچوں کو اپنی اولاد پر ترجیح دیتا تھااسکا لاوانڈا کی اسٹبلشمنٹ سے خاص اختلاف یہ تھا ۔وہ کہتے تم اپنے گھر بار اور اپنے حواریوں کے لئے مال بناؤ ہمیں بھی دو۔لیکن وہ کہتا نہیں یہ وسائل لاوانڈا کے لوگوں کی امانت ہیں۔ میں ان میں خیانت نہیں کرسکتا۔ وہ کہتے کماؤ اور منی لانڈرنگ کرو ۔اس نے اسکی آڑ میں عام لاوانڈوین کے لئے دنیا بھر میں آسائشیں خریدنی شروع کردیں۔اسی وجہ سے لاوانڈا کی اسٹبلشمنٹ ملک میں اسکی حکومت کے ہسپتال اسکول کالج اور امن و امان کا کوئی منصوبہ کامیاب نہ ہونے دیتی۔ بنیادی ضروریات کے وہ سخت خلاف تھی ۔صرف مہنگے پروجیکٹ ڈنڈے کے زورِ پر اس سے کرواتی رہی۔اس سے بجلی کے مہنگے معاہدے کروائے۔کمیشن خود کھا جاتے۔الزام اس پر لگواتے۔بھوکے ننگے لوگوں کے لئے تعلیم صحت کے منصوبوں کی بجائے مہنگے منصوبوں پر کام کرواتے۔ اسے مجبور کرتے توشے خانے کا مال اونے پونے سمیٹو۔اس نے اسکا بھی حل نکالا اور توشہ خانے سے مہنگے اثاثے نیلامی کے ذریعے غریبوں کو بانٹنے شروع کر دئیے۔ساتھ ہی اس نے آہستہ آہستہ غریبوں کے لئے دور دیسوں میں انکے مال و جان کی حفاظت اور انکے بچوں کی تعلیم وعلاج معالجے کا بندوست کرنا شروع کر دیا۔

کسی طرح اسٹبلشمنٹ کو اسکی اس حرکت کی خبر ہوگئی ۔انھوں نے ایک اور لیڈر جسے وہ کرپٹ سمجھتا تھا جس کے نظریات کے خلاف اس نے ساری جدوجہد کی تھی۔اسکے ذریعے اس پر کیس بنوائے،اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔عوام سڑکوں پر آگئی۔کہ ہم سب کو جیلوں میں ڈال دو۔ہمارے عظیم راہنما  کو باہر نکالا جائے۔چالیس سال دن رات بھوکے پیاسے اپنے عوام کی خدمت کر کر کے اسکی صحت بھی جواب دے چکی تھی۔عوام کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔لیکن وہ باہر جانے کے لئے تیار نہیں تھا۔ عوام کو جیسے جیسے پتہ چلا کہ انکا عظیم راہنما انکے لئے ترقی یافتہ ممالک میں کیسی عیش و عشرت والی زندگی کے لئے کوشاں تھا۔انھوں نے دباؤ بڑھا دیا۔باہر نکال دو ہمارے عظیم قائد کو۔

یوں بھاری دل سے اسے ایک دفعہ پھر جلاوطن ہونا پڑا۔ ایک دفعہ  پہلے بھی اسے عوامی دباؤ پر جلاوطن کیا گیا۔کیونکہ جیل میں اس کی جان کو خطرہ تھا۔بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ بھی اس کے خلاف تھی کیونکہ وہ ان کے وسائل چھین کر بھی تیسری دینا کے غریبوں کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں اثاثے بنارہا تھا۔ یوں اس طرح اسے ایک بار پھر اپنے گھر اپنے لوگوں سے دور کر دیا۔لیکن اب کی بار اس نے اپنی بیٹی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔حالانکہ عوام اور اسٹبلشمنٹ یہ چاہتے تھے کہ  وہ بھی چلی جائے۔لیکن اس نے باہر جانا قبول ہی اس شرط پر کیا۔کہ میری بیٹی یہاں رہے گی۔

لیکن آخر اس نے ایک انقلابی فیصلہ کیا اپنے قریبی دوست احباب سے مشاورت کی،بین الاقوامی انسانی حقوق و شہری حقوق کی تنظیموں سے مشاورت کی ۔بڑے بڑے دانشوروں سے مشورے کئے۔اور پھر اس نے سوشل میڈیا کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اب  لاوانڈا اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں بھونچال آگیا۔دنیا ا بھر کے حریت پسندوں نے اسکے اس ا علان پر جشن منائے.اس افریقی ریاست کے اس شہر میں جہاں وہ پیدا ہؤا،لوگوں کی فلاح اسٹبلشمنٹ کے بار بار منع کرنے باوجود ہسپتال اسکول کالج،اور یونی ورسٹییاں بنائیں ۔اس شہر کے لوگوں نے وہاں کا روایتی لنڈا ڈانس شروع کر دیا۔اور اس شہر کا قومی نغمہ
” ٹیکس نہیں فلاح کے لئے بھتہ دو ”
ڈھول کی تھاپ پر گایا” اور اسکے ٹوئیٹر،فیس بک پیج کو لائیک اور شئیر کرنے کا عندیہ دے دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں  تابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply