میں ایک ماں ، میرے دو بچے اور میرا سفر۔۔ محمد فیاض حسرت

میں ، ایک گنہگار ماں ، ایک خطا کار ماں اور ساتھ اِ س کے ایک شرمسار ماں  ہوں ۔ شرمسار کہ اب تک اپنے ملک کے لوگوں سے معافی بھی نہ مانگ پائی کہ “ایک عورت تنہا گھر سے ہی کیوں نکلے ؟”۔ ماں کے ساتھ میں ایک عورت بھی تو تھی ۔ کیوں پھر میں تنہا گھر سے نکلی؟
سنو۔۔۔
اے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگو! اے مانندِ ریاستِ مدینہ کے لوگو ! اے مسلم اُمہ کے نگہبانو ! اب ایک زندہ لاش جو پہلے ایک عورت و ایک ماں تھی آپ سے معافی کی طلبگار و شرمسار ہے ۔
اے اسلامی جمہوریہ ِ پاکستان کے حکمرانو! اے اسلامی جمہوریہ ِ پاکستان کے منصفو ! اے مانندِ ریاستِ مدینہ کے وزیرو ! یہ زندہ لاش اِس احسان سے تمہاری مقروض ہے کہ تم نے میری غلطی نظر انداز کی اور میرے لیے انصاف کی بات کی ۔
اے بڑے جاہ و جلال کے منصفو! اے اُس ذوالجلال کے نائبو ! اگر تم نے مخلصی سے میرے لیے انصاف کی بات کی ہے تو سنو ۔۔۔

میں اپنے خدا کو گواہ بنا کر کہتی ہوں کہ اِس سے بڑھ کر میرے لیے کوئی انصاف نہیں کہ مجھے اِس زندگی سے آزاد کر دیا جائے ، مجھے مار دیا جائے کہ میں زندہ لاش سے مردہ لاش کا سفر طے کر پاؤں ۔ اے منصفو! میں اپنا خون تم پہ حلال کرتی ہوں کہ تم میرے ساتھ انصاف کر سکو، صرف میرا ہی نہیں میرے دو بچوں کا خون بھی تم پہ حلال ہے جو میرے ساتھ سفر پہ نکلے۔ اے عدالتِ عالیہ کے منصفو ! اے اِس ملک کے قانون دانو! میری اور میرے بچوں کی اِس سے بڑھ کوئی خواہش نہیں ، میرے اور میرے بچوں کے ساتھ اس  سے بڑھ کر کوئی انصاف نہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی رحم دل نہیں کہ جو ابھی کے ابھی یہ فیصلہ دے کہ مجھے اور مجھ سمیت میرے بچوں کو اِس زندگی سے آزاد کر دیا ، مار دیا جائے ۔

اے اس ملک کے دانشورو ، اے اس ملک کے مفتیو ! اب بھی میں یہ جانتی ہوں کہ موت مانگنا حرام ہے لیکن، سچ تو یہ ہے کہ اب میرے لیے موت کا نہ آنا حرام ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے ریاستِ پاکستان! تمہارے ذمے میری جاں و میری عزت کی حفاظت تھی، تم نے خوب کی پہ اب تمہارے کندھے میری اس ذمہ داری کے بوجھ سے آزاد ہیں کہ اب نہ میری عزت اور نہ میری جاں رہی ! کچھ رہا تو بس اِن دونوں کے لٹنے کی داستاں رہی ۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply