حقِ تربیت/حیدر جاوید سیّد

کڑوا سچ یہ ہے کہ قلم مزدور کو اپنے بارے میں رتی برابر غلط فہمی کبھی نہیں رہی۔ کوئی طرم خان ہوں نہ “خبری” صحافی۔ صحافتی دھڑے بندیوں سے بھی ہمیشہ دامن بچاکر رکھا۔ فقط یہ قلم مزدوری ہی وسیلۂ رزق ہے۔

جن برسوں میں چوتھی پانچویں جماعت میں نصرت الاسلام ہائی سکول کراچی کا طالب علم تھا سپہر کے بعد خوانچہ گلے میں لٹکائے مختلف اشیاء فروخت کرتا تھا۔ چھٹی میں پہنچا تو آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ نے لائریری پر بیٹھنے کا حکم دیا۔

مجھے ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہی ہے کہ میری امڑی سینڑ ملتان کی ایک بڑی بلند مرتب عالمہ ہیں اس لئے مجھے ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے ان کے مقام و مرتبہ پر حرف آئے۔ آپا اماں کی شاندار تربیت نے لگے بندھے معمول بنادیئے۔ سکول، گھر، شام کو لائبریری پر بیٹھ کر کرائے پر کتب اور رسالے دینا اور پہلے سے دیئے گئے رسائل و کتب وصول کرنا، رسائل و کتب کا کرایہ پیشگی لیا جاتا تھا۔

لائبریری پر بیٹھنے والے ماہ و سال میں پڑھنے کی لت لگی۔ غالباً چھٹی جماعت میں تھا جب پہلی کہانی لکھی۔ یہ ایک ایسے بچے کی کہانی تھی جو خود کو اردگرد کے بچوں میں منفرد دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ وہ کہانی روزنامہ اعلان کراچی کے بچوں کے صفحے کے علاوہ روزنامہ روشنی کراچی میں بھی شائع ہوئی یہ دونوں دوپہر کے اخبار تھے۔

سفر حیات کے چونسٹھ برس طے کرکے اگلے برس میں قدم رکھے چار سوا چار ماہ ہوگئے۔ ہماری نسل کے لوگوں کو یاد ہوگا کہ پچھلی صدی کے دوسرے نصف میں کراچی کے دوپہر کے اخبارات چار صفحات کے ہوتے تھے اور صفحہ تین چار حصوں میں تقسیم ہوتا۔ ایک چوتھائی میں بچوں کا صفحہ، دوسری چوتھائی میں خواتین کی محفل، تیسری چوتھائی کھیلوں اور فلمی دنیا کی خبریں اور چوتھی، چوتھائی میں طلباء و طالبات کی خبریں۔ دوپہر کے یہ اخبارات اپنی چیختی چلاتی سرخیوں کے ساتھ اصل میں اپنے صفحہ تین کی بدولت فروخت ہوتے تھے۔

پہلی کہانی لکھی اسے کئی بار پڑھا پھر آپا اماں کے حضور پیش کیا انہوں نے ایک دو الفاظ درست کئے اور کہانی پر میرا نام لکھ دیا۔ پتہ نہیں میرے جی کیا آیا میں نے کہا آپا اماں اپنے قلم سے اس پر فقیر راحموں لکھ دیجئے۔ انہوں نے پہلے سے لکھے ہوئے نام کو کاٹنے کی بجائے اس سے آگے فقیر راحموں لکھ دیا۔

تب میں نے ان کی طرف دیکھا انہوں نے میری پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا “میرے بچے مائیں بھلا اپنے بچوں کے لکھے نام کیسے کاٹ سکتی ہیں”۔ چھٹی جماعت کے طالب علم کے لئے یہ ممتا کا ایک نیا روپ اور تعارف تھا۔

پہلی کہانی لکھی وہ شائع ہوگئی پھر لکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب آپا اماں نے اپنے لاڈلے پر مزید توجہ دینا شروع کردی وہ روزانہ سونے سے قبل تاریخ، ادیان اور علم و ادب کی کسی نہ کسی کتاب سے دو تین صفحات پڑھ کر سنایا کرتیں پھر پوچھتیں کوئی بات جو سمجھ میں نہ آئی ہو؟

تب میں کسی الفاظ کے معنی پوچھتا عبارت کا پس منظر جاننے کی خواہش کرتا۔ کمال محبت و مہربانی سے وہ اپنے فرزند کو سمجھاتیں۔ یاد پڑتا ہے انہی دنوں آپا اماں نے مجھے نماز فجر ادا کرچکنے کےبعد بیدار کرنا شروع کردیا تھا۔ اب ان کے توسط سے میرا “نہج البلاغہ” سے تعارف ہوا۔ جگر مراد آبادی، فیض احمد فیض، غالب اور میر سے بھی۔ وہ منتخب اشعار سناکر ان کی تشریح کردیا کرتی تھیں”نہج البلاغہ” کا کبھی نصف اور کبھی پورا صفحہ پڑھ کر سناتیں۔ کسی کتاب کے چند صفحات منتخب کرکے دیتیں کہ یہ پڑھ لو۔ پھر ایک دو دن بعد دریافت کرتیں جو پڑھا اس میں سے کون سی بات سمجھ میں نہیں آئی کون سا لفظ مشکل تھا۔

آپا اماں اور میں کبھی کبھی محمود آباد سے ریگل بھی جاتے یہاں قائم بک سٹالوں سے ہمیں نئے رسالے ڈائجسٹ اور ایک دو کتابیں لائبریری کے لئے خریدنا ہوتی تھیں۔

لائبریری پر صبح آٹھ سے گیارہ بجے تک آپا اماں خود بیٹھتیں۔ شام میں ساڑھے پانچ سے ساڑھے آٹھ تک اب میں بیٹھتا۔ وقت دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا میں ایک دن اسی اخبار میں بچوں کا صفحہ بنانے لگا جس میں میری لکھی پہلی کہانی شائع ہوئی تھی۔

آپا اماں سفر حیات طے کرکے خالق حقیقی کے حضور روانہ ہوچکی تھیں اب ان کی یادیں تھیں۔ بے مثال تربیت کا ورثہ اور یہ عزم کہ مجھے بہرصورت اس تربیت کا حق ادا کرنا ہے۔

نصف صدی بیت گئی حق تربیت ادا کرتے ہوئے بڑے جھمیلے دیکھے بھگتے روزگار و بیروزگاری۔ کتابوں سے دوستی اب بھی قائم ہے۔ روزنامہ “اعلان” کراچی میں بچوں کا صفحہ بنانے سے شروع ہوئی قلم مزدوری نے بعد کے برسوں میں اخباری دنیا میں اداریہ نویسی کے طور پر متعارف کروایا اور متعدد اردو اخبارات کے اعلیٰ ادارتی منصبوں کے ساتھ “دی فرنٹیئر پوسٹ” لاہور کی ادارت تک کا سفر بھی طے کیا۔

اخبارات کی دنیا سے باہر کالم نویس کے طور پر تعارف ہوا۔ لگ بھگ ساڑھے تین عشروں سے اداریہ نویسی اور کالم نگاری کے ذریعے روزی روٹی کا وسیلہ کرتا ہوں۔

سفر حیات کے اس موڑ پر مجھے رتی برابر بھی کسی بات کا ملال نہیں۔ محرومی اور مایوسی کے سودے بھی نہیں اوڑھے۔ تربیت اسی کام کے لئے ہوئی تھی۔ آپا اماں کبھی کبھی بہت محبت بھرے انداز میں کہا کرتی تھیں”صاحبزادے ہم نہ بھی ہوئے تو آپ کو یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم نے آپ کی تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پڑھانے سمجھانے میں بخیلی نہیں کی اپنی والدہ اور زمانے کے سامنے ہماری شرمندگی کا سامان نہیں کرنا۔ اگر کبھی کسی نے کہا فیروزہ نے بیٹے کی ڈھنگ سے تربیت نہیں کی تو ہماری روح دکھی ہوگی”۔

کچھ ایسے ہی کلمات ایک دن ہماری امڑی سینڑ نے بھی کہے تھے۔ سو آج اگر کوئی خوبی ہے مجھ میں تو یہ جنم دینے اور پالنے والی مائوں کی تربیت کا ثمر ہے۔ کج ہیں یہ تو خالص ہمارے اپنے کمائے ہوئے ہیں۔ ملتان کی وعظ والی بی بی سیدہ عاشو بی بیؒ اور آپا اماں سیدہ فیروزہ خاتون نقویؒ کے فرزند کو جو ہے اس پر فخر ہے جو نہیں اس کے پیچھے بھاگ کر وقت برباد نہیں کیا۔

سفر حیات میں اساتذہ مہربان ہوئے۔ دوست ہر موڑ پر اچھے ملے۔ دین داری کا زعم ہے نہ دنیا داری کا شوق۔ چار اور بستے لوگوں کی طرح یقیناً میرا بھی ایک عقیدہ ہے لیکن یہ خالص میرا ذاتی معاملہ ہے۔

اس معاشرے میں ایک انسان کی طرح جینے بسنے کی آرزوئوں کا دامن ہمیشہ تھامے رکھا۔ حسب نسب اور تربیت کے علاوہ سب کچھ اپنی محنت مشقت اور مطالعے سے حاصل کیا۔ پرکھوں کے عقیدے اور سیاسی نظریات دونوں میں سے ایک کا چھینٹا مجھ پر نہیں پڑا۔

کھلے ماحول میں ہوئی تربیت، مطالعے اور اساتذہ کی رہنمائی نے برسوں پہلے یہ سمجھا دیا تھا کہ آدمی کو اپنے عصری شعور کے ساتھ زندہ رہنا چاہیے۔ اس امر پر کامل اطمینان ہے کہ عصری شعور نے جس سمت رہنمائی کی وہی بات کہی لکھی۔

طالب علم کو مرشدان گرامی قدر بلھے شاہؒ، شاہ حسینؒ، شاہ لطیفؒ، سرمدؒ اور حسین بن منصور حلاجؒ سے الفت ہے اور مرشدوں کے مرشد اعلیٰ سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالبؑ سے ایک ایسی محبت جو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔

جب کبھی کوئی دلیل سے اختلاف کرنے کی بجائے شبعہ ہونے کی پھبتی کس کر رائے کو روندنے کی کوشش کرتا ہے غصہ آتا ہے۔ کبھی کبھی پلٹ کر کہہ بھی دیتا ہوں کہ یار ذرا شیعوں سے تو میرے بارے رائے لے لو۔

پھر قہقہہ اچھال کر آگے بڑھ دیتا ہوں۔

میری اب بھی یہی رائے ہے کہ اس ملک کی بنیادوں میں فساد کا بارود نفرت پر ہوئے بٹوارے، قرارداد مقاصد، سول و ملٹری بیوروکریسی کے شوق حکمرانی اور عدالتی نظریہ ضرورت نے بھرا۔

چار مارشل لائوں کے جرم میں ہمارا عدالتی نظام برابر کا شریک ہے۔ ہمارے پاس تاریخ کے نام پر جو قصے کہانیاں ہیں ان کا ہماری مٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ بھلا فقیر راحموں کا کسی ولید بن جلیل ابنِ فضیل کی تاریخ اور اعمال سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ بہت پہلے یہ بات ہمیں سمجھ میں آگئی تھی کہ نفرتوں پر ہوئے بٹوارے اور جھوٹ پر اٹھائی تاریخ کی عمارت دونوں بوزنے تو تخلیق کرسکتے ہیں انسان نہیں۔

ریاست کبھی ماں نہیں بن کر دی ہمیشہ ڈائن ہی بنی۔ اس ریاست کی پچھتر سالہ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے، الجھنے سے زیادہ مجھے پڑھنے، مکالمہ کرنے اور دوستوں کی محفلوں میں شرکت کی خواہش رہتی ہے۔

صد شکر کہ یہ خواہش پوری کرپاتا ہوں۔

ایک دن اپنی بیٹی سے کہا تھا “جان پدر میں تمہارے لئے یقیناً بہت کچھ نہیں کرپایا البتہ محنت مشقت کرکے بساط مطابق حق ادا کرنے کی کوشش ضرور کی اپنا سفر حیات تم نے اپنی محنت اور جدوجہد سے طے کرنا ہے”۔

اب جبکہ میں سفر حیات کی تقریباً ساڑھے چھ دہائیاں طے کر آیا ہوں کامل اطمینان کے ساتھ رخصت ہونے کے لئے تیار ہوں۔ اجل آج آئے یا کل فرق نہیں پڑتا جمع اور طمع کے گھاٹوں سے سیراب ہونے سے بچ رہے یہی کافی ہے کسی سے حسد کرنے کے لئے اپنے پاس وقت ہی نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شکریہ امڑی سینڑؒ شکریہ آپا اماںؒ ، آپ نے میری تربیت کی اگر کوئی دوسرا، تیسرا اور چوتھا جنم ہو تو میں تب بھی آپ کی گودوں کو کھیلنے ہمکنے اور تربیت کے لئے منتخب کروں گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply